شیخ ابراہیم دہلوی ذوق

  1. طارق شاہ

    ذوق شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ ::::::اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے ::::: Mohammad Ibraheem Zauq

    غزل محمد ابراہیم ذوقؔ اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں آب کی...
  2. فرخ منظور

    ذوق نگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی ۔ ابراہیم ذوق

    غزل نگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی چلی تھی برچھی کسی پر، کسی کے آن لگی ترا زباں سے ملانا زباں جو یاد آیا نہ ہائے ہائے میں تالو سے پھر زبان لگی کسی کے دل کا سنو حال دل لگا کر تم جو ہووے دل کو تمہارے بھی، مہربان لگی تو وہ ہے ماہ جبیں مثلِ دیدۂ انجم رہے ہے تیری طرف چشمِ یک جہان لگی خدا...
  3. کاشفی

    ذوق وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں‌ کرتا؟ - ذوق

    غزل (شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ) وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں‌ کرتا؟ پر میرا جگر دیکھ کہ میں‌ اُف نہیں‌ کرتا کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں‌اُن کے اور دم مرا جانے میں توقف نہیں‌ کرتا دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے دنیا کے زرو...
  4. کاشفی

    ذوق آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا - ذوقؔ

    غزل (شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ) آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا ہے حسرتِ پابوس نکل جائے تو اچھا جو چشمِ کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر جو دل نہ ہو بے داغ وہ جَل جائے تو اچھا بیمار ِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا...
  5. کاشفی

    ذوق ترے کوچے کو وہ بیمارِغم دارلشفا سمجھے - ذوقؔ

    غزل (شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ) ترے کوچے کو وہ بیمارِغم دارلشفا سمجھے اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے ستم کو ہم کرم سمجھے ، جفا کو ہم وفا سمجھے اور اُس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اُس بُت سے خدا سمجھے تجھے اے سنگدل آرامِ جانِ مبتلا سمجھے پڑیں پتھر سمجھ پر...
  6. کاشفی

    ذوق وقتِ پیری شباب کی باتیں - ذوق

    غزل (شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ) وقتِ پیری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو دلِ خانہ خراب کی باتیں واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد کر شراب و کباب کی باتیں تجھ کو رسوا کریں گی خوب، اے دل تیری یہ اضطراب کی باتیں سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ...
Top