شیفتہ خانماں خراب نہیں

La Alma

لائبریرین
شیفتہ خانماں خراب نہیں!
مصلحت کوش کامیاب نہیں!

ہے نہاں صفحۂ حیات و ممات
قدر کوئی کھلی کتاب نہیں

بخت سے ضوفشاں ہے بامِ زماں
مہر و انجم میں اتنی تاب نہیں

کچھ تو اخلاص میں کمی ہوگی
جو دعا ہوتی مستجاب نہیں

چھائی ہے اک فسردگی سرِ شام
کوئی بھی وجہِ اضطراب نہیں

پھر سے شبنم کنارِ مژگاں ہے
اور رُخ پر مگر گلاب نہیں

ایک آتش ہے زیرِ پا میرے
اب کہ صحرا میں بھی سراب نہیں

کیوں کریں خود کو وقفِ اندیشہ
یہ کشاکش نِرا عذاب نہیں؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں لا المیٰ!
اس شعر کو پھر سے دیکھ لیجیے:
پھر سے شبنم کنارِ مژگاں ہے
اور رُخ پر مگر گلاب نہیں
اس سیاق و سباق میں "اور" اور "مگر" دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں ۔یہاں ان دونوں میں سے کسی ایک لفظ کا محل ہے ۔ دونوں الفاظ کو ایک ہی فقرے میں استعمال کرنا ایسا ہے جیسے: لیکن رخ پر مگر گلاب نہیں
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں لا المیٰ!
غزل کی پسندیدگی کے لیے بہت شکریہ۔
اس شعر کو پھر سے دیکھ لیجیے:
اس سیاق و سباق میں "اور" اور "مگر" دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں ۔یہاں ان دونوں میں سے کسی ایک لفظ کا محل ہے ۔ دونوں الفاظ کو ایک ہی فقرے میں استعمال کرنا ایسا ہے جیسے: لیکن رخ پر مگر گلاب نہیں
اگر ایسا ہی ہے تو کچھ ترمیم کر لیتی ہوں۔
پھر سے شبنم کنارِ مژگاں ہے
اور رخ پر کوئی گلاب نہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
شیفتہ خانماں خراب نہیں!
مصلحت کوش کامیاب نہیں!

شیفتہ لفظ کھٹک رہا ہے۔ توجہ کبھی نواب شیفتہ کی طرف جاتی ہے تو کبھی کوفتہ کی طرف اور شیطانی سوجھ رہی ہے :

کوفتہ جل کے بھی خراب نہیں
ہاں مگر مانع جلاب نہیں

بیگمات اکثر شوہروں کو جلی ہوئی چیز بھی یہ کہہ کر کھلا دیتی ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا ۔یہ کوئی نیک خاتون ہیں کہہ رہی ہیں دیکھیے کوفتہ تو جلنے سے خراب نہیں ہوا تاہم پیٹ خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ہے نہاں صفحۂ حیات و ممات
قدر کوئی کھلی کتاب نہیں

یہ تو آپ نے ایک ایسی خبر دی ہے جو سبھی کو معلوم ہے ، کوئی شاعرانہ انوکھی خبر یا بات ہوتی تو ایک بات تھی۔

بخت سے ضوفشاں ہے بامِ زماں
مہر و انجم میں اتنی تاب نہیں

یہاں ایک معمولی بات سے البتہ ایک شاعرانہ نکتہ اخذ کیا گیا ہے، یعنی شاعر کہتا ہے کہ :بام مکان دنیا: یعنی :آسمان دنیا: جس طرح سورج اور تاروں سے چمکتا ہے،دن کو سورج اور رات کو ستارے روشن کرتے ہیں اسی طرح زمانے کے دن اور رات کو مقدر روشن کرتا ہے ۔اگر بخت تاریک ہے تو چاہے دن ہو یا رات ،جوانی ہوکہ بوڑھاپا تاریک ہی رہیں گے۔
شعر میں "اتنی" کھٹک رہا ہے :ماہ و خورشید میں وہ تاب نہیں : کہہ کر دیکھیں۔پھر وہ جوش نہیں جس سے پتا چلے کہ شاعر کا کوئی ذاتی تجربہ بھی شامل ہو اس نتیجے کو اخذ کرنے میں۔

کچھ تو اخلاص میں کمی ہوگی
جو دعا ہوتی مستجاب نہیں

یہاں بھی "ہوتی" کھٹک رہا ہے -اتنی چھوٹی بحر میں کوئی بھرتی کا لفظ آجائے تو زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک صورت ہے:
کچھ کمی ہے خلوص میں ورنہ
کیا دعا ہے جو مستجاب نہیں

چھائی ہے اک فسردگی سرِ شام
کوئی بھی وجہِ اضطراب نہیں

واہ ۔یہاں محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر کا ذاتی تجربہ بھی غزل میں شامل ہے
یوں کر دیں تو کیا ہی بات ہو:

ایک افسردگی سی ہے سرِ شام
اور کوئی وجہِ اضطراب نہیں


پھر سے شبنم کنارِ مژگاں ہے
اور رُخ پر مگر گلاب نہیں

دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو کیسا ہو:
پر وہ چہرے پہ اب گلاب نہیں

ایک آتش ہے زیرِ پا میرے
اب کہ صحرا میں بھی سراب نہیں

:میرے: بھرتی کا لگ رہا ہے یہاں بھی،شعر کو منظر میں بدل کر دیکھیں :

ایک صحرا ہے،آبلہ پا ہم
تا بحد نظر سراب نہیں


کیوں کریں خود کو وقفِ اندیشہ
یہ کشاکش نِرا عذاب نہیں؟

:نرا: کی جگہ :بھی کیا: بہتر لگتا ہے۔


ظاہر ہے اوپر جو کچھ لکھا وہ اصلاح کہیں سے نہیں محض ایک دوسرا زاویہء نگاہ ہے اور کچھ نہیں ۔کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
شیفتہ خانماں خراب نہیں!
مصلحت کوش کامیاب نہیں!

شیفتہ لفظ کھٹک رہا ہے۔ توجہ کبھی نواب شیفتہ کی طرف جاتی ہے تو کبھی کوفتہ کی طرف اور شیطانی سوجھ رہی ہے :

کوفتہ جل کے بھی خراب نہیں
ہاں مگر مانع جلاب نہیں

بیگمات اکثر شوہروں کو جلی ہوئی چیز بھی یہ کہہ کر کھلا دیتی ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا ۔یہ کوئی نیک خاتون ہیں کہہ رہی ہیں دیکھیے کوفتہ تو جلنے سے خراب نہیں ہوا تاہم پیٹ خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ہے نہاں صفحۂ حیات و ممات
قدر کوئی کھلی کتاب نہیں

یہ تو آپ نے ایک ایسی خبر دی ہے جو سبھی کو معلوم ہے ، کوئی شاعرانہ انوکھی خبر یا بات ہوتی تو ایک بات تھی۔

بخت سے ضوفشاں ہے بامِ زماں
مہر و انجم میں اتنی تاب نہیں

یہاں ایک معمولی بات سے البتہ ایک شاعرانہ نکتہ اخذ کیا گیا ہے، یعنی شاعر کہتا ہے کہ :بام مکان دنیا: یعنی :آسمان دنیا: جس طرح سورج اور تاروں سے چمکتا ہے،دن کو سورج اور رات کو ستارے روشن کرتے ہیں اسی طرح زمانے کے دن اور رات کو مقدر روشن کرتا ہے ۔اگر بخت تاریک ہے تو چاہے دن ہو یا رات ،جوانی ہوکہ بوڑھاپا تاریک ہی رہیں گے۔
شعر میں "اتنی" کھٹک رہا ہے :ماہ و خورشید میں وہ تاب نہیں : کہہ کر دیکھیں۔پھر وہ جوش نہیں جس سے پتا چلے کہ شاعر کا کوئی ذاتی تجربہ بھی شامل ہو اس نتیجے کو اخذ کرنے میں۔

کچھ تو اخلاص میں کمی ہوگی
جو دعا ہوتی مستجاب نہیں

یہاں بھی "ہوتی" کھٹک رہا ہے -اتنی چھوٹی بحر میں کوئی بھرتی کا لفظ آجائے تو زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک صورت ہے:
کچھ کمی ہے خلوص میں ورنہ
کیا دعا ہے جو مستجاب نہیں

چھائی ہے اک فسردگی سرِ شام
کوئی بھی وجہِ اضطراب نہیں

واہ ۔یہاں محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر کا ذاتی تجربہ بھی غزل میں شامل ہے
یوں کر دیں تو کیا ہی بات ہو:

ایک افسردگی سی ہے سرِ شام
اور کوئی وجہِ اضطراب نہیں


پھر سے شبنم کنارِ مژگاں ہے
اور رُخ پر مگر گلاب نہیں

دوسرے مصرع کو یوں کہیں تو کیسا ہو:
پر وہ چہرے پہ اب گلاب نہیں

ایک آتش ہے زیرِ پا میرے
اب کہ صحرا میں بھی سراب نہیں

:میرے: بھرتی کا لگ رہا ہے یہاں بھی،شعر کو منظر میں بدل کر دیکھیں :

آتشِ زیر پا ہوں در صحرا
تا بحد نظر سراب نہیں


کیوں کریں خود کو وقفِ اندیشہ
یہ کشاکش نِرا عذاب نہیں؟

:نرا: کی جگہ :بھی کیا: بہتر لگتا ہے۔


ظاہر ہے اوپر جو کچھ لکھا وہ اصلاح کہیں سے نہیں محض ایک دوسرا زاویہء نگاہ ہے اور کچھ نہیں ۔کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت۔
ایک مزاح مجھے بھی سوجھ رہا ہے۔ وہ یہ کہ غزل تو ستیاناس تھی ہی، لیکن دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا تو سوا ستیاناس لگی۔
تفنن بر طرف، آپ بلا تردد اپنی رائے کا اظہار کریں۔ تنقید ہو یا اصلاح، دوسروں کامطمعِ نظر جاننے کا موقع ملتا ہے اور مزید بہتری کی گنجائش نکلتی ہے۔ آپکی دی ہوئی تجاویز کا خیر مقدم کرتی ہوں۔ بہت شکریہ!
 

یاسر شاہ

محفلین
ایک مزاح مجھے بھی سوجھ رہا ہے۔ وہ یہ کہ غزل تو ستیاناس تھی ہی، لیکن دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا تو سوا ستیاناس لگی۔
ہا ہا ہا
تفنن بر طرف، آپ بلا تردد اپنی رائے کا اظہار کریں۔ تنقید ہو یا اصلاح، دوسروں کامطمعِ نظر جاننے کا موقع ملتا ہے اور مزید بہتری کی گنجائش نکلتی ہے۔ آپکی دی ہوئی تجاویز کا خیر مقدم کرتی ہوں۔ بہت شکریہ!
جزاک اللہ خیر۔اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین اور دنیا و آخرت کی ترقیات سے نوازے۔آمین
 
مجھے اسکا علم نہیں کہ مطمعِ نظر غلط العام ہے یا غلط العوام، کیونکہ میں نے ایسا ہی لکھا دیکھا ہے۔ شاید آپ درست کہہ رہے ہوں۔
طمحِ نظر بمعنی نظر پڑنا۔ مطمح نظر: نظر پڑنے کی جگہ
جبکہ طمع بمعنی: لالچ ہے اور لالچ کا نظر تعلق نہیں بلکہ دل سے ہے :)
 
طمحِ نظر بمعنی نظر پڑنا۔ مطمح نظر: نظر پڑنے کی جگہ
جبکہ طمع بمعنی: لالچ ہے اور لالچ کا نظر تعلق نہیں بلکہ دل سے ہے :)
ع اور ح کا مخرج ایک ہی ہے شاید اس وجہ سے یہ تبدیلی واقع ہوئی ہو. جیسے اردو میں مسجد کو اکثر لوگ مسچد بولتے ہیں یا پھر مزجد.
 
Top