شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

دِلِ وِیراں میں تابؔش! کیوں تمنّائیں بَساتے ہو
بڑے ناداں ہو، صحرا بھی کوئی آباد کرتا ہے

تابؔش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ گرم و خنک شام و سحر ہم نہیں بُھولے
دِلّی کی ابھی تک ہے ہَمَیں آب و ہَوا یاد

تابؔش وہ کسی طور بُرے ہوں کہ بھلے ہوں
ہے عُمر کے گُزرے ہُوئے لمحوں کی سزا یاد

تابؔش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

اِ س خاک و خُوں میں اہلِ کراچی کا درد مند !
شاعر، ادیب کوئی نہیں ، کوئی بھی نہیں

تابؔش ! نہ چھیڑ اہلِ سیاست کا تذکرہ
اِن میں لبیب کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں

تابؔش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

مایُوس نہ ہو اُداس راہی
پھر آئے گا دَورِ صُبح گاہی

اے منتظرِ طُلوعِ فردا
بدلے گا جہانِ مُرغ و ماہی

پھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر
مِٹنے کو ہے نازِ کج کُلاہی

اِنصاف کا دِن قرِیب تر ہے
پھر داد طَلب ہے بے گُناہی

پھر اہلِ وَفا کا دَور ہوگا
ٹُوٹے گا طلِسمِ جم نِگاہی

آئینِ جہاں بدل رہا ہے
بدلیں گے اوامر و نواہی

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

عِشق کی زمزمہ سنجی ہے ہے
ولولہ ناک میں دَم لاتا ہے

مدد اے کشمکشِ شوق! کہ پِھر
دِل کہیں کھینچے لیے جاتا ہے

مومن خاں مومنؔ
 

طارق شاہ

محفلین

گُریزاں وقت کو دامن پکڑ کر روک سکتے ہیں
تِرے خُدّام میں وہ قوّتِ اعجاز ہے ساقی

کُلاہِ قیصر و جمشید کو ٹُھکرا کے چلتے ہیں
تِرے مستوں کو اپنے فقر پر وہ ناز ہے ساقی

جوشؔ ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

شام کیوں رقصاں نہ ہو صُبحِ جِناں کی چھاؤں میں
قُلقُلِ مِینا، پَر افشاں ہے، اذاں کی چھاؤں میں

زندگانی کا تموُّج ، نوجوانی کی ترنگ !
چرخ زن ہے فرق پر ابرِ رَواں کی چھاؤں میں

موت ہے شرمندہ پیشِ آب و رنگِ زندگی
چاند ہے صد پارہ دامانِ کَتاں کی چھاؤں میں

زندگی بیٹھی ہے آکر آج اِک مُدّت کے بعد
گنبدِ شیریں لحان و مہوشاں کی چھاؤں میں

جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

پُوچھی جو دَوا ہم نے طبیبوں سے ، تو بولے !
بیماری نہیں ہے، یہ بَلا اور ہی کُچھ ہے

عناب نہ خطمی ، نہ بنفشہ نہ خیارین !
اِس ڈھب کے مرِیضوں کی دَوا ، اور ہی کُچھ ہے

نظؔیر اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے، رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹُک جم رہے، رہے نہ رہے

رہیں وہ شخص ، جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے، رہے نہ رہے

یہی سمجھ لو ہَمَیں تم ، کہ اِک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے، رہے نہ رہے

نظیر آج ہی چل کر بُتوں سے مِل لیجے
پِھر اشتیاق کا عالَم رہے، رہے نہ رہے

نظؔیر اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

گئی فلک تئیں ، پر اُس کےد ِ ل میں راہ نہ کی
ہماری آہ نے پیدا یہ دستگاہ نہ کی

میاں نظؔیر! ہَمِیں چاہتے رہے سب کو
ہزار حیف، کسی نے ہماری چاہ نہ کی

نظؔیر اکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اُ ن کو جلدی جانے کی، مجھ کو عذابِ جانکنی
دونوں کا دَم ناک میں ہے موت کی تاخیر سے


مومن خاں مومؔن
 
Top