ضرورتِ شعری

ارشد رشید

محفلین
اس میں قافیہ کافر ہے۔ کافر عربی لفظ ہے اور فے کی زیر کے ساتھ ہے لیکن مرزا نے یہاں اسے فے کی زبر کے ساتھ قافیہ بنایا ہے۔
وارث صاحب میں اسے ضرورت شعری نہیں سمجھتا ہوں بلکہ غالب کی علمیت سمجھتا ہوں
کافِر زیر کے ساتھ تو وہی لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہے یعنی کُفر کرنے والا -( کسی چیز کا انکار کرنے والا) یہ active participle ہے - یعنی کفر کا عمل کرنے والا -
مگر عربی قواعد میں اسکی ایک اور شکل کفَر بھی ہے یعنی ف کے زبر کے ساتھ - جسکا ذرا معنی الگ ہے
یہ عربی میں زمانہ حال کے لیئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس عمل یعنی کُفر کے عمل کے لیئے استعمال ہوتا ہے - یعنی کفر بذاتِ خود- گویا وہ شخص جو ابھی کسی چیز کا انکاری ہے مستقل حالتِ انکار میں نہیں ہے - کافِر عموما مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ کافَر سمجھ لیں ایک عمومی اصطلاح ہے -

غالب کا کہنا آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں - مطلب میں گناہ گار ہوں - کافِر نہیں ہوں کیونکہ س وقت عمل کفر میں نہیں ہوں یعنی عربی کے قواعد کی رو سے ابھی انکار ی نہیں ہوں - مطلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی چیز کے انکار میں پڑا ہو ا ہو ں بس گنہ گار ہوں -
یہ عربی کی گرامر کی باریکیاں ہیں اور اردو میں مستعمل نہیں ہیں - غالب کو یہاں قافیہ زبر کے ساتھ چاہیئے تھا تو عربی گرامر کی اپنی معلومات کو استعمال کیا ہے - میرے نزدیک
یہ کوئ غلطی نہیں ہے غالب کی زبان دانی ہے -
 
آخری تدوین:
کافِر زیر کے ساتھ تو وہی لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہے یعنی کُفر کرنے والا -( کسی چیز کا انکار کرنے والا) یہ active participle ہے - یعنی کفر کا عمل کرنے والا -
مگر عربی قواعد میں اسکی ایک اور شکل کفَر بھی ہے یعنی ف کے زبر کے ساتھ - جسکا ذرا معنی الگ ہے
یہ عربی میں زمانہ حال کے لیئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس عمل یعنی کُفر کے عمل کے لیئے استعمال ہوتا ہے - یعنی کفر بذاتِ خود- گویا وہ شخص جو ابھی کسی چیز کا انکاری ہے مستقل حالتِ انکار میں نہیں ہے - کافِر عموما مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ کافَر سمجھ لیں ایک عمومی اصطلاح ہے -
مکرمی، اس کی کوئی نظیر یا سند مرحمت فرما سکتے ہیں؟ عربی میں کافر، بالفتح فا بطور اسم کبھی نظر سے نہیں گزرا. کَفَرَ تو فعل ماضی ہوا، جس کا مضارع یکفر ہوگا ... یہ تو افعال ہیں، جبکہ غالب کے شعر میں اسم کا محل ہے ... اور شعر کے سیاق و سباق سے یہ بھی واضح ہے کہ یہاں مرزا کی مراد مذہبی اصطلاح والا کافر ہی ہے...
سید عمران قبلہ آپ کچھ رہنمائی فرما سکتے ہیں؟ کافَر (اسم) عربی میں استعمال ہوتا ہے؟
 

ارشد رشید

محفلین
مکرمی، اس کی کوئی نظیر یا سند مرحمت فرما سکتے ہیں؟ عربی میں کافر، بالفتح فا بطور اسم کبھی نظر سے نہیں گزرا. کَفَرَ تو فعل ماضی ہوا، جس کا مضارع یکفر ہوگا ... یہ تو افعال ہیں، جبکہ غالب کے شعر میں اسم کا محل ہے ... اور شعر کے سیاق و سباق سے یہ بھی واضح ہے کہ یہاں مرزا کی مراد مذہبی اصطلاح والا کافر ہی ہے...
سید عمران قبلہ آپ کچھ رہنمائی فرما سکتے ہیں؟ کافَر (اسم) عربی میں استعمال ہوتا ہے؟
جناب میں تو عربی کا عالم نہیں مگر اتفاق دیکھیئے کہ میری ایک بھتیجی سند یافتہ عالمہ ہے اور ابھی اسی کا فون آگیا :)
اس کے سامنے میں نے یہی سوال رکھا بقول اسکے یہ صحیح ہے کیونکہ عربی میں زیر کے ساتھ یعنی کافِر اسمِ فاعل (کرنے والا) ہے اور زبر کے ساتھ کافَر اسم مفعول (جس پہ کیا گیا)ہے - تو کافِر ہوا جھٹلانے والا اور کافَر ہوا وہ جو جھٹلایا گیا ہے - اس سے قاعدے کے مطابق اسمِ مفعو ل بنایا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہوا وہ شخص جو اس گروہ سے ہو جنکو جھٹلایا گیا ہے - تو یہ کہنا کہ کافَر نہیں ہوں میں صحیح ہوا-
بس سر میرے لیئے تو سند ہو گئی - آپ ان حوالوں کو استعمال کرتے ہوئے سند ڈھونڈھ لیجیئے -
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جناب میں تو عربی کا عالم نہیں مگر اتفاق دیکھیئے کہ میری ایک بھتیجی سند یافتہ عالمہ ہے اور ابھی اسی کا فون آگیا :)
اس کے سامنے میں نے یہی سوال رکھا بقول اسکے یہ صحیح ہے کیونکہ عربی میں زیر کے ساتھ یعنی کافِر اسمِ فاعل (کرنے والا) ہے اور زبر کے ساتھ کافَر اسم مفعول (جس پہ کیا گیا)ہے - تو کافِر ہوا جھٹلانے والا اور کافَر ہوا وہ جو جھٹلایا گیا ہے - اس سے قاعدے کے مطابق اسمِ مفعو ل بنایا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہوا وہ شخص جو اس گروہ سے ہو جنکو جھٹلایا گیا ہے - تو یہ کہنا کہ کافَر نہیں ہوں میں صحیح ہوا-
بس سر میرے لیئے تو سند ہو گئی - آپ ان حوالوں کو استعمال کرتے ہوئے سند ڈھونڈھ لیجیئے -
عین ممکن ہے عربی گرائمر کے حساب سے ایسا ہی ہو لیکن اسی قاعدے کو سامنے رکھ کر اگر غالب کے شعر کو پرکھا جائے تو میرے خیال میں یہ شعر مہمل ہو کر رہ جائے گا۔
 

ارشد رشید

محفلین
کیوں سر ؟؟
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

کیا یہ بات نہیں بنتی کہ مجھے سزا دینے میں ایک حد تک رہییے کیونکہ میں نے غلطی ضرور کی ہے مگر میں اُس گروہ سے تو نہیں ہوں جو آپ کا انکار کر رہے ہیں -
اس کے بعد میں یہی کہوں گا کہ میرا ناقص علم تو اس پر ختم ہوجاتا ہے - اب اگر میں غلط ہوں تو پھر یہی صحیح ہوگا کہ غالب سے زبر کی غلطی ہوئ ہے -
 
اس کے سامنے میں نے یہی سوال رکھا بقول اسکے یہ صحیح ہے کیونکہ عربی میں زیر کے ساتھ یعنی کافِر اسمِ فاعل (کرنے والا) ہے اور زبر کے ساتھ کافَر اسم مفعول (جس پہ کیا گیا)ہے
کافی تلاش کرنے پر بھی عربی قوامیس میں کافر ان معنی میں نہیں ملا، اس لیے بار دگر گزارش ہے کہ کوئی مستند حوالہ عنایت کیجیے. ویسے عربی میں اسم مفعول بنانے کا جو عمومی قاعدہ ہے اس کے حساب سے تو کَفَرَ کا اسم مفعول مکفور ہونا چاہیے ... لیکن عربی میں مستثنیات کافی ہیں، سو ممکن ہے کافَر درست ہی ہو، لیکن بغیر کسی مستند حوالے کے اسے تسلیم کرنا مشکل ہے.
کیا یہ بات نہیں بنتی کہ مجھے سزا دینے میں ایک حد تک رہییے کیونکہ میں نے غلطی ضرور کی ہے مگر میں اُس گروہ سے تو نہیں ہوں جو آپ کا انکار کر رہے ہیں -
اوپر آپ نے فرمایا کہ یہاں کافر بمعنی جس کا انکار کیا گیا، فا کےفتح کے ساتھ درست ہے ... جبکہ یہاں آپ نے معانی یکسر بدل دیے ... جو"اُن" کا انکار کر رہاہے، وہ گروہ تو کافِر ہی ہوا نا!
جب کہ آپ کے پچھلے دعوے کی روشنی میں تو مفہوم یہ نکلتا ہے کہ میری سزا میں تخفیف کیجیےکہ میں خطاکار تو ہوں، مگر وہ نہیں کہ جس کا انکار کیا گیا ... بھائی عبدالرؤوف کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اس طریق پر شعر مہمل ہو کر رہ جاتا ہے.
 

ارشد رشید

محفلین
کافی تلاش کرنے پر بھی عربی قوامیس میں کافر ان معنی میں نہیں ملا، اس لیے بار دگر گزارش ہے کہ کوئی مستند حوالہ عنایت کیجیے. ویسے عربی میں اسم مفعول بنانے کا جو عمومی قاعدہ ہے اس کے حساب سے تو کَفَرَ کا اسم مفعول مکفور ہونا چاہیے ... لیکن عربی میں مستثنیات کافی ہیں، سو ممکن ہے کافَر درست ہی ہو، لیکن بغیر کسی مستند حوالے کے اسے تسلیم کرنا مشکل ہے.
جی ڈھونڈھ کر بتاتا ہوں
 

ارشد رشید

محفلین
اوپر آپ نے فرمایا کہ یہاں کافر بمعنی جس کا انکار کیا گیا، فا کےفتح کے ساتھ درست ہے ... جبکہ یہاں آپ نے معانی یکسر بدل دیے ... جو"اُن" کا انکار کر رہاہے، وہ گروہ تو کافِر ہی ہوا نا!
جب کہ آپ کے پچھلے دعوے کی روشنی میں تو مفہوم یہ نکلتا ہے کہ میری سزا میں تخفیف کیجیےکہ میں خطاکار تو ہوں، مگر وہ نہیں کہ جس کا انکار کیا گیا ... بھائی عبدالرؤوف کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اس طریق پر شعر مہمل ہو کر رہ جاتا ہے.
ہو سکتا ہے میرے دونوں دفعہ لکھنے میں کچھ ابہام ہو گیا ہو - مگر سچ پوچھیئے تو پھر دوبارہ اس پر کیا لکھوں پھر سے وہی سب دہرانا پڑے گا-
لب لباب یہ ہے کہ مجھے یہ شعر صحیح لگتا ہے - جبتک کوئ اور اس میں غلطی نکال کر بتا نہ دے -
 

سید عمران

محفلین
ف اور ر کے زبر کے ساتھ کافر... باب مفاعلۃ سے آتا ہے.
اس لیے مکافرۃ کا ماضی واحد غائب مذکر... ف اور ر کے زبر کے ساتھ کافر ہوا. اسے ف اور ر دونوں کے زبر کے بغیر نہیں پڑھیں گے. یہ اسم نہیں فعل ہے. ف کے زیر کے ساتھ کافر بھی اسم نہیں فاعل ہے.
باقی مباحث اہل سخن جانیں ہم تو سارے شرکاء کے مباحث سے معلومات حاصل کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں.
 
آخری تدوین:
وارث صاحب میں اسے ضرورت شعری نہیں سمجھتا ہوں بلکہ غالب کی علمیت سمجھتا ہوں
کافِر زیر کے ساتھ تو وہی لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہے یعنی کُفر کرنے والا -( کسی چیز کا انکار کرنے والا) یہ active participle ہے - یعنی کفر کا عمل کرنے والا -
مگر عربی قواعد میں اسکی ایک اور شکل کفَر بھی ہے یعنی ف کے زبر کے ساتھ - جسکا ذرا معنی الگ ہے
یہ عربی میں زمانہ حال کے لیئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس عمل یعنی کُفر کے عمل کے لیئے استعمال ہوتا ہے - یعنی کفر بذاتِ خود- گویا وہ شخص جو ابھی کسی چیز کا انکاری ہے مستقل حالتِ انکار میں نہیں ہے - کافِر عموما مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ کافَر سمجھ لیں ایک عمومی اصطلاح ہے -

غالب کا کہنا آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں - مطلب میں گناہ گار ہوں - کافِر نہیں ہوں کیونکہ س وقت عمل کفر میں نہیں ہوں یعنی عربی کے قواعد کی رو سے ابھی انکار ی نہیں ہوں - مطلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی چیز کے انکار میں پڑا ہو ا ہو ں بس گنہ گار ہوں -
یہ عربی کی گرامر کی باریکیاں ہیں اور اردو میں مستعمل نہیں ہیں - غالب کو یہاں قافیہ زبر کے ساتھ چاہیئے تھا تو عربی گرامر کی اپنی معلومات کو استعمال کیا ہے - میرے نزدیک
یہ کوئ غلطی نہیں ہے غالب کی زبان دانی ہے -
محترم ارشد رشید صاحب یہاں آپ سے غلطی ہوئی۔ ایسی کسی گرامر کی باریکی کا عربی زبان میں قطعاً کوئی وجود نہیں ہے۔ زمانہ حال میں لفظ کا صیغہ فا پر زبر کے ساتھ آہی نہیں سکتا۔ جبکہ کافر کا مذہبی اصطلاح ہونا اور کافر کا عمومی اصطلاح ہونا محض بے اصل ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مرزا غالب کی مشہور غزل ہے

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

اس غزل کے قوافی، پر، پتھر، ساغر، مکرر، برابر، نوکر وغیرہ ہیں یعنی رے سے پہلے زبر کی حرکت سے اَر قافیہ ہے۔ اسی غزل کا یہ شعر

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

اس میں قافیہ کافر ہے۔ کافر عربی لفظ ہے اور فے کی زیر کے ساتھ ہے لیکن مرزا نے یہاں اسے فے کی زبر کے ساتھ قافیہ بنایا ہے۔

اس کی تاویل اللہ جانے ضرورت شعری ہوگی یا سقم یا پھر کوئی کلیہ قانون نہ نکل آئے۔ :)
قبلہ وارث صاحب ، اس عاجز کی صدا پر لبیک کہنے کا شکریہ!
مجھے امید ہے کہ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے دیگر دوست بھی اس لڑی کے مقصد کو پورا کرنے میں مدد دیں گے اور رفتہ رفتہ مطلوبہ مثالوں کا ایک ذخیرہ یہاں جمع ہوجائے گا۔
اردو میں کافر کا لفظ فائے مکسور اور فائے مفتوح دونوں تلفظات کے ساتھ مستعمل ہے ۔ عام گفتگو میں بھی دونوں تلفظ استعمال کیے جاتے ہیں اور شعر میں بھی۔ فرہنگِ آصفیہ نے واضح طور پر اس کے دونوں تلفظ درج کیے ہیں۔ میں ذیل میں فائے مفتوح یعنی کافَر کی کچھ امثال درج کرتا ہوں ۔
اے ذوقؔ دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(ذوقؔ)
چھوڑوں گا میں نہ اُس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
(غالبؔ)
نہ سمجھا عمر گزری اُس بتِ کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
(داغؔ)
ایمان کی تو یہ ہے غضب ہیں بتانِ ہند
اپنا ہی سا مجھے بھی یہ کافر بنائیں گے
(داغؔ)
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر
(اقبالؔ)
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہوگئے
(فرازؔ)

چنانچہ غالب کے شعر میں کافَر کا استعمال لغت کے عین مطابق ہے اور کسی لسانی اصول کے خلاف نہیں۔
 
جناب میں تو عربی کا عالم نہیں مگر اتفاق دیکھیئے کہ میری ایک بھتیجی سند یافتہ عالمہ ہے اور ابھی اسی کا فون آگیا :)
اس کے سامنے میں نے یہی سوال رکھا بقول اسکے یہ صحیح ہے کیونکہ عربی میں زیر کے ساتھ یعنی کافِر اسمِ فاعل (کرنے والا) ہے اور زبر کے ساتھ کافَر اسم مفعول (جس پہ کیا گیا)ہے - تو کافِر ہوا جھٹلانے والا اور کافَر ہوا وہ جو جھٹلایا گیا ہے - اس سے قاعدے کے مطابق اسمِ مفعو ل بنایا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہوا وہ شخص جو اس گروہ سے ہو جنکو جھٹلایا گیا ہے - تو یہ کہنا کہ کافَر نہیں ہوں میں صحیح ہوا-
بس سر میرے لیئے تو سند ہو گئی - آپ ان حوالوں کو استعمال کرتے ہوئے سند ڈھونڈھ لیجیئے -
بہت عجیب بات ہے، ایسی قطعی لاعلمی کو اتنے اعتماد کے ساتھ زبان کے لیےکیسے سند مانا جاسکتا ہے؟ اسم مفعول کے کل اوزان جو ممکنہ ہیں وہ اکیس ہوسکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے شروع میں میم ہونا لازم ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ صفت مشبہ کا وزن بھی کبھی اسم مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے 23 اوزان میں سے بھی کوئی وزن کافر (فا کے فتحہ کے ساتھ) نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عروضی اصول سے انحراف کی ایک مثال میر مومنؔ کی غزل سے :
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے
پر یہ ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو یار آ جائے

قوافی: قرار ، یار ، خمار ، پکار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ردیف: آجائے

اس غزل کے مقطع میں مومن نے ردیف میں تصرف کیا ہے۔ اور مکتوبی ردیف کے بجائے ملفوظی ردیف استعمال کرڈالی ہے ۔
حسن انجام کا مومنؔ مرے بارے ہے خیال
یعنی کہتا ہے وہ کافر کہ تو مارا جائے
 

سید عمران

محفلین
.
@سید عمران قبلہ آپ کچھ رہنمائی فرما سکتے ہیں؟ کافَر (اسم) عربی میں استعمال ہوتا ہے؟
چونکہ ہم سنجیدہ مباحث سے گھبراتے ہیں لیکن آپ کے اشارے کو حکم کا درجہ دیتے ہیں...
اس لیے یہ کچھ عرض کردیا...
ف اور ر کے زبر کے ساتھ کافر... باب مفاعلۃ سے آتا ہے.
اس لیے مکافرۃ کا ماضی واحد غائب مذکر... ف اور ر کے زبر کے ساتھ کافر ہوا. اسے ف اور ر دونوں کے زبر کے بغیر نہیں پڑھیں گے. یہ اسم نہیں فعل ہے. ف کے زیر کے ساتھ کافر بھی اسم نہیں فاعل ہے.
باقی مباحث اہل سخن جانیں ہم تو سارے شرکاء کے مباحث سے معلومات حاصل کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں.
بہرحال شرکاء سے درخواست ہے کہ میدان چھوڑ کے کوئی نہ جائے. اگر کوئی غلطی پر بھی ہے تو ہم اس غلطی سے سیکھ بھی رہے ہیں اور لطف اندوز بھی ہورہے ہیں...
بعض غلطیوں سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے جیسے راہ چلتے غلطی سے شعراء حضرات کا تراشا ہوا کوئی خیالی بت حقیقت میں ٹکرا جائے...
اب کون کافر اس غلطی کا برا منائے گا؟؟؟
کیوں بڑے سرکار !!!
 

ارشد رشید

محفلین
بہت عجیب بات ہے، ایسی قطعی لاعلمی کو اتنے اعتماد کے ساتھ زبان کے لیےکیسے سند مانا جاسکتا ہے؟ اسم مفعول کے کل اوزان جو ممکنہ ہیں وہ اکیس ہوسکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے شروع میں میم ہونا لازم ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ صفت مشبہ کا وزن بھی کبھی اسم مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے 23 اوزان میں سے بھی کوئی وزن کافر (فا کے فتحہ کے ساتھ) نہیں ہے۔
عبید انصاری صاحب میں نے تو خود ہی لکھا ہے کہ میں عربی کا عالم ہر گز نہیں ہوں - مجھے جتنا کافِر اور کافَر کے بارے میں پتہ تھا لکھ دیا-
جب اس پر مزید سوال ہوا تو ایک عربی کے سند یافتہ عالم سے پوچھ کر لکھا اسکا حوالہ دے کر - اسپر بھی سوال اٹھا تو میں نے اپنے علم کی حدیں ظاہر کر کے اپنا مؤقف سامنے رکھ دیا کہ جب تک کوئ دوسری علمی دلیل نہیں آ جاتی کم از کم میں اپنی حد تک اسی کو صحیح سمجتا ہوں کی شعر کافَر کے ساتھ صحیح ہے - اس سے زیادہ آپ کسی سے اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں -
آپ اپنی علمی دلیل سامنے رکھیں بات آگے بڑھے گی مجھ پر اعتراض کیوں ؟
 

علی وقار

محفلین
ایسے اشعار ہوں جن میں ضرورتِ شعری سے کام لیا گیا ہے تو براہ کرم انہیں اس دھاگے میں پوسٹ کر دیں۔
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مَے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
(حضرت علامہ محمد اقبال)

اِستادہ (کھڑا ہوا، تنا ہوا ، فارسی مصدر ’’ایستادن‘‘ سے مشتق ہے جس کا مفہوم ہے ’’کھڑا ہونا‘‘، اس کا الٹ ’’نشستن‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’بیٹھ جانا‘‘، ضرورتِ شعری کی وجہ سے ’’ایستادن‘‘ کو ’’اِستادن‘‘ کہا گیا ہے) - اقتباس از مضمون تفہیمِ اقبال: جوابِ شکوہ)
 

علی وقار

محفلین
ہمارے بیشتر شاعروں کے نزدیک ’نہ‘کو بروزن ’فع ‘یا ایک سبب خفیف کے برابر شمار کرنا درست نہیں ہے۔ اس لیے ایسا کرنے والے شاعروں پر سخت اعتراض کیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔فاروقی کی کتاب عروض آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 54 پر اس مسئلے پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔اور ’نہ‘ کی تطویل کے سلسلے میں اساتذہ شعرا کے کئی اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ؎

نہ وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
——
گر اس طرف بڑھا کسی بیدادگر کا ہاتھ
بالائے تن رہا نہ ادھر نہ ادھر کا ہاتھ

مرزا غالب کے مصرعے اور میر انیس کے درج بالا شعر میں ’نہ‘ کی تطویل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ فاروقی نے روایت کے سہارے ہی ہماری اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں ’نہ‘ کی تطویل کا پختہ ثبوت مل جانے کے بعد ’کہ‘ کی تطویل پر بحث کرنا محض زیادتی ہے۔ ’نہ‘ اور ’کہ‘ دونوں میں ہائے مختفی ہی ہے۔ اس لیے ’نہ‘ کی تطویل کی مثال ’کہ‘ کی تطویل کے لیے مضبوط دلیل ہے۔ضرورت شعری کے تحت ’نہ‘ اور’کہ‘ دونوں کو ایک سبب خفیف کے برابر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اقتباس از شمس الرحمن فاروقی کی روایت پسندی: محمد اسلم پرویز
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

یہاں " نہ ہوا" ردیف تھی۔ضرورت شعری کی وجہ سے "روانہ " باندھنا پڑا " یعنی روانہ سے " نہ" کو کاٹ کر داخلِ ردیف کیا اس کو قافیہ معمولہ تخلیلی کہتے ہیں۔

اقتباس از مضمون، علمِ قافیہ / پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
 
آپ اپنی علمی دلیل سامنے رکھیں ۔
جی ضرور۔ اگرچہ لڑی کا اصل موضوع یہ نہیں ہے تاہم چونکہ آپ نے سند یافتہ عالم کا ذکر کیا اس لیے مغالطہ درست کرنا ضروری ہے۔ چند دلائل پیش خدمت ہیں:
1۔ امام علوم عربیت علامہ زمخشری المفصل میں اسم مفعول کی تعریف اور وزن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ابن یعیش کے وضاحتی نوٹس کے ساتھ)
هو الجاري على "يُفْعَلُ" من فعله، نحو: "مضروب"؛ لأن أصله مفعل، ومكرم ومنطلق به ومستخرج ومدحرج، ويعمل عمل الفعل تقول: زيد مضروب غلامه، ومكرم جاره، ومستخرج متاعه، ومدحرج بيده الحجر"، وأمره على نحو من أمر اسم الفاعل في إعمال مثناه ومجموعه واشتراط الزمانين، والاعتماد.
قال الشارح: ‌اسم ‌المفعول في العمل كاسم الفاعل؛ لأنّه مأخوذ من الفعل، وهو جارٍ عليه في حركاته وسكناته وعدد حروفه، كما كان اسم الفاعل كذلك، ف۔ "مَفْعُولٌ" مثلُ "يُفْعَلُ"، كما أن "فاعلاً" مثل "يَفْعَلُ"، فالميم في "مفعول" بدل من حرف المضارعة في "يُفْعَلُ"
شرح المفصل للزمخشري لابن يعيش (4/ 104)

علامہ ابن حاجب علم نحو کی مستند کتاب الکافیہ میں فرماتے ہیں:
‌اسم ‌المفعول: هو ما اشتقّ من فعل لمن وقع عليه. وصيغته من الثّلاثيّ المجرّد على (مفعول)، كمضروب. ومن غيره على صيغة اسم الفاعل بميم مضمومة وبفتح ما قبل الآخر ك (مستخرج).
الكافية في علم النحو (ص41)

الملک المؤید کہتے ہیں:
وهو إن كان من الثلاثي فصيغته على مفعول كمضروب..... وأمّا اسم المفعول من الزائد على الثلاثي مطلقا فصيغته مثل صيغة اسم الفاعل، إلّا أنّ اسم المفعول يفتح ما قبل آخره فرقا بينه وبين اسم الفاعل نحو: مستخرج ومدحرج بفتح الرّاء فيهما.
الكناش في فني النحو والصرف (1/ 331)

احمد بن محمد حملاوی لکھتے ہیں:
‌‌‌اسم ‌المفعول: هو ما اشْتُق من مصدر المبنى للمجهول، لمن وقع عليه الفعل. وهو من الثلاثى على زنة مَفْعُول كمَنْصور، وموعود، ومَقُول، ومَبيع، ومَرْمِيّ، ومَوْقِيّ، ومَطْوِي. أصل ما عدا الأولين مَقْوُوْل، ومَبْيُوع، ومَرْمُوي، ومَطْوُوي، كما سيأتى فى باب الإعلال. وقد يكون على وزن فَعيل كقَتيل وجريح. وقد يجيء مفعول مرادًا به المصدر، كقولهم: ليس لفلان مَعْقُول، وما عنده مَعلوم: أى عَقْل وعِلم. وأما من غير الثلاثيِّ، فيكون كاسم فاعله ولكن بفتح ما قبل الآخِر، نحو مُكْرَم، ومُعَظَّم، ومُسْتعان به۔
شذا العرف في فن الصرف (ص63)


یہ سب کتب علم صرف ونحو میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ سب کا ترجمہ کرنے کی فرصت نہیں تاہم ان سب میں مفعول کے متعلق وہی تفصیل بیان کی گئی ہے جس کا حاصل عرض کرچکا ہوں۔ لیکن چونکہ قلبی تسلی کے لیےاعتماد قائم ہونا ضروری ہے اور آپ کا اعتماد کسی صاحب پر پہلے سے قائم ہے اس لیے شاید آپ کی تسلی کے لیے کافی نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو یہ لطیفہ پڑھیے اور آگے بڑھیے، ہم مزید کچھ عرض نہ کریں گے۔تاکہ لڑی اپنے موضوع پرقائم رہے۔
 
Top