شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے

شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
حُسن سے عشق ہو گیا ہے مجھے

بندہ پرور! جُنوں کی بات نہیں
ایک صحرا پُکارتا ہے مجھے

کچھ مَقامات پر نظر کر کے
راستوں نے بھی طے کیا ہے مجھے

بڑی بھٹکی ہوئی نِگاہ سہی
سامنے کوئی دیکھتا ہے مجھے

توُ نے، اے بوُئے آرزُو! تُو نے
تُو نے بَرباد کر دیا ہے مجھے

عِشق ہے یا بَلا ہے ناہَنجار
کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے مجھے

شِعر دُرِّ یتیم تھا راحیؔل
راہِ غم میں پڑا مِلا ہے مجھے

راحیؔل فاروق​
مشمولہ زار
 
راحیل فاروق بھائی کیا کہنے ۔۔
بہت خوب اعلیٰ ۔۔
پوری غزل ہی اچھی ہے
بندہ پرور! جُنوں کی بات نہیں
ایک صحرا پُکارتا ہے مجھے
کیا بات ہے !! واہ۔
کچھ مَقامات پر نظر کر کے
راستوں نے بھی طے کیا ہے مجھے
اچھا ہے۔
عِشق ہے یا بَلا ہے ناہَنجار
کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے مجھے
واہ۔۔۔
 
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
حُسن سے عشق ہو گیا ہے مجھے

بندہ پرور! جُنوں کی بات نہیں
ایک صحرا پُکارتا ہے مجھے

کچھ مَقامات پر نظر کر کے
راستوں نے بھی طے کیا ہے مجھے

بڑی بھٹکی ہوئی نِگاہ سہی
سامنے کوئی دیکھتا ہے مجھے

توُ نے، اے بوُئے آرزُو! تُو نے
تُو نے بَرباد کر دیا ہے مجھے

عِشق ہے یا بَلا ہے ناہَنجار
کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے مجھے

شِعر دُرِّ یتیم تھا راحیؔل
راہِ غم میں پڑا مِلا ہے مجھے

راحیؔل فاروق​
مشمولہ زار
جناب راحیل فاروق صاحب ۔ آ پ کا مطلع درست نہیں ہے ۔ آپ نے شہرہ آفاق لکھا ہے جبکہ صحیح لفظ شہرہء آفاق ہے ۔ چنانچہ مصرع وزن سے خارج ہوگیا ۔
تیسرا شعر سمجھ میں نہیں آیا ۔ کن مقامات کی بات ہورہی ہے؟ ان مقامات کی وضاحت کے بغیر تو شعر مہمل ہے ۔
اس کے علاوہ ایک شعر مین عشق کیلئے ناہنجار کا اس طرح استعمال ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے ۔ عشق کے لئے کاٹ کھانے کو دوڑنے کا محاورہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ۔ مجموعی طور پر یہ شعر اچھا تاثر نہہیں چھوڑ رہا ۔
مقطع کے لئے داد حاضر ہے ۔ اچھا خیال اور اچھی بندش ہے ۔
 
اس کے علاوہ ایک شعر میں آپ نے بوئے آرزو کی ترکیب استعمال کی ہے ۔ بوئے آرزو کیا چیز ہے؟؟ پہلے نہ کبھی سنا نہ پڑھا ۔
اسے خوئے آرزو کر کے دیکھئے ۔ شعر با معنی ہوجائے گا ۔
 
جناب راحیل فاروق صاحب ۔ آ پ کا مطلع درست نہیں ہے ۔ آپ نے شہرہ آفاق لکھا ہے جبکہ صحیح لفظ شہرہء آفاق ہے ۔ چنانچہ مصرع وزن سے خارج ہوگیا ۔
حافظؔ کا شعر ہے:
دل می رود زدستم، صاحب دلاں خدارا
دردا کہ رازِ پنہاں خواہد شد آشکارا ! ! !
آپ پہلے مصرعے پہ غور کریں گی تو وہ بھی وزن سے خارج ہو جائے گا۔ :sinister:
تیسرا شعر سمجھ میں نہیں آیا ۔ کن مقامات کی بات ہورہی ہے؟ ان مقامات کی وضاحت کے بغیر تو شعر مہمل ہے ۔
راولپنڈی، بھیرہ، ڈجکوٹ وغیرہ مراد ہیں۔
اس کے علاوہ ایک شعر مین عشق کیلئے ناہنجار کا اس طرح استعمال ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے ۔
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ۔۔۔​
مومنؔ کے اس شعر کی گرانی تلے تو ذوقِ سلیم یقیناً دفن ہو گیا ہو گا! نازکی اس کے لب کی اور پھکڑ۔ ہائے ہائے!
عشق کے لئے کاٹ کھانے کو دوڑنے کا محاورہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ۔
بوئے آرزو کیا چیز ہے؟؟ پہلے نہ کبھی سنا نہ پڑھا ۔
اس دلیل کی ٹکر کی ایک دلیل شفیق الرحمٰن صاحب نے کہیں دی تھی۔ کچھ ایسا فرمایا تھا کہ آخری بچہ عموماً بگڑ جاتا ہے۔ لہٰذا آخری بچہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں آپ کے نکتہءِ نظر سے صد فی صد متفق ہوں۔ کسی محاورے یا ترکیب کے پہلی دفعہ استعمال پر سخت پابندی ہونی چاہیے۔ کیونکہ نازک نازک ذوق ہائے سلیم اتنا بوجھ نہیں سہار سکتے۔
ہم بھی غمگین سے ہیں آج کہیں
صبح اٹھے تھے دیکھ تیرا منہ۔۔۔
مومن خان مومنؔ​
 
جناب راحیل صاحب ۔ آپکے جوابات پر نمبر وار گفتگو کرتی ہوں -
(1)مطلع کے بارے میں میرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے شہرہء آفاق کی ترکیب کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا ہے ۔ اگر اس کو شہرہ آفاق پڑھیں تو وزن ٹھیک ہے لیکن اگر ترکیب کو صحیح تلفظ سے پڑھا جائے تو آپکا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ آپ نے جواب میں حافظ کا شعر نقل کیا ہے جس کا میرے اعتراض سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ۔ یعنی ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ؟ سیدھا سیدھا کہئے کہ آپ کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ۔ غلط اور کمزور تلفظ صرف آپ ہی کا نہیں بلکہ آج کل بہت سارے دوسرے نئے شعرا کا ایک عام مسئلہ ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ کسی معیاری لغت ( نوراللغات) وغیرہ سے دیکھ لیں ۔

(2) مقامات کے حوالے سے آپ نے "راولپنڈی، بھیرہ، ڈجکوٹ" وغیرہ لکھا ۔ اگر انہیں شعر میں بھی باندھ دیتے تو بہتر تھا تاکہ شعر کا ابلاغ ہوجاتا۔ بھائی صاحب ۔ آپکا یہ شعر ایک لفظی الٹ پھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ شاعر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ راستے نے اسے طے کیا اور وجہ اس کی " کچھ مَقامات پر نظر کر کے" بیان کی ہے ۔ تو لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے مقامات تھے کہ جنکی طرف راستے نے نظر کی ۔ ان مقامات کی طرف اشارہ کئے بغیر تو شعر ایک لفظی الٹ پھیر ہے ۔ آپ ہی کے اس شعر کی طرز پر میں ایک شعر لکھتی ہوں -
موسموں پر مرے نظر کرکے
تشنگی نے مری پیا مجھ کو

اگر آپ اس شعر کا مطلب سمجھ جائیں تو پھر آپ کا شعر ٹھیک ہے ۔ بھائی صاحب لفظی الٹ پھیر اور اچھی شاعری میں فرق ہے ۔

(3) مومن کا جو شعر آپ نے گالیوں کے ضمن میں نقل کیا ہے اس میں کون سا لفظ ناگوار اور نامعقول ہے کہ جو ذوق پر گراں گزرے ؟؟!! اپنے شعر میں تو آپ نے بلا کو ناہنجار کہا ہے ۔ تو گویا بلا ناہنجار کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتی ہے ؟؟!! اگر ناہنجار عشق کو کہا ہے تو پھر اس شعر میں سخت تعقید ہے ۔ اس کے علاوہ کاٹ کھانے کو دوڑنا خارجی اشیاء کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ عشق خارجی نہیں بلکہ ایک داخلی کیفیت ہے ۔ اس لئے آپکا یہ شعر عجزِ بیان اور زبان کی پستی کا نمونہ ہے ۔ اسی لئے کہا کہ اچھا تاثر نہین چھوڑتا ۔

(4) بوئے آرزو کے بارے میں میرا سوال یہ تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے ۔ اس کا پہلے سننا یا پڑھنا تو ایک ثانوی تبصرہ تھا ۔ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا کہ بوئے آرزو کیا چیز ہے ۔ بھائی صاحب ۔ شاعرکا کام لفظوں کو جیسے چاہے استعما ل کرنا نہیں بلکہ اس طرح سے استعمال کرنا ہوتا ہے کہ قاری تک اس کا ابلاغ بھی ہوسکے ۔ اگر آپ کوئی نئی ترکیب استعمال کر رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ شعر کے سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو ورنہ قاری کے لئے تو وہ نئی ترکیب بے معنی ہے ۔ شعر کا مطلب تو پھر شاعر کے پیٹ ہی میں رہ جاتا ہے ۔ آپ کے مذکورہ شعر میں کوئی ایسا اشارہ یا کنایہ سرے سے موجود ہی نہٰیں جو بوئے آرزو کے معنی قاری تک پہنچا سکے ۔ اگر میں آپ ہی کے اس شعر کو یوں کہوں :
توُ نے، اے رنگِ آرزُو! تُو نے
تُو نے بَرباد کر دیا ہے مجھے
تو بات سمجھ آتی ہے ۔ کیونکہ رنگ کا مطلب " طور ، انداز ، طریقہ ، ڈھنگ" بالکل معروف ہے اور شعر کا ابلاغ ہوتا ہے ۔ لیکن بوئے آرزو کیا بلا ہے ۔ وضاحت آپکےذمہ ہے ۔ ورنہ مان لیجئے کہ یہ شعر بھی مہمل ہے ۔

چونکہ آپ نے اپنی شاعری ایک پبلک فورم پر پیش کی اس لئ ایک قاری کی حیثیت سے یہ میری کچھ معروضات تھیں ۔ باقی اپ اپنی غزل کے بارے میں پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آپ پ کے نزدیک یہ "خوب " ہے ۔

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے

زیادہ حد ادب

راحیل فاروق
 
دل می رود زدستم، صاحب دلاں خدارا
دردا کہ رازِ پنہاں خواہد شد آشکارا ! ! !
مطلع کے بارے میں میرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے شہرہء آفاق کی ترکیب کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا ہے ۔ اگر اس کو شہرہ آفاق پڑھیں تو وزن ٹھیک ہے لیکن اگر ترکیب کو صحیح تلفظ سے پڑھا جائے تو آپکا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ آپ نے جواب میں حافظ کا شعر نقل کیا ہے جس کا میرے اعتراض سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ۔ یعنی ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ؟ سیدھا سیدھا کہئے کہ آپ کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ۔ غلط اور کمزور تلفظ صرف آپ ہی کا نہیں بلکہ آج کل بہت سارے دوسرے نئے شعرا کا ایک عام مسئلہ ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ کسی معیاری لغت ( نوراللغات) وغیرہ سے دیکھ لیں ۔
بی بی، صاحب دل کا لفظ کبھی سنا ہے آپ نے؟
صاحبِ دل سنا ہو گا نا؟
اب شعر کو دوبارہ پڑھیے۔ آنکھ کو افاقہ ہو گا اور گھٹنے پہ ضربِ کلیم وارد ہو جائے گی۔ اگر آپ مجھے جانتی ہوتیں تو تلفظ کا گلہ نہ کرتیں۔
مقامات کے حوالے سے آپ نے "راولپنڈی، بھیرہ، ڈجکوٹ" وغیرہ لکھا ۔ اگر انہیں شعر میں بھی باندھ دیتے تو بہتر تھا تاکہ شعر کا ابلاغ ہوجاتا۔ بھائی صاحب ۔ آپکا یہ شعر ایک لفظی الٹ پھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ شاعر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ راستے نے اسے طے کیا اور وجہ اس کی " کچھ مَقامات پر نظر کر کے" بیان کی ہے ۔ تو لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے مقامات تھے کہ جنکی طرف راستے نے نظر کی ۔ ان مقامات کی طرف اشارہ کئے بغیر تو شعر ایک لفظی الٹ پھیر ہے ۔ آپ ہی کے اس شعر کی طرز پر میں ایک شعر لکھتی ہوں -
موسموں پر مرے نظر کرکے
تشنگی نے مری پیا مجھ کو

اگر آپ اس شعر کا مطلب سمجھ جائیں تو پھر آپ کا شعر ٹھیک ہے ۔ بھائی صاحب لفظی الٹ پھیر اور اچھی شاعری میں فرق ہے ۔
مراد اس قدر تھی کہ جس راہ پر شاعر گامزن ہے اس میں کچھ مقامات نہایات عظیم ہیں۔ اس عظمت کی جستجو کرنا بھی چونکہ منجملہ محاسن ہے تو راہ قدر افزائی کے طور پر آسان ہو گئی۔ دوسرے اس تاویل کی گنجائش ہے کہ سالک(مسافر) کے مقامات (تصوف پڑھا کبھی آپ نے؟) پر نظر کر کے راہ نے مسافت میں مدد کی۔
اب اپنی مثال پر غور فرمائیے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ۔۔۔​
مومنؔ کے اس شعر کی گرانی تلے تو ذوقِ سلیم یقیناً دفن ہو گیا ہو گا! نازکی اس کے لب کی اور پھکڑ۔ ہائے ہائے!
مومن کا جو شعر آپ نے گالیوں کے ضمن میں نقل کیا ہے اس میں کون سا لفظ ناگوار اور نامعقول ہے کہ جو ذوق پر گراں گزرے ؟؟!!
اشارہ تو ہم نے کیا تھا۔ میرؔ نے جن لبوں کی نزاکت کو گلاب کی پنکھڑی سے جا ملایا، مومنؔ اسی سے بے تحاشا گالیاں برآمد کرا رہے ہیں۔ چھوٹا موٹا ذوق تو یہ ستم نہیں سہار سکتا نا!
اپنے شعر میں تو آپ نے بلا کو ناہنجار کہا ہے ۔ تو گویا بلا ناہنجار کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتی ہے ؟؟!!
حافظؔ پھر یاد آ گئے:
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا؟​
اب بندہ پوچھے حافظؔ صاحب سے کہ کوئی شب ایسی بھی ہوتی ہے جو تاریک نہ ہو؟ تسی وی حافظ ای او۔۔۔ نیز حافظ خدا تمھارا!
بوئے آرزو کے بارے میں میرا سوال یہ تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے ۔ اس کا پہلے سننا یا پڑھنا تو ایک ثانوی تبصرہ تھا ۔ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا کہ بوئے آرزو کیا چیز ہے ۔ بھائی صاحب ۔ شاعرکا کام لفظوں کو جیسے چاہے استعما ل کرنا نہیں بلکہ اس طرح سے استعمال کرنا ہوتا ہے کہ قاری تک اس کا ابلاغ بھی ہوسکے ۔ اگر آپ کوئی نئی ترکیب استعمال کر رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ شعر کے سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو ورنہ قاری کے لئے تو وہ نئی ترکیب بے معنی ہے ۔ شعر کا مطلب تو پھر شاعر کے پیٹ ہی میں رہ جاتا ہے ۔ آپ کے مذکورہ شعر میں کوئی ایسا اشارہ یا کنایہ سرے سے موجود ہی نہٰیں جو بوئے آرزو کے معنی قاری تک پہنچا سکے ۔
داغؔ فرماتے ہیں:
کتنی راحت فزا تھی بوئے وفا
اس نے دل کو جلا کے دیکھ لیا​
اب رہی بوئے آرزو تو خدا جانے یہ کیا چیز ہو گی۔ ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ رعایت اس شعر میں اتنی ہے کہ اربابِ ذوق کو مزا دے سکے۔ بَربَاد کے لفظ پر غور فرمائیے۔ بَر بَاد کردن فارسی محاورہ تھا جو اردو میں آیا۔ مطلب تھا ہوا میں اڑا دینا۔ اب پھر پڑھیے:
توُ نے، اے بوُئے آرزُو! تُو نے
تُو نے بَرباد کر دیا ہے مجھے
شاعر اپنے اندر جستجو اور خواہش کی بو سے شکوہ کرتا ہے کہ اس کے باعث وہ اجڑ گیا۔ بو کے لفظ سے غالباً آپ کی کوئی ناخوشگوار یادیں وابستہ ہیں ورنہ اس کا مطلب وہ نہیں جو شاید آپ سمجھی ہیں۔ بوئے یار ایک عام ترکیب رہی ہے۔ اس سے بھی مطلبِ سعدی دیگر است۔
آپ کو ایک شعر سنانے کو جی چاہ رہا ہے۔ امید ہے یہ تو آپ سمجھ ہی جائیں گی:
اس میں راہِ سخن نکلتی تھی !
شعر ہوتا ترا شعار اے کاش​
 
آخری تدوین:
(1)مطلع کے بارے میں میرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے شہرہء آفاق کی ترکیب کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا ہے ۔ اگر اس کو شہرہ آفاق پڑھیں تو وزن ٹھیک ہے لیکن اگر ترکیب کو صحیح تلفظ سے پڑھا جائے تو آپکا مصرع وزن سے خارج ہے ۔ آپ نے جواب میں حافظ کا شعر نقل کیا ہے جس کا میرے اعتراض سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ۔ یعنی ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ؟ سیدھا سیدھا کہئے کہ آپ کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ۔ غلط اور کمزور تلفظ صرف آپ ہی کا نہیں بلکہ آج کل بہت سارے دوسرے نئے شعرا کا ایک عام مسئلہ ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ کسی معیاری لغت ( نوراللغات) وغیرہ سے دیکھ لیں ۔
ایک شعر اور مل گیا۔ سعدیؔ کہتے ہیں:
ہر کسے را نتواں گفت کہ صاحب نظر است
عشق بازی دگر و نفس پرستی دگر است !!!
غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ سعدیؔ شیرازی نے صاحبِ نظر کی بجائے صاحب نظر کہا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جہاں ترکیب اس قدر عام ہو جائے کہ غلط فہمی کی گنجائش نہ رہے تو اضافت محذوف ہو سکتی ہے۔ یا ویسے ہی مدعا اتنا صاف ہو کہ دوسری طرف دھیان جانے کا احتمال نہ ہو۔
شاید آپ سوچیں کہ فارسی مثالوں کا اردو سے کیا تعلق؟ تو میں عرض کر دوں کہ اردو میں جو کسرہءِ اضافت استعمال ہوتا ہے وہ اپنی اصل میں فارسی ہی ہے۔
چونکہ آپ نے اپنی شاعری ایک پبلک فورم پر پیش کی اس لئ ایک قاری کی حیثیت سے یہ میری کچھ معروضات تھیں ۔ باقی اپ اپنی غزل کے بارے میں پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آپ پ کے نزدیک یہ "خوب " ہے ۔
آپ کی رائے سر آنکھوں پر۔ بات کرنا تو ہمارا بھی حق ہے، آپ کا بھی۔
خوب والی بات تو مزاحاً کہی تھی۔ آپ کو غزل پسند نہیں آئی۔ میں ذہن میں رکھوں گا۔ آئندہ بہتری کی کوشش ہو گی۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے
سبحان اللہ، ماشاءاللہ، جزاک اللہ وغیرہ کہہ سکتی تھیں!:glasses-cool::glasses-cool::glasses-cool:
 
راحیل صاحب ۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپکی غزل پر سبحان اللہ ، ماشاءاللہ ، جزاک اللہ وغیرہ نہ کہہ سکی۔ البتہ آپ کی تصریحات پڑھ کر بے ساختہ لاحول ولا ضرور پڑھا تھا - آپ نے بیٹھے بیٹھے ایک اصول گھڑ دیا کہ " اصل میں بات یہ ہے کہ جہاں ترکیب اس قدر عام ہو جائے کہ غلط فہمی کی گنجائش نہ رہے تو اضافت محذوف ہو سکتی ہے۔ یا ویسے ہی مدعا اتنا صاف ہو کہ دوسری طرف دھیان جانے کا احتمال نہ ہو۔" اگر آپ کی اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر خالق ِ کائنات ، مالک ِ دو جہاں ، رسول ِ خدا ، چشم ِ آہو ، لب ِ دریا وغیرہ اور ان جیسی دوسری تراکیب کو اضافت کے بغیر استعمال کرنا درست ہوگا کیونکہ یہ سب بہت ہی عام اور کثیرالاستعمال تراکیب ہیں اور ان کا مدعا بھی صاف ہے کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں۔آپ انتہائی عجیب و غریب بات کر رہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنی ایک غلطی کے دفاع میں اور کتنی غلطیاں کرتے ہیں ۔ جہاں تک بات صاحب دل اور صاحب نظر کی ہے یہ مستثنیات میں سے ہیں ۔ بعض اضافی ترکیبات اہلِ زبان میں بغیر کسرہ کےمستعمل ہیں ۔ جیسے شہر مدینہ ، نعت شریف وغیرہ ۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ " اب بندہ پوچھے حافظؔ صاحب سے کہ کوئی شب ایسی بھی ہوتی ہے جو تاریک نہ ہو؟ " شب ِ منور ، شب ِ ماہ ، شب ِ مہتاب وغیرہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ۔؟ حافظ کا جو شعر آپ نے نقل کیا "شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل ۔ ۔کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا؟" اس میں اگر شبِ تاریک کے بجائے صرف شب کہا جائے تو بات ہی نہیں بنتی ۔ شب ِ تاریک کہنے ہی سے صورتحال کی سنگینی کی صحیح عکاسی ہوتی ہے ۔ اس لئے اس مثال کو آپ اپنے دفاع میں استعمال نہیں کرسکتے۔

مقامات اور راستوں والے شعر کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ " مراد اس قدر تھی کہ جس راہ پر شاعر گامزن ہے اس میں کچھ مقامات نہایات عظیم ہیں۔ اس عظمت کی جستجو کرنا بھی چونکہ منجملہ محاسن ہے تو راہ قدر افزائی کے طور پر آسان ہو گئی۔ دوسرے اس تاویل کی گنجائش ہے کہ سالک(مسافر) کے مقامات (تصوف پڑھا کبھی آپ نے؟) پر نظر کر کے راہ نے مسافت میں مدد کی۔" تو پھر یہاں " راستوں " کا نہیں بلکہ" راستے " کا محل ہے ۔ عاشق یا سالک کا راستہ تو ایک ہی ہوتا ہے ۔لیکن اسکے باوجود شعر بہت ہی مبہم ہے اور قاری کا ان معانی تک پہنچنا کہ جو آپ نے بیان کئے بہت مشکل ہے ۔

اس تمام گفتگو سے میرا مقصدبحث برائے بحث یا آپ کی دل آزاری یا نہیں بلکہ صدق دل سے ایک قاری کا نقطہء نظر آپ تک پہنچانا ہے کہ شاید اس فورم پر لکھنے لکھانے کا مقصد بھی یہی ہے ۔ آپ خوش رہیئے ۔:):)
راحیل فاروق



 
آخری تدوین:
راحیل صاحب ۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپکی غزل پر سبحان اللہ ، ماشاءاللہ ، جزاک اللہ وغیرہ نہ کہہ سکی۔ البتہ آپ کی تصریحات پڑھ کر بے ساختہ لاحول ولا ضرور پڑھا تھا - آپ نے بیٹھے بیٹھے ایک اصول گھڑ دیا کہ " اصل میں بات یہ ہے کہ جہاں ترکیب اس قدر عام ہو جائے کہ غلط فہمی کی گنجائش نہ رہے تو اضافت محذوف ہو سکتی ہے۔ یا ویسے ہی مدعا اتنا صاف ہو کہ دوسری طرف دھیان جانے کا احتمال نہ ہو۔" اگر آپ کی اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر خالق ِ کائنات ، مالک ِ دو جہاں ، رسول ِ خدا ، چشم ِ آہو ، لب ِ دریا وغیرہ اور ان جیسی دوسری تراکیب کو اضافت کے بغیر استعمال کرنا درست ہوگا کیونکہ یہ سب بہت ہی عام اور کثیرالاستعمال تراکیب ہیں اور ان کا مدعا بھی صاف ہے کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں۔آپ انتہائی عجیب و غریب بات کر رہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنی ایک غلطی کے دفاع میں اور کتنی غلطیاں کرتے ہیں ۔ جہاں تک بات صاحب دل اور صاحب نظر کی ہے یہ مستثنیات میں سے ہیں ۔ بعض اضافی ترکیبات اہلِ زبان میں بغیر کسرہ کےمستعمل ہیں ۔ جیسے شہر مدینہ ، نعت شریف وغیرہ ۔
مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ نے فارسی نہیں پڑھی۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ " اب بندہ پوچھے حافظؔ صاحب سے کہ کوئی شب ایسی بھی ہوتی ہے جو تاریک نہ ہو؟ " شب ِ منور ، شب ِ ماہ ، شب ِ مہتاب وغیرہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ۔؟ حافظ کا جو شعر آپ نے نقل کیا "شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل ۔ ۔کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا؟" اس میں اگر شبِ تاریک کے بجائے صرف شب کہا جائے تو بات ہی نہیں بنتی ۔ شب ِ تاریک کہنے ہی سے صورتحال کی سنگینی کی صحیح عکاسی ہوتی ہے ۔ اس لئے اس مثال کو آپ اپنے دفاع میں استعمال نہیں کرسکتے۔
یہی تو نکتہ ہے بی بی۔ صرف شدت پیدا کرنے لیے ناہنجار کہا تھا۔ اور توقع سے کہیں زیادہ شدت پیدا ہو گئی!
مقامات اور راستوں والے شعر کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ " مراد اس قدر تھی کہ جس راہ پر شاعر گامزن ہے اس میں کچھ مقامات نہایات عظیم ہیں۔ اس عظمت کی جستجو کرنا بھی چونکہ منجملہ محاسن ہے تو راہ قدر افزائی کے طور پر آسان ہو گئی۔ دوسرے اس تاویل کی گنجائش ہے کہ سالک(مسافر) کے مقامات (تصوف پڑھا کبھی آپ نے؟) پر نظر کر کے راہ نے مسافت میں مدد کی۔" تو پھر یہاں " راستوں " کا نہیں بلکہ" راستے " کا محل ہے ۔ عاشق یا سالک کا راستہ تو ایک ہی ہوتا ہے ۔لیکن اسکے باوجود شعر بہت ہی مبہم ہے اور قاری کا ان معانی تک پہنچنا کہ جو آپ نے بیان کئے بہت مشکل ہے ۔
شعر فہمیءِعالمِ بالا معلوم شد۔
جونؔ کا ایک شعر بے طرح یاد آ رہا ہے۔ مگر یقین نہیں کہ آپ پر درست بیٹھے گا۔ لہٰذا نہیں سناتا!
ویسے آپ خود اچھے شعر کہتی ہیں۔ بحث میں بھی یدِ طولیٰ رکھتی ہیں۔ آپ کے میاں یقیناً جنت میں جائیں گے۔
 
Top