ن م راشد شہرِ وجود اور مزار ۔ ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
شہرِ وجود اور مزار


یہ مزار،
سجدہ گزار جس پہ رہے ہیں ہم
یہ مزارِ تار۔۔۔۔ خبر نہیں
کسی صبحِ نو کا جلال ہے
کہ ہے رات کوئی دبی ہوئی؟
کسی آئنے کو سزا ملی، جو ازل سے
عقدۂ نا کشا کا شکار تھا؟
کسی قہقہے کا مآل ہے
جو دوامِ ذات کی آرزو میں نزاز تھا؟

یہ مزار خیرہ نگہ سہی،
یہ مزار، مہر بلب سہی،
جو نسیمِ خندہ چلے کبھی تو وہ در کھلیں
جو ہزار سال سے بند ہیں
وہ رسالتیں جو اسیر ہیں
یہ نوائے خندہ نما سنیں تو اُبل پڑیں!

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنی آنکھ کے سیم و زر
کسی روگ میں، کسی حادثے میں
گنوا چکے؟

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنے ساتھ کوئی کرن
سحرِعدم سے نہ لا سکے؟

مگر ایک وہ
کہ ہزار شمعوں کے سیل میں
کبھی ایک بار جو گم ہوئے
خبر اپنی آپ نہ پا سکے!
کبھی گردِ رہ، کبھی مہر و ماہ پہ سوار تھے
وہ کہانیوں کے جوان۔۔ کیسے گزر گئے!
وہ گزر گئے ہمیں خاکِ بے کسی جان کر
نہ کبھی ہماری صدا سنی
وہ صدا کہ جس کی ہر ایک لے
کبھی شعلہ تھی، کبھی رنگ تھی
کبھی دل ہوئی، کبھی جان بنی!

وہ نمی، وہ خلوتِ ترش بو
جو اجالا ہوتے ہی
قحبہ گاہوں میں آپ پائیں
وہی خامشیِ دراز مو، وہی سائیں سائیں
کہ جو بنک خانوں کے آس پاس
تمام رات ہے رینگتی
وہی اس مزار کی خامشی
جو ہماری ہست پہ حکمراں
جو ہماری بُود پہ خندہ زن!

مگر آرزوئیں،
وہ سائے عہدِ گزشتہ کے،
کبھی واردات کے بال و پر
کبھی آنے والے دنوں کا پرتوِ زندہ تر
وہ ہوائیں ہیں کہ سدا سے
آگ کے رقصِِ وحشی و بے زمام میں ہانپتی
کبھی گھر کے سارے شگاف و درز میں چیختی
کبھی چیختی ہیں پلک لگے
کبھی چیختی ہیں سحر گئے!

ابھی سامنے ہے وہ ثانیہ
جسے میرے خوابوں نے
شب کے ناخنِ تیز تر سے بچا لیا
اسی ثانیے میں وہ شیشے پیکر و جاں کے
پھر سے سمیٹ لوں
جو انہی ہواؤں کے زور سے
گرے اور ٹوٹ کے ماہ و سال کے رہ گزر
میں بکھر گئے
کہ نہیں ہیں اپنی بہا میں دیدۂ تر سے کم
جو مدار، حدِّ نظر سے کم!
میں ہوں آرزو کا۔۔۔
امید بن کے جو دشت و در میں
بھٹک گئی۔۔۔۔

میں ہوں تشنگی کا
جو کناتِ آب کا خواب تھی
کہ چھلک گئی ۔۔۔۔

میں کشادگی کا ۔۔۔
جو تنگ نائے نگاہ و دل میں
اتر گئی ۔۔۔۔
میں ہوں یک دلی کا ۔۔
جو بستیوں کی چھتوں پہ
دودِ سیاہ بن کے بکھر گئی ۔۔۔
میں ہوں لحنِ آب کا،
رسمِ باد کا، وردِ خاک کا نغمہ خواں!

یہ بجا کہ ہست ہزار رنگ سے جلوہ گر
مگر اک حقیقتِ آخریں
یہی آستانۂ مرگ ہے!
یہ بجا سہی
کبھی مرگ اپنی نفی بھی ہے
(وہی مرگ سال بہ سال آپ نے جی بھی ہے)
وہی ہولِ جاں کی کمی بھی ہے
یہی وہ نفی تھی کہ جس کے سایے میں
آپ (میرے مراقبے کی طرح)
برہنہ گزر گئے
یہ اسی کمی کی تھی ریل پیل
کہ آپ اپنی گرسنگی کی ندی
کے پار اتر گئے
کبھی آسماں و زمیں پہ (دورِ خزاں میں)
بوئے عبیر و گل کی سخاوتوں کی مثال
آپ بکھر گئے۔۔۔۔
ابھی تک (مرا یہ مشاہدہ ہے)
کہ اس مزار کے آس پاس
عبیر و گل کی لپٹ سے
زائروں، رہروؤں کے نصیب
جیسے دمک اٹھے
تو ہزار نام بس ایک نام کی گونج بن کے
جھلک اٹھے
تو تمام چہروں سے ایک آنکھ
تمام آنکھوں سے اک اشارہ
تمام لمحوں سے ایک لمحہ برس پڑا
تو پھر آنے والے ہزار قرنوں کی شاہراہیں
(جو راہ دیکھتے تھک گئی تھیں)
شرار بن کے چمک اٹھیں!

یہ بجا کہ مرگ ہے اک حقیقتِ آخریں
مگر ایک ایسی نگاہ بھی ہے
جو کسی کنوئیں میں دبی ہوئی
کسی پیرہ زن (کہ ہے مامتا میں رچی ہوئی)
کی طرح ہمیں
ہے ابد کی ساعتِ نا گزیر سے جھانکتی
تو اے زائرو،
کبھی نا وجود کی چوٹیوں سے اتر کے تم
اسی اک نگاہ میں کود جاؤ
نئی زندگی کا شباب پاؤ
نئے ابر و ماہ کے خواب پاؤ!
نہیں مرگ کو (کہ وہ پاک دامن و نیک ہے)
کسی زمزمے کو فسردہ کرنے سے کیا غرض؟
وہ تو زندہ لوگوں کے ہم قدم
وہ تو ان کے ساتھ
شراب و نان کی جستجو میں شریک ہے
وہ نسیم بن کے
گُلوں کے بیم و رجا میں
ان کی ہر آرزو میں شریک ہے
وہ ہماری لذتِ عشق میں،
وہ ہمارے شوقِِ وصال میں،
وہ ہماری ہُو میں شریک ہے
کبھی کھیل کود میں ہوں جو ہم
تو ہمارے ساتھ حریف بن کے ہے کھیلتی
کبھی ہارتی کبھی جیتتی۔۔۔۔۔
کسی چوک میں کھڑے سوچتے ہوں
کدھر کو جائیں؟
تو وہ اپنی آنکھیں بچھا کے راہ دکھائے گی۔۔۔
جو کتاب خانے میں جا کے کوئی کتاب اٹھائیں
تو وہ پردہ ہائے حروف ہم سے ہٹائے گی،
وہ ہماری روز کی گفتگو میں شریک ہے!

تو، مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو
مری آرزو کے درخت مجھ کو دکھا بھی دو
وہ گلی گلی جو گرا رہے ہیں دو رویہ
کتنے ہزار سال سے برگ و گل ۔۔۔۔
مجھے دیکھنے دو وہی سحر،
وہی دن کا چہرۂ لازوال،
وہ دھوپ
جس سے ہماری جلد سیاہ تاب ازل سے ہے
مجھے اس جنوں کی رہِ خرام پہ لے چلو
نہیں جس کے ہاتھ میں مو قلم
نہیں واسطہ جسے رنگ سے
فقط ایک پارۂ سنگ سے
ہے کمالِ نقش گرِ جنوں!

اے مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو!
مرے ساتھ ایک ہجوم ہے
میں جہاں ہوں
زائروں کے ہجوم بھی ساتھ ہیں
کہ ہم آج
معنی و حرف کی شبِ وصلِ نو
کی برات ہیں!


(ن م راشد)
 
Top