مصطفیٰ زیدی شہناز (1) ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
شہناز
(۱)

جو بھی تھا چاکِ گریباں کا تماشائی تھا
تو نہ ہوتی تو یہ تدبیرِ رفو کرتا کون ؟
ایک ہی ساغر ِِ زہراب بہت کافی تھا
دوسری بار تمنّائے سبُو کرتا کون ؟
تیرے چہرے پہ جو تقدیس نہ ہوتی ایسی
دل کے موّاج سمندر میں وضو کرتا کون ؟

تُونے اندیشۂ فردا کو سمجھنے پر بھی
میرے اِمروز کو ہر فکر سے بالا رکّھا
لے چلی تھی مجھے ذرّوں کی طرح بادِسموم
تُونے ہیروں کی طرح مُجھ کو سنبھالارکھا
اُس پہ ممنوع تھی اِک بوند کی فیّاضی بھی
تونے جس ہونٹ پہ کوثر کا پیالہ رکھا

اپنی پلکوں میں چُھپایا مجھے تُونے اُس وقت
جب سرِ راہ ہر اک فرد مرا قاتِل تھا
تُونے آکر مجھے جرات کی اِکائی بخشی
مجھ میں اک شخص بہادر تھا اور اک بُزدل تھا
کوئی واقف ہی نہیں ہے کہ رَجَز کے ہنگام
میرے لہجے میں ترا گرم لہو شامِل تھا

رنگ میں سادہ مزاجی کا بھرم تجھ سے ہے
سنگ میں زحمتِ تخلیقِ صنم تجھ سے ہے
تجھ سے ہے ، یوں جو فراواں ہے ، وفا کی دولت
یہ جو اندیشۂ جاں اتنا ہے کم، تجھ سے ہے
میں الگ ہو کے لکھوں تیری کہانی کیسے
میرا فن ، میرا سخن ، میرا قلم تجھ سے ہے

(مصطفیٰ زیدی از کوہِ ندا )
کراچی 14 جولائی 70
 
Top