شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری (بانی و سرپرستِ اَعلیٰ، تحریک منہاج القرآن)

عصرِ حاضر کے عظیم مفکر، مصلح، محدّث، مفسر، مصنف اور تنظیمی قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 19 فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم جھنگ میں مکمل ہوئی اور آپ نے میٹرک سے ایم۔اے تک ملک کے معروف اداروں سے تمام اِمتحانات اعلیٰ ترین اعزاز کے ساتھ پاس کیے۔ 1974ء میں پنجاب یونیورسٹی سے LLB جب کہ 1986ء میں آپ نے اِسی جامعہ سے Punishments in Islam, their Classification and Philosophy کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

آپ کے والد گرامی فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پایہ عالم، درد مند مصلح، ماہر طبیب، فصیح اللسان شاعر، باعمل صوفی، عاشقِ رسول اور وسیع المشرب دانش وَر تھے۔ انہوں نے طبی اور دینی تعلیم کے مراحل بالترتیب جھنگ، سیالکوٹ، لکھنؤ، حیدر آباد دکن اور دہلی کے اعلیٰ اداروں میں نام وَر شخصیات کی زیر نگرانی طے کیے۔ آپ نے اِسلامی علوم میں مہارتِ تامہ اور روحانی فیض کے حصول کے لیے حرمین شریفین اور عرب ممالک بالخصوص شام اور عراق کے بڑے بڑے مراکز کا بھی سفر کیا جہاں عالمِ اسلام کی عظیم علمی شخصیات مثلاً الشیخ علوی بن عباس المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمد الکتانی رحمۃ اللہ علیہ (رئیس علماء شام) سمیت کئی نابغہ روزگار علمی ہستیوں سے آپ کو شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ آپ کی روحانی بیعت بغداد شریف کے نقیب الاشراف سیدنا شیخ ابراہیم سیف الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ آپ کے بلند علمی و شعری ذوق نے ایک طرف آپ کو جواں عمری میں ہی شاعرِ مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کا موقع فراہم کیا تو دوسری طرف آپ کے باطنی و روحانی ذوق نے آپ کو عارفِ ربانی حضرت پیر سید مہر علی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارات سے بھی نوازا۔

ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کو جن جلیل القدر شخصیات کا زمانہ نصیب ہوا اور اُن کی قربت و سنگت کی سعادت بھی حاصل رہی ان میں درج بالا دو شخصیات سمیت غزالیِ زماں حضرت سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت قبلہ بابو جی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الحدیث مولانا سردار احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ مولانا قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ مولانا عبد الغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت صاحبزادہ فیض الحسن آلو مہار شریف رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد عمر اچھروی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا عبد الرشید رضوی، مجاہدِ ملت حضرت مولانا عبد الستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ اور عالمِ عرب و عجم کی دیگر معروف علمی شخصیات شامل تھیں۔

حضرت شیخ الاسلام اپنے والدِ گرامی کی اُس دعا کا ثمر ہیں جو اُنہوں نے آپ کی ولادت سے قبل 1948ء میں خانہ کعبہ میں حاضری کے وقت مقامِ ملتزم پر کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا : ’’اے مالک الملک! مجھے ایسا بیٹا عطا فرما جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل بھی ہو اور دنیائے اسلام میں عظیم علمی و فکری اور اَخلاقی و سیاسی اِنقلاب کا داعی بھی ہو اور ایک عالم کو اپنے فیض سے متمتع کرے۔‘‘ چنانچہ جب اس دعا کو بارگاہِ اُلوہیت اور دربارِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ قبولیت نصیب ہوا تو آپ کو خواب میں نہ صرف بیٹے کی بشارت دی گئی بلکہ اس کا ’’طاہر‘‘ نام بھی رکھ دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ صادق ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’طاہر‘‘ کو نسبتِ رسالت سے جوڑ کر ’’محمد طاہر‘‘ بنا دیا اور تادمِ زیست ’’محمد طاہر‘‘ کی تعلیم و تربیت لیے شفقتِ پدری کے ساتھ خداداد علمی، دینی اور روحانی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے والدِ گرامی آپ کو بچپن میں مدینہ منورہ لے کر حاضر ہوئے جہاں (1963ء میں) عالمِ اِسلام کی عظیم علمی شخصیت مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدِ نبوی میں رسمِ بسم اللہ سے آپ کی دینی تعلیم کا آغاز فرمایا۔ بعدازاں وطن واپسی پر آپ کو باقاعدہ طور پر جامعہ قطبیہ رضویہ (جھنگ) میں داخل کرایا گیا۔ آپ استاذ العلماء مولانا عبد الرشید رضوی اور اپنے والد گرامی سے 1969ء تک میٹرک اور ایف۔ ایس۔ سی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی تکمیل بھی کرتے رہے۔ 1970ء میں آپ نے اپنے والد گرامی ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث مکمل کیا۔ 1979ء میں آپ نے غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سندِ حدیث حاصل کی جب کہ 1991ء میں آپ کو محدّثِ حرم شیخ محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے خصوصی سندِ حدیث سے نوازا۔

حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے اساتذہ کرام میں سے چند نام وَر شخصیات کے اَسماء گرامی درج ذیل ہیں :

شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ نقیب الاشراف بغداد
شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ضیاء الدین احمد القادری المدنی رحمۃ اللہ علیہ
فریدِ ملّت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ (والد محترم)
حضرت علامہ ابو البرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
محدّثِ اَعظم حضرت محمد سردار احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
غزالیِ زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
شارحِ بخاری حضرت مولانا غلام رسول رضوی رحمۃ اللہ علیہ
مفکرِ اِسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ سید عبد المعبود گیلانی المدنی رحمۃ اللہ علیہ
استاذ العلماء حضرت مولانا عبدالرشید رضوی مدظلہ
پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی مدظلہ
محدّثِ حرم سید علوی بن عباس المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ
محدّثِ حرم سید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ سید محمد الفاتح الکتانی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ حسین بن احمد عسیران (تلمیذِ رشید امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ)
دینی تعلیم کے حصول کے دوران میں آپ نے قرآن و حدیث کا اِنقلابی نقطہ نظر سے عمیق مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ متعدد مسلم و غیر مسلم مفکرین کی بیسیوں کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ 21 سال کی عمر میں جب آپ نے عملی میدان میں قدم رکھا تو آپ کی قرآن فہمی اور تحقیقی شعور کا پہلا عملی مظاہرہ آپ کی اَوّلین کتاب ’’منتخبات القرآن‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ عصری و دینی علوم اور ذہنی و فکری پختگی کے بعد آپ نے 1972ء میں روحانی تربیت و نسبت کے حصول کے لیے نقیب الاشراف قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ اَقدس پر بیعت کی، جو صورت و سیرت میں حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل تصویر تھے۔

1974ء میں آپ نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور بطور لیکچرر اِسلامیات اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1976ء سے 1978ء تک آپ نے ڈسٹرکٹ کورٹس جھنگ میں بطور ایڈووکیٹ پریکٹس بھی فرمائی۔ بعد ازاں دعوتی اور تنظیمی مقاصد کے پیشِ نظر جب لاہور منتقلی کو ضروری سمجھا گیا تو 1978ء سے 1983ء تک پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ساتھ بطور لیکچرر اِسلامک لاء منسلک رہے۔ دعوتی سرگرمیوں کے پھیلتے ہوئے نیٹ وَرک پر خصوصی توجہ کی خاطر آپ کل وقتی تدریس سے مستعفی ہوئے تو یونیورسٹی کے اِصرار پر 1983ء تا 1988ء آپ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے وِزِٹنگ پروفیسر برائے LLM رہے۔ اس کے علاوہ آپ ممبر پنجاب یونیورسٹی سینٹ، سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل، مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان اور بطور ماہر قومی کمیٹی برائے نصاباتِ اسلامی کے رکن بھی رہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری مدظلہ العالی شروع سے ہی تجدید و اِحیائے دین اور ترویج و اِقامتِ اِسلام کو اپنا مقصدِ حیات بنا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو بامقصد انداز میں ترتیب دیا۔ اِحیائے اِسلام کے خواب کو شرمندہء تعبیر کرنے کے لیے آپ نے 1975ء میں ’’محاذِ حریت‘‘ کے نام سے 24 سال کی عمر میں جس پلیٹ فارم پر نوجوانوں کی ذہنی، اَخلاقی اور دینی تربیت کا آغاز کیا تھا وہی پودا بعد ازاں ’’منہاج القرآن‘‘ جیسی عظیم تحریک کی صورت میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا مرکزِ علم و عمل بن گیا۔ 1978ء میں ہی آپ نے تحریکِ نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بنیادی اور فعال کردار ادا کیا۔ اِسی دور میں ’’نظامِ مصطفیٰ۔ ۔ ۔ ایک انقلاب آفرین پیغام‘‘ کے نام سے پہلی کتاب لکھی۔ 1980ء میں آپ نے شادمان کالونی لاہور سے پندرہ روزہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور 17 اکتوبر 1980ء کو آپ نے تحریک منہاج القرآن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے ہی آپ نے اپنی دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں کو بتدریج منظم کیا۔ منہاج القرآن کے زیرِاِہتمام لاہور کے بعد کراچی اور اسلام آباد میں بھی دروسِ قرآن کا آغاز ہو گیا۔ 1983ء میں آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’فہم القرآن‘‘ سے ہفتہ وار لیکچر شروع کیے۔ یہ پروگرام PTV کی تاریخ کا کامیاب اور دلچسپ ترین پروگرام تھا، جس کے ذریعے قدرت نے آپ کا تعارُف ملک کے دور و نزدیک کے ہر علاقے میں کروا دیا۔ بعد ازاں آپ کے اِن دروسِ قرآن اور خطبات کا سلسلہ ملک سے نکل کر بیرونِ ملک تک پھیل گیا۔ آپ نے بیرونی دنیا (خصوصاً یورپی ممالک) میں سینکڑوں موضوعات پر ہزاروں لیکچرز اور خطبات دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی متعدد یونیورسٹیز میں وقتاً فوقتاً مختلف علمی و فکری اور عصری موضوعات پر فکر انگیز لیکچرز دیتے رہے جو دنیا بھر کے مختلف ٹی وی چینلز سے آج بھی نشر ہو رہے ہیں اور کتابی صورت میں چھپ بھی چکے ہیں۔

قدیم و جدید عصری علوم و فنون پر کمال مہارت و دسترس کے سبب آپ نے ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے قرآن حکیم کا علمی، ادبی، اِعتقادی اور فکری و سائنسی پہلوؤں پر محیط جامع ترجمہ بھی کیا جو اب تک کیے گئے تمام تراجمِ قرآن سے زیادہ عام فہم اور ادبِ اُلوہیت و رسالت کا حسین ترین مظہر ہے۔ تفسیر اور اَحادیثِ مبارکہ پر تاریخ ساز اِجتہادی علمی کام آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپ نے پورے ذخیرۂ حدیث کو نئے اور معاصر تقاضوں کے مطابق مرتب کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور اِن شاء اﷲ تعالیٰ بیس ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ سلسلہ نسلِ نو کے لیے ایک گراں بہا خزانہ ہوگا۔ علم الحدیث پر آپ کی گراں قدر تصنیف ’’المنہاج السوی‘‘ اور ’’جامع السنۃ‘‘ اِسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فنِ حدیث میں اعلٰی ترین مقام کو دلائل و براہین سے ثابت کیا اور تین جلدوں پر مشتمل کتاب مرتب فرمائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر اُردو زبان میں دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے مصنف بھی آپ ہی ہیں۔ علاوہ ازیں سیاست، معاشرت، روحانیت اور سائنس پر آپ کی سوا تین سو سے زائد کتب اِس دور کا عدیم النظیر علمی کارنامہ ہے۔

درج بالا علمی کاوشوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی پاکستان میں سب سے بڑا پرائیویٹ تعلیمی نیٹ ورک آرگنائز کرنے کا اِعزاز بھی رکھتے ہیں۔ اندرون ملک اِس تعلیمی منصوبے کے ذریعے ایک یونیورسٹی، متعدد کالجز اور 572 سکولز کی صورت میں متعدد تعلیمی ادارہ جات قائم کیے جا چکے ہیں۔ لاہور میں قائم منہاج یونی ورسٹی (چارٹرڈ اَز حکومتِ پنجاب) کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین بھی ہیں۔ آپ کے تمام تعلیمی اداروں میں قدیم و جدید علوم کو نسبتاً کم اَخراجات اور معیاری انداز میں نوجوانانِ اِسلام کی علمی و فکری تربیت کا کام جاری ہے۔

ملک میں صحت مند سیاسی و جمہوری کلچر کے فروغ، اَمنِ عالم کے قیام اور اصول پسندی پر مبنی سیاسی روایات کے اِستحکام کے لیے آپ نے ’’پاکستان عوامی تحریک (PAT)‘‘ کا قیام عمل میں لایا۔ آپ 1997ء میں قائم ہونے والے (بہ شمول پاکستان پیپلز پارٹی) 19 قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بڑے اپوزیشن اتحاد ’’پاکستان عوامی اِتحاد‘‘ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ 2002ء میں PAT کے اِسی پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے لیکن اکتوبر 2004ء میں آپ نے ملکی قیادت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات پر اسمبلی سے اِستعفیٰ دے دیا۔ آپ عالمِ اِسلام کی نمائندہ تنظیم ’’الموتمر العالمی الاسلامی‘‘ کے نائب صدر اور ’’عالمی اِتحادِ اِسلامی‘‘ کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ اِتحاد بین المسلمین کو حقیقی اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے آپ نے مسالک کے درمیان تلخیوں کو کم اَز کم کرنے اور بے شمار مشترک اَقدار پر متحد ہونے کے لیے بہت زیادہ کاوشیں کیں۔ ان مسالک کی باہمی رقابتوں کو رفاقتوں میں بدلنے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ اِسی طرح اَمنِ عالم، رواداری اور بین المذاہب خوش گوار تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے آپ نے ہمیشہ اَقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اِس سلسلہ میں آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم پر ملک بھر کی اَقلیتوں کو یکجا کیا۔ خاص طور پر مسیحی برادری کے ساتھ اِظہارِ یک جہتی کے لیے آپ نے ’’مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF)‘‘ بھی قائم کیا۔

ملک کے غریب و نادار اور مجبور و مقہور طبقہ کی کفالت اور فلاحی کاموں کی تکمیل کے لیے آپ نے ’’منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن (MWF)‘‘ کے نام سے ایک عالمی ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ جس کے زیراہتمام متعدد رفاحی و فلاحی سرگرمیاں ملک کے علاوہ دنیا بھر میں جاری ہیں۔ پاکستان میں بدترین زلزلہ (08 اکتوبر 2005ء) سمیت سونامی اور مختلف ممالک میں آنے والی قدرتی آفات کے لیے منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن کروڑوں روپے مختلف فلاحی منصوبہ جات پر خرچ کر چکی ہے۔

آپ نے امت کے ہر فرد اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے مختلف ذیلی فورمز بھی قائم کر رکھے ہیں جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں :

منہاج القرآن علماء کونسل (MUC)
منہاج القرآن ویمن لیگ (MWL)
منہاج القرآن یوتھ لیگ (MYL)
مصطفوی اسٹودنٹس موومنٹ (MSM)
پاکستان عوامی تحریک (PAT)
پاکستان عوامی لایرز موومنٹ (PALM)
منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن (MWF)
مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF)
کونسل آف مسلم انجینئرز اینڈ ٹیکنالوجسٹس (COMET)
احیائے اسلام، اتحاد امت اور بیداریِ شعور کی نقیب تحریک منہاج القرآن آج دنیا کے سات براَعظموں اور 80 سے زائد ممالک میں اپنا دعوتی و تنظیی نیٹ ورک رکھتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی تصانیف اُردو، انگریزی اور عربی کے علاوہ دیگر عالمی اور علاقائی زبانوں میں بھی ترجمے کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ آپ تجدید و اِحیائے دین کے لیے تمام جدید ذرائع کو بروئے کار لانے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ کے خطبات و دروس کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا اِنتظام تحریک منہاج القرآن کے اَوائل دور سے ہی کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب علمائے کرام کی بڑی تعداد ویڈیو کو حرام سمجھتی تھی۔ اِس وقت آپ کے سینکڑوں موضوعات پر 5 ہزار سے زائد خطبات آڈیو ویڈیو کیسٹس، CDs ،VCDs ،DVDs اور آڈیو CDs کی صورت میں دستیاب ہیں، جو کہ پوری دنیا میں دعوت و تبلیغِ حق، اِصلاحِ اَحوالِ اُمت اور ترویج و فروغِ دین کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ جدید تاریخ میں آپ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے خطبات کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی ہمہ جہت کاوشوں اور بے مثال کامیابیوں بالخصوص تحقیق و تصنیف اور اِنسانی بہبود کے لیے سماجی خدمات کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ آپ بلاشبہ دانشِ عصرِ حاضر، روحِ عصر کی پکار، عالمی سفیرِ اَمن اور مجدّدِ اِسلام ہیں۔ آپ ایک فرد نہیں بلکہ عالم اسلام کے تابناک مستقبل کی نوید اور تا اَبد مینارۂ نور ہیں۔ (اِن شاء اللہ)
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ عمران حسینی ،
کونسل آف مسلم انجینئرز اینڈ ٹیکنالوجسٹس کے بارے میں مزید تفصیل مل سکتی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ حسینی صاحب اس پوسٹ کیلیئے۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟ دوسری صورت میں اس تحریر کو مناسب فورم پر منتقل کیا جا سکے، نوازش۔
 

الف عین

لائبریرین
بڑی تکلیف ہوتی ہے جب لوگ القبات سے کچھ لوگوں کو یاد کرتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔
شیخ الالسلام کا لقب میں نے اب تک مولانا علی میاں کے لئے سنا تھا۔۔ دو چار دن پہلے ہی سیاست‘ اخبار میں بھی اسی طرح کسی عالم کو شیخ الالسلام کہا گیا، بہت ڈھونڈھنے پر معلوم ہوا کہ یہ شیخ ااسلام جامعہ نظامیہ کے بانی تھے، جن کا نام کچھ فاروقی تھا۔ اب طاہر القادری کو بھی اسی نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
سی طرح حیدر‌آباد میں اکثرحضور نظام‘ یا ‘اعلیٰ حضرت‘ حیفدر آباد کے فرماں رواؤں۔۔ نظاموں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اب اسے احمد رضا بریلوی صاحب کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے معلوم نہیں محض پاکستان میں یا ہندوستان میں بھی۔
اس قسم کے القاب سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ کنفیوژن نہ ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں تو اتنے شیخ الاسلام ہیں کہ کیا بتاؤں، ہر دوسرا تیسرا عالم اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلواتا ہے۔
 
شکریہ حسینی صاحب اس پوسٹ کیلیئے۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟ دوسری صورت میں اس تحریر کو مناسب فورم پر منتقل کیا جا سکے، نوازش۔


میں تو بنیادی طور پر اس مضمون کو لائبریری سیکشن میں ’’پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری‘‘ کے عنوان سے پوسٹ کرنا چاہ رہا تھا لیکن کچھ پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
 
شکریہ عمران حسینی ،
کونسل آف مسلم انجینئرز اینڈ ٹیکنالوجسٹس کے بارے میں مزید تفصیل مل سکتی ہے؟


انشائ اللہ تعالی آپ کو ’’کونسل آف مسلم انجینئرز اینڈ ٹیکنالوجسٹس ‘‘ کی تفصیلات مل جائیں گی۔ یہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ حسینی صاحب وضاحت کیلیئے، میں نے اسے 'آپ کی تحریروں' سے 'جہانِ نثر' میں منتقل کر دیا ہے۔
 
Top