ام نور العين
معطل
ميں نے سنا ہے آپ شعر معر بھی کہتے ہیں ؟
يہ عجيب وغريب سوال مجھے خيالوں كى دنيا سے باہر لے آیا ۔ميرے سامنے چیئر مین خليل کھڑے تھے ۔
۔۔ آپ كو یہ كس نے بتايا؟
۔۔ اجمل نے بتايا ہے ۔
انہوں نے اپنے ساتھ كھڑے ايك حسين وجميل نوجوان كی طرف اشارہ كر کے کہا ۔
۔۔۔ ميں جى ان كا نياز مند ہوں ۔ اجمل نے مصافحے كے ليے ميرى طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ لاہور ميں ہال روڈ پر ميرى دكان ہے ۔
۔۔ میں نے ابھی ابھی ايك نظم کہی ہے ۔سوچا آپ سے اصلاح لے لوں ۔چیئر مین نے ارشاد فرمايا۔
۔۔ آپ پہلے بھی شاعری کرتے رہے ہیں ؟ ميں نے پوچھا ۔
۔۔ آپ ان سے اتنے مشكل سوال نہ پوچھیں ۔ اجمل كے چہرے پر ايك شرير سى مسكراہٹ دوڑ رہی تھی ۔
۔۔۔ انہوں نے شاعری آپ كو ديكھ کر صرف پانچ منٹ پہلے شروع كى ہے ۔
۔۔۔ واقعى ؟
۔۔۔ ہاں جی آپ نظم سنیں ۔چئیر مین بولے اور پھر زبانی رواں ہو گئے ۔
ََ
تم مجھ سے پوچھتے ہو میں کون ہوں ؟
میں وہی ہوں جس کے متعلق تم پوچھتے ہو
کہ میں کون ہوں ؟
جہاز كے شور سے ميرے کان ميں کھجلی ہونے لگی ہے
اور تم پوچھتے ہو کہ میں کون ہوں ؟
میں نے ائیر ہوسٹس سے اس كا نام پوچھا
اس نے مجھ سے پوچھا تم كون ہو ؟
ميں نے کہا میں وہی ہوں جس كے متعلق تم صديوں سے ہر ايك سے پوچھتی آ رہی ہو کہ میں كون ہوں ؟
۔۔۔ سبحان اللہ ! ميں نے موقع پر داد دے کر نظم كو ايمر جنسى بريك لگائی ۔
۔۔۔ قاسمى صاحب ! آپ مجھے اپنى شاگردى ميں لے لیں ۔
۔۔۔ شاگردى ميں ايسے ہی نہیں لے ليا جاتا، اجمل نے درميان ميں مداخلت كى۔ اس كے ليے پہلے استاد كى خاطر خدمت كرنا پڑتی ہے ۔
۔۔۔ ميں ہر خدمت كو تيار ہوں ۔ چیئر مین خليل نے کہا ۔ " ويسے قاسمى صاحب، يہ بتائيں نظم كيسى ہے؟ اور كيا ميں شاعر بن سكتا ہوں ؟
۔۔ نظم سن كر ميرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ، شاعر بننے كا كيا سوال؟ آپ شاعر بن چکے ہیں ! مبارك باد قبول فرمائيں ۔ان دنوں ہمارے ہاں اسى قسم كى شاعرى ہو رہی ہے ۔ويسے اب سو جانا چاہیے ۔ابھی سفر بہت پڑا ہے ۔
۔۔۔ اسے اب نيند كہاں آنی ہے قاسمى صاحب ؟ اجمل نے كہا ۔ آپ تو اسے شاعر قرار دے كر آرام سے سونے كى تيارياں كرنے لگے ہیں، یہ اپنے ساتھ اب ہمارى بھی نينديں حرام كرے گا !
(اقتباس: دنيا خوب صورت ہے ۔ عطاء الحق قاسمى)
يہ عجيب وغريب سوال مجھے خيالوں كى دنيا سے باہر لے آیا ۔ميرے سامنے چیئر مین خليل کھڑے تھے ۔
۔۔ آپ كو یہ كس نے بتايا؟
۔۔ اجمل نے بتايا ہے ۔
انہوں نے اپنے ساتھ كھڑے ايك حسين وجميل نوجوان كی طرف اشارہ كر کے کہا ۔
۔۔۔ ميں جى ان كا نياز مند ہوں ۔ اجمل نے مصافحے كے ليے ميرى طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ لاہور ميں ہال روڈ پر ميرى دكان ہے ۔
۔۔ میں نے ابھی ابھی ايك نظم کہی ہے ۔سوچا آپ سے اصلاح لے لوں ۔چیئر مین نے ارشاد فرمايا۔
۔۔ آپ پہلے بھی شاعری کرتے رہے ہیں ؟ ميں نے پوچھا ۔
۔۔ آپ ان سے اتنے مشكل سوال نہ پوچھیں ۔ اجمل كے چہرے پر ايك شرير سى مسكراہٹ دوڑ رہی تھی ۔
۔۔۔ انہوں نے شاعری آپ كو ديكھ کر صرف پانچ منٹ پہلے شروع كى ہے ۔
۔۔۔ واقعى ؟
۔۔۔ ہاں جی آپ نظم سنیں ۔چئیر مین بولے اور پھر زبانی رواں ہو گئے ۔
ََ
تم مجھ سے پوچھتے ہو میں کون ہوں ؟
میں وہی ہوں جس کے متعلق تم پوچھتے ہو
کہ میں کون ہوں ؟
جہاز كے شور سے ميرے کان ميں کھجلی ہونے لگی ہے
اور تم پوچھتے ہو کہ میں کون ہوں ؟
میں نے ائیر ہوسٹس سے اس كا نام پوچھا
اس نے مجھ سے پوچھا تم كون ہو ؟
ميں نے کہا میں وہی ہوں جس كے متعلق تم صديوں سے ہر ايك سے پوچھتی آ رہی ہو کہ میں كون ہوں ؟
۔۔۔ سبحان اللہ ! ميں نے موقع پر داد دے کر نظم كو ايمر جنسى بريك لگائی ۔
۔۔۔ قاسمى صاحب ! آپ مجھے اپنى شاگردى ميں لے لیں ۔
۔۔۔ شاگردى ميں ايسے ہی نہیں لے ليا جاتا، اجمل نے درميان ميں مداخلت كى۔ اس كے ليے پہلے استاد كى خاطر خدمت كرنا پڑتی ہے ۔
۔۔۔ ميں ہر خدمت كو تيار ہوں ۔ چیئر مین خليل نے کہا ۔ " ويسے قاسمى صاحب، يہ بتائيں نظم كيسى ہے؟ اور كيا ميں شاعر بن سكتا ہوں ؟
۔۔ نظم سن كر ميرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ، شاعر بننے كا كيا سوال؟ آپ شاعر بن چکے ہیں ! مبارك باد قبول فرمائيں ۔ان دنوں ہمارے ہاں اسى قسم كى شاعرى ہو رہی ہے ۔ويسے اب سو جانا چاہیے ۔ابھی سفر بہت پڑا ہے ۔
۔۔۔ اسے اب نيند كہاں آنی ہے قاسمى صاحب ؟ اجمل نے كہا ۔ آپ تو اسے شاعر قرار دے كر آرام سے سونے كى تيارياں كرنے لگے ہیں، یہ اپنے ساتھ اب ہمارى بھی نينديں حرام كرے گا !
(اقتباس: دنيا خوب صورت ہے ۔ عطاء الحق قاسمى)