طالبان امریکا کےدشمن نہیں،،نائب امریکی صدر

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی نائب صدر جو بائيڈن نے طالبان کے حوالے سے جو بيان ديا ہے وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ ان کا حاليہ بيان ہمارے اس ديرينہ موقف کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

ہماری ہميشہ سے يہی سوچ رہی ہے کہ علاقائ سيکورٹی اور حکومت سازی سے متعلق ذمہ دارياں افغانستان کے عوام اور ان کی منتخب کردہ سياسی قيادت کے حوالے کی جائيں۔ ہم اب بھی اسی منصوبے پر کاربند ہیں۔ ليکن چند رائے دہندگان اور ميڈيا کے تجزيہ نگاروں کی غلط سوچ کے برخلاف ہم نہ تو خطے سے بھاگ رہے ہيں اور نہ ہی افراتفری کے عالم ميں اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر تعلقات استوار کرنے کے اپنے ارادے اور اپنی حمايت کو برقرار رکھيں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall۔
 

ساجد

محفلین
کیا زبردست قلابازی بلکہ الٹ بازی ہے۔ وہ بچے جو ویت نام میں انکل سام کے سرکس کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے وہ اس سرکس کو دیکھ کر مبہوت ہیں اور کل تک امریکی میڈیا کے زیر اثر رہنے والے بڑے بھی اس پینترے پر محو حیرت۔ :drama:
:chatterbox: :applause:
 

سویدا

محفلین
امریکی نائب صدر کا بیان ہے طالبان امریکہ کے دشمن نہیں
اس کا دوسرا رخ یہ ہےکہ امریکہ طالبان کا دشمن ہے
میرے خیال میں یہ بالکل حقیقت کی عکاسی کرتا ہے امریکہ نے ہی افغانستان کے طالبان سے دشمنی مول لی تھی طالبان بے چاروں نے تو امریکہ کو کچھ نہیں کہا تھا وہ تو افغانستان میں حکومت کے خواہاں تھے اور طالبان اس وقت امریکہ کا دشمن ہرگز نہیں تھا یہ الگ بات ہے کہ بعد میں امریکی طرز عمل سے پھر طالبان امریکہ دشمن ہوگیا ورنہ بنیادی اعتبار سے افغانستانی طالبان کو امریکہ سے کوئی دشمنی نہیں تھی امریکہ نے ہی اسی دشمنی کا آغاز کیا تھا اور اب اس حقیقت کا اعتراف بھی کرلیا
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز کبھی بھی طالبان، پختون يا کسی مخصوص قبيلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہرگز نہيں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40سے زائد ممالک دہشت گرد کے خلاف جاری مہم ميں نہ تو امريکہ کی حمايت کر رہے ہوتے اور نہ ہی عملی طور پر اس سارے عمل ميں شامل ہوتے۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔ ان عناصر کے خلاف متحدہ عالمی کاوشوں اور لڑائ بدستور افغانستان ميں ہمارا اہم ترين مقصد رہے گآ۔

اس خطے سے ابھرنے والے دہشت گردی کے خطرات اور ان سے دنيا بھر ميں بے گناہ شہريوں کو درپيش خطرات کو پس پشت ڈالنا نہ تو ہماری حکمت عملی ہے اور نہ ہی ممکنہ پائيدار حل۔

امريکی نائب صدر جو بائيڈن کے حاليہ بيان کے بعد کچھ تبصرہ نگاروں کی جانب سے پھيلائے جانے والے اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت نے کبھی بھی دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بےشمار تعميراتی منصوبے اور اربوں ڈالرز کی لاگت سے جاری ترقياتی منصوبے جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں، اس حقيقت کو واضح کرتے ہيں کہ طاقت کا استعمال صرف انھی دہشت گرد گروہوں تک مخصوص ہے جو ہتھيار ڈالنے سے انکاری ہيں اور ايک وسيع سياسی دھارے ميں شامل ہونے پر يقين نہيں رکھتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top