ذوق شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ ::::::اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے ::::: Mohammad Ibraheem Zauq

طارق شاہ

محفلین
غزل
محمد ابراہیم ذوقؔ

اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے

کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے

کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے

چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں
آب کی جائے دِیا کرتے ہیں زہراب مجھے

میں وہ مجنوُں ہُوں ،کہ مجنُوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لِکھا کرتا ہے القاب مجھے

جو مِرے واقفِ جوہر ہیں وہ رکھتے ہیں عَزِیز
تِیرہ بختی میں بھی جُوں تیغِ سیہ تاب مجھے

کُنجِ تنہائی میں دیتا ہُوں دِلاسے کیا کیا
دِلِ بیتاب کو مَیں، اور دِلِ بے تاب مجھے

میں نہ تڑپا جو دَمِ ذبح، تو یہ باعث تھا
کہ رہا مدِّ نظر عِشق کا آداب مجھے

ورنہ وہ شوخ کہ جو گُل سے بھی نازک ہو سوا
لیوے اِس طرح سے زانو کے تلے داب مجھے

ہو گیا جلوۂ انجُم مِری آنکھوں میں نمک
کیونکہ آوے شَبِ ہجراں میں کہو خواب مجھے
.
شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
 
آخری تدوین:
Top