صبر اور ضبط کی دیوار اُٹھائی جائے ۔۔ غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
صبر اور ضبط کی دیوار اُٹھائی جائے
سینہ دکھتا ہے دکھے، آہ دبائی جائے

امن کی فاختہ، ڈالی سے اڑائی جائے
اس چمن زار کو، اب آگ لگائی جائے

جی یہی چاہتا ہے، پھونک دوں گلشن، اب کے
باغ میں، گھر کی یہ ویرانی، سجائی جائے

جھیل پہ، ڈار پرندوں کی، ابھی اتری ہے
رائفل پر سے ذرا، زنگ چھڑائی جائے

تیرے وحشی نے یہاں، رنگ بکھیرے ہر سُو
سوچتا ہوگا، یہاں آگ لگائی جائے

ہر اشارہ پہ کرے گُل، سرِ تسلیم کو خم
ناز برداری صبا کی، یوں اٹھائی جائے

باغ میں جس نے، گل و لالہ کو بخشی خوشبو
بات ہے خاص، مہک اس کی اُڑائی جائے

بس ،مشقت ہی لکھی ہے، مرے ہاتھوں میں اگر
پھر کہاں ان میں، کمی تیری کھپائی جائے

فکر کے بیج سے، اب پھوٹے عمل کی کونپل
فلسفے تک نہ رہے بات، نبھائی جائے

یا تو وعدہ نہ کرو، کر لو تو پھر یاد رکھو

جان جائے کہ رہے، بات نبھائی جائے

اک زمانے سے، وطن میں یہ چلن ہے کاشف
حق کی آواز جو اٹھّے، تو دبائی جائے
سیّد کاشف
*******............********............********
 
آخری تدوین:
کاشف بھائی، معلوم نہیں ردیف پہ انگلی اٹھانا اصلاح کے ضمن میں آتا ہے یا نہیں۔ مگر غزل پڑھ کے بے اختیار جی چاہا کہ کاش ردیف فقط جائے کی بجائے دی جائے ہوتی۔ یعنی اٹھا دی جائے، دبا دی جائے، لگا دی جائے، سجا دی جائے، وغیرہ پر مصاریع کا اختتام ہوتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے شاید اشعار میں وہ زور پیدا ہو جاتاجس سے ابھی یہ محروم رہ گئے ہیں۔ یہ بھی حق ہے کہ بعض مصرعوں کی بنت اس کی اجازت نہیں دیتی جیسے مثلاً بات ہے خاص، مہک اس کی اڑائی جائے والا مصرع ہے۔ باقی آپ بہتر جانتے ہیں۔
رائفل پر سے ذرا، زنگ چھڑائی جائے
زنگ اسمِ مذکر نہیں بھلا؟
ناز برداری صبا کی، یوں اٹھائی جائے
ناز برداری اٹھانا؟
ناز برداری کی ترکیب میں لفظ برداری فارسی مصدر برداشتن سے مشتق ہے۔ اس کے معنیٰ اٹھانے ہی کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اردو میں ناز اٹھانا کہا جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ یا تو بترکیبِ فارسی ناز برداری کہا جائے یا پھر ناز اٹھانے کا اردو محاورہ لایا جائے۔
یوں تو وعدہ نہ کرو، کر لو تو پھر یاد رہے
اگر اہلِ زبان کا محاورہ یونہی ہے تو میں اپنی ہیچ مدانی پہ شرمندہ ہوں۔ مگر میری رائے میں اس مصرعے کے شروع میں یوں کی بجائے یا فصیح ہو گا۔
 
آخری تدوین:
کاشف بھائی، معلوم نہیں ردیف پہ انگلی اٹھانا اصلاح کے ضمن میں آتا ہے یا نہیں۔ مگر غزل پڑھ کے بے اختیار جی چاہا کہ کاش ردیف فقط جائے کی بجائے دی جائے ہوتی۔ یعنی اٹھا دی جائے، دبا دی جائے، لگا دی جائے، سجا دی جائے، وغیرہ۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے شاید اشعار میں وہ زور پیدا ہو جاتاجس سے فی الوقت یہ محروم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بھی حق ہے کہ بعض مصرعوں کی بنت اس کی اجازت نہیں دیتی جیسے مثلاً بات ہے خاص، مہک اس کی اڑائی جائے والا مصرع ہے۔ باقی آپ بہتر جانتے ہیں۔

زنگ اسمِ مذکر نہیں بھلا؟

ناز برداری اٹھانا؟
ناز برداری کی ترکیب میں برداری فارسی مصدر برداشتن سے مشتق ہے۔ اس کے معنیٰ اٹھانے ہی کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اردو میں ناز اٹھانا کہا جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ یا بترکیبِ فارسی ناز برداری کہا جائے یا پھر ناز اٹھانے کا اردو محاورہ لایا جائے۔

اگر اہلِ زبان کا محاورہ یونہی ہے تو میں اپنی ہیچ مدانی پہ شرمندہ ہوں۔ مگر میری رائے میں اس مصرعے کے شروع میں یوں کی بجائے یا فصیح ہو گا۔
برادرم راحیل ۔
آپ کا تفصیلی تبصرہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ جزاک اللہ
ردیف کے بارے میں آپ کے مشورے پر ضرور غور کرونگا۔ حالانکہ کچھ اشعار دوبارہ کہنے ہوں گے۔
میں جانتا ہوں کہ زنگ اسمِ مذکر ہی ہے لیکن عام بول چال میں مونث کے طور پر بھی مستعمل دیکھا ہے۔ یہاں بطور مونث ہی استعمال کیا ہے۔ استاد محترم کا مشورہ آ جانے دیں۔
ناز برداری کے ضمن آپ کا مشوہ صائب ہے۔ استاد محترم کی رائے کے بعد تبدیل کرتا ہوں۔
آپ کی رائے کے مطابق 'یوں' کو اب 'یا' سے تبدیل کر رہا ہوں۔
آپ کی محبّت اور توجہ کا دل سے شکرگزار ہوں۔(y)
شکریہ ۔:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحیل فاروق صاحب کے تمام نکات سے متفق ہوں۔ بعینہ اسی قسم کی باتیں میرے بھی ذہن میں آئیں یہ غزل پڑھتے وقت۔ ایک اور بات یہ کہ سر تسلیم خم کرنا درست محاورہ ہے۔ سر تسلیم کو خم کرنا مستعمل نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یا تو وعدہ نہ کرو ، کرلو تو پھر یاد رہے

اس مصرع میں رہے کے بجائے رکھو فصیح تر ہوگا۔ دونوں جملوں کے صیغہء فعل میں مطابقت رکھنے سے زبان صاف اور رواں ہوجاتی ہے۔
 
یا تو وعدہ نہ کرو ، کرلو تو پھر یاد رہے
اس مصرع میں رہے کے بجائے رکھو فصیح تر ہوگا۔ دونوں جملوں کے صیغہء فعل میں مطابقت رکھنے سے زبان صاف اور رواں ہوجاتی ہے۔
درست فرمایا آپ نے۔ تدوین کرتا ہوں۔
جزاک اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
سر تسلیم کو خم تو قبول بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مؤنث زنگ اور ناز برداری اٹھانا قبول نہیں کئے جا سکتے۔
ردیف کے بارے میں عزیزی راحیل کا مشورہ بھی صائب ہے۔ یوں کیا جائے کہ دو غزلیں کہہ لو، ایک لی جائے ردیف، دوسری دی جائے۔ اور خیال رکھو کہ دونوں غزلوں میں ردیف کا استعمال بہترین ہو۔

اک زمانے سے، وطن میں یہ چلن ہے کاشف
اک زمانے سے کیوں، کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے یا محض آج کل ایسا ہو رہا ہے؟

مطلع کا دوسرا مصرع پسند نہیں آیا، دکھے‘ کا استعمال ذرا ناگوار ہے۔
 
سر تسلیم کو خم تو قبول بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مؤنث زنگ اور ناز برداری اٹھانا قبول نہیں کئے جا سکتے۔
ردیف کے بارے میں عزیزی راحیل کا مشورہ بھی صائب ہے۔ یوں کیا جائے کہ دو غزلیں کہہ لو، ایک لی جائے ردیف، دوسری دی جائے۔ اور خیال رکھو کہ دونوں غزلوں میں ردیف کا استعمال بہترین ہو۔

اک زمانے سے، وطن میں یہ چلن ہے کاشف
اک زمانے سے کیوں، کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے یا محض آج کل ایسا ہو رہا ہے؟

مطلع کا دوسرا مصرع پسند نہیں آیا، دکھے‘ کا استعمال ذرا ناگوار ہے۔
بہت بہتر سر۔
زنگ اور نازبرداری اٹھانا والے اشعار تبدیل کرتا ہوں۔
ردیف کے ضمن میں بھی غزل میں تبدیلیاں کروں گا۔
مطلع اور مقطع دونوں بہتر کرتا ہوں۔ ان شا اللہ
تصحیحات کے بعد دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
جزاک اللہ
 
السلام علیکم
غزل اصلاح کے بعد پیش ہے۔
ردیف، برادرم راحیل فاروق کے مشورے کے مطابق تبدیل کر دی ہے۔
ناز برداری والا شعر فی الحال نکال رہا ہوں۔ اگر بہتر شکل میں کر سکا تو دوبارہ شامل کر لونگا۔
استاد محترم جناب الف عین سر کے مطابق مطلع، زنگ والا شعر اور مقطع تینوں جگہ تبدیلی کر دی ہے۔
*******............********............********
صبر اور ضبط کی دیوار اُٹھا دی جائے

سینہ دکھتا ہی رہے، آہ دبا دی جائے

امن کی فاختہ، ڈالی سے اڑا دی جائے

اس چمن زار کو، اب آگ لگا دی جائے

جی یہی چاہتا ہے، پھونک دوں گلشن، اب کے
باغ میں، گھر کی یہ ویرانی، سجا دی جائے

جھیل پہ، ڈار پرندوں کی، ابھی اتری ہے
رائفل پھر سے، ذرا صاف کرا دی جائے

تیرے وحشی نے یہاں، رنگ بکھیرے ہر سُو
سوچتا ہوگا، یہاں آگ لگا دی جائے



بات جس نے کہ، گُل و لالہ کو بخشی خوشبو

ہے بہت خاص ، مہک اس کی اڑا دی جائے

بس ،مشقت ہی لکھی ہے، مرے ہاتھوں میں اگر
پھر کہاں ان میں، کمی تیری کھپا دی جائے


فکر کے بیج سے، اب پھوٹے عمل کی کونپل
فلسفے تک نہ رہے بات، نبھا دی جائے


یا تو وعدہ نہ کرو، کر لو تو پھر یاد رکھو

جان جائے کہ رہے، بات نبھا دی جائے

اب تو عرصے سے، وطن میں یہ چلن ہے کاشف
حق کی آواز جو اٹھّے، تو دبا دی جائے
سیّد کاشف
*******............********............********
 

الف عین

لائبریرین
تیسرے چوتھے شعر میں ’لی جائے‘ ہی بہتر ہو گا۔
بات نبھا دی جائے، دو اشعار میں متصل آ گیا ہے۔ ان کے درمیان فاصلہ رکھو یا مصرع بدل دو۔
میرا مشوہ اب بھی دو غزلوں کا ہی ہے، الگ الگ ردیفوں والی۔
 
بہت بہت شکریہ سر۔
تیسرے اور چوتھے شعر میں آپ کے مشورے کے مطابق تبدیلی ردیف کے آڑے آ رہی ہے۔
یہ اشعار دوسری غزل میں رکھے جا سکتے ہیں۔
میں کوشش کرونگا کہ انہیں دو الگ الگ غزلوں میں کہہ سکوں۔ ان شا اللہ۔
جزاک اللہ۔
 
Top