فارقلیط رحمانی

لائبریرین
صفات کے تعین کے اصول
اللہ کی صفات کو متعین کرتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
۱۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اللہ کا کوئی بھی نام یا صفت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی ہونی لازمی ہے اور کوئی بھی بری صفت کو اللہ سے منسوب کرنا اللہ کی ذات کے لئے عیب ہے جو ممکن نہیں۔ یہی حقیقت سورۂ اعراف میں بیان ہوئی ہے ۔
" اور اللہ کے لئےتو صرف اچھے نام(صفات) ہیں"(سورۂ اعراف ۱۸۰:۷)
۲۔دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کا نام یعنی اسم تو "اللہ" ہے جبکہ دیگر ناموں کی حیثیت صفات کی ہے۔ چنانچہ اللہ کےصفاتی ناموں کی کسی مخصوص تعداد پر اصرار نامناسب ہے۔ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل میں بیان ہوتا ہے ۔"کہہ دو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو سارے اچھے نام(صفات) اسی کے ہیں"( بنی اسرائیل ۱۱۰:۱۷)۔
۳۔ تیسر ا اصول یہ ہے کہ کسی صفت کو متعین طور پر اللہ کی صفت قرار دینے کے لئے کسی مستند ذریعہ کا ثابت ہونا لازمی ہے۔ اس مستند ذریعے کے بغیر استنباط سے اخذ کی گئی صفت پر بہر حال کلام ممکن ہے۔ سب سے مستند ذریعہ قرآن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی صفات بیان کی ہیں۔
۴۔ایک اور اصول یہ ہے کہ ہر صفت کا مفہوم متعین کرنے کا سب سے مستند ذریعہ چونکہ قرآن ہے چنانچہ قرآن کے سیاق سباق میں رہتے ہوئے صفت کی تفہیم بہتر ہے۔ پھر بعد میں اس کا اطلاق عام یا خاص کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر کچھ صفات مفرد بیان ہوئی ہیں جیسے عزیز ، علیم اور حکیم وغیرہ چنانچہ ان کا اطلاق مفرد اور عمومیت کے ساتھ ہی بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جبکہ کچھ افعال خاص پس منظر کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جیسے"فالق الحب و النویٰ" (سورۃ انعام :۹۵:۶) قرآن کی ایک آیت ہے جس کا مطلب ہے " دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا"۔ اس آیت میں "فالق یعنی پھاڑنے والا " اللہ کا فعل بیان ہواہے ۔ چنانچہ اس فعل کو عام کرکے اللہ کو علی الاطلاق "پھاڑنے والا " نہیں کہا جاسکتا ۔بلکہ اسے تخصیص کے ساتھ ہی بیان کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ گٹھلی اور دانے کا پھاڑنے والا ہے ۔اسی طرح ایک اور آیت ہے کہ " ام نحن الزارعون"(سورۃ واقعہ ۵۶:۶۴) جس کا ترجمہ ہے کہ " یا ہم کھیتی اگانے والے ہیں"۔اس میں زارع یعنی اگانے والا"اللہ کا فعل بیان ہواہے لیکن یہ ایک مخصوصمعنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
اسی طرح کچھ صفات کسی دوسر ی صفت کی خصوصیت کے طور پر بیان ہوئی ہیں مثال کے طور پر ایک جگہ بیان ہوتا ہے کہ اللہ شدید العقاب یعنی سخت بدلا لینے والےہیں۔ تو یہاں اللہ کو شدید کی صفت سے منسوب کرنا نامناسب ہوگا۔
۵۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے بعض افعال بیان ہوئے ہیں۔ ان افعال سے بھی اکثر لوگ صفت اخذ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت ملاحظہ فرمائیں
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(آل عمران ۲۶:۳)
ترجمہ: اور تو جسے چاہے عزت جسے چاہے ذلت دےتیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
اس کی بنیاد پر اللہ کی مذل ( ذلت دینے والا) یا معز (عزت دینے والا) کی صفتیں اخذ کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس کا ایک مخصوص پس منظر میں ہے جس کا اطلاق تعمیم کے ساتھ ہر جگہ نہیں کیا جاسکتا۔
۶۔آخری اصول یہ ہے ہر صفت کو الگ الگ سمجھنے کی بجائے صفات کی درجہ بندی اور بڑے گروپ بنالینا زیادہ مناسب ہے تاکہ بہت سی صفات میں مماثلت کی توجیہ ہوسکےاور اس کے ساتھ ساتھ اسکی تفہیم بھی آسان ہوجائے۔
صفات الٰہی کا بیان
اس مضمون میں صرف قرآن میں بیان کردہ وہ صفات الٰہی شامل کی گئی ہیں جو خود قرآن میں بطور صفت آئی ہیں ۔ یعنی اس مضمون میں کوئی صفت استنباطی نہیں بلکہ براہ راست ایک صفت الٰہی کی حیثیت رکھتی ہے۔نیز اس میں وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو تعمیم کے ساتھ علی الطلاق بیان کی جاسکتی ہیں ۔اسی طرح قرآن میں بیان کردہ صفات کو درجہ بندی کرکے تین بڑے زمروں یعنی گروپ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
صفات کی گروہ بندی
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ تما م صفا ت کو انکی نوعیت کے اعتبار سے تین بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ پہلا گروہ صفات رحم الٰہی ، دوسرا قدرت الٰہی، تیسرا توحید و کمال الٰہی پر مشتمل ہے۔
mail



گروپ نمبر 1۔ رحم الٰہی
صفات رحم و کرم اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت، رحم، نرم دلی اور سخاوت اور بخشش کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، انکی غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، انکی خطاؤں سے درگذر کرتا ، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتادیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتا ر ہوتا تو وہ اسکے لئے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اسکی مشکلات کے سامنے چٹان بن جاتا، آگے بڑھ کر اسکی مدد کرتا اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ یہی لطف و کرم اللہ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اسکا احسان مند بناتا اور اسے شکر پر مجبور کرتا ہے۔
اس اجمالی بیان کے بعد تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن نے کس طرح ان صفات کو بیان کیا اور انکی تشریح کی ہے۔رحم کے گروپ میں مندرجہ ذیل ذیلی گروپ آتے ہیں۔

1.1۔شفقت و مہربانی کی صفات
اس ذیلی گروپ کی مرکزی صفت اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ محبت، شفقت، نرم دلی اور مہربانی کا اظہار ہے۔ یہ اس کی شفقت اور محبت ہی ہے کہ وہ کھلاتا،پلاتا، سلاتا ،جگاتا، اٹھا تا ، بٹھاتا ہے۔جب انسان گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے تو اسے ماں کا گہوارہ اور باپ کی شفقت فراہم کرتا ہے۔جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کو طاقت بخشتا اور ماحول کو سازگار بنادیتا ہے۔ غرض وہ کسی لمحے انسان پر شفقت و عنایت کرنا نہیں بھولتا خواہ وہ اس کو ماننے والا ہو یا اس کا انکاری ہو۔ اس زمرے میں درج ذیل صفات آتی ہیں۔
ا۔الرّحمٰن
اسم "اللہ "کے بعد یہ پہلی صفت ہے جو بڑی شدو مد سے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔رحمٰن کا مطلب ہے سراپا رحمت ۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے لئے سرتا سر رحمت ہیں۔ انکی رحمت، مہربانی اور عطا کا دریا بے انتہا جوش اور طاقت کے ساتھ ابل رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کائینات کی ہر شے کو اپنا فیض پہنچارہا اور اسے سیراب کررہا ہے۔ یہ اسی رحمانیت کی بدولت ہے کہ رات انسان کے لئے آرام کا بچھونا فراہم کرتی، دن معاشی سرگرمیوں کے لئے حاضر خدمت ہوجاتا ہے۔
۲۔الرحيم
اس کا لفظی ترجمہ ہے شفقت ، مہربانی اور نرم دلی۔ یہ صفت بھی اپنے بنیادی مفہوم کے اعتبار سے رحمٰن کے قریب تر ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ رحمت کےاستمرار ، دوام اور پائداری کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی اللہ کا رحم اور شفقت کوئی ایک دن کا معاملہ نہیں کہ جوش آیا تو سب کچھ نچھاور کردیا اور جب ولولہ ٹھنڈا ہوا تو ہاتھ روک لیا۔۔بلکہ رحیم کی صفت رحمت کے دریا کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔لہٰذا ایسا نہیں کہ سورج ایک دن اپنی حرارت فراہم کرتا اور دوسرے دن ٹھنڈار ہوجاتا ہے ، یا رات کچھ عرصے تک نیند کا سامان مہیا کرتی اور پھر بے چینی کا باعث بن جاتی ہے یا ماں کی گود ایک وقت میں گہوارا اور دوسر ے وقت میں انگارہ ہوجاتی ہے۔ بلکہ یہ لطف و کرم ، مہربانی اور عنایتوں کا سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے جاری و ساری ہے اور جب تک اللہ چاہیں گے جاری رہے گا۔
۳۔الكريم: اس کے لغوی معنی کرم کرنے والا،نوازنے اور عطا کرنے والا، درگذر کرنے والا کے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان
تما م ہی معنوں میں کریم ہیں۔
۴۔الوهاب۔ بغیر غرض کے اور بغیر عوض کے خوب دینے والا۔ بندہ بھی کچھ بخشش کرتا ہے مگر اسکی بخشش ناقص اور ناتمام ہے جبکہ اللہ تعالی کی بخشش کامل تر ہے اور اس میں سب کچھ ہی داخل ہے۔
۵۔الودود: اس کا مطلب محبت کرنے والی ہستی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتے ہیں لہٰذا کوئی اگر ان سے مغفرت طلب کرے، انکی جانب پلٹے، اپنی خطائوں پر نادم ہو جائے تو اللہ بھی اس کی جانب توجہ کرتے، اسے اپنی محبت اور الفت کے پردے میں چھپالیتے اور اس پر اپنے جودو کرم کی بارش کردیتے ہیں۔
۶۔الرؤوف۔ اس کے مفہوم میں مہربان ، شفیق، ترس کھانے والی ذات شامل ہے۔
۷۔الشكور۔ مطلب بہت زیادہ قدردان۔یعنی اللہ تعالیٰ نیکو کاروں اور بھلائی کرنے والوں کے بڑے قدردان ہیں۔
۸۔البر : احسان کرنے والا۔ اللہ کا وجود بخشنا، پالنا اور زندگی کی نعمتیں فراہم کرنا یقینی طور پر ایک احسان ہے۔
۹۔ المجيب: دعاؤں کا قبول کرنے والا اور بندوں کی پکار کا جواب دینے والا۔

1.2 ۔سلامتی و امن کی صفات
رحم کا ایک اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کو داخلی اور خطرات سےبچایا جائے، اسے پناہ دی جائے، اسے سکھ چین ، آرام اور سکون فراہم کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر سکھ ، چین اور راحت کا منبع ہے۔لہٰذا آسمانی آفتیں ہوں یا زمینی تباہ کاریاں، نفس کی فتنہ انگیزیاں ہوں یا شریر شیاطین جن و انس کی کارستانیاں، ہر داخلی اور خارجی خطرے میں اللہ ہی لوگوں کو اپنی حکمت کے تحت سلامتی ، امن اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس ذیلی گروپ میں درج ذیل صفات مذکور ہیں۔
۱۔السلام
اس کا مفہوم آسودگی ، راحت ، قرار، اطمینان، سکون اور آرام ہیں ۔ہماری زندگیوں میں سکون اطمینان او ر قرار کا منبع اللہ ہی کی ذات ہے چنانچہ وہ سراسر سلامتی یعنی سکون اور راحت دینے والی ہستی ہیں ۔
۲۔المؤمن
اس کا مطلب امان یا پناہ دینے والی شخصیت کے ہیں ۔چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچنے کےلئے بندہ خدا کی پناہ طلب کرتا ہے۔ دنیاوی مصیبتوں اور پریشانیوں میں بھی اللہ کی رحمت کے دامن میں پناہ کا طالب ہوتا ہے اور آخرت میں حشر ، جہنم اور خود اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اللہ ہی سے امان طلب کرتا ہے۔
۳۔المہیمن
اس کے معنی خلیل، نگران، محافظ، معتمد اور وکیل کے ہیں۔یہ اپنے معنوں میں امان، پناہ دینے، مقدمہ لڑنے اور نگرانی کرنے سب کے معنوں میں آتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مسلسل نگرانی کرتے ، انہیں پناہ دیتے اور مشکلات میں مدد طلب کرنے پر انکی وکالت کرتے ہیں۔
۴۔الصمد ۔ پناہ کی چٹان، ایک مضبوط پناہ۔ پناہ کی ایک خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ محفوظ ہو اوردوسر ی خوبی یہ کہ وہ مضبوط ہو۔ چٹان میں یہ دونوں خوبیاں ہوتی ہیں اور اگر وہ چٹان اللہ کی ہو تو اس کی کاملیت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں۔
۵۔الولی۔مددگار اور دوست رکھنے والا یعنی اہل ایمان کا محب اور ناصر۔
۶۔المولٰی ۔حامی و مدد گار
۷۔المستعان ۔جس سے مدد مانگی جائے
۸۔النصیر ۔نصرت اور فتح دینے والا اور مدد کرنے والا۔ اللہ ہر مرحلے پر اپنی مخلوق کی مدد کرتے اور انہیں مصیبت سے نکالتے ہیں۔
۹۔الوكيل۔اس کا مطلب مددگار، معتمد، کارساز ، کام بنانے والے اور وکالت کرنے والے کے ہیں۔ ایک وکیل کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ معاملے کا علم و ادراک رکھتا ہو، اس مسئلے کو حل کرنے میں ماہر ہو، اپنے مؤکل سے ہمدردی رکھتا ہو،مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہو، مسئلہ حل کرنے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہو وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ان تما م امور میں کامل ترین صفات رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ان سے بہتر کام بنانے والا اور اعتماد کے قابل کوئی نہیں ہوسکتا ۔ شرط یہ ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کام کیا جائے۔
1.3 ۔عفو و درگذر کی صفات
رحم کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کی کوتا ہیوں سے صرف نظر کیا جائے، نادم ہونے والوں پر شفقت کی نگاہ ڈالی جائے اور بخشش طلب کرنے والوں کو معاف کردیا جائے۔ اس ضمن میں درج ذیل صفات مذکور ہیں۔
۱۔ العفو ۔ اس کا مطلب درگذر کرنا،صرف نظر کرلینا
۲۔ الغفار:اس کے لغوی معنی کا مطلب ڈھانک دینا ، چھپا لینا، مٹادینا ہے جبکہ اصطلاحی معنی بہت بخشنے گناہوں کو بخشنے والا۔
۳۔ الغفور :بخشش کرنے والا
۴۔التواب :توبہ قبول کرنے والا، رجوع کرنے والوں پر متوجہ ہونے والا۔
۵۔الحليم۔ درگذر کرنے والا۔بڑاہی بردبار۔ اسی لئے علانیہ نافرمانی بھی اس کو مجرمین کو فوری سزا پر آمادہ نہیں کرتی اور گناہوں کی وجہ سے اللہ ان کا رزق بھی نہیں روکتے۔
1.4۔ خّلاقی الٰہی
خلاقی کا بنیادی مطلب وجود دینا ہے جو اللہ کی صفت رحمت ہی کا ایک پہلو ہے۔ ہمارا ہونا سب سے بڑی نعمت ہے اگر ہم نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں ۔ چنانچہ وجود بخشنا ایک رحیم ہستی ہی کا وصف ہوسکتا ہے ۔ اللہ نے جس بھی مخلوق کو تخلیق کیا اور اسے وجود بخشا ، اس پر ایک احسان کیا اور اپنی رحمت کا اظہار کیا۔
1.4.1۔تخلیق کی صفات
تخلیق کی صفات درج ذیل ہیں:
۱۔الخالق: مشیت اور حکمت کے مطابق ٹھیک اندازہ کرنے والا اور اس اندازہ کے مطابق پیدا کرنے والا ، تخلیق کی ابتدا کرنے والا موجد۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا ابتدائی ڈیزائن بغیر کسی نقالی کے بناتے اور اسے وجود بخشتے ہیں۔ مثال کے طور آدم کا نقشہ بنانا کہ اس کا کس طرح کا دھڑ، ہاتھ ، پائوں، منہ اور دیگر اعضاء ہونگے، وہ کس طرح چلے گا پھرے گا، کھائے گا ، سوئے گا وغیرہ۔ یہ سب کچھ اس تخلیق میں شامل ہے۔ اسی طرح اس نے ہر چیز کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی۔ کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا اور کسی کو انسان اور کسی کو حیوان کسی کو پہاڑ اور کسی کو پتھر اور کسی کو مکھی اور کسی کو مچھر غرض ہر ایک کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی ہے۔
۲۔الباری: بلا کسی اصل کے اور بلا کسی خلل کے پیدا کرنے والا۔ اس کا مطلب عدم سے وجود میں لانا اور پیدا کرنا ہے۔یوں تو خالق اور باری مترادف صفات ہیں لیکن جب یہ قرآن میں ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیں تو خالق کا مطلب ڈیزائن اور نقشہ بنانا اور باری کا مطلب نقشے کو عملی جامہ پہنانا اور وجود بخشنا ہوتا ہے۔
۳۔المصور: اس کا مطلب طرح طرح کی صورتیں بنانے والا کہ ہر صورت دوسری صورت سے جدا اور ممتاز ہے۔، پھر بنائی ہوئی تخلیق کی نوک پلک سنوارنا، اس میں رنگ بھرنا اور اس کو فنشنگ ٹچ دے کر آخری مراحل سے گذاردینا سب شامل ہیں۔
۴۔البديع: زمین و آسمان کا موجد
1.4.2۔ربوبیت کی صفات
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مخلوقات کو پیدا کرکے ان سے غافل نہیں ہوگئے۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔ وہ سانس کے لئے آکسیجن، حرارت کے لئے سورج کی روشنی، نشونما کے لئے سازگار ماحول، مادی کی نمو کے لئے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار رکرہے ہیں ۔
۱۔الرب۔اس کا مطلب پالنے والا یا پرورش کرنے والا ، مالک، صاحب ، آقا اور پروردگار کے ہیں۔ قرآن میں زیادہ تر یہ آقا اور مالک کی معنوں میں آیا ہے۔
۲۔الرزاق: رزق عطا کرنے والا ۔رزق کا مفہوم صرف کھانے پینے کی چیزیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کی تمام مادی اور روحانی وسائل جو کسی شخصیت کی حیات کے لئے کافی ہیں وہ اس میں شامل ہیں۔اس میں کھانے پینے کی چیزیں، دھوپ، آکسیجن وغیرہ سب شامل ہیں۔
1.5۔ ہدایت کی صفات
اسی رحمت کا ایک اور تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کو ہدایت فراہم کی جائے، حق کے متلاشی لوگوں کو راہ دکھائی جائے، علم کھوجنے والوں کو درست سمت دکھائی جائے۔اس میں مندرجہ ذیل صفات آتی ہیں۔
۱۔ النور۔اللہ بذات خود ظاہر اور روشن ہے اور دوسروں کوظاہر اور روشن کرنے والا ہے۔ نور اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خود ظاہر ہو اور دوسرے کوظاہر کرتا ہو۔ آسمان و زمین سب ظلمت عدم میں چھپے ہوئے تھے۔ اللہ نے انکو عدم کی ظلمت سے نکال کر نور وجود عطا کیا۔ جس سے سب ظاہر ہوگئے۔ اس لئے وہ نور السموات والارض یعنی آسمان و زمین کا نور ہے۔
۲۔ الہادی۔سیدھی راہ دکھانے اور بتانے والا کہ یہ راہ سعادت ہے اور یہ راہ شقاوت ہے اور سیدھی راہ پر چلانے والا بھی ہے۔
 

مہ جبین

محفلین
جب تک اللہ چاہیں گے
فارقلیط رحمانی بھیا آپ نے بہت عمدہ و اعلیٰ معلومات کا خزینہ ہمیں دیا ہے ، لیکن اسمیں جگہ جگہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے لئے "ہیں " کا صیغہ استعمال کیا ہے اور میرے ناقص علم کے مطابق اللہ واحد اور یکتا ہے تو اسکے لئے یہ جمع کا صیغہ استعمال کرنا درست نہیں ہے ، میں نے جو جملہ اوپر کوٹ کیا ہے وہ کیا ایسے درست نہیں ہوگا؟
جب تک اللہ چاہے گا۔۔۔۔
براہِ مہربانی اس سوال کا جواب دیکر میرے ناقص علم میں اضافہ فرمائیں
جزاک اللہ
 
Top