صنف نازک، کیا صرف ایک کموڈٹی ہے؟

صاحبو اور دوستو،
ذرا یہ خبر دیکھئے۔ فسوسناک بات ہے کہ لڑکیوں کی تجارت ہوئی اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور جس جرگہ نے یہ فیصلہ کیا اس میں ایک ممبر قومی اسمبلی بھی موجود تھا۔
http://search.jang.com.pk/urdu/details.asp?nid=212190

جس میں صاف ظاہر ہے، کہ قتل کا تاوان دینے کے بجائے 5 لڑکیوں کو مقتول کے گھر والوں کے حوالے کردیا گیا، حتی کے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دور جاہلیت کی یادگار، عورتوں اور لڑکیوں کو زر و مال کی جگہ سمجھنا، عورتوں‌کو اس طرح بیچ دینا کے مال دینے کے بجائے لڑکیاں دے دیں۔ نہ صرف صنف نازک کی تذلیل ہے بلکہ یہ تو تمام مردوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہم کو عورتوں کو مال کی جگہ تصور کرنے والوں کی بیخ کنی کرنے لئے اپنے اپنے فورمز میں لکھنا چاھئیے۔ اور عورتوں، بچیوں کی تجارت کرنے والوں کا، اور عورت کو مال و زر اور مویشی سمجھنے والوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے۔ موجودہ دور میں یہ ایک ناسور ہے۔ آج پاکستان 60 سال کا ہوگیا ہے اور ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو کموڈٹی سمجھ کر مویشی کی طرح بیچا جاتا ہے۔

مکمل خبر ۔ روزنامہ جنگ 8/16/2007
اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے جرگہ فیصلہ کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے پی پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی میر ہزار خان بجارانی سمیت 11 افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیس کی سماعت فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری  جسٹس جاوید اقبال  جسٹس سردار محمد رضا خان  جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹر پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔ فاضل عدالت نے 2006ء میں میر ہزار خان بجارانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک جرگے کے فیصلے کے خلاف ازخود نوٹس لیا۔ اس فیصلے کے مطابق ایک شخص کے قتل کے بدلے قاتل کے خاندان کی 5لڑکیوں کو سنگ چٹی (وِنی) میں دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔گرفتار شدگان میں حافظ قمر الدین  یار علی اور رحمت اللہ وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ باقی افراد میں گدی نشین آف بھرچونڈی عبدالخالق  تحصیل ناظم ٹھلو میرعلی اکبر بنگلانی و دیگر افراد شامل ہیں۔ ڈی پی او کشمور نے بتایا کہ 14 افراد میں سے 3 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بااثر افراد کو کیوں گرفتار نہیں کرتی، ان سے ڈرتے ہو‘ آپ صرف اللہ سے ڈریں۔ ایف آئی آر میں 11 افراد نامزد ہیں، انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہے۔ ڈی پی او نے کہا ہم جلد ہی باقی افراد کو گرفتار کر لیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ تمہاری ان افراد سے کوئی رشتہ داری تو نہیں۔ کشمور کے علاقہ ٹھل میں سنگ چٹی میں دی جانے والی بچیوں کی عمریں 3سے 6سال کے درمیان ہیں۔ فاضل عدالت نے 5بچیوں کو سنگ چٹی میں دینے کیخلاف ایک خبر کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیا۔

اس کو اسلام اور عصر حاضر میں‌ڈالنے کی وجہ ہے کہ جرگہ کا ایک ممبر گدی نشین ہے، یعنی لوکل مذہبی رہنما اور دوسرا ممبر قومی اسمبلی ہے اور تیسرا حافظ ہے۔
والسلام،
 

Dilkash

محفلین
فاروق بھائی

میں اس رسم سمیت بہت سارے غلط رسموں کی مزمت کرتا ھوں

لیکن کچھ اس قسم جرائم کی سزا زمانہ قدیم سے چلی ارھی ھے،
اب چونکہ حکومتی نظام نہیں تھا لوگوں نے قبائیلی معاشرے میں اپنی عزتوں کی تحفظ کے لئے اس قسم کی سزائیں مقرر کی ھیں ۔ قبائیلی نظام میں کوئی بھی گھرانہ ایسا نھیں ھوگا جو اس قسم کے واقعات سے دوچا ر نہ ھوگا۔ اب جبکہ وہ لوگ، جو اس قسم کی سزا بھگت چکے ھیں ،اور شرمندگی کے ساتھ ساتھ صدیوں کی دشمنی بھی چلی ارھی ھے لھذا وہ جب پنچائیت میں بیٹھتے ھیں تو انکے سامنے وہ سارے واقعات ھوتے ھیں اور کبھی بھی دوسروں کے معاملے میں نرمی نہیں کریں گے اور نہ کسی کے پاس اختیار ھوتا ھے۔

اب اگر کوئی ثالث پنچائیت فیصلہ نہ کریں تو لوگ مورچہ زن ھوجاتے ھیں اور قتال و جنگ کا سلسلہ شروع ھوجاتا ھے۔
 

فاتح

لائبریرین
انّااللہ و انّا الیہ راجعون۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا ہم دوبارہ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل کے زمانہ میں پہنچ چکے ہیں؟ اُس دور میں بھی تو یوں ہی عورتوں کی تجارت ہوتی تھی۔ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں وراثت میں تقسیم ہوتی تھیں۔ عورتوں کی وقعت مواشی سے بڑھ کر نہ تھی۔ :(
 

نبیل

تکنیکی معاون
اللہ تعالی ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔

ہم لوگ زبان سے خدا کی بندگی اور انسانیت کے تقدس کا دعوی کرتے ہیں لیکن اصل میں ہماری سوچ فرسودہ رسم و رواج اور انسانیت کی تذلیل کرنے والے نظام سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
 
افسوس ہوتا ہے ایسے انسان دشمن بے رحم لوگوں کو اونچی جگہوں پر دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ نام نہاد پیر آف بھرچونڈی شریف۔۔۔۔ اور یہ ممبر قومی اسمبلی۔۔۔۔۔ افسوس۔۔۔ قوم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔۔۔۔۔
 
اللہ تعالی جانتے ہیں کے معاشرے سے برائی کا خاتمہ اچانک نہیں ہوتا۔ اس کے لئے سوچوں کا اجتماعی ارتقاء ضروری ہے۔ اسی لئے عورتوں کے مساوی حقوق کا حکم دیا ہے۔ جس طرح راہبر نے ان وجوہات کی طرف اشارہ کیا جو عورتوں کی تجارت کا باعث بنتے ہیں۔ ضروری ہے کی ان وجوہات کو سامنے لایا جائے، قابل تعریف ہے۔ اور جس طرح زکریا اور نبیل اور فاتح نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار نفرت و مذمت کی، بہت ضروری ہے، کہ خیالات کے اس ارتقاء کے لئے، تبصرہ، تنقید تائید، تعریف کے مراحل سے گذرنا ضروری ہے۔ معصوم بچیوں اور خواتین کو بھیڑ‌بکریوں کی طرح کموڈٹی سمجھنے کو برا کہنا اور سمجھنا، اس برائی کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے۔ ہم سب شہریوں کی طرف سے سپریم کورٹ کا بھی شکریہ۔ یہ قدم لینے پر۔

اس واقعہ کی کھلے عام مذمت کیجئے کہ یہ ہماری قدروں‌اور ایمان دونووں کے خلاف ہے۔

والسلام۔
 
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تحفظ حقوق نسواں بل منظور کروانے والوں نے ان رسموں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کا بل اب تک کیوں منظور نہیں کیا اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کھل کر نام کیوں نہیں لیتے۔ اس ایک نکتہ پر قانونی سازی پر کوئی بھی مہذب شخص انکاری نہیں ہو سکتا اور جو انکار کرے اسے سامنے لانا چاہیے تاکہ عوامی رد عمل سے وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو سکے۔
 

تفسیر

محفلین
اللہ تعالی جانتے ہیں کے معاشرے سے برائی کا خاتمہ اچانک نہیں ہوتا۔ اس کے لئے سوچوں کا اجتماعی ارتقاء ضروری ہے۔ اسی لئے عورتوں کے مساوی حقوق کا حکم دیا ہے۔ جس طرح راہبر نے ان وجوہات کی طرف اشارہ کیا جو عورتوں کی تجارت کا باعث بنتے ہیں۔ ضروری ہے کی ان وجوہات کو سامنے لایا جائے، قابل تعریف ہے۔ اور جس طرح زکریا اور نبیل اور فاتح نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار نفرت و مذمت کی، بہت ضروری ہے، کہ خیالات کے اس ارتقاء کے لئے، تبصرہ، تنقید تائید، تعریف کے مراحل سے گذرنا ضروری ہے۔ معصوم بچیوں اور خواتین کو بھیڑ‌بکریوں کی طرح کموڈٹی سمجھنے کو برا کہنا اور سمجھنا، اس برائی کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے۔ ہم سب شہریوں کی طرف سے سپریم کورٹ کا بھی شکریہ۔ یہ قدم لینے پر۔

اس واقعہ کی کھلے عام مذمت کیجئے کہ یہ ہماری قدروں‌اور ایمان دونووں کے خلاف ہے۔

والسلام۔

فاروق سرور خان
السلام علیکم

آپ نےاچھا کیا کہ ہم سب کی توجہ اس طرف پھر سے دلائی ۔
ان دونوں مسائل اور ان کے حل پر میں دو کتابیں لکھ چکا ہوں وہ یہاں اردو ،حفل میں موجود ہیں
(لنک) ا ۔ پختون کی بیٹی اور 2 ۔ حیوانوں کی بستی
کبھی موقع ملے تو پڑھیئےگا۔

والسلام

تفسیر
 
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تحفظ حقوق نسواں بل منظور کروانے والوں نے ان رسموں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کا بل اب تک کیوں منظور نہیں کیا اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کھل کر نام کیوں نہیں لیتے۔ اس ایک نکتہ پر قانونی سازی پر کوئی بھی مہذب شخص انکاری نہیں ہو سکتا اور جو انکار کرے اسے سامنے لانا چاہیے تاکہ عوامی رد عمل سے وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو سکے۔
بہت شکریہ،
ایک مخصوس مکتبہء فکر صنف نازک کو " مال و زر "‌ کے ضمرے میں ڈالتا ہے، اور اس سلسلے میں بننے والے قوانین و ترامیم میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

حدود قوانین ، زنا آرڈینینس اور قذف آرڈینینس اسی مکتبہء فکر کے ترجمان تھے، جہاں "ریپ" ہونے والی عورت کی ذمے داری تھی کہ وہ الزام کے ساتھ 4 گواہ بھی لائے۔ ۔ 1979 سے 2006 تک سزا پانے والوں کی تعداد مرد صفر اور خواتین کئی ہزار (بقول پرویز مشرف) تھیں۔ اس لئے
اس کو قران سے ہم آہنگ کرنے کے کئے بل پیش کیا گیا دیکھئے

اس بل کو کس قدر مدافعت کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔

اگر سب ساتھی تھوڑا تھوڑا، موضوعات کے لحاظ سے قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمارے خیالات کا مزید ارتقاء‌ مثبت سمت میں ممکن ہے۔

والسلام
 
میں‌ایسی خبروں کی تلاش میں‌نہیں‌رہتا، لیکن جب ایسہی کوئی خبر ڈان، جنگ ی گوگل کے صفحہ اول پر ہو تو آنکھ سے بچ نہیں‌سکتی۔ ابھی ایک زخم تازہ ہی ہے کہ دوسری خبر اس ضمن میں۔
 
بہت شکریہ،
ایک مخصوس مکتبہء فکر صنف نازک کو " مال و زر "‌ کے ضمرے میں ڈالتا ہے، اور اس سلسلے میں بننے والے قوانین و ترامیم میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

حدود قوانین ، زنا آرڈینینس اور قذف آرڈینینس اسی مکتبہء فکر کے ترجمان تھے، جہاں "ریپ" ہونے والی عورت کی ذمے داری تھی کہ وہ الزام کے ساتھ 4 گواہ بھی لائے۔ ۔ 1979 سے 2006 تک سزا پانے والوں کی تعداد مرد صفر اور خواتین کئی ہزار (بقول پرویز مشرف) تھیں۔ اس لئے
اس کو قران سے ہم آہنگ کرنے کے کئے بل پیش کیا گیا دیکھئے

اس بل کو کس قدر مدافعت کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔

اگر سب ساتھی تھوڑا تھوڑا، موضوعات کے لحاظ سے قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمارے خیالات کا مزید ارتقاء‌ مثبت سمت میں ممکن ہے۔

والسلام

معذرت کے ساتھ فاروق صاحب آپ نے بہت اچھے مسئلہ کی نشاندہی کی تھی مگر موضوع کو ایک کمزوری کی طرف لے گئے ہیں اور مشرف صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے تو کم از کم آپ سوچ لیتے کہ اتنا جھوٹا شخص تو پاکستان نے کم ہی دیکھا ہوگا۔ قوانین کی خامیاں اپنی جگہ مگر جو بل پاس ہوا وہ ہرگز ہرگز قرآن سے مطابقت نہیں رکھتا اور کسی ایک مستند عالم نے بھی اسے قرآن سے مطابق قرار نہیں دیا۔

1979 سے 2006 تک سزا پانے والوں کی تعداد مرد صفر اور خواتین کئی ہزار (بقول پرویز مشرف) تھیں۔[/
QUOTE]

اس کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ مشرف صاحب نے کہی ہے تو اس کی سچائی ان کے بیانات جتنی ہی ہے اس پر کافی مباحث ہوئے ہیں اور یہ انتہائی مبالغہ آمیز بیان ہے۔ اس پر پہلے بات نہیں کی مگر اگر آپ کرنا چاہیں تو ایک اور دھاگہ کھول لیں کیونکہ یہاں ان رسوم کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جس پر سب متفق ہیں جبکہ یہ بل انتہائی متنازعہ ہے اور اس کی کئی شقیں واضح طور پر قرآن سے ٹکراتی ہیں۔
 
محب صاحب، معذرت کی قطعاَ‌ظرورت نہیں۔
مطمع نظر (فوکس) یہ آرڈینینس نہیں ہیں۔ عورت کو مال و زر کی طرح کموڈٹی سمجھنے والے ہیں۔ اس دھاگہ میں ہمارا فوکس اسی پہ رہے گا۔ دونوں آرڈینینس میں خواتین کی حق تلفی کرنے والا کوئی بھی مکتبہ فکر قابلِ مذمت ہے۔

اس سلسلے میں مسلم معاشرے میں‌خواتین اور حضرات کے حقوق اور ان کا سٹیٹس کے بارے میں حوالہ جاتی آیات یہاں‌ملاحطہ فرمائیے اور امید ہے کہ آپ اس میں اپنے علم سے اضافہ فرمائیں گے۔

والسلام
 

ابوشامل

محفلین
اصل میں ہم اب واقعی انتہا پسند ہو گئے ہیں ہیں، ایک طرف وہ طبقہ ہے جو ہر الٹے سیدھے کام کو اسلام سے جوڑ دیتا ہے حتی کہ عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کو بھی "اسلامی" قرار دیتا ہے اور اس کے بالکل الٹ دوسرا طبقہ ہے جو اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی کو بھی "دین" کے مطابق قرار دیتا ہے اور طرہ یہ کہ اس پر تاویلیں بھی پیش کرتا ہے کہ جناب سود حرام نہیں، پردہ نامی کوئی چیز اسلام میں شامل نہیں، توہین رسالت کی کوئی سزا نہیں، مرتد کی سزا موت نہیں اور نجانے کیا کیا خرافات! جبکہ حقیقی اسلام کہیں بیچ میں رہ گیا ہے۔ یہ حال اس نبی کی امت کا ہے جو اپنے وصال کے وقت تک عورتوں اور غلاموں کے حقوق کی سب سے زیادہ تاکید کرتے رہے اور اس نبی کریم کی امت کا یہ حال ہے کہ عورتوں کو بھیڑ بکری یا شاید اس سے بھی کمتر سمجھتی ہے۔ اللہ ہمارے حالوں پر رحم کرے اور دین کی اصل کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔
 
ابو شامل صاحب اور محب علوی صاحب۔ بہت اچھے خیالات پیش کیے آپ نے۔ جو قوم اپنے خیالات کا محاسبہ اس طرح خود کرتی رہتی ہے، زندہ قوموں میں شمار ہوتی ہے۔
یہ اپنی یا کسی کی برائی نہیں بلکہ خود آگہی اور Constructive Feed Back ہے۔ میان روی یعنی Balanced Approach یا منصفانہ اعمال ہی تو قرآن و سنت کا بنیادی حکم ہے۔ اپنے خوبصورت خیالات سے نوازتے رہیئے۔
 
بہت شکریہ فاروق کہ آپ نے مثبت انداز سے لیا بات کو اور اپنی توجہ اصل مسئلہ پر ہی مرکوز رکھی۔

میری رائے میں صرف باتیں بنانے کی بجائے کچھ عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور ان غیر اسلامی رسومات کی ایک تو فہرست تیار کرنی چاہیے اور دوسرا یہ ڈیٹا تیار کرنا چاہیے کہ کن علاقوں میں یہ رسومات ہو رہی ہیں اور وہاں تک اس کا مذمتی مواد پہنچانا چاہیے پمفلٹس کی شکل میں ، یہاں تو ہم لکھیں گے ہی اور قانون چارہ جوئی کے لیے بھی لائحہ عمل بنانے پر سوچنا چاہیے۔
 
بہت شکریہ فاروق کہ آپ نے مثبت انداز سے لیا بات کو اور اپنی توجہ اصل مسئلہ پر ہی مرکوز رکھی۔

آپ کا اعتراض‌ اصول سے تحریف کی طرف اشارہ تھا، اور کسی کردار کشی سے پاک تھا۔ اس لئے اس کو مثبت طریقے ہی سے لیا جانا چاہئیے :)
میری رائے میں صرف باتیں بنانے کی بجائے کچھ عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
آپ کا عملی اقدامات کا آئیڈیا بہت اچھا ہے۔ علاقئی طور پر آپ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر قرانی تعلیم کے فروغ‌کے لئے کام کرنے کا ایک لائحہ عمل بنایا ہوا ہے، جو میری استطاعت کے مطابق ہے۔ اس میں اوپن برہان کا پراجیکٹ، اجتماعی معاملات پر آرٹیکلز اور قرآن کا ایک مزید ترجمہ لغۃ القریش کے عین مطابق شامل ہے۔ اس سے زیادہ بندہ کے حالات اجازت نہیں دیتے۔

اور ان غیر اسلامی رسومات کی ایک تو فہرست تیار کرنی چاہیے اور دوسرا یہ ڈیٹا تیار کرنا چاہیے کہ کن علاقوں میں یہ رسومات ہو رہی ہیں اور وہاں تک اس کا مذمتی مواد پہنچانا چاہیے پمفلٹس کی شکل میں ، یہاں تو ہم لکھیں گے ہی اور قانون چارہ جوئی کے لیے بھی لائحہ عمل بنانے پر سوچنا چاہیے۔
اس سلسلے میں تنظیم کی ضرورت ہے، جہاں لوگ دامے درمے سخنے مدد کے لئے تیار ہوں۔ پھر آپ پمفلٹس بنائے، اسکولوں میں‌مدد کیجئے اور قانونی چارہ جوئی کیجئے۔ اور حکومت سے مدد حاصل کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کے مددگار ہوں۔
 
آپ کا اعتراض‌ اصول سے تحریف کی طرف اشارہ تھا، اور کسی کردار کشی سے پاک تھا۔ اس لئے اس کو مثبت طریقے ہی سے لیا جانا چاہئیے :)

آپ کا عملی اقدامات کا آئیڈیا بہت اچھا ہے۔ علاقئی طور پر آپ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر قرانی تعلیم کے فروغ‌کے لئے کام کرنے کا ایک لائحہ عمل بنایا ہوا ہے، جو میری استطاعت کے مطابق ہے۔ اس میں اوپن برہان کا پراجیکٹ، اجتماعی معاملات پر آرٹیکلز اور قرآن کا ایک مزید ترجمہ لغۃ القریش کے عین مطابق شامل ہے۔ اس سے زیادہ بندہ کے حالات اجازت نہیں دیتے۔


اس سلسلے میں تنظیم کی ضرورت ہے، جہاں لوگ دامے درمے سخنے مدد کے لئے تیار ہوں۔ پھر آپ پمفلٹس بنائے، اسکولوں میں‌مدد کیجئے اور قانونی چارہ جوئی کیجئے۔ اور حکومت سے مدد حاصل کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کے مددگار ہوں۔

آپ کے مقابلے میں فی الحال تو میں علاقائی طور پر قریب ہوں مگر جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں پر یہ رسم نہیں ہے مثلا لاہور ، اسلام آباد یا ان کے قریبی شہروں میں ۔ اگر کسی کے علم میں ہے کہ ان شہروں کے قرب میں یہ رسم ہے تو میں ضرور ان علاقوں کا دورہ کر سکتا ہوں جہاں یہ رسم پائی جاتی ہے اور لوگوں سے مل کر اس مسئلہ کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں مگر میرے خیال سے یہ بڑوں شہروں سے ہٹ‌کر چھوٹے شہروں یا دیہاتوں میں مسئلہ ہے اور ہمیں ان علاقوں کی فہرست بنانی پڑے گی جہاں یہ رسم اپنا اثر رکھتی ہے اس کے بعد وہاں تک پمفلٹس اور مواد پہنچانا اتنا مشکل نہیں۔ پہلے بھی اس مسئلہ پر یہاں بات ہوئی ہے مگر افسوس کہ زبانی تنقید سے بات آگے نہیں بڑھ سکی جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ محفل پر تقریبا سب ہی اسے برا سمجھتے ہیں اور جو برا نہیں سمجھتے وہ شاید محفل پر یا تو ہے ہی نہیں یا باقاعدہ ممبر نہیں اس لیے ان تک تو یہ آواز پہنچ ہی نہیں رہی اور نہ ہمیں ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو پارہا ہے۔

بہت ضروری ہے کہ ایسے علاقوں تک ہم رسائی اور رابطے کی کوشش کریں اور وہاں کوئی اپنا نمائیندہ پیدا کر سکیں جو ہمارے خیالات وہاں تک نہ صرف پہنچا سکے بلکہ ہمیں مطلع بھی کر سکے کہ وہاں حالات میں کیا تبدیلی آ رہی ہے۔ میرے خیال سے اگر ہم اس دھاگے کو نوٹ کر لیں اور پھر دیکھیں کہ صرف باتوں سے آگے ہم نے کیا کیا ہے تو خود ہمیں احساس رہے گا کہ ہم خود بھی اس جرم میں شریک ہیں اور وقتی دکھ کا اظہار کرکے ایک طرف ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا ہم نے برائی کی مذمت کردی اب برائی کا فرض ہے کہ وہ خود بخود ختم ہو جائے۔

ہمیں تکلیف اٹھا کر اور محنت کرکے اس کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی تب ہی ہم اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہو سکتے ہیں۔
 
جب اچھے نظریات دل میں گھر کر جاتے ہیں‌تو یہی باتیں اعمال میں‌ڈھل جاتی ہیں یا اعمال میں ان کا عکس جھلکنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چیز دو بار بنتی ہے۔ ایک بار تصور میں اور پھر حقیقت میں۔ آپ کوشش جاری رکھئے، انشاء اللہ لوگ آپ کی مدد کریں گے یا ان علاقوں تک آپ کی اچھی بات پہنچے گی۔ بہتری ہمیشہ آہستہ آہستہ آتی ہے۔ پہلے سوچوں میں‌ پھر دنیا میں۔ ان نظریات سے ہی اعمال بنتے ہیں۔

والسلام۔
 
Top