ذوق آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا - ذوقؔ

کاشفی

محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)

آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا
ہے حسرتِ پابوس نکل جائے تو اچھا

جو چشمِ کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر
جو دل نہ ہو بے داغ وہ جَل جائے تو اچھا

بیمار ِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

تاثیرِ محبت عجب اک حب کا عمل ہے
لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا

فرقت سے ترے تارِ نفس سینہ میں‌ میرے
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا

وہ صبح کو آئے تو کروں میں دوپہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا

ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور پھر کہوں گر آج سے کل جائے تو اچھا

جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یونہیں ٹل جائے تو اچھا

القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے
دل اُس کا یہیں کاش بہل جائے تو اچھا

ہے قطعِ رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط
جوں شمع تو اب سر ہی کے بَل جائے تو اچھا
 
Top