شرعی پردہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ (وعظ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
وعظ
شرعی پردہ پر قرآنی احکام کی تفصیل
(ربیع الثانی 1403ھ )
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرورانفسناو من سئیات اعمالنامن یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و نشھد ان محمد اً عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ و صحبہ اجمعین ۔امابعد
فا عوذ باللہ من الشیطن الرجیم ۔۔۔ بسم اللہ الرحمنِ الرحیم ۔
یا ایھا النبی اذاجا ٔ ک المؤمنت یبایعنک علی ان لایشرکن باللہ شئیا ولایسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولادھن ولایاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن و ارجلھن ولایعصینک فی معروف فبا یعھن واستغرلھن اللہ ان اللہ غفوررحیم۔( 60 : 12 )
''اےنبی ''جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ انہیں ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی جسں کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنا لیں اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ کریں گی تو آپ ان کو بیعت کر لیا کیجئے اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کیا کیجئے بے شک اللہ غفور رحیم ہے '' اس زمانہ میں ایمان پر بیعت ہوا کرتی تھی کہ ہم ایمان لے آئے، جو شخص ایمان لانا چاہتا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کرتا تھا کہ ایمان پر بیعت کر لیجئے ،اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ''جب یہ ایمان کا دعوی کرنے والی عورتیں آئیں اور آپ سے بیعت کی درخواست کریں تو آپ ان سے چند چیزوں کا وعدہ لیں۔''
رسول ﷺ کا عورتوں کو بیعت کرنے کا طریقہ
یہ یاد رکھیں کہ عورتیں جب رسولﷺ کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوتی تھیں تو پردہ میں ہوتی تھیں، پردہ ہی کا بیان چل رہا تھا ،اس لئے یہ بتا رہا ہوں ،رسولﷺ کی ذات گرامی،اشرف المخلوقات اور امت کی عورتیں جن کورسولﷺ کی ذات گرامی پرایمان ہے، وہ عورتیں جو ایمان لانے کے لئے بیعت ہونا چاہتی ہیں تو وہ بھی پردہ سے ،رسولﷺ کے یہاں پردہ ہو رہا ہے ''آپ ﷺ پردہ کروا رہے ہیں ''اب آپ سوچیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بڑے پاک دامن ہیں ہمارے یہاں پردہ کی ضرورت نہیں ''کیا رسولﷺ سے بھی یہ لوگ زیادہ پاک دامن ہیں؟ اور صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن یعنی صحابی عورتوں سے ان کی خواتین زیادہ پاک دامن ہیں؟ رسولﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن جو امت کی مائیں ہیں ان کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے پردہ تھا،توکیا آج کل کی عورتیں جو نماز بھی صحیح نہیں پڑھ سکتیں،بلکہ پاکی اور پلیدی تک کی تمیز نہیں رکھتیں ان سے زیادہ پاک دامن ہیں؟کچھ سوچناتوچاہئے کچھ غور کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ بیعت کے وقت کوئی عورت اپنا ہاتھ رسولﷺ کے ہاتھ میں نہیں دیتی تھی ، خواتین سے بیعت کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ رسولﷺ ان کا ہاتھ پکڑیں ،ہا تھ کے اشارہ سے بیعت ہوتی تھی،ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیا جاتا تھا،رسولﷺ پوری امت کے رسول ہیں،اور والد کے قائم مقام ہیں،یہ تعلق اور یہ رابطہ اورپھررسولﷺ کی ذات اقدس،اس پر پردہ کا اتنا اہتمام۔
شرک سےبڑاگناہ​
فرمایا کہ جب یہ عورتیں آئیں،ایمان پر بیعت کرنے کی درخواست کریں تو آپ بیعت کے وقت ان سے وعدہ لیں کہ ان لایشرکن باللہشیئاسب سے پہلی بات یہ کہ ''اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا'' گذشتہ بیان میں اس پر بات چل رہی تھی یہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے مگر اس میں مرد بھی شامل ہیں عورتوں سے اس بات پر بیعت لینے کا ذکر ہے '' مگر ظاہر ہے کہ مردوں کے لئے بھی یہی احکام ہیں '' اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے '' سوچیں کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک تو نہیں کرتے ؟ میرے وعظ '' ایمان کی کسوٹی '' میں تفصیل سے یہی بیان ہے ، ہر شخص یہ سوچے کہ وہ شرک سے بچتا ہے یا نہیں ؟شرک کا کیا مطلب ؟ اللہ تعالی کے مقابلہ میں غیر کو ترجیح دینا یہی شرک ہے، اللہ تعالی کے برابر کرنا شرک ہے، اور اگر اللہ تعالی سے بھی بڑھا دیا پھر تو وہ شرک سے بھی اونچی بات ہو گئی ،اگر ایک طرف اللہ تعالی کا حکم ہے اور دوسری طرف آپ کے ماحول کا، معاشرہ کا، والدین کا، بھائیوں اور بہنوں کا ، احباب و اقارب کا ،بیوی کا یا بیوی کے لئے میاں کا ، تو دونوں کے درمیان مقابلہ ہو جا تا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمہیں یہ کام کرنے کی اجازت نہیں ،اگر کرو گے تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، دیور اور جیٹھ کے سامنے ''چچا زاد '' پھوپھی زاد کے سامنے '' ماموں زاد ، خالہ زاد کے سامنے، بہنوئی، نندوئی کے سامنے ، پھوپھا، خالو کے سامنے اگر چہرہ کھولا تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، میں نےا سےحرام کردیاہےایساہرگزمت کرنا اور دو سری طرف یہ سارے ''زاد '' کہتے ہیں کہ ہم سے پردہ کیا توہم ناراض ہو جائیں گے دیور کہتا ہے کہ اگر پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا، بہنوئی کہتا ہے پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا، نندوئی کہتا ہے پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، ایسی باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں یہ واقعات میرے علم میں ہیں، ایک خاتون نے بہنوئی اور نند وئی سے پردہ کر لیا تو وہ لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے یہ کہہ کر کہ ہم کبھی اس گھر میں نہیں آئیں گے ، یہ بات سمجھ میں آرہی ہے ؟ شرک سے بڑھ کر گناہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ؟ ایک طرف اللہ تعالی کا حکم اور اس کے مقابلہ میں اعزہ واقارب کے حکم پر عمل ہو رہا ہے ان کے ہر حکم پر اللہ تعالی کے حکم سے بڑھا کر عمل کر رہے ہیں '' ان کا حکم مان رہے ہیں '' اللہ تعالی کا حکم نہیں مان رہے '" شرک اسے کہتے ہیں کہ کسی کو اللہ تعالی کے برابر کردیا جائے '' مگر آج کا مسلمان برابر تو کیا اللہ تعالی سے بڑھا دیتا ہے "اپنے اعزہ واقارب سے اتنا ڈرتا ہے کہ اللہ تعالی سے اتنا نہیں ڈرتا ''اعزہ واقارب کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اتنی محبت نہیں '' غیر کے حکم کو اتنا مانتا ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کو اتنا نہیں ما نتا"اس کے بعد اپنے نفسں کی طرف آئیے '' اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ گناہ کا کام مت کرنا ''اگر کرو گے تو میں ناراض ہو جاؤں گا'' مگر دل کہتا ہے کہ یہ گناہ بھی کرلو '' یہ گناہ بھی کرلو '' نفس کے تقاضے ہیں کہ گناہ کرو''اللہ تعالی فرماتے ہیں مت کرو ، نفس کہتا ہے کہ گناہ کرو ، ایسے وقت میں آپ کیا کرتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالی کے حکم کو مقدم رکھتے ہیں '' اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اللہ تعالی کا خوف زیادہ ہے '' اللہ تعالی سے محبت زیادہ ہے " ان کی محبت کی وجہ سے اور خوف کی وجہ سے نفسں کے تقاضوں کو اللہ تعالی کی رضا پر قربان کر دیتے ہیں '' اللہ تعالی کی اطاعت کرتے ہیں '' اپنے نفسں کی اطاعت نہیں کرتے تو معاملہ ٹھیک ہے ''اور اگر اللہ تعالی کے حکم کو چھوڑ دیا'' نفسں کی اطاعت کی'' گناہ کے تقاضوں کو پورا کیا '' اللہ تعالی سے نہیں ڈرے '' تو اپنے نفسں کو اللہ تعالی سے بڑا اللہ مانتے ہیں''

[arabic]أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ[/arabic] ( 45 : 23 )
ا فرمایا کہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ اپنی خواہش نفسں کو اللہ بنائے ہو ئے ہیں '' اسی کی اطاعت کرتے ہیں "' اللہ تعالی کی اطاعت نہیں کرتے ''ایک بزرگ کا قصہ اکثر بتاتا رہتا ہوں ''اسے سوچتے رہنا چاہئے '' وہ اکیلے بیٹھے بول رہے تھے :
''نہ میں تیرا بندہ نہ تو میرا اللہ ،تیری بات کیوں مانوں؟''
کسی نےسن لیا حاکم سے شکایت کردی کہ یہ کفر بک رہا ہے، حاکم نے بلا کر پوچھا آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ یہ کہہ رہے تھے :''نہ میں تیرا بندہ نہ تو میرا اللہ ،تیری بات کیوں مانوں ؟''انہوں نے کہا:
''ہاں ٹھیک ہے، میں یہ کہہ تورہ تھا،مگرمیرامطلب ان لوگوں نے نہیں سمجھا،میرا نفس کسی گناہ کا تقاضا کر رہا تھا،اور یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں گناہ کرو ،میں نہیں کر رہا تھا،وہ مجبور کر رہا تھا، بہت اصرار کر رہا تھا کہ یہ گناہ کرلو تومیں نے نفس کو خطاب کر کے یہ کہنا شروع کردیا کہ اے مردودنفس ! نہ میں تیرا بندہ ،نہ تو میرا اللہ ،تیر ی بات کیوں مانوں؟یہ تو میں اپنے نفسں سے کہہ رہا تھا '' نفسں سے کبھی کبھی اسیی باتیں کیا کریں ''جہاں گناہ کے تقاضے پیدا ہوں فورا سوحپئے کے میرا اللہ کون ہے میں کس کا بندہ ہوں بندہ ا یک کا اور غلامی کرے کسی دوسرے کی؟ جو ایسا کرتا ہے اس نے اپنے نفسں کو اللہ تعالی سے بڑا سمجھا ''نفسں کی عظمت زیادہ کی ۔
رزق کا مالک کون ؟
فرمایا کہ بیعت یوں لیجئے:
علی ان لا یشرکن با اللہ شیئا ولایسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولا دھن ۔
''اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔''
نہ ماں کو نہ باپ ،نہ بھائی کو نہ بہن کو،نہ شوہر کونہ بہنوئی کو، نہ نندوئی اور نہ اپنے نفس کو،اللہ تعالی کے حکم کے مقابلہ میں کسی کا حکم نہیں مانیں گی۔
''چوری نہیں کریں گی،بدکاری نہیں کریں گی،اپنی اولادکوقتل نہیں کریں گی۔''
اس زمانہ میں اولاد کو قتل کرنے کا دستور تھا ''بعض لوگ تو صرف لڑکیوں کو قتل کرتے تھے اس جہالت سے کہ کوئی داماد نہ بن جائے''اور بعض لوگ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں ہی کو قتل کرتے تھے کہ رزق کہاں سےآئے گا؟ جیسے آج کل کی نالائق حکومتوں کا خیال ہے ، جب لوگ کوئی دعوت کرتے ہیں تو پچاس کو بلانا ہو تو احتیاطا ساٹھ (60) کا کھانا تیار کرواتے ہیں تاکہ وقت پر کم نہ پڑ جائے ، ضبط تولید کے مشورے دینے والوں کو اتنی عقل بھی نہیں کہ ہم تو سو (100) کی دعوت کریں تو ایک سوپچیس (125)کا کھانا پکوائیں ،اور اللہ تعالی نے جتنے نفوس پیدا فرما دئیے کیا ان کو اس کا علم ہی نہیں کہ ہمیں کتنے نفوس کو کھانا کھلانا ہے، اپنی عقل کو اللہ تعالی کے علم و مصلحت سے بڑی سمجھتے ہیں،معاذ اللہ! معاذ اللہ! اللہ تعالی کو بے وقوف سمجھتے ہیں گویا اللہ تعالی کو یہ پتا ہی نہیں کہ ہم جتنی روحیں پیدا کر رہے ہیں ان سب کا انتظام کرنا ہے، یا یہ کہ معاذ اللہ! اللہ تعالی کہیں کسی کونے میں سوئے پڑے ہیں اور روحیں خود بخود نکلی چلی جا رہی ہیں، ان کو پتا ہی نہیں کہ کتنی پیدا ہو گئیں؟ہائے آج کےمسلمان کو کیا ہو گیا؟کہلائیں مسلمان اور ایسے نظریات ؟ یا اللہ ! یا تو یہ لوگ اسلام کا دعوی چھوڑ دیں یا ان کوصحیح مسلمان بنا دے ۔
اولاد کے قتل سے بڑا جرم :
وہ لوگ اولاد کواس لئے قتل کرتے تھے کہ رزق کہاں سےآئےگا؟قتل کر کے ان کی دنیوی زندگی ختم کر دیتے تھے ، مگراس سے بچوں کا فائدہ ہو جاتا تھا ، وہ یوں کہ وہ بالغ ہو کر حالت کفر میں مر جاتے تو جہنم میں جاتے ، مگر بچپن میں مر جانے کی وجہ سےجنت میں جائیں گے اگر جنت میں نہ بھی گئے تو جہنم میں نہیں جائیں گے،کفار کے نابالغ اولاد مر جائے تواس میں کچھ اختلاف ہے لیکن بہرحال جہنم میں نہیں جائیں گے، عذاب سےبچ گئے ، دنیا کی زندگی باقی نہیں رہی ، بہر حال مرنا تو تھاہی ذرا پہلے مر گئے ، مگر آج کا مسلمان اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو جہنم میں دھکیل رہا ہے ، کافر قتل کر کے اولاد کو جہنم سے بچا لیتے تھے اور آج کا مسلمان اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو جہنم میں دھکیل رہا ہے ، برے ماحول میں بھیجنا ، برے معاشرہ میں تربیت دلانا اپنے ہاتھوں سے جہنم میں بھیجنا ہے ۔
فرمایا کہ اس بات پر بیعت کریں کہ اپنی اولادکوقتل نہیں کریں گی،اللہ ! ذرا سوچئے کہ آج کل آپ لوگ اپنی اولاد کو قتل کرنے سےکہیں زیادہ سخت سزادےرہےہیں یا نہیں دے رہے؟جہنم میں بھیج رہے ہیں یا نہیں۔

اللہ اوراس کےرسول ﷺ پر بہتان لگانا :
ولایاتین ببہتان۔
''کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی''۔
سوچئےکہ کیا آپ خانہ زادرسوم اورخودساختہ بدعات کودین اسلام میں داخل کر کے اللہ تعالی اوراس کےرسولﷺ پر بہتان نہیں لگا رہے؟اس کی تفصیل میرے وعظ"' بد عات مروجہ میں دیکھیں ، جب کسی انسان پر بہتان لگانا جائز نہیں ،اور یہ ایساسخت جرم ہے کہ اس سےبچنے پر بیعت لی جا رہی ہے تو غور کیجئے کہ اللہ تعالی اوراس کےرسول ﷺ پر بہتان لگانا کتنا بڑا جرم ہو گا؟
شرک کے بعد چار باتیں گنوا کر آگے ایک قاعدہ بیان فرما دیا:
ولایعصینک فی معروف۔
''کسی نیک کام میں آپ کے خلاف نہیں کریں گی۔''
آپ کا جو حکم بھی ہوگااس کوتسلیم کریں گی۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا:
میں بیعت ہونے والے کو پہلے کفر، شرک ، بدعت، اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرواتا ہوں ، پھر نماز، زکوٰۃ ، حج ادا کرنے کا وعدہ لیتا ہوں، اس کے بعد یہ وعدہ لیتا ہوں کہ ''میں پوری زندگی شریعت کے مطابق گذاروں گا ''اس زمانے کامسلمان جہادسےبہت ڈرتا ہے،لمبے لمبے وظیفے تو پڑھ لے گا مگر جہاد کے تصور سے بھی جان نکلتی ہے،اس لئے میں بوقت بیعت یہ وعدہ بھی لیتا ہوں:
''اگر اللہ کی راہ میں جان یا مال د دینے کا موقع پیش آیا تو بخوشی دوں گا۔''
اگر کوئی صدق دل سے یہ وعدہ کرتا ہے اور اس پر قائم رہتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے ،انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے دستگیری ہوتی ہے، مدد ہوتی، وہ آخرت کے لئے کوشش کرنے والے کو کبھی محروم نہیں فرماتے۔
رسولﷺ سے جو خواتین بیعت کی درخواست کرتی تھیں ان کے لئے آخری جملہ بیعت میں وعدہ لینے کا یہ ہوتا تھا کہ کسی بات میں بھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گی، جوخواتین رسولﷺ پرایمان کا دعوی کرتی ہیں وہ آپ کی بیعت میں شامل ہو جاتی ہیں، رسولﷺ سے بیعت ہو گئیں، پھر بیعت ہونے کے بعد کہتی ہیں ،کہ جی!پردہ کرنا تو بڑا مشکل ہے، فلاں گناہ چھوڑنا تو بڑا مشکل ہے، مسلمان بنناتو بڑا مشکل ہے ، اگرمسلمان بننا بڑا مشکل ہے تو اس مشکل کام کو چھوڑ دیجئے، کون کہتا ہے کہ آپ مسلمان بنیں، اسلام کو چھوڑ دیجئے، اسلام کوتو نہیں بدلاجاسکتا، اسلام تو وہی رہے گا جو اللہ تعالی نے رسول ﷺ پر نازل فرمایا ، اس کاقانون نہیں بدل سکتا،اگر کسی کو یہ اسلام مشکل لگتا ہے تو چھوڑ دے، اس کومسلمان رہنے کی کیامجبوری ہے ؟جودین بھی آسان لگتا ہے وہی دین اختیار کر لے ۔؂
یا مکن با پیل بانان دوستی
یا بنا کن خانہ برا انداز پیل​
''یا تو ہاتھی والوں سے دوستی مت رکھو ، یا پھر مکان اتنا بڑا تو بناؤ کہ جس میں ہاتھی سماسکے۔''
ان کے ساتھ دوستی ہے تو نبھانے کے طریقے سوچو۔
لمبی چوڑی بات سے کیا فائدہ؟دو ٹوک بات کرو، دو کاموں میں سے ایک کام کرلو، دوغلاپن صحیح نہیں ، یا تو اپنا بدن دوست کی رضا میں فنا کردو، دوست کا جو حکم ہو اس پر اپنے آپ کو مٹا دو''مردہ بدست زندہ''بن جاؤ۔ مردہ کو زندہ لوگ الٹیں پلٹیں،جیسے جی چاہے کریں، دوست کی ر ضاپر اپنی خواہشات کو قربان کردو، مکمل مسلمان بن جاؤ،کوئی اپنی خواہش باقی نہ رہے،اپنے آپ کو اس دوست کے سپردکردو،اور اگرایسا نہیں کرسکتے تو محبت کا دعوی چھوڑ دو، محبت کا دعوی کر کے حکم کے خلاف کرنانفاق ہے، بچپن میں جب مجھے پوری طرح ہوش بھی نہیں آیا تھا ایک شعر کہیں سےسن کر یاد ہو گیا تھا اور وہ میں بہت پڑھا کرتا تھا
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا​
دوغلاپن چھوڑ دیجئے،یاتو موم بن جائیے اور اگر موم بننے کو تیار نہیں تو پتھر بن جایئے ۔
احسب الناس ان یترکواان یقولوا اٰمناوھم لا یفتنون ۔ولقد فتناالذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین(29 : 1 تا 3 )
''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا؟اور ہم تو ان لوگوں کو آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں سو اللہ تعالی ان لوگوں کو جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا
قالت الااعراب امنا قل لم تو منو اولکن قولو اسلمنا ولمایدخل الایمان فی قلو بکم (49 :14 )
ایمان کا دعوی کرنے والے تو بہت ہیں '' فرمایا '' بہت سے لوگ کہتے ہیں : امنا '' وہ غلط کہتے ہیں'' جھوٹ بولتے ہیں '' مومن کون ہوتے ہیں
وما کان لمو من ولا مومنۃ اذاقضی اللہ ورسلہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم من یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا'' (33 : 36 )
'' کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کیلئے کوئی گنجائش نہیں کہ جہاں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ آجائے پھر وہ اسے قبول نہ کرے ''
یہاں صرف ''مومن '' پر اکتفاء نہیں فرمایا ، تاکہ مومن عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ تو مردوں کو کہا گیا ہے ہم تو آزاد ہیں ، ہمارے لئے کچھ نہیں ہے ،اس لئے خاص طور پر صراحت کے ساتھ فرمادیا کہ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ نے کوئی حکم دے دیا تو پھر بندہ کا اپنا اختیار بھی کچھ اس میں ہو، ان کو کوئی اختیار نہیں ،جو حکم ہو گا اس پر عمل کرنا ہو گا اور جو نہیں کرتا وہ سخت گمراہ ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔ (4 : 65 )
کیسا ظالم انسان ہے کہ اللہ تعالی کو بھی قسم کھلا رہا ہے ، اللہ تعالی جانتے ہیں کہ میں نے جن بندوں کو پیدا کیا وہ ایسے نالائق ہوں گے، ایسے نالائق ہوں گے ان کو سمجھانے کی خاطر مجھے قسمیں بھی اٹھانا پڑیں گی، ''فلا وربک''ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، تیرے رب کی قسم! ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا، قسم کھا کر اللہ تعالی نے فرمایا، کیا؟ کبھی کوئی فرد ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا خواہ وہ کچھ بھی کہتا رہے ، اسلام کے کیسے ہی دعوے کرتا رہے، مسلمان ہوں ، مسلمان کا بیٹا ہوں، آج کا مسلمان''عبدالرحمن''سے''رحمن''بن گیا ہے، یہ اچھی ترکیب سوچی ہے،''عبدالرحمن''کہلاتا ہے تو پھرتو کام کرنے پڑیں گے نا، اس لئے''عبد''اتار دو''رحمن''بن جاؤ اب یہ خود ''رحمن''بن گیا ہے خود اللہ بن گیا ہے،اب اس کی حکومت ہے، معاذ اللہ! اللہ بھی اس کا بندہ بن گیا ہے۔ ایک شخص کا نا م '' عبدا اللہ'' تھا ، وہ ٹیلیفون پر بتاتا تھا کہ '' اللہ بو ل رہا ہو ں ''سب ایسے ہی ،'' روف صاحب'' ''حق صاحب'' شکو ر صاحب ''اور اگر کسی نے بہت ہی ر عایت کی تو کیا ہوا؟ ا ے رحمن'' بن گئے، یعنی '' عبد ''بننے میں ذلت ٘محسوس کر تا ہے ، '' عبد'' کے معنی ہیں '' بند ہ اور بند ہ کے معنی ہیں '' غلام '' احکام کوتسلیم کرنے والا اس کو بندہ بننے میں، احکام تسلیم کرنے میں اللہ تعالی کا غلام بننے میں ،اللہ تعالی کے سامنے ذلیل ہونے میں عارآتی ہے، جب اللہ تعالی کا حکم نہیں مانتا تو''رؤف''بھی خود ہی بن گیا، ''رحیم''بھی خود ہی بن گیا ''رحمن''بھی خود ہی بن گیا''عظیم''بھی خود ہی بن گیا، اور اگر کسی نے کہا کہ ارے! کیا کہہ رہے ہو تم اللہ نہیں ہو، تو کہتے ہیں میں تو''اے رحمن''ہوں ''عبد الرحمن '' کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی کا بندہ نہ بن جائے ، اللہ تعا لی کا بندہ بن گیا تو مصیبت آ جا ئے گی ، '' عبدالرحمن '' کبھی نہیں کہے گا ، والد ین نے تو بندہ بنانے کی کوشش کی مگر یہ بندہ بننا نہیں چاہتا ، اللہ کے بند و ! آیندہ ایسا نام کبھی نہ رکھنا'' عبد '' والا نام رکھنا چھوڑ دیجئے ، نتیجہ سامنے ہے ، نام '' عبد الرحمن '' رکھتے ہیں وہ رحمن بن جا تا ہے ۔ ایسے نام رکھنے ہی نہیں چا ہئیں جن کا نتیجہ برا ہو۔
معیاری ایمان
ہاں تو بات چل رہی تھی کہ ہر گز ایمان کا دعوی قبول نہیں ہو گا جب تک کہ آپس کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کا حکم تسلیم نہیں کر لیتے ، صرف یہی نہیں کہ حکم تسلیم کر لیں اس کے سا تھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ کے حکم میں ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہ ہو ، اس پر عمل کرنے میں ذرہ برابر بھی نا گواری نہ ہو ، تو مو من ہوں گے ورنہ مو من نہیں ہوں سکتے ،لوگ کہتے ہیں کہ یہ پردہ وردہ کے احکام بہت مشکل ہیں، آج کل ان پرعمل کرنا بہت مشکل ہے، ذراسوچئےکہ اگر کسی حکومت نے ایسے قوانین بنا دئیے جن پر رعیت کو عمل کرنا مشکل ہو توکیا ہو گا؟ لوگ شور کریں گے کہ یہ بہت سخت قانون ہے، اس پرعمل کرنا بہت مشکل ہے، یہ تو ظلم ہے، یہ حکومت بڑی ظالم ہے، اس کے خلاف جلسے کرو،جلوس نکالو، مردہ باد کے نعرے لگاؤ وغیرہ وغیرہ ۔
 
آج بھی اسلام پرعمل کرناآسان ہے​
سوکیاآپ کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالی بھی معاذ اللہ ! ایسےہی ظالم ہیں کہ ایسے احکام نازل کر دئیے جن پرانسان عمل نہیں کرسکتا، وہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ہم بالکل ظلم نہیں کرتے، ہم بڑے رؤف ہیں ، بڑے ہی رحیم ہیں، بڑے رحمن ہیں، ہم کبھی ظلم نہیں کرتے۔
یریداللہ بکم الیسرولایریدبکم العسر۔(2 : 125 )
ہم تمہارے ساتھ محبت کا معاملہ کرتے ہیں ، ہم تو آسان آسان احکام دیتے ہیں ، ہم تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے ، سوچئے تو رب کریم کے دئیے ہوئے ا حکام ہیں ۔پر وہ بار بار فرما رہے ہیں کہ یہ بہت آسان ہیں ، بہت آسان بہت ہی آسان ،اور مسلمان اللہ تعالی کا بندہ کہلا کر آج یہ کہتا ہے کہ نہیں ان پر تو عمل ہو ہی نہیں سکتا آج کے معاشرہ میں نہیں ہو سکتا ، میرے بارے میں تو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو شروع ہی سے ایسے معاشرہ میں ہے ، اس کے لیے کرنا کرانا کچھ نہیں ، اکیلا بیٹھا ہوا ہے ، کہیں آنا نہ جانا ، کسی سے نہ میل نہ جول ، ارے ! میں بھی اسی دنیا میں پیدا ہوا ہوں ، اور اسی دنیا میں رہ رہا ہوں ،اب بھی رہ رہا ہوں ، کہیں اوپر سے گر نہیں پڑا ، میرا بھی خاندان ہے ،اچھا مجھے چھوڑیئے میں ایسی خواتین کے بارے میں بتا تا رہتا ہوں جن کا پورا خاندان بے پردہ تھا ،اور اب بھی بے پردہ ہے ، اور وہ امریکہ میں خود گاڑی چلایا کرتی تھیں ، ایک نہیں کئی ایسی مثالیں ہیں ، ان خواتین کے قلب پر جب اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوئی تو انہوں نے وہ پردہ کیا وہ پردہ کیا کہ مثال قائم کر کے دکھا دی ، ان کے پردہ پر پورا خاندان ناراض ہے ، ان کی بہنیں ناراض ، بہنوئی ناراض ، نندوئی ناراض ، ماں باپ ناراض ، بھاوجیں ناراض ، اور خود کس ماحول میں رہیں ؟ امریکہ میں،اور امریکہ میں گاڑ ی خود چلاتی تھیں کیاانکاخاند ان نہیں ہے ؟ان کی محببور یاں نہیں ہیں؟کچھ تو سوچیں، انہوں نے پردہ کے حکم پرعمل کیسےکرلیا؟ بات یہ ہے کہ اگرانسان ہمت کر لیتا ہے تو پھر کوئی مجبوری سامنےنہیں آتی، اور جب کام کرنا ہی نہیں ہے تو ہزاروں مجبوریاں ہیں، یا اللہ! تیری وہ رحمت جو ان خواتین کے دلوں پر نازل ہوئی تیرا وہ کرم جس نے ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے دلوں میں ایساعظیم انقلاب آگیا کہ تیرے حکم کے سامنے کسی کی ناراضی کی کوئی پروانہ رہی، یا اللہ! تو یہی رحمت سب مسلمانوں پر نازل فرما، اورسب کی ایسی ہی دستگیری فرما۔
پردہ کو بے کار سمجھنے کا وبال
کچھ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہمارے یہاں پردہ نہ کرنے سے کوئی خطرہ کی بات نہیں ، ماشاء اللہ ! ہماری بیوی بہت نیک ہے ، بیٹیاں ، بہنیں ، بہویں بہت نیک ہیں ، بہت شریف ہیں ، ان کی آنکھ میں تو برائی آہی نہیں سکتی تو دل میں کہاں سے آئے گی ؟ یہ تو بہت بعید ہے ، اور ہمارے بھائی اور دوسرے قر یبی رشتہ دار ہمارے چچا زاد ، پھوپھی زاد ،ماموں زاد ، خالہ زاد سارے زاد شامل کر لیں بہت ہی شریف زادے ہیں ، ا س برائی کا تو ہمارے یہاں تصور بھی نہیں ہو سکتا ۔
یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی ہی اس معاملہ میں زیادہ غفلت پائی جاتی ہے عوام کے علاوہ خواص میں ، علماء میں بھی بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے ، قرآن کریم کے صریح حکم پر عمل بالکل نہیں ہو رہا ، گویا کہ یہ حکم قرآن کریم میں نازل ہی نہیں ہوا ، ان کے عمل اور حالات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا پردہ کا حکم قرآن کریم میں ہے ہی نہیں ۔
دعاء کر لیجئیے کہ اللہ تعالی اس اہم اور ضروری مضمون کے بیان کو آسان فرما دیں موثر بنا دیں ، دلوں میں اتار دیں ، اس کی اہمیت دلوں میں پیدا فرما دیں ، اس کے مطابق عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائیں ، اس عمل کو قبول فرما لیں ،اس میں برکت عطاء فرمائیں ، یعنی تھوڑ ی محنت پر نتیجہ زیادہ مر تب فرمائیں ، اثر زیادہ عطا فرمائیں ، آمین ،
میری خواہش یہ ہے کہ یہ مضمون زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک پہنچایا جائے ، اللہ تعالی اس کی توفیق عطاء فرمائیں ، اور قبول فرمائیں لاحول ولا قوۃ الا با اللہ ، یا اللہ ! کام بننا صرف تیری مدد پر مو قوف ہے،
تیری دستگیری ہو گی ، مدد ہو گی تو یہ کام ہو گا ، بغیر تیری مدد کے کچھ نہیں ہو سکتا ، یا اللہ ! تو مدد فرما۔
عبرت کیلئے ایک خاندان کا قصہ بتا تا ہوں جو بہت پا رساسمجھاجاتا تھا انہیں خود بھی اپنی پار سائی پر ناز اور غرور ہوا اور اللہ تعالی کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور پردہ نہیں کیا تو انجام کیا ہو ا ؟
یہ گزشتہ زمانہ کا قصہ نہیں ، ابھی کا ہے ، اور کراچی ہی کا ہے ، اگر ان کے خاندان کی بے عزتی کا خطرہ نہ ہو تا تو ان کے نام اور پتے بھی بتا دیتا ، تا کہ خود جا کر دیکھ لیں ، اور ان سے پو چھ لیں کہ کیا ہوا ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پردہ کے بارہ میں اللہ تعالی کے حکم کو توڑ کر خاندان کو خود ہی بے عزت و ذلیل کیا ہے،اب قصہ سنئے ، اللہ کرے کہ بات دلوں میں اتر جائے ۔
ایک حاجی صاحب تھے ، بہت نیک ،بہت ہی پارسا ، ان میں دین کا جذ بہ اتنا تھا کہ جب میں دارالعلوم کو رنگی میں تھا وہ شہر سے میرا وعظ سننے وہاں جایا کر تے تھے ، خود وعظ سنتے اور ٹیپ کر کے دوسرے لو گوں کو بھی سنا یا کرتے تھے ، شہر سے کو رنگی پہنچنا کو ئی معمولی بات نہیں ، کتنا مجاہدہ ہے ، اب آمدورفت کی سہو لتیں زیادہ ہو گئی ہیں ، ان دنوں میں تو اتنی سہولتیں نہیں تھیں ، وہ بلا ناغہ ہر وعظ میں شریک ہو تے اور ٹیپ کر تے ، اتنے نیک ، اور لوگوں کو ان سے اتنی عقید ت اور ان پر اتنا اعتماد کہ لاکھوں کی امانتیں ان کے پاس رکھی ہو ئی تھیں ، ایک بار ان کے کچھ عزیز میر ے پاس آ ئے اور انہوں نے یہ قصہ سنایا کہ اس کے اپنی سا لی سے نا جائز تعلقات ہو گئے ، بیوی کے ہو تے ہو ئے ، اسی گھر میں بیوی مو جو د ، سسرال کے سب لوگ مو جود اور سالی سے ناجائز تعلق ہو گیا ، اور کیا کیا ؟ چپکے سے پاسپورٹ بنوایا اور کسی ملک کا ویزا لگو ایا ، ڈاڑھی منڈوائی کوٹ پتلون پہنا ، اور کسی غیر ملک میں بھاگ گئے ۔ لوگوں کی امانتیں بھی سب کی سب لے گئے ، بہت دیندار ، مقدس اور پار سا نظر آتے تھے ، ان کی صورت اور دینی حالات ایسے کہ کسی کو دور کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ شخص ایسا برا ہو سکتا ہے ، مگر ہوا کیا ؟ اب آپ انداز ہ لگائیں کہ لوگو ں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں تو ایسی بدکاری کا کوئی امکان ہی نہیں ، میرا گھرا نہ اور ما حول تو بڑا پاک و صاف ہے ، اب اس خوش فہمی اور خام خیالی کاکیا علاج ؟
ایک بزرگ کا قصہ سنئے ، ان کے ایک مرید سفر پر جا نے لگے ، خیال ہوا کہ باند ی بہت حسین ہے ، کہاں چھوڑ کر جاؤں؟خطرات ہیں، سوچاکہ پیر صاحب ہی کے پاس چھوڑ جاتا ہوں، پیر صاحب نیک تو تھے، درحقیقت عقل و ہوش کے کمال کےبغیرانسان صحیح طورپر نیک نہیں ہوسکتا، اس کیلئے عقل کامل چاہئے، عقل جو وحی سےکامل ہوئی ہو، جس کو وحی کانور حاصل ہو وہ عقل کامل ہوتی ہے جب جا کرانسان پورادیندار بنتا ہے، پیرصاحب کومریدکی بےبسی پر رحم آگیا،سوچاکہ برائی کا خطرہ واقعی ہے، اب اسے کہاں چھوڑ کر جائے؟اسےخطرہ سے بچانا چاہئے ،اجازت دیدی کہ اچھامیرےپاس چھوڑ جاؤ، قدرت کا کر نا یہ ہوا کہ کہیں اچانک نظر پڑ گئی، اور رغبت ہو گئی، اگر وہ ہوتا کوئی ایساویساپیر، ان حاجی صاحب جیساجو سالی کو اڑا کر لے گئے تو وہ پیرصاحب تو بہت خوش ہوتے کہ اچھا ہوا مرغی خود ہی گھر میں پہنچ گئی، مگر وہ نیک تھے،آخرت کی فکراور اللہ تعالی کاخوف دل میں تھاجیسےہی خیال آیااوردل میں رغبت پیدا ہوئی،فورا پریشان ہو گئے،اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوئے کہ''یا اللہ! یہ کیا معاملہ ہوا،کیسے بچوں؟''
امراض باطنہ سے بچنے کانسخہ:
ایسی حالت میں فکر ہونی چاہئے اور کسی سے نسخہ دریافت کرنا چاہئے ، گھر بیٹھے بیٹھے کام نہیں ہوتا ، جہاں کسی گناہ کی طرف التفات ہو ، توجہ ہو ، رغبت ہو ، فورا کسی باطنی ڈاکٹر کے پاس پہنچا جائے ، کسی دینی طبیب کے پاس جا کر اپنے حالت بتائے جائیں اور نسخہ حاصل کیا جائے ؂
نفس نتوان کشت الا ظل پیر
دامن این نفس کش را وامگیر​

نفس کو شرارتوں سے روکنا ، اس گھوڑے کو لگام دینا ، یہ سوائے کامل کی صحبت کے نہیں ہو سکتا ، کسی کامل کی صحبت اختیار کی جائے اور اپنے حالات بتائے جائیں ، نسخے حاصل کئے جائیں ، ان نسخوں کو استعمال کیا جائے ، اور پھر بعد میں یہ بھی بتایا جائے کہ ان نسخوں سے فائدہ ہوا یا نہیں ؟ اگر ہوا تو کتنا فائدہ ہوا ؟ جسمانی علاج کے لئے ڈاکٹر سے پہلے تو وقت لینا پڑتا ہے ، وقت لینے کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے ، بہت بھاری فیس دینی پڑتی ہے ، پھر وہ تھوڑا سا وقت دیتے ہیں ، اور پھر جب دوبارہ دکھانا ہو تو پھر نئے سرےسےگھنٹوں قطار میں کھڑے رہیں،
اورفیس بھی دوبارہ دیں،چند منٹوں میں ہزاروں روپے جیب میں ڈال لئے پھر مریض تندرست ہو یا نہ ہو، لیکن باطن کے ڈاکٹر مریضوں سے کوئی فیس نہیں لیتے اور نہ ہی ان کے ہاں مریضوں کو قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے، مریضوں پر ان کی شفقت و محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دنیاوآخرت بنانے کے لئے رات دن محنت کر رہے ہیں،پھر ان کے نسخے ایسے اکسیر کہ ان کے استعمال سے صحت یقینی ہے،یہاں ناکامی کے وہم و گمان کا بھی کوئی گذر نہیں ،باطنی ڈاکٹر سرکاری ملازم ہیں،اس لئے یہ مریضوں سے تو کوئی فیس نہیں لیتے مگر ان کی تنخواہ سرکاری خزانہ سے ہے،یہ بڑی سرکار(اللہ تعالی)کے درباری لوگ ہیں، اس خزانہ سے ان کو کیا کچھ ملتا ہے؟بس کچھ نہ پوچھئے،اس سے اندازہ لگائیں کہ جس دربار میں ذرا سی بات پر خزانے بہا دئیے جاتے ہیں وہاں اتنی محنت کرنے والوں کے لئے کیا کچھ ہو گا،یہ سرکاری ڈاکٹر ایسے ہیں کہ ان کے پاس جانے والے مریض بھی سرکاری بن جاتے ہیں اور سرکاری خزانہ سے ان کا وظیفہ جاری ہو جاتا ہے،یہ لوگ ایک سیکنڈ میں کروڑوں کماتے ہیں،اگرانسان اللہ تعالی کی طرف لگ جائے، آخرت کی فکر پیدا کر لے، وہاں کی دولت کمانے کی فکر ہو جائے، توچند سیکنڈ میں کروڑوں کما لے، کیا فرمایا:۔
کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم (رواہ البحاری)
یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات ہیں، کیا پیارے کلمات ہیں، کیا ہی پیاری زبان ہے،فرمایا دو کلمے زبان پر بہت ہی ہلکے ہیں مگر ترازو میں بہت وزنی،وہاں جب اعمال کا وزن ہو گا تو ترازو میں یہ دو کلمے بہت وزنی ہوں گے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ یہ دو کلمے رحمن کو بہت ہی محبوب ہیں، تو جس زبان پر یہ کلمے جاری ہوں گے وہ زبان ان کو محبوب ہو گی یا نہیں؟اور جس جسم میں وہ زبان ہو گی وہ محبوب ہو گا یا نہیں؟یہ دو کلمے کیا ہیں؟
''سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم ''
ان کے ادا کرنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟صرف تین سیکنڈ،میں نے گھڑی میں دیکھا تجربہ کے بعد بتا رہا ہوں، اور فرمایا
لاحول ولا قوۃ الا باللہ کنز من کنوز الجنۃ(مسند احمد)
ایک بار لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنے سے جنت کے خزانوں میں سے بہت بڑا خزانہ مل جاتا ہے، یہ کلمہ کہنے میں بھی صرف تین سیکنڈ صرف ہوتے، تین سیکنڈ میں اتنا بڑا خزانہ، پھر یہ خزانہ بھی جنت کا ہے، جس کا حال یہ ہے کہ اگر اس دنیاجیسی ہزاروں دنیا پیدا کردی جائیں تو وہ جنت کی ادنی سے ادنی نعمت کے برابر بھی نہیں ہوسکتیں، مگر یہ خزانے جب ملیں گے کہ یہ کلمے کچھ ذرا دل میں بھی اتریں یعنی گناہوں کو چھوڑا جائے اگر آپ گناہوں کو نہیں چھوڑتے اور یہ کلمات کہہ لئے تو ایسا ہو گا جیسے شہد کی بھری ہوئی بوتل میں چند قطرے سنکھیا کے ملا دیں، فورا اثر ختم ہو جائے گا بلکہ سب زہر بن جائے گا۔
میں بتاتا رہتا ہوں کہ جب انسان باہر نکلتا ہے تو اگر کسی ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس نے اللہ تعالی کے خوف سے نظر نیچی کرلی تو یہ اتنا بڑا مقام ہے اور اس سے اتنے درجات قرب حاصل ہوتے ہیں کہ ہزاروں سال کے نوافل سے یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، جب ایک گناہ چھوڑنے پر اور گناہ کے تقاضے کے وقت اس سے بچ جانے پر اتنا بڑا مقام حاصل ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کی فکر ہونی چاہئے۔ اگر فکر پیدا ہو جائے تو پھر ہر معاملہ میں اللہ تعالی کی ہدایت ملتی ہے اور جب فکر ہی نہ ہو تو ہدایت زبردستی نہیں ملتی۔
ان بزرگ کے دل میں اللہ تعالی کا خوف تھا،غلطی کر بیٹھے، اجازت دے دی کہ ہاں! باندی چھوڑ جاؤ، مگر جہاں گناہ کا تقاضا پیدا ہوا فورا علاج کی فکر ہوئی، اب تلاش کرنے لگے کہ کس کے پاس علاج کیلئے جاؤں؟ اس کے لئے بھی تلاش کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ ہر کس وناکس کے پاس چلے جاؤ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:۔
الرحمن فاسئل بہ خبیرا ( 25 : 59 )
'' رحمن کی شان کسی با خبر سے پوچھئے''
باخبر کو ن ؟ یہ مضمون بہت طویل ہے آج بیان نہیں ہو گا، کچھ علامات ہیں،دلائل ہیں،حالات ہیں،جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ شخص باخبر ہے، یہ علاج کرسکتاہے، دوسروں سے علاج نہیں ہو گا،ان بزرگ نے تحقیق شروع کی کہ اس مرض کا علاج کہاں ہو سکتا ہے؟ اس کی تڑپ پیدا ہو گئی،کسی نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک بزرگ ہیں ان کے پاس جاؤ، وہاں پہنچے، اس شہر میں جا کر ان کا نام بتا کر معلوم کیا،کسی نے کہا
''ارے!کہاں جا رہے ہو؟وہ تو بہت بڑا بد معاش ہے''
یہ بیچارے بہت پریشان ہوئے، جس نے بھیجا تھا اس سے آکرشکایت کی کہ آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا؟ وہ بولے لوگ کچھ بھی کہیں بہر حال آپ ان کے پاس ضرور پہنچیں،پھر گئے،تو بتایا گیا کہ فلاں شرابیوں کے محلہ میں ان کا مکان ہے، وہاں پہنچے، مکان میں اندر گئے تو دیکھا کہ شراب کا پیالہ سامنے رکھا ہوا ہے،ایک حسین لڑکا بھی پاس بیٹھا ہوا ہے،چونکہ ان کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بڑے بزرگ ہیں،اور قلب میں بھی محسوس ہوا کہ ہاں! یہ کچھ ہیں،جو خود صاحب دل کو پہچان لیتا ہے،پوچھا:حضور! یہ سامنےپیالہ میں کیا ہے؟فرمایا شربت ہے،رنگ شراب کا تھا لیکن تھا شربت،پھر پوچھا:یہ لڑکا کون ہے؟فرمایا یہ میرا بیٹا ہے،پھر پوچھا:آپ نے شرابیوں کے محلہ میں کیوں رہائش اختیار کی؟انہوں نے فرمایا کہ شروع میں جب میں اس مکان میں آیا تھا اس وقت یہ محلہ شرابیوں کا نہیں تھا،بعد میں لوگ شرابی بن گئے،مجھ پر شرعا واجب نہیں کہ میں اپنا مکان بیج کر یہاں سے چلا جاؤں ،اب ان صاحب نے پوچھا کہ آپ نے اپنی ظاہری صورت ایسی کیوں بنا رکھی ہے کہ دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کوئی بد معاش ہے؟ان پر ان کی حالت منکشف ہو چکی تھی، فرمایا کہ میں نے خود کو اس لئے ایسا بنا رکھا ہے تاکہ مرید اپنی باند یاں میرے پاس نہ چھوڑ کرجایا کریں۔
دین ہر رشتے پر مقدم ہے

انہوں ں نے اس طرح سے احتیاط کی،ورنہ اصل شرعی مسئلہ یہ ہے کہ بد ظنی کے موقع سے بچنا فرض ہے،اپنے آپ کو ایسا بنانا جائز نہیں کہ لوگوں کو بد گمانی ہو،مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان کا قلب مضبوط ہونا چاہئے،کسی کی مروت میں آکر ایسا کام ہرگز نہ کرے جس سے اپنے دین پر خطرہ کا کوئی بعید سے بعید امکان ہو،ثابت قدمی سے کام لے اسی لئے تو فرمایا ؂
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاران کعبہ یک دل بہتر است​
دل پہ وہ ضابطہ ہو کہ چاہے مرید منت سماجت کرے ، خواہ ماں ہو ،باپ ہو، بہن ہو ،بھائی ہو، بیوی ہو،شوہر ہو، حاکم ہو،دنیا کا کوئی فرد بھی ہو،جس کی بات ما ننے سے دین پر خطرہ ہو تو کسی کی مروت میں ہر گز ایسا کام نہ کرے، بلکہ اپنے مالک حقیقی ، محبوب حقیقی کی طرف متوجہ ہو کر یوں کہہ دے ؂
اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری
جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری​
اگر میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو اور دنیا والے سب راضی ہو جائیں تو بال برابر مجھے فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اگر میرا اللہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہوتی رہے، میرا اس میں کچھ نقصان نہیں، قلب میں قوت ہونی چاہئے، اور قلب میں قوت جب پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ محبت کا وہ تعلق پیدا ہو جائے جس کے سامنے پوری دنیا کے تعلقات نیست و نابود ہو جائیں، قلب میں یہ قوت ہونی چاہئے کہ اگر کوئی مرید باندی واندی چھوڑ نے آئے تو اس سے بچنے کے لئے اپنا ظاہر بگاڑنے کی ضرورت نہیں،
صاف کہہ دے ارے! تیری باندی کو بچا نے کے لئے میں اپنے دین کو خطرہ میں ڈالوں اور اپنی آخرت برباد کر لوں، مجھ سے یہ نہیں ہو گا،تمہاری آخرت سنوارنے کے لئے میں اپنی آخرت بر باد نہیں کرسکتا، کسی کی جوتی کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی گنوا دینا عقل کی بات نہیں ہے، جب کسی کی مروت میں آکر اللہ تعالی کے حکم کے خلاف عمل کیا جا تا ہے اس پر یہ وبال پڑتا ہے، اس قصہ سے کیا ثابت ہوا؟ وہ بزرگ تھے، متقی تھے، اسی لئے تو فکر پیدا ہوئی مگر انہوں نے اپنے نفس پر اعتماد کیا کہ باندی پاس رکھنے سے مجھ پر کوئی خطرہ نہیں، بس نفس پر اعتماد کرنے کی وجہ سے یہ وبال آیا، اللہ تعالی نے دکھا دیا کہ دیکھو! تمھیں اپنے تقوی پر ناز کیوں پیدا ہوا؟ اب ذرا ان لوگوں کی حالت کا اندازہ لگائیے جو یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو کوئی خطرہ نہیں، خطرے سے غافل رہنا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
خطرہ سے غافل رہنا سب سے بڑا خطرہ ہے

جو انسان یہ سمجھتا ہے سب سے بڑا خطرہ اسی کے یہاں پیدا ہوتا ہے اس کی کئی وجوہ ہیں، اللہ کرے یہ باتیں سمجھ میں آ جائیں:
( 1 ) پہلی با ت تو یہ کہ دشمن وار وہیں کرتا ہے جہاں انسان غافل ہوتا ہے،رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ''جہاں کہیں بھی خلوت میں دو نامحرم مرد و عورت جمع ہوئے وہاں تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے''(ترمذی) کسی بزرگ کا قول ہے کہ اگر حسن بصری اور رابعہ بصریہ جیسے مقدس بزرگ بھی خلوت میں ایک جگہ جمع ہو جائیں تو شیطان ان کو بھی بدکاری میں مبتلا کر دے گا، عوام کا تو کیا کہنا،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمادیا کہ جہاں بھی خلوت میں نا محرم مرد و عورت جمع ہوں گے وہاں شیطان ضرور ہوتا ہے اور وہ بدکاری کروا کر چھوڑتا ہے، اسی لئے فرمایا کہ غیر سے اتنا پردہ نہیں جتنا کہ شوہر کے اعزہ واقارب سے ہے، شوہر کے اعزہ واقارب سے زیادہ سخت پردہ کا حکم ہے، فرمایا کہ شوہر کے رشتہ داروں سے اتنا سخت پردہ کرو، اتنا ڈرو کہ جیسے موت سے ڈرتے ہو،جس سخت خطرہ کی وجہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے رشتہ داروں کو ''موت'' فرمایا بعینہ وہی خطرہ عورت کے نامحرم رشتہ داروں سے بھی ہے،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے رشتہ داروں کو''موت''کیوں فرمایا؟ اس لئے کہ غفلت اور اطمینان انسان کو ہمیشہ اپنے رشتہ داروں سے ہوتا ہے، فلاں آرہا ہے تو کوئی بات نہیں، وہ تو ہمارا دیور ہے،فلاں تو ہمارا چچا زاد بھائی ہے،فلاں پھوپھی زاد بھائی ہے، فلاں ماموں زاد بھائی ہے اور فلاں خالہ زاد بھائی ہے،جہاں ان سارے خطرات سے انسان غافل رہتا ہےسوچتا ہے کہ یہ تو اپنے ہی ہیں اور ان کے گھر میں آنے میں ذرا بھی شک و شبہہ نہیں ہوتا کہ ان سے کسی قسم کی بدکاری ہو گی، شیطان غافل سمجھ کر وہیں حملہ کرتا ہے،خالہ زاد وغیرہ کو بھائی قرار دے کر ان سے بے تکلفی کا تعلق رکھا جاتا ہے،اس طرح یہ سب''زاد'' ہمزاد کی طرح ہر وقت لپٹے رہتے ہیں، اللہ نے ان رشتوں کے ساتھ بالخصوص شادی کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
وبنت عمک وبنت عمتک وبنت خالک وبنت خلتک التی ھاجرن معک۔( 33 : 50 )
چچا کی لڑکیاں،پھوپھی کی لڑکیاں، ماموں کی لڑکیاں، خالہ کی لڑکیاں چاروں ''زاد'' کی تصریح فرمادی کہ ہم نے ان کو شادی کے لئے حلال کردیا ہے، مگر اس زمانہ کا دغا باز مسلمان ان کو بہنیں بناکر مزے اڑاتا ہے، پھر چاہیں تو بہن بھائی آپس میں شادی بھی کر لیتے ہیں، اللہ تعالی کی نافر مانی سے عقل مسخ ہو جاتی ہے، اتنی موٹی سی بات دماغ میں نہیں اترتی کہ بہن بھائی ہیں تو ان کی آپس میں شادی کیسے ہو گئی؟ بس اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں اور اپنی ہوس کے بندوں نے یہ جادو کی ڈبیہ بنا رکھی ہے، اس میں ایک طرف سے دیکھیں تو بھائی بہن ، فورا اسی وقت دوسری جانب سے دیکھیں میاں بیوی، یا اللہ ! تو ان دغا باز مسلمان کو سچے مسلمان بنا دے۔
( 2 ) دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو پارسا سمجھتے ہیں، کہتے ہیں ہمارا خاندان بہت پاک دامن اور نیک ہے، یہاں تو کوئی گناہ ہو ہی نہیں سکتا، بس جہاں کسی نے خود کو پارسا سمجھا اور دل میں عجب و پندار پیدا ہوا اللہ تعالی اس کو ذلیل کرتے ہیں، اسے گناہ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
(3 ) ایسے خاندانوں کی بربادی کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم تو پارسا اور پاک دامن ہیں، ہمارے یہاں یہ بدکاری نہیں آسکتی، یہ لوگ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو بیکار سمجھتے ہیں، اگر کہیں کوئی خطرہ ہی نہیں تو اللہ تعالی نے ایسے احکام نازل ہی کیوں فر مائے؟ یہ لوگ اپنے علم کو اللہ تعالی کے علم سے زیادہ سمجھتے ہیں، اللہ تعالی کے نازل فرمائے ہوئے احکام کو فضول و بیکار سمجھتے ہیں،قرآن کریم کو بیکار سمجھتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بیکار جانتے ہیں، سو جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بیکار بتائے گا اللہ تعالی اس کو دنیا ہی میں اس کے وبال میں مبتلا کر کے چھوڑیں گے اس پر یہ عذاب آتا ہے اس لئے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔
قرآن کے ساتھ آج کے مسلمان کا برتاؤ

اب ذرا سنئے کہ اللہ تعالی کے کیا احکام ہیں؟ میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ اچھا ہے آج کے مسلمان کو یہ معلوم نہیں کہ قرآن میں کیا ہے؟ آج کا مسلمان یہ سمجھتا کہ کہیں قرآن خوانی کروا دو، مکان بنایا تو خوانی کروالو، چائے بسکٹ کھالو، کوئی کارخانہ کھولا تو خوانی کروالو، اور کوئی مرگیا تو پیسے دے کر خوانی کروالو، ایصال ثواب کردو، جن،بھوت چڑھ گیا تو اسے طشتریوں پر لکھ لکھ کر پلاتے جاؤ، اور اس کے حصار کھینچ لو، بیمار ہو گیا تو آیات شفاء پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہو، دم کرتے رہو،گھول گھول کر پلاتے رہو، یہ قرآن تو بڑا میٹھا میٹھا ہے جو لڈو کھلائے،چائے پلائے، بسکٹ کھلائے، یہ تو بڑا ہی مزے دار ہے۔
کسی نے کسی سے پوچھا کہ قرآن کریم کی دعائیں کون کون سی پسند ہیں؟اس نے کہا، سبحان اللہ! قرآن کی دعائیں تو ساری ہی اچھی ہیں، لیکن مجھے ایک دعاء بہت پسند ہے:
ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء (5 : 114 )
''یا اللہ ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما''
پھر پوچھا، قرآن کا حکم کونسا پسند ہے؟ جواب دیا کہ حکم تو سارے ہی اچھے ہیں لیکن مجھے تو ایک حکم بہت پسند ہے:کلوا واشربوا ( 7 : 31 ) ''کھاؤ پیو''
ذرا سوچ کر بتائیے کہ آپ نے قرآن کا کیا مطلب سمجھا ہے؟ یہ قرآن کس مقصد کے لئے ہے؟ کیا ان مقاصد کے علاوہ بھی اس کا کوئی مقصد ہے یا نہیں؟ اچھا ہے کہ قرآن کا مطلب صرف یہی سمجھا ہے، ورنہ اگر قرآن کا صحیح مقصد سمجھ میں آجائے اور معلوم ہو جائے کہ اس قرآن میں کیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ آج کا مسلمان قرآن کو کیماڑی جاکر سمندر میں پھینک آئے گا،(معاذ اللہ)گھر میں رکھنے کو تیار نہیں ہو گا میرا یہ یقین بلا دلیل نہیں، واقعات پر مبنی ہے، اس وقت صرف ایک قصہ بتاتا ہوں، ایک شخص نے مجھے خود بتایا کہ اس کی بیوی نے تر جمہ قرآن پڑھنا شروع کیا، بڑے شوق سے پڑھتی رہی، جب سورہ نور پر پہنچی اور وہاں آیا پردہ کا حکم تو چلا اٹھی، بس بس رہنے دو ایسے قرآن کو، میں نے بس کی، توبہ کی، رہنے دو ایسے قرآن کو، اس شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو بہت سجھایا کہ پڑھ تو لو،عمل نہ کرنا، اور شاید کبھی عمل کی توفیق بھی اللہ تعالی دے دے،بیوی نے کہا، نہیں نہیں ،بس کیا بس کیا،میں کبھی ایسے قرآن کو نہیں دیکھوں گی، مجھے ایسے قرآن کی ضرورت نہیں، میں نے توبہ کی ایسے قرآن سے (معاذ اللہ)
اس عورت کو پہلے سے معلوم نہیں تھا کہ اس قرآن میں کیا ہے، اس وقت تو وہ اسے چومتی ہو گی، آنکھوں سے لگاتی ہو گی، اچھے سے اچھے غلاف میں رکھتی ہو گی کتنی خوانیاں کرواتی ہو گی،اور جب اسے قرآن میں پردہ کا حکم معلوم ہوا تو چیخیں نکل گئیں،اور چلانے لگی کہ مجھے ایسے قرآن کی ضرورت نہیں۔ یہ تو ہوا ایک پردہ کا حکم ،اس پر قیاس کر لیجئے کہ جب قرآن کے سارے احکام سامنے آجائیں تو کیا ہو گا؟ بس یہی ہو گا کہ سارے قرآن جمع کر کے کیماڑی میں پھینک دو، یہی کہے گا آج کا مسلمان یا نہیں کہے گا؟سوچئے للہ! سوچئے، یا اللہ! تو مدد فرما،مسلمانوں کو سوچنے کی توفیق عطاء فرما کہ آخر یہ قرآن کیا ہے ؟کیوں نازل ہوا؟ اس کو نازل کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ آج میں نزول قرآن کا مقصد بتاتا ہوں، اور اس لئے بتاتا ہوں کہ جو لوگ یہاں آتے ہیں ان سے یہ توقع ہے کہ ان شاء اللہ تعالی وہ قرآن کو سمندر میں نہیں پھینکیں گے، یا اللہ! اس دن (جمعہ) کی برکت سے اس مجمع کی برکت سے سب کو پتا چل جائے کہ یہ قرآن کیا ہے ؟ فرما یا :
ان ھذ ہ تذکر ۃ ( 76: 29 )
''بلاشبہ یہ قرآن نصیحت کی کتا ب ہے،''
یہ دنیا کے اسباب حاصل کرنے کیلئے ، دنیوی ترقی حاصل کرنے کے لئے ،مال و دولت جمع کرنے کیلئے ، جن آسیب اور سفلی بھگانے کے لئے نہیں ،یہ اور بات ہے کہ اس کی برکت سے یہ کام بھی ہو جائیں، مگر یہ خوب سمجھ لیں کہ یہ فائدہ عارضی ہو گا، جب تک قرآن کا مقصد نزول نہیں سمجھیں گے اور اس میں بتائے گئے احکام پر عمل نہیں کریں گے ، اس وقت تک پر سکون زندگی ہر گز ہرگز حا صل نہیں ہوسکتی ، کو ئی نہ کوئی عذاب مسلط رہے گا قرآن کریم جسمانی امراض کے علاج اور دنیوی اغراض کی تحصیل کے لئے نازل نہیں کیا گیا ، یہ نصیحت کی کتاب ہے ، یہ قانون کی کتاب ہے ، اس پر عمل کرنا ہے ، یہ کتاب عمل کروانے کیلئے نازل کی گئی ہے،
قرآن میں پردہ کے احکام

اب سنئے قرآن کیا کہتا ہے
ینسا ء النبی لستن کاحدمن النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا ۔ (33 : 32)
مجھے تو یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ یہ کہیں کہ یہ نہ جانے کیا پڑھ رہا ہے؟ ارے! یہ قرآن میں ہے سورہ احزاب میں ہے۔آج کے مسلمان کے عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ قرآن میں یہ چیزیں ہیں ہی نہیں،اور مولویوں کا یہ حال ہے کہ قرآن کو پڑھتے پڑھاتے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی پڑ گئی کہ اس طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی کہ یہ بھی قرآن میں ہے،یا اللہ ! تو مدد فرما،ہدایت فرما، لا حول ولا قوہ الا بک، اصل دستگیری صرف تیری ہی طرف سے ہے،اگر تیری دستگیری نہیں ہو گی تو ہمارے کرنے کرانے سے کچھ نہیں ہو گا، تو ہی مدد فرما، ہماری عاجزی پر رحم فرما، ہمارے ضعف پر رحم فرما، ایسے ماحول، ایسے معاشرہ میں یا اللہ ! تو ہی مدد فرما، دستگیری فرما، لوگ آج نزول قرآن سے چودہ سو سال بعد گناہوں میں رات دن دھت اور مست ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے بزرگ ہیں، ہمارے یہاں کسی گناہ کا احتمال نہیں، اور اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں؟
''اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو! جب کسی ضرورت سے دین حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص آکر دین کا کوئی مسئلہ پوچھے تو اپنے لہجہ میں نرمی اور لچک پیدا نہ کرو، نزاکت سے بات نہ کرو۔''
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ امہات المؤمنین ؓ جن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے ایک پورے رکوع میں ان کی تطہیر اور پاک دامنی کا مقام بیان فرمایا ہے:
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا۔ (33 : 33 )
ان کو اللہ تعالی نے پاک کردیا اور جسں کو اللہ تعالی پاک کر دے کیا اس کے قریب کوئی خباثت ونجاست آسکتی ہے؟کیا ان کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا تھا کہ غیر محرم کو جب مسئلہ بتائیں گی تو نزاکت سے بولیں گی؟ یہ بات تو گمان میں بھی نہیں آسکتی ،پھر جس کے بارے میں یہ وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا،خیال بھی نہیں آسکتا اسے روکا کیوں؟ اللہ تعالی روک رہے ہیں کہ نزاکت سے بات نہ کریں، ان سے جب نزاکت سے بات کرنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں تو پھر یہ حکم کیوں فرمایا؟ اس لئے خوب سمجھ لیں اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی آواز میں جو طبعی پیدائشی نزاکت ہوتی ہے اسے خشونت و خشکی سے بدلو،بات آئی سمجھ میں؟ کبھی کسی غیر محرم مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو عورت کی آواز میں جو پیدائشی نزاکت ہے اس سے بھی بچو، آواز میں بتکلف درشتی اور روکھا پن پیدا کرنے کی کوشش کرو، اس زمانہ فساد میں کسی عورت کو مجبوری میں کبھی کسی غیر محرم سے بات کرنا ہی پڑے تو بتکلف ایسا لہجہ بنائے کہ سننے والا یوں محسوس کرے کہ کوئی چڑیل بول رہی ہے۔ بات پوری طرح سمجھنے کے لئے چند چیزیں ذہن نشیں کر لیں:
(1 ) ایک تو یہ کہ امہات المؤمنین ؓ کا اتنا اونچا مقام ہے کہ ان سے گناہ کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا، گناہ کا وسوسہ بھی نہیں آسکتا، یہ ''مطہرات''ہیں جن کو اللہ تعالی نے پاک کردیا ہے۔
( 2 ) دوسری بات یہ امت کی مائیں ہیں کہ
اللہ تعالی نے انہیں صرف احتراما امت کی مائیں نہیں فرمایا، بلکہ جس طرح حقیقی ماں کے ساتھ نکاح حرام ہے اسی طرح امہات المؤمنین ؓ بھی امت کے مردوں پر حرام ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ولا تنکحوا ازواجہ من بعد ہ ابدا ان ذلکم کان عند اللہ عظیما۔ (33 : 53)
''رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آ پ کی بیویوں سے تم کبھی بھی نکاح نہیں کرسکتے۔''
جس طرح ماں کے ساتھ کسی حالت میں نکاح نہیں ہوسکتا، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام ہے اسی طرح امہات المؤمنین ؓ بھی تا قیامت امت کے ہر فرد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی امت کا کوئی فرد آپ کی بیویوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔
(3 ) تیسری بات، امہات المؤمنین ؓ سے بات کرنے والے کون تھے؟ حضرات صحابہ کرامؓ جن کا تقویٰ وہ تقویٰ ہے کہ فرشتوں کو رشک آئے، جن کی پاک دامنی کی شہادت اللہ تعالی قرآن کریم میں دیں:
رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔ (58 : 22)
''یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے ہم راضی اور جو ہم سے راضی۔''
اور فرمایا:
وکلا وعد اللہ الحسنی۔( 4 : 95 )
''سب کے ساتھ ہمارا معاملہ یہ کہ سب کو بخش دیا۔''
(4 ) ان کی آپس میں باتیں کیا ہوتی تھیں؟دینی مسائل سیکھنا سکھانا،
اب ساری چیزیں ملا کر دیکھئے، یہ عورتیں کون ہیں؟ سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ،جن کو اللہ تعالی نے پاک کردیا ہے، امت کی مائیں ہیں، جو امت کے ہر فرد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں،اور مرد کون؟ حضرات صحابہ کرامؓ جیسی مقدس ہستیاں، اور کام کیا؟ دینی مسائل پوچھنا، ایسے موقع پر فرماتے ہیں کہ جب بات ہو تو زنانہ لہجہ میں جو پیدائشی نزاکت ہے اس کو خشکی سے بدلا کرو،پیدائشی نزاکت بھی نہ آنے پائے، یہ تو امہات المؤمنین ؓ کو ہدایت دی، اور حضرات صحابہ کرامؓ کو کیا ارشاد ہوتا ہے:
وا ذاسالتموھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب (33 : 53 )
''جب بھی دین حاصل کرنے کے لئے امہات المؤمنین سے کچھ پوچھنا پڑے تو پردہ کے پیچھے سے پوچھو۔''
سامنے آنے کی اجازت نہیں للہ! غور کیجئے، جن کو یہ حکم دیا جا رہا ہے یہ مرد کون ہیں؟ اور یہ خواتین کون ہیں؟ کسی بزرگ نے تو حسن بصری اور رابعہ بصریہ کا نام لیا تھا،یہاں اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں وہ مقدس عورتیں اور مقدس مرد ہیں، ان کے بارے میں ہدایات دی جا رہی ہے کہ جب دین بھی سیکھنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے بات کرو۔
 
قرآنی احکام سے کیسی غفلت

یا یھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلا بیبھن (33 : 59)
مجھے ہنسی آتی ہے اور رہ رہ کر تعجب بھی ہو رہا ہے کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ قرآن نہیں پڑھ رہا، اللہ جانے کیا پڑھ رہا ہے؟ اللہ کرے یقین آجائے کہ میں جو پڑھ رہا ہوں یہ قرآن ہی ہے، مجھے تعجب اس لئے ہو رہا ہے کہ اس امت نے قرآن کو ایسا چھوڑا، ایسا چھوڑا کہ جب میں قرآن کے احکام بتاتا ہوں تو انہیں یقین نہیں آرہا ہو گا کہ یہ قرآن ہی کے احکام ہیں، یہی سمجھتے ہوں گے کہ اللہ جانے یہ کیا پڑھ رہا ہے؟ سنئے !کیا حکم ہو رہا ہے : ''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مؤمنین کی عورتوں سے کہ جہاں کبھی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر میں لپٹ کر نکلا کرو، اور چادر کو چہرہ پر لٹکا لیا کرو، تاکہ چہرہ پر کسی کی نظر نہ پڑے۔''
وقل للمؤمنت یغضضن من ابصر ھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او اباء بعولتھن او ابنا ئھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن او بنی اخوانھن او بنی اخوتھن او نسائھن او ماملکت ایمانھن او االتبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورٰت النساء ولا یضربن بارجلھن لیعلم مایخفین من زینتھن وتو بوا الی اللہ جمیعا ایہ المؤمنون لعلکم تفلحون۔( 24 :31 )
یہ سورہ نور کی آیت ہے،یا اللہ! تو قرآن کریم کے انوار ہمارے دلوں میں اتار دے یعنی قرآن پر ایسا عمل ہو کہ دنیا کی کوئی قوت اس کو روک نہ سکے، دل میں نور پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہو جائے کہ اس کے احکام پر عمل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے: فرما دیجئے مؤمنات سے، یعنی جو عورتیں یہ فرمودہ سننے کو تیار نہیں یا اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں، وہ مؤمنات کی فہرست سے الگ ہیں،اس لئے جو عورتیں مؤمن ہیں آپ ان سے فرمائیں کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،وہ کیسے ہو گی؟ اس طرح کہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، اور اپنے گریبان پر چادر یا دوپٹہ لپیٹ کر رکھا کریں، تاکہ سینہ کا ابھار محسوس نہ ہو اور گریبان پر کہیں نظر نہ پڑے، آگے ایک ایک کر کے گنوا ر ہے ہیں کہ ان کے سوا باقی کسی کے سامنے بھی بے پردہ جانا جائز نہیں، وہ کون ہیں؟(1) شوہر (2) باپ، چچا اور ماموں بھی اس میں داخل ہیں(3)خسر (4) بیٹا، پوتا اور نواسا بھی اس میں داخل ہیں (5) شوہر کا بیٹا، داماد کا بھی یہی حکم ہے،اس لئے کہ اس میں حکم کی علت یعنی حرمت مؤبدہ موجود ہے، یعنی وہ شخص جو ہمیشہ کیلئے حرام ہو اور اس سے کبھی بھی نکاح نہ ہو سکتا ہو، اس سے پردہ نہیں ساس کی حرمت کا ذکر دوسری آیت میں ہے جس کا بیان ان شاء اللہ تعالی آگے آئے گا، (6) بھائی (7)بھتیجا (8) بھانجا (9) مسلمان عورتیں، مسلمان عورتوں کے سامنے تو اپنی زیب و زینت ظاہر کرسکتی ہیں ، کافر عورتوں کے سامنے سر، بازو اور پنڈلی وغیرہ کھولنا حرام ہے۔
بعض مسائل قرآن کریم سے سوچ سوچ کر نکالے جاتے ہیں مگر پردہ کا یہ مسئلہ نکالا ہوا نہیں، یہ قرآن کریم کا صریح حکم ہے۔بتائیے! ہسپتالوں میں اور گھروں میں جو غیر مسلم عورتیں کام کرنے کے لئے آتی ہیں کیا مسلمان عورتیں ان سے بالوں کا پردہ کرتی ہیں؟ کلائیوں کا پردہ کرتی ہیں؟ پنڈلیوں کا پردہ کرتی ہیں؟ گلے گردن کانوں اور سینہ کا پردہ کرتی ہیں؟ خوب سمجھ لیں کہ جو لوگ قرآن کریم کو چوم چوم کر مسجدوں میں رکھ کر یا خوانیاں کروا کر یہ سمجھتے ہیں کہ آفات زائل ہو جائیں گی وہ جب تک قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی نہیں چھوڑیں گے ہر گز دنیا میں ان کو چین کی زندگی نصیب نہیں ہوسکتی، اگر قرآن کے ساتھ عقیدت ہے قرآن پر ایمان ہے تو اس پر عمل کر کے دکھائیں۔
(10 ) کافر باندی، اس کے سامنے سر اور بازو کھولنا جائز ہے (11 )ایسے مدہوش جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ( 12) چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ سمجھ ہی نہ ہو کہ یہ عورت کیا چیز ہے؟ جسے مرد و عورت میں فرق ہی معلوم نہ ہو، آج کل دس دس بلکہ بارہ سال کے بچوں سے بھی پردہ نہیں کیا جاتا، ذرا اپنی حالت سے اندازہ لگائیے کہ آپ کی عمر کتنی تھی جب آپ کو پتا چل گیا تھا؟ پھر اب تو ترقی کا دور ہے اس دور کے دس سال کے بچہ کو ان چیزوں کی وہ خبر ہے جو آپ کے دور کےبیس سال کے جوانوں کو بھی نہ ہوتی تھی یہ وہ دور ہے، مرد و عورت میں کیا فرق ہے ان کے آپس میں کیا تعلقات ہوتے ہیں، کس مقصد کے لئے شادی کی جاتی ہے،یہ دیکھنا چاہئے کہ بچہ کو کس عمر میں ان چیزوں کی سمجھ آگئی، اس عمر سے پردہ کرنا فرض ہے۔ آگے ارشاد ہے:اپنا پاؤں زور سے زمین پر نہ ماریں تاکہ اگر پاؤں میں کوئی زیور ہو تو اس کی آواز باہر سنائی نہ دے، جب عورت کی پا زیب کی آواز کو پردہ ہے کہ اس کی آواز باہر نہ جائے تو خود عورت کی آواز کو کتنا پردہ ہونا چاہئے اور اس کے چہرہ کو کتنا پردہ لازم ہو گا۔
تمام پریشانیوں کا علاج :
پردہ کے حکم کی تفصیل بیان فرمانے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں :
تو بو ا الی اللہ جمیعا ایۃ المؤمنون لعلکم تفلحون۔ (24۔31)
اگر تم فلاح چاہتے ہو دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتے ہو اپنی پریشانی کا علاج چاہتے ہو اطمینان اور سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی چھوڑ دو بغاوت نافرمانی و معصیت سے توبہ کرلو، اگر ایسا نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالی نے یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ وہ ان کو کبھی بھی سکون نہیں دیں گے، کوئی مجھے ایک شخص تو ایسا بتا دے کہ جو اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہو اور سکون سے دنیا میں رہ رہا ہو، بتائیے ! کوئی ہے؟ نافرمان اور سکون مل جائے؟ انہوں نے تو فیصلہ سنادیا ہے :
ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشتۃ ضنکا و نحشرہ یوم القیمۃ اعمی۔ (20۔124)
''جس نے میرے احکام سے اعراض کیا میں نے یہ طے کر رکھا ہے اور فیصلہ کردیا ہے کہ اس کی زندگی اس پر تنگ رکھوں گا اور قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھاؤں گا۔''
سکون تو اس کے قریب بھی نہیں آسکتا کسی گناہ پر کوئی قائم ہو اور توبہ نہیں کرتا اور پھر وہ یہ کہے کہ میرے گھر میں سکون ہے تو ذرا اسے میرے پاس لائیے ذرا میں بھی تو تھرمامیٹر لگا کر دیکھوں کچھ پتا تو چلے کہ کیسا سکون ہے؟ دل کی باطنی کیفیت کے کسی اسپیشلسٹ کو دکھائیے۔
ہمیں کہتی ہے دنیا تم ہو دل والے جگر والے
ذرا تم بھی تو دیکھوں کہ ہو تم بھی تو نظر والے​
ذرا ہمیں بھی تو دکھائیے وہ دل جو گناہ بھی کرتا ہو اور اسے سکون بھی ہو دل میں اللہ تعالی کی نافرمانی کے کانٹے بھی لگا رکھے ہیں اور پھر سکون بھی ہے،واللہ ! ایسا ہر گز ہرگز نہیں ہوسکتا اللہ تعالی کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا، سکون کانسخہ اس سے پوچھئے جس کے قبضہ قدرت میں دلوں کا سکون ہے ان کا ارشاد ہے :
من عمل صالحا من ذکر او انثی و ھو مؤمن فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ ۔(12 ۔97)
یعنی ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو سکون ملے گا ورنہ نہیں ، عمل صالح کی بنیاد یہ ہے کہ گناہوں سے بچے۔
درس عبرت :
چچا اور ماموں سے پردہ نہیں، اس کے باوجود اس آیت میں ان کا ذکر کیوں نہیں؟ اس کا ایک جواب تو پہلے بتا چکا ہوں کہ چچا اور ماموں بمنزلہ باپ کے ہیں ، اس لئے باپ کے ذکر میں یہ بھی شامل ہیں مگر بعض مفسرین رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت میں سب محرم رشتہ داروں کی تفصیل بیان کرنے کے باوجود چچا اور ماموں کا ذکر نہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان سے بھی پردہ ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید وہ کبھی اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں کی شکل و صورت کا کہیں تذکرہ کریں اور ان کے بیٹے سن لیں اور اس سے ان کے قلب میں بد نظری کی رغبت پیدا ہو جائے۔
اگرچہ صحیح مذہب یہی ہے کہ چچا اور ماموں سے پردہ نہیں مگر جن مفسرین رحمہم اللہ تعالی نے ان سے بھی پردہ کا حکم فرمایا ہے اور اس کی جو وجہ ارشاد فرمائی ہے وہ ایک بہت بڑا درس عبرت ہے بشرطیکہ کسی کے پاس عبرت کی آنکھ ہو، اگر عبرت کی آنکھ نہیں تو عبرت کے ہزاروں قصوں سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوسکتی، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہوئیں بلکہ ان کے دل اندھے ہو گئے ہیں :
فانھا لا تعمی الا بصر ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔ (22 ۔ 42)
''یہ یقینی بات ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہو جاتے ہیں۔''
(4) لا جناح علیھن فی ابائھن ولا ابنائھن ولا اخوانھن ولا ابناء اخوانھن ولا ابناء اخواتھن ولا نسائھن ولا ما ملکت ایمانھن واتقین اللہ ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا۔ (33 ۔55)
یہ آیت سورہ احزاب کی ہے، اس سے پہلے میں نے جو سورہ نور کی آیت پڑھی تھی اس میں دونوں قسم کے رشتہ دار بتائے ہیں ، نسبی رشتہ دار بھی جن سے پردہ نہیں ، اور شادی کی وجہ سے جو رشتے پیدا ہو جاتے ہیں وہ بھی بتائے ہیں، جیسے شوہر کا بیٹا اور خسر ، مگر سورہ احزاب کی اس آیت میں صرف نسبی رشتہ داروں کا بیان ہے، شادی کی وجہ سے جو رشتے ہیں ان کو دوبارہ یہاں بیان نہیں فرمایا، باقی وہی رشتے جو وہاں گنوائے گئے تھے وہی یہاں بھی ہیں، پردہ کا حکم دینے کے بعد فر مایا : واتقین اللہ ، ایمان کا دعوی کرنے والی عورتو ! اللہ سے ڈرو ،سوچیں کہ یہ کس کا حکم ہے ؟ پھر یہ الفاظ کیسے زور دار ہیں کہ جس کے دل میں ذراسی بھی صلاحیت ہو یہ الفاظ سن کر اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ''اللہ سے ڈرو '' یعنی پردہ کے حکم پر عمل نہ کیا تو یاد رکھوں کہ اللہ تعالی کا عذاب بہت سخت ہے ، آگے ارشاد ہے :ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا،''بلا شبہہ اللہ تعالی کو ہر چیز کا علم ہے'' کہیں تمھیں یہ خیال ہو کہ ہم گھر کے اندر رہ کر بے پردگی کرتے ہیں،بس ''زادوں'' کے سامنے آتے جاتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ اگر چھپ چھپ کر بھی گناہ کرو گی تو اللہ سب جانتا ہے۔
کن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے :
(5) حرمت علیکم امھتکم و بنتکم واخوتکم و عمتکم وخلتکم وبنت الاخ وبنت الاخت وامھتکم التی ارضنکم واخوتکم من الرضاعۃ وامھت نسائکم وربائبکم التی فی حجورکم من نسائکم التی دخلتم بھن فان لم تکونو ا دخلتم بھن فلا جناح علیکم و حلائل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ان اللہ کان غفورا رحیما۔ ( 4 ۔ 23 )
اللہ تعالی نے اس آیت میں ان عورتوں کی تفصیل بتائی ہے جن سے نکاح حرام ہے (1) ماں، دادی اور نانی بھی اس میں داخل ہیں (2) بیٹی ،پوتی اور نواسی بھی اس میں داخل ہیں (3)بہن (4) پھوپھی (5)خالہ (6)بھتیجی (7)بھانجی (8)رضاعی ماں (9)رضاعی بہن، اس میں دوسرے رضاعی رشتے بھی داخل ہیں،مثلاً رضاعی بھتیجی، بھانجی، پھوپھی، خالہ وغیرہ (10) ساس (11) بیوی کی بیٹی، بشرطیکہ بیوی سے صحبت کی ہو،اگر کسی سے نکاح کیا مگر اس سے صحبت نہیں کی ،صحبت سے پہلے ہی وہ مرگئی یا اس کو طلاق دے دی تو اس کی بیٹی حرام نہیں،(12) بہو (13) دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا ، یعنی سالی اس وقت تک حرام ہے جب تک اس کی بہن نکاح میں ہے، بیوی کی موت یا طلاق کے بعد اس کی بہن حلال ہے، مقصد یہ ہے کہ سالی ہمیشہ کے لئے حرام نہیں۔
اس سے پہلے جو بارہ رشتے مذکور ہیں وہ سب عورتیں ہمیشہ کے لئے حرام ہیں ایک اور قسم بھی ہمیشہ کے لئے حرام ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے:
ولا تنکحوا ما نکح اباؤ کم من النساء الا ما قد سلف انہ کان فاحشۃ و مقتا و ساء سبیلا۔ (4 ۔ 22 )
یعنی باپ کی بیوی، کل تیرہ ہو گئیں، ان میں سے کسی کے ساتھ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتا ۔
اسلام اور عقل دونوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ پردہ صرف ایسی عورت کو نہیں جو ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور کسی صورت میں بھی اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ، اور ہر وہ عورت جس سے کسی وقت بھی نکاح کا امکان ہو اس سے پردہ فرض ہے، اسلئے خوب سمجھ لیں کہ قرآن کریم میں جو تیرہ قسم کی عورتوں کو ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے ان کے سوا ہر عورت سے نکاح صحیح ہے، چنانچہ محرمات کی تفصیل بیان فرمانے کے بعد ارشاد ہے :
واحل لکم ما وراء ذلکم۔(4۔24 )
''ان محرمات کے سواباقی سب عورتیں حلال ہیں ۔'' اس لئے ان پر پردہ فرض ہے۔
ایک جہالت کی اصلاح :
جاہلوں میں مشہور ہے کہ چچی اور ممانی اور بھتیجے کی بیوی اور بھانجے کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں، اس لئے سمجھتے ہیں کہ شوہر کے چچا اور ماموں اور اس کے بھتیجے اور بھانجے سےشرعاً پردہ نہیں، یہ سخت جہالت ہے قرآن کریم میں ان عورتوں کو حلال قرار دیا گیا ہے،یعنی شوہر کے چچا، ماموں اور بھتیجے، بھانجے کی وفات یا طلاق کے بعد ان کی بیوی سے نکاح جائز ہے،دیکھئے جہالت کتنی بری بلا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے حلال کی ہوئی عورتوں کو حرام بتا رہا ہے ، اللہ تعالی کا مقابلہ کر رہا ہیں، نعوذ باللہ من ذلک ، خوب یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں کہ شوہر کے چچا اور ماموں اور اس کے بھانجے اور بھتیجے سے پردہ فرض ہے۔
صحابہ کرام ؓ میں پردہ کی پابندی؟
:
(6) یایھا الذین امنو ا لا تد خلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الی طعام غیر نظرین انہ ولکن اذا دعیتم فاد خلوا فاذا طعمتم فا نتشروا۔ (33۔53)
سنئے ! قرآن کیا کہتا ہے:
اے ایمان والو ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل مت ہونا۔'' ''
یہ کن لوگوں سے خطاب ہے؟ حضرات صحابہ کرام ؓ کی مقدس جماعت سے، جن کے تقدس کا بیان اللہ تعالی قرآن کریم میں بار بار فرماتے ہیں، ان کو حکم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں مت جانا، مائیں ہیں وہ بھی کیسی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، جن کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا۔ (33۔33)
''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو ! ہم نے سب کو پاک کردیا ہے۔''
جس کو اللہ پاک کر دے کیا اس میں کوئی خرابی آسکتی ہے؟ وہ پاک عورتیں ہیں، اور جانے والے کون؟ حضرات صحابہ کرامؓ ، ان کو یہ حکم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں مت جانا،
الا ان یؤذن لکم الی طعام
اگر کھانے کے لئے بلایا جائے یعنی کھانے کی کوئی دعوت ہو تو کھانے کے لئے جاؤ، اور پھر اس کے کیا آداب ہیں؟ پہلے سے جاکر نہیں بیٹھ جاؤ،
ولکن اذا دعیتم فاد خلوا۔
''جب بلایا جائے اس وقت پہنچو۔''
پھر
فاذا طعمتم فا نتشروا
''جب فارغ ہو جاؤ تو جلدی سے نکل جاؤ ۔''
وہاں بیٹھ کر باتیں نہ شروع کردو ، بیٹھے مت رہو، اس کی وجہ سمجھ میں آئی؟ یہ حکم کیوں ؟ وہاں تو پردہ ہے، پردہ سے کھلا یا جا رہا ہے ، پھر کیوں کہا جا رہا ہے کہ وقت سے پہلے مت جاؤ اور کھانے سے فارغ ہو جاؤ تو فورا نکل جاؤ، وہاں بیٹھ کر باتیں نہ کرو، مجلس بازی نہ کرو،بلکہ جلدی سے نکل جاؤ، نہ پہلے سے بیٹھو نہ بعد میں فارغ ہو کر بیٹھے رہو، کیوں ؟اس لئے کہ مستورات آپس میں بات وغیرہ کریں گی تو ان کی آواز کان میں نہ پڑ جائے ، کیا کوئی اور مطلب ہوسکتا ہے؟یہ ادب اس لئے سکھا دیا کہ اگر زیادہ دیر تک وہاں بیٹھے رہے تو مستورات کی آواز کانوں میں پڑنے کا خطرہ ہے، اس لئے پس پردہ بھی بقدر ضرورت بیٹھو ،ضرورت سے زائد نہ بیٹھو۔
قرآن کے باغیوں پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدمہ :​

میں اس قرآن کے احکام بتا رہا ہوں جسے آپ لوگوں نے لڈو کھانے اور چائے پینے کا دھندا بنا رکھا ہے۔
اس قرآن کریم میں جتنے بھی حروف ہیں ان میں سے ایک ایک حرف پر آپ لوگوں نے ''خوانیوں'' میں کم از کم دس دس پیالی چائے پی ہو گی اور اتنے ہی لڈو کھائے ہونگے اور احکام قرآنی پر عمل کرنا تو در کنار اتنی ''خوانیوں'' کے بعد بھی یہ جو احکام بتا رہا ہوں کبھی آج تک آپ نے سنے بھی ہیں؟ آپ تو بس سمجھتے ہیں کہ بڑا اچھا قرآن دیا ہے، قربان جاؤں اللہ تعالی کے ،یاد رکھیے! ایک روز حساب ہو گا ،پوچھا جائے گا کہ قرآن کا کیا مقصد سمجھتے تھے؟ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی بار گاہ میں یوں شکایت کریں گے :
یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا۔( 25۔30)
''اے میرے رب !میری امت نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ رکھا تھا۔''
للہ ! سوچئے اس وقت آپ کے پاس کیا جواب ہو گا ۔
بے پردہ لوگوں کے ہزاروں اللہ :

اس آیت پر بیان شروع ہوا تھا :
یایھا النبی اذا جاءک المؤمنت یبایعنک علی ان لایشرکن باللہ شیئا ولا یسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولادھن ولا یأ تین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن و ارجلھن ولا یعصینک فی معروف فبا یعھن واستغفر لھن اللہ ان اللہ غفوررحیم ۔ (20۔12)
''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس جب بیعت ہونے کیلئے مؤمن عورتیں آئیں تو ان چیزوں پر بیعت فرمائیں :
ان لا یشرکن باللہ شیئا ۔
''اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔''
ذرا پہلے ہی مرحلہ پر اپنا امتحان کر لیجئے، جو عورتیں یہ کہتی ہیں کہ چچا زاد اور پھوپھی زاد سے پردہ ہو گا تو فلاں ناراض ہو جائیں گے، ماموں زاد اور خالہ زاد سے ہو گا تو فلاں ناراض ہو جائیں گے،دیور سے ہوا تو فلاں ناراض ہو جائینگے ، اللہ تعالی تو فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی ایک کو بھی شریک نہ کرو، اور آج کل کی مسلمان کہلانے والیوں کے کتنے اللہ ہیں؟ چچا زاد بھی اللہ ،پھوپھی زاد بھی اللہ،ماموں زاد بھی اللہ،خالہ زاد بھی اللہ، دیور بھی اللہ،جیٹھ بھی اللہ، بہنوئی بھی اللہ ، نندوئی بھی اللہ ، یہ تو میں نے ہر ایک قسم میں سے ایک ایک گنوایا ہے ، اور اگر کسی کے چچا دس ہوں اور ہر ایک کے دس بیٹے ہوں تو چچا زاد ایک سو ہو گئے، اسی طرح ہر ایک قسم میں سے سو سو لے لیں، تو تقریبا ایک ہزار تو یہی بن گئے،اور پھر چچا کیا کہے گا؟ چچی کیا کہے گی؟ ماموں کیا کہے گا؟ ممانی کیا کہے گی؟ پھوپھا کیا کہے گا؟ پھوپھی کیا کہے گی؟ ارے اللہ جانے کتنے اللہ بنیں گے۔
آج کے مسلمان میں ایمان کتنا ہے؟
ومن الناس من یتخذ من دون اللہ اندادا یحبونھم کحب اللہ والذین امنوا اشد حباللہ۔(2 ۔ 125 )
''بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جن کو اللہ تعالی کی بنسبت غیر سے زیادہ محبت ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہے۔''
بڑی ہی اچھی اور بہت مفید بات اللہ تعالی نے کہلوا دی، ذرا اپنے ایمان کا محاسبہ کر لیجئے،فرمایا انہوں نے بہت سے اللہ بنا لئے ہیں، اور ان کے ساتھ ان کو محبت ہے، مگر جن کا اللہ تعالی پر ایمان ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ پوری دنیا کی بنسبت زیادہ محبت رکھتے ہیں،اب سوچئے !جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم شریعت کے مطابق پردہ نہیں کریں گے یا نہیں کرسکتے، ان کو اللہ تعالی کے ساتھ زیادہ محبت ہے یا اپنے خاندان والوں کےساتھ زیادہ ہے؟ ذرا یہیں بیٹھے بیٹھے ایمان کا محاسبہ کیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ ایمان کس درجہ میں ہے؟ بات کچھ دل میں اتر رہی ہے؟ اللہ کرے اتر جائے، اللہ تعالی نے معیار بتا دیا کہ مؤمن وہ ہے جس کو اللہ تعالی کے ساتھ پوری دنیا کی بنسبت زیادہ محبت ہو، مگر لوگوں کی اکثریت ایسی ہے کہ انہوں نے بہت سے اللہ بنا رکھے ہیں،انہیں اللہ تعالی کے ساتھ اتنی محبت نہیں جتنی دوسرے خداؤں کے ساتھ ہے، خاندان کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ تعالی کو ناراض کیا جا رہا ہے، تو بتائیے کہ ایمان کہاں ہے؟
مسلمان کو قرآن سے نصیحت کیوں نہیں ہوتی؟
وذکر فان الذکری تنفع المؤمنین۔ (51 ۔55 )
''آپ نصیحت کریں نصیحت مؤمن کو ضرور فائدہ دیتی ہے۔''
اب ذرا سوچا جائے کہ آج کے مسلمان کو قرآن سے نصیحت کیوں نہیں ملتی؟ قرآن کی بات دل میں کیوں نہیں اترتی؟ اللہ تعالی کا فیصلہ تو یہ ہے کہ نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے، اور حقیقت میں فائدہ ہو نہیں رہا، تو سوچا جائے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اللہ تعالی کا ارشاد غلط تو ہو نہیں سکتا، پھر فائدہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں:
(1) یا تو جو بات کہی جا رہی ہے وہ نصیحت ہی نہیں، یعنی کہنے والے میں اخلاص نہیں ، اگر کہنے والا اللہ تعالی کے لئے نہیں کہہ رہا، اس میں فکر آخرت نہیں، قلب میں درد نہیں، ویسے ہی رسم و رواج کے طور پر، دستور کے طور پر یا دکھلاوے کے لئے کہہ رہا ہے، تو اس کا کہنا نصیحت نہیں، اس لئے اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
(2) یا سننے والے مؤمن نہیں ، نصیحت مؤمنین کو فائدہ دیتی ہے، اور صرف انہی کے دلوں پر اثر کرتی ہے،جس میں ایمان نہیں اس پر نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی، سننے والوں میں ایمان کامل ہو، توجہ ہو ، آخرت کی فکر ہو،ایمان کی خاطر سننے بیٹھے ہوں تو نصیحت فائدہ دے گی ، اگر ان میں عمل کرنے کا ارادہ نہیں، طلب نہیں ، تڑپ نہیں تو نصیحت فائدہ نہیں دے گی۔
دغا باز مسلمان :
بات دراصل یہ ہے کہ پردہ کی بات تو آج کے مسلمان کے دل میں اترتی ہی نہیں، نماز کے لئے کہا جائے،پڑھ لیں گے ، روزے رکھ لیں گے، صدقہ و خیرات بھی کر دیں گے،پنج سورہ بھی پڑھ لیں گے، میٹھی میٹھی باتوں پر عمل کر لیں گے، اللہ تعالی سے محبت کا دعوی تو لمبا چوڑا کریں گے لیکن ان کی نافرمانی نہیں چھوڑیں گے، یہ کڑوا گھونٹ حلق میں نہیں اترتا ، خود غور کیجئے، سوچئے کہ اللہ تعالی کو دھوکا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے یا نہیں ؂
ساتھ غیروں کے مری قبر پہ آتے کیوں ہو؟
تم جلاتے ہو مجھے تو جلاتے کیوں ہو؟​
اگر جلانے کا دعوی کرتے ہو، محبت کا دعوی کرتے ہو تو پھر معصیت اور نافرمانی سے میرا دل کیوں دکھاتے ہو؟ ایک بچی اسکول کی کسی کتاب میں یہ شعر پڑھ رہی تھی ؂
نام پہ تیرے جان فدا ہو ۔ : ۔ کوئی نہ دل میں تیرے سوا ہو
یہ دھوکے کی باتیں ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ان کے حال کے مطابق یہ شعر یوں ہونا چاہیئے ؂
نام پہ تیرے جان فدا ہو ۔ ؛ ۔ حکم نہ تیرا اک بھی ادا ہو
آج آپ لوگ یہ دعاء مانگ لیں کہ یا اللہ ! قرآن کریم کے ساتھ جو دھوکے کا معاملہ چل رہا ہے اس سے تو ہماری حفاظت فرما، قرآن کی لذت عطاء فرما، قرآن کے ساتھ سچی محبت عطاء فرما ، اس کے ساتھ تعلق عطاء فرما ، اس کی حلاوت عطاء فرما اس کے احکام پر عمل کی توفیق عطاء فرما۔
قرآن سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مطابق عمل ہونا چاہئے، یہ گولی نگلنا ہے بہت مشکل ، بڑی کڑوی، چچا زادسے پردہ ؛ پھوپھی زاد سے پردہ ، ماموں زاد سے پردہ ، خالہ زاد سے پردہ ، جیٹھ سے پردہ ، بہنوئی سے پردہ ، نندوئی سے پردہ ،اس گولی پر کتنی ہی شکر چڑھا چڑھا کر نگلوائیں مگر پھر بھی نگلنا بہت مشکل ہے، ہاں ! اللہ تعالی مدد فرمائیں تو کوئی مشکل نہیں، جب ان کی دستگیری ہوتی ہے تو پھر دل کی کایا پلٹ جاتی ہے اور یہ حالت ہو جاتی ہے ؂
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہئے ۔ ؛ ۔ مد نظر تو مرضی جانانہ چاہئے
بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ ۔ ؛ ۔ کیا کیا تو کرنا چاہئے کیا کیا نہ چاہئے
مخلوق کی رضا مندی جہنم سے نہیں بچا سکتی :
جن کے خوف سے ، جن سے ڈر کر ، جن کی مروت میں آپ پردہ نہیں کرتیں ، تو کیا آپ کو جہنم میں جانے سے وہ لوگ روک لیں گے؟ کیا اللہ تعالی کے یہاں یہ عذر صحیح ہو گا ، قبول ہو سکے گا کہ میرا فلاں ناراض ہوتا تھا، فلاں ناراض ہوتا تھا، فلاں کی محبت میں، فلاں کی مروت میں، فلاں کے خوف سے میں نے پردہ نہیں کیا تھا،
اذ تبر أ الذین اتبعوا من الذین اتبعوا ورأ و العذاب و تقطعت بھم الاسباب ۔ (2 ۔ 166 )
وہ دن آنے والا ہے کہ جن لوگوں کے اتباع میں ہمارے احکام کی خلاف ورزی کی جاتی ہے گناہ کا حکم دینے والوں اور ان کا اتباع کرنے والوں کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے، وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے، وہاں چھوٹے یہ کہیں گے کہ بڑوں کی وجہ سے ہم نے پردہ نہیں کیا، اور بڑے کہیں گے کہ ہمارا ان پر بس تھوڑا ہی چلتا تھا، ہم تو گناہ کی دعوت ہی دیتے تھے، گناہ تو یہ خود ہی کر رہے تھے ، ہم نے ان سے زبردستی تو گناہ نہیں کروائے تھے،فرمایا :
وقال الشیطن لما قضی الا مر ان اللہ وعد کم وعد الحق و وعدتکم فاخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطن الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلو مونی ولوموا انفسکم ما انا بمصرخکم وما انتم بمصرخی انی کفرت بما اشرکتمون من قبل ان الظلمین لھم عذاب الیم ۔ (14 ۔ 22 )
"اور جب تمام مقدمات فیصل ہو چکیں گے تو شیطان کہے گا کہ اللہ تعالی نے تم سے سچے وعدے کئے تھے اور میں نے بھی کچھ وعدے تم سے کئے تھے سو میں نے وعدے تم سے خلاف کئے تھے اور میرا تم پر اور تو کچھ زور چلتا نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تم کو بلایا تھا سو تم نے میرا کہنا مان لیا تو تم مجھ پر ملامت مت کرو اور ملامت اپنے آپ کو کرو،نہ میں تمہارا مدد گار ہوں اور نہ تم میرے مدد گار ہو میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس کے قبل مجھ کو شریک قرار دیتے تھے، یقیناً ظالموں کیلئے درد ناک عذاب ہے۔''
شیطان تک یہ کہہ دے گا : '' میری تم پر کوئی قدرت نہیں تھی، بس نہیں چلتا تھا، میں تو تبلیغ ہی کرتا تھا، تم نے اپنے اختیار سے برے عمل کئے، اس لئے اب تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو، نہ تمہیں جہنم سے چھڑا سکتا ہوں اور نہ تم مجھے چھڑا سکتے ہو ، تم نے جو مجھے اللہ تعالی کے ساتھ شریک کیا تھا یعنی اللہ تعالی کے حکم کے مقابلہ میں میرا حکم مانتے تھے، میں اس سے بیزار ہوں، یقیناً ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔''اب سارے اکٹھے ہی جہنم میں جائیں گے، دنیا میں بھی اکٹھے تھے، اور جہنم میں بھی اکٹھے رہیں گے۔ یا اللہ ! وہ دن آنے سے پہلے پہلے تو فکر آخرت عطاء فرما، یا اللہ! حساب و کتاب سے پہلے ہمارے قلوب میں تو اس کی فکر عطاء فرما دے ، اور ہمیں اپنی عاقبت بنانے کے لئے اپنے احکام پرعمل کی توفیق عطاء فرما دے۔
یہ ہے تو بڑی کڑوی گولی لیکن کسی نہ کسی طرح شکر چڑھا کر اسے نگل جائیے ، اور نگلنے کے بعد پھر دیکھئے کیا مزا آتا ہے ، ایک بار نگل جائیے ، یا اللہ ! تو نگلوا دے ، کسی نہ کسی طرح سےنگلوا دے ۔
دنیا میں جنت کے مزے کیسے حاصل ہوتے ہیں ؟
اللہ تعالی کی خاطر جو شخص دنیا کے تعلقات کو چھوڑ دیتا ہے اس کو دنیا ہی میں جنت کے مزے آتے ہیں، جس نے اللہ تعالی کے لئے، اپنے وطن آخرت کے لئے، آخرت کے عذاب سے بچنے کے لئے دنیا والوں کو چھوڑ دیا، ان سے منہ موڑ لیا وہ کامیاب ہو گیا، اللہ تعالی اس کے دل کو ایسے سرور اور ایسی لذت سے نوازتے ہیں کہ دنیا بھر کی لذتیں اس کے سامنے گرد ہیں ؂
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ۔ ؛ ۔ ہائے ! کمبخت تو نے پی ہی نہیں
ذرا پی کر تو دیکھو ، ذرا اس کی لذت حاصل کر کے تو دیکھو ، یا اللہ ! تو ہمتیں بلند فرما دے ، پردہ کی آیت سورہ نور میں نازل ہوئی اللہ کرے سورہ نور سے نور مل جائے، یا اللہ ! تو سورہ نور سے ہمیں اپنا وہ نور عطاء فرما جس کے سامنے دنیا بھر کے تعلقات و اعتراضات سب کافور ہو جائیں ، ہمارے دلوں میں یہ نور اتار دے جو تمام ظلمات کو کافور کر دے ، سورہ نور میں عورتوں کو خاص طور پر خطاب فرما کر پردہ کے احکام بتائے گئے ہیں : ''اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ مؤمن عورتوں سے بھی فرما دیجئے ''اب آپ یہ فیصلہ خود کر لیں کہ ''مؤمنات'' کی فہرست میں شامل ہیں یا نہیں ؟ دلوں میں ایمان کی کوئی رمق ہے یا نہیں؟ یا اللہ ! تو سب کو مؤمنین و مومنات کی فہرست میں داخل کر دے ، ایمان کامل عطاء فرما ، قرآن کریم پر اعتماد و اعتقاد عطاء فرما ، عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما ۔
آج کے مسلمان کا دل ڈاکو سے بھی سخت ہے :
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی بہت مشہور بزرگ گزرے ہیں، یہ پہلے بہت بڑے ڈاکو تھے ، ایسے خطرناک اور مشہور ڈاکو کہ قافلے ان کی خبر سن کر وہ راستہ چھوڑ دیتے تھے ، ان کو کسی عورت سے عشق ہو گیا ، اس عورت کو اس کے مکان سے اٹھا کر لے جانے کی غرض سے صحن کی دیوار پر چڑھے ، اندر کوئی تلاوت کر رہا تھا، اس نے یہ آیت پڑھی :
الم یأن للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق ۔ ( 57 ۔ 16 )
''کیا ابھی ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کا ذکر اور قرآن کریم سن کر نرم ہو جائیں ۔''
فضیل بن عیاض کے کان میں یہ آواز پڑی ، ان کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ وہیں سے بلی قد ان یا رب بلی قد ان یا رب ''ہاں میرے رب وقت آگیا ، ہاں میرے رب وقت آگیا'' پکارتے ہوے واپس لوٹ آئے اور ایسی توبہ کی اور اللہ تعالی کے ساتھ ایسی محبت کا تعلق جوڑا کہ مشہور اولیاء اللہ کی صف میں جا پہنچے ۔ ذرا غور کیجئے آج کے مسلمان کا دل اس زمانہ کے ڈاکوؤں کے دلوں سے بھی زیادہ سخت ہے کہ اس پر قرآن کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، اللہ تعالی اس قوم پر رحم فرمائیں ، اللہ تعالی سے یوں دعاء کیا کریں کہ یا اللہ ! تیری وہ رحمت جس نے فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی کے دل کی کایا پلٹ دی وہ رحمت ہمارے دلوں پر بھی نازل فرما ۔
بے پردگی دین کی کھلی بغاوت ہے :
آج مسلمان کے دل میں نیکی کا معیار صرف یہ رہ گیا ہے کہ اور اد و وظائف اور نوافل و تسبیحات زیادہ پڑھے ، یہ نفس اور شیطان کا دھوکا ہے نیکی کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی اور بغاوت سے توبہ کی جائے ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اتق المحارم تکن اعبدالناس۔ (رواہ الترمذی )
''گناہوں سے بچو تو سب سے بڑے عابد شمار ہو گے ۔''
خاص طور پر بے پردگی کا گناہ دوسرے گناہوں سے بہت زیادہ ہے اس لئے کہ :
( 1 ) یہ علانیہ گناہ ہے یعنی کھلی بغاوت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
کل امتی معافی الا المجاھرین (رواہ البخاری و مسلم )
''میری پوری امت معافی کے لائق ہے مگر علانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں ۔''
دنیوی حکومتوں کے قانون میں بھی علانیہ بغاوت کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا پھر بغاوت کی سزا بھی کیا ہے ؟ موت ۔
( 2) بے پردگی کا گناہ صرف بے پردہ عورت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی وجہ سے جو بے حیائی اور بد معاشی پھیلتی ہے پوری قوم اس کے دنیوی وبال اور اخروی عذاب کی لپیٹ میں آ جاتی ہے ، اس گناہ کے نتیجہ میں طرح طرح کے فتنے حتی کہ قتل تک کی واردات کا عام مشاہدہ ہو رہا ہے ۔
 
بے دین معاشرہ کا مقابلہ کرنے والے :
بے دین معاشرہ اور برے ماحول کے مقابلہ میں ہمت والوں کے حالات سے سبق حاصل کر کے ہمت بلند کریں ، پہلے بتا چکا ہوں کہ بعض خواتین امریکہ میں گاڑی چلایا کرتی تھیں اللہ تعالی کی رحمت نے دستگیری فرمائی تو پردہ کی ایسی پابند ہو گئیں کہ آج کے مولویوں اور دیندار گھرانوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔
ایک خاتون کے میکے والے ہندوستان میں ہیں وہ عرصہ کے بعد ملنے گئیں اور بہنوئیوں سے پردہ کیا ، بہنوں نے بہت خوشامد سے کہا کہ ہمارے شوہر ناراض ہو جائیں گے ، اور سخت تکلیف پہنچائیں گے ، ہماری زندگی تباہ ہو جائے گی ، والدین نے بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ بہنوں کی حالت پر رحم کھاؤ ، بہنوئیوں سے پردہ مت کرو ، اس خاتون کی ہمت دیکھئے جواب میں کہا کہ میں بہنوں کی دنیاوی زندگی بنانے کے لئے اپنی عاقبت برباد نہیں کر سکتی اور بہنو ئیوں کو راضی کرنے کے لئے اپنے مالک کو ناراض نہیں کر سکتی ۔ ایک خاتون نے میرا صرف ایک وعظ''زندگی کا گوشوارہ'' پڑھ کر لکھا ہے ''اللہ تعالی نے بہت سے گناہوں سے بچا لیا اور بہت سے گناہوں سے چھٹکارا ہمیشہ کے لئے حاصل ہو گیا، اللہ کے فضل وکرم سے میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ ان شاء اللہ آیندہ کسی غیر محرم کے سامنے نہیں جاؤں گی''اللہ کی رحمت سے ان کے دل پر صرف ایک وعظ پڑھنے کا اثر ہوا ہے،یا اللہ ! تو ان وعظ سننے والیوں کے دلوں پر بھی یہی رحمت فرما ۔
ایک بچی نے دس گیارہ سال کی عمر میں چچا زاد اور خالہ زاد وغیرہ قریب تر نامحرم رشتہ داروں سے پردہ کر لیا تو خاندان کے مردوں اور عورتوں نے سخت اعتراض کیا اور دھمکی دی کہ پورا خاندان تم سے کٹ جائے گا، بچی کا جواب سنئے اس نے بڑے جوش سے اشعار پڑھے؂ سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہئے ۔ ؛ ۔ مد نظر تو مرضی جانانہ چاہئے
بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ ۔ ؛ ۔ کیا کیا تو کرنا چاہئے کیا کیا نہ چاہئے
یہ ہے کرامت ، بھلا اس سے بڑھ کر کیا کرامت ہوسکتی ہے کہ اپنے مالک کی رضا جوئی کے لئے اپنے نفس کی تمام خواہشات اور دنیا بھر کے تمام تعلقات کو قربان کر دیا جائے، اس کرامت کے سامنے ہوا میں اڑنے اور سمندر کی سطح پر چلنے جیسی کرامتوں کی کوئی حقیقت نہیں، کرامت کی روح یہ ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت دل کی گہرائیوں میں اتر جائے جس کی بدولت دنیا بھر کے مقابلہ میں دین پر استقامت نصیب ہوجائے، یا اللہ ! تو اپنی رحمت سے ہم سب کو اس کرامت سے نواز دے ، یہ کرامت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی کرامت جیسی ہے ، ان کو ہر وقت ایسی عظیم کرامت حاصل تھی، اس لئے ان سے دوسری کرامتیں زیادہ منقول نہیں ۔ایسی با ہمت خواتین کا ایک اور قصہ سنئے کسی نے ان کے حالات پرچہ میں لکھ کر دیئے ہیں ، یہ پرچہ ہی سن لیجئے :
''آج خط لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں نے اللہ تعالی سے یہ عہد کیا ہوا ہے اپنے مرشد کے ہاتھ پر کہ میں زندگی کے آخری سانس تک گانے بجانے کی لعنت چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اور تصویروں کی لعنت خواہ کسی کی ہو ہرگز ہر گز نہ تو خود نہ کسی بچہ کو لانے دوں گا، نہ ایسے گھروں میں کسی بچی کا رشتہ کروں گا جن کے ہاں یہ لعنتیں ہوں گی،اور نہ کسی بچہ یا بچی کو اسکول کے دروازے تک بھی جانے دوں گا، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ تین بیٹوں دو بیٹیوں کے رشتے میری خواہش کے مطابق ہونے ، لیکن ماحول نے ایسی تباہی مچادی کہ دوسرے رشتہ دار مثلاً بیٹوں کے سالے ، سالیاں ، ان کے سسر ، ساس کے رشتہ دار اور میرے اپنے ہی بہت سے رشتہ دار میری راہ میں رکاوٹ بننے شروع ہوگئے ، شرعی پردہ بھی درہم برہم ہونے لگا ، اور دوسری رسومات بھی چوری چھپے ہونے لگیں ، ویسے ہم گھر میں چھوٹے بڑے بیس افراد ہیں ، ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں ، اکٹھے ایک چولہے پر پکاتے کھاتے ہیں ، کسی قسم کا آپس میں کبھی ساس بہو دیورانی جٹھانی کا کبھی کوئی جھگڑا آج تک نہیں ہوا ، میرا یقین ہے کہ یہ میرے بزرگوں کی محبت کی برکت ہے ، ایک طرف میں اکیلا دوسری طرف رشتہ داروں کا ٹولہ ، کوئی کہتا ہے کہ دادا پر دادا کی ساری رسمیں یہ کہاں کا مولوی آگیا ختم کرنے والا ، کوئی کہتا ہے ارے فلاں مولوی فلاں حافظ کے گھر ٹیلی ویژن ہے ، یہ ایسی سخت پابندیاں لگاتا ہے ، میرے آقا ! دل میں جو تکلیف ہوتی ہے چیر پھاڑ کر کس کو دکھاؤں ؟ اللہ تعالی کے حضور رونے کے علاوہ میں اور کیا کیا کرتا رہا ، کافی دن تک حضرت ۔۔۔۔صاحب کی مجلس میں سارے گھر والوں کو لے جاتا رہا ، لیکن بات نہ بنی ایک دن آپ کے ہاں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر اسی سوچ و فکر میں بیٹھا تھا کہ اے میرے اللہ ! اب میں کون سی تدبیر کروں ؟ کیا کروں؟ میرے بس سے کام باہر ہوتا جا رہا ہے ، میرے اللہ ! اگر آپ میری مدد نہیں فرمائیں گے تو میں تو تباہ ہی ہو جاؤں گا ،تھوڑی دیر سوچنے پر اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ آج ہی گھر والوں کو حضرت مفتی صاحب کی مجلس میں لاؤں ، بس فورا گھر گیا اور کہا میرے پیارے بیٹو بیٹیو ! کیا آج مفتی صاحب کا بیان سننے کے لئے مفتی صاحب کے ہاں میرے ساتھ چلو گے ؟ سب نے خوشی سے کہا ہاں ابا ! ضرور چلیں گے ، میں نے کہا اچھا پھر تیار ی کرو ، عصر کی نماز وہاں پر پڑھنی ہے ، سب لوگ آگئے ، اللہ تعالی کو میری لاج رکھنی تھی ، آپ کے دل میں اللہ تعالی نے یہ بات ڈال دی کہ آج گانے بجانے ، تصویر کی لعنت اور شرعی پردہ پر بیان ہو ، ایک خاتون کے خط کا حوالہ بیان فرما کر آپ نے بیان شروع فرمایا کہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ کی بات نہیں کرتا ، اس دور کی ایک خاتون میرا مطبوع وعظ''زندگی کا گوشوارہ''پڑھ کر مجلس میں آئے بغیر توبہ کر لیتی ہے تو آنے والیاں نہیں کرسکتیں؟ میرے آقا ! آپ بیان فرما رہے تھے اور میں دل ہی دل میں اتنا خوش ہو رہا تھا اور ایک سانس میں کئی کئی بار دل میں یوں کہتا تھا ، اے اللہ ! اے اللہ ! تیرا کس زبان سے شکر ادا کروں ، تو نے تو آج مجھ پر مہربانیوں کی بارش ہی برسا دی ، بلکہ کئی دن تک چلتے پھرتے بھی یہی وظیفہ بنا رہا، کیونکہ میرے آقا ! جب میں عشاء کے بعد گھر گیا تو میری بہو بیٹیاں توبہ کر چکی تھیں ، چھوٹے چھوٹے دیوروں سے بھی پردہ کئے ہوئے تھیں ، بس رنگ بدلا ہوا تھا ، جس رنگ کے لئے میں برسوں کوشش کرتا رہا وہ کام اللہ تعالی نے آپ سے چند منٹوں میں کروا دیا ، اور رنگ میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ، برکت ہی ہو رہی ہے ، اب یہ میرے تینوں بیٹوں کی بیویاں اور میری ایک بچی جس کی عمر گیارہ برس دس مہینے ہے بار بار کہتی ہیں کہ ابا بہت ہی دل کرتا ہے کہ مفتی صاحب سے اصلاحی تعلق قائم کرلیں، میں ٹالتا رہتا ہوں کہ مرید مردہ کے مانند ہوتا ہے ، مریدنی بن کر اپنی مرضی سے کوئی رسم خوشی غمی کی نہیں کرسکوگی ، اگر ایسا کیا تو پھر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ، اللہ تعالی سخت ناراض ہوتے ہیں خوب سوچ لو ، لیکن یہ کہتی ہیں کہ ہم تو سب کچھ قربان کر چکے ہیں اور ان شاء اللہ تعالی آخری سانس تک نبھائیں گے ، انہوں نے آج مجھے خط لکھنے پر مجبور کردیا ، یہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو اتنی محبت ہو گئی ہے کہ پیر کے دن بھی مجلس میں ہم کو حصہ مل جائے تو بڑی خوشی ہوگی ، میں نے ان سے آج وعدہ کر لیا ہے کہ آج ان شاء اللہ بعد نماز ظہر حضرت جی کی خدمت میں خط پیش کردوں گا ۔''
ہمت کے ایسے واقعات دیکھ کر اور سن کر سوچا کریں کہ آخر یہ خواتین بھی تو اسی ماحول اور اسی معاشرہ میں ہیں جس میں آپ ہیں ، پھر ان کو تو ہمت ہوگئی مگر آپ کو ہمت کیوں نہیں ہو رہی ؟ آخرت میں اس کا کیا جواب ہوگا ؟
ان باہمت خواتین کے حالات سے سبق حاصل کرنے کے ساتھ یوں دعاء بھی کیا کریں یا اللہ! جو رحمت تو نے ان خواتین کے دلوں پر نازل فرمائی وہ ہمارے دلوں پر بھی نازل فرما ۔ یا اللہ ! تیری وہ دستگیری جس نے ان خواتین کے دلوں کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ ان کی نظر میں دنیا بھر کے تعلقات کی کوئی وقعت نہیں رہی ، ہمارے ساتھ بھی ایسی دستگیری فرما ، یا اللہ ! ان خواتین کے دلوں میں جو تو نے اپنی محبت کی ایسی دولت اور ایسی لذت عطاء فرمائی ہے کہ اس پر دنیا بھر کی محبتیں اور دنیا بھر کی تمام لذتیں قربان ہو جائیں ، تیری اس رحمت کے صدقہ سے تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں بھی اپنی محبت کی یہ دولت اور لذت عطاء فرما ۔
 
دینی مسائل سے لوگوں کی غفلت :
بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ تو ہم نے پہلے کبھی سنا ہی نہیں ، سنیں بھی کیسے ؟ ؂
انہوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں

وہ ایسےکہہ دیتے ہیں جیسے پیدا ہونے کے بعد سے کسی خانقاہ میں پلتے رہے ہوں ، بیس سال دینی مدرسہ میں اور پچیس سال گذار دئیے خانقاہ میں اور علماء کی صحبت میں بیٹھ کر مسئلے سیکھتے رہے ، اور کتنی ہی کتابیں ہم نے مسائل کی پڑھ ڈالیں ، پھر بھی ہم نے یہ مسئلہ نہیں سنا ، کوئی ایسی بات ہوتی تو کوئی کہے بھی ، ذرا سوچئے ! زندگی کیسے گذر رہی ہے ؟ بے دین لوگوں کو چھوڑئیے ، دیندار لوگوں کو بھی مسئلہ پوچھنے کی توفیق ہوتی ہے ؟ اور پوچھیں گے تو کیا ؟ ''وراثت ۔''والد کا انتقال ہو گیا ہمیں وراثت میں کتنا حصہ ملے گا ؟ یا پوچھیں گے '' طلاق۔''تین طلاقیں دے کر بیوی خود ہی حرام کرلی پھر ہم سے پوچھنے آتے ہیں ، بھلا ہم حرام کو کیسے حلال کر دیں ؟ بس یہی دو مسئلے رہ گئے ہیں ، وراثت کا اور طلاق کا ، باقی اسلام سے کوئی مطلب نہیں ، سو ان لوگوں کو کیا معلوم کہ مسائل کیا ہوتے ہیں ، ہاں جب ان کو مسئلہ بتائیں تو کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ تو ہم نے کبھی سناہی نہیں ، سنو گے کب ؟ جب دل میں اللہ تعالی کا خوف نہیں ، آخرت کی فکر ہی نہیں تو مسئلہ کیسے سنو گے ؟
بد نظری کی حرمت پر اشکال کا جواب :
میں ایک بار حسب معمول باغ میں تفریح کے لئے گیا تو وہاں ایک شخص نے اشکال پیش کیا کہ غیر محرم عورت کی طرف نظر سے کیوں روکا جاتا ہے جبکہ اس میں کوئی ایسا عمل نہیں جس سے کسی کی کسی چیز میں دخل اندازی ہو اور اسے نقصان پہنچتا ہو ، جیسا کہ چور جب تک کسی کے مال پر دست درازی نہیں کرتا اس وقت تک اس پر کوئی گرفت نہیں ۔
میں نے ان کو سمجھایا تو بفضلہ تعالی بات ان کی سمجھ میں آگئی ، اور وہ مطمئن ہو گئے ، میں نے ان کو حرمت نظر کی پانچ وجوہ بتائیں ۔
حرمت نظر کی پانچ وجوہ :
پہلی وجہ :
اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور اس کی حکمت معلوم ہوسکے یا نہ ہو سکے بہر حال بندہ پر بلاچون وچرا اس کی تعمیل فرض ہے، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم عورت کو دیکھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
قل للمؤمنین یغضوا من ابصرھم ویحفظوا فروجھم ، اس کے بعد عورتوں کو مستقل خطاب ہے : وقل للمؤمنت یغضضن من ابصرھن ویحفظن فروجھن ،
اس آیت پر مفصل بیان ہو چکا ہے، اب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنئے ، اس مضمون کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں ، صرف چند حدیثیں بیان کرتا ہوں :
( 1 ) نظر شیطان کا زہریلا تیر ہے ، جس کی کسی غیر محرم پر نظر پڑی اور اس نے اپنے اللہ کے خوف سے فورا نظر ہٹالی اللہ تعالی اس کے دل میں ایمان کی حلاوت پیدا فرماتے ہیں (رواہ الطبرانی والحاکم وقال صحیح الاسناد )
( 2 ) جس نے غیر محرم سے نظر پھیر لی اس پر انعام کے طور پر اللہ تعالی اس کو ایسی عبادت سے نوازتے ہیں جس کی حلاوت اس کے قلب میں محسوس ہوتی ہے ۔ (رواہ احمد والطبرانی )
حضرت فقہاء رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں :
''عورت کے مزین لباس کو دیکھنا منع ہے، اس لئے کہ اس سے قلب میں شہوت پیدا ہوتی ہے ۔''
شیطان کا اثر انسان کے تین اعضاء پر بالترتیب ہوتا ہے ، آنکھ ، دل ، شرمگاہ یعنی نظر سے دل میں شہوت پیدا ہوتی ہے اور وہ بد کاری تک پہنچاتی ہے ۔
( 3 ) بد نظری آنکھ کا زنا ہے ( رواہ البخاری و مسلم )
بروز قیامت ہر آنکھ روئے گی مگر جو بد نظری سے بچی ، اور اللہ کی راہ میں جاگی ، اور جس سے اللہ تعالی کے خوف سے مکھی کے سر کے برابر آنسو نکلا (رواہ الاصبہانی بحوالہ الترغیب والترغیب )
( 5 ) تم چھ چیزوں کی پابندی کرو تو میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوں :
( 1) جھوٹ نہ بولو (2 )امانت میں خیانت نہ کرو ( 3 )وعدہ خلافی نہ کرو ( 4 ) آنکھوں کی حفاظت کرو ( 5 ) ناجائز کاموں سے ہاتھ کو روکو ( 6 ) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ( رواہ احمد وابن حبان فی صحیحہ )
( 6 ) ایک شخص چلتے چلتے کسی عورت کو دیکھ رہا تھا ، سامنے دیوار سے ٹکر لگی ، ناک ٹوٹ گئی ، اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک خون نہیں دھوؤں گا جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قصہ نہیں بتا لیتا ، اس نے حاضر خدمت ہو کر اپنا قصہ بتایا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیرے گناہ کی سزا ہے (درمنثور ، روح المعانی )
( 7 ) ایک بار امہات المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہن میں سے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہما رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں ، اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ حاضر خدمت ہوئے ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو پردہ کا حکم فرمایا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما نے عرض کیا کہ یہ تو نابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھ رہے ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ، کیا تم انہیں نہیں دیکھ رہیں ؟ ( رواہ الترمذی وابو داود )
یہ نفوس مقدسہ جن کے تقدس کی شہادت اللہ تعالی نے قرآن کریم میں دی ہے ان کو پردہ کا حکم دیا جا رہا ہے ۔
دوسری وجہ :
جس طرح ہاتھ ، پاؤں ، زبان ، کان وغیرہ ظاہری اعضاء کے گناہ ہیں اسی طرح دل کے بھی بہت سے گناہ ہیں ، مثلاً کبر ، عجب ، ریاء وغیرہ اسی طرح غیر محرم عورت کو دیکھے بغیر صرف اس کے تصور سے لذت حاصل کرنا دل کا گناہ ہے، اور دیکھنے میں آنکھ اور دل دونوں کا گناہ ہے ۔
تیسری وجہ :
جو کام کسی دوسرے حرام کام کا ذریعہ بن سکتا ہو وہ حرام ہے ، نظر سے شہوت پیدا ہوتی ہے جو بدکاری تک پہنچاتی ہے ، بسا اوقات درجہ عشق تک پہنچ جاتی ہے جس سے آخرت کی بربادی کے علاوہ دنیا کی بربادی کے بھی بے شمار واقعات کا مشاہدہ ہو رہا ہے، قرآن کریم کی آیت اور حدیثیں جو میں نے پڑھی ہیں ان میں بھی یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ غیر محرم کو دیکھنے سے بدکاری پیدا ہوتی ہے ۔
چوتھی وجہ :
عقلی لحاظ سے بھی یہ قاعدہ عین معقول اور پوری دنیا کا مسئلہ ہے کہ جرم تک پہنچے کا ذریعہ بھی جرم ہے ، چنانچہ حفاظت مال کے لئے اس کو غیروں سے بچایا جاتا ہے ، صرف غیر کی نظر ہی سے نہیں بلکہ انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کسی قسم کا علم تک بھی نہ ہو ، جب مال کی حفاظت کے لئے اس کو غیر کی نظر سے بلکہ غیر کے علم سے بھی بچانا ضروری سمجھا جاتا ہے تو عزت اور دین کی حفاظت کے لئے یہ کیوں ضروری نہیں ؟ غیر کی نظر سے جس قدر مال کی حفاظت ضروری ہے اس سے کئی گنا زیادہ نظر غیر سے عورت کی حفاظت ضروری ہے ، جس کی چند وجوہ ہیں :
( 1 ) عزت اور دین کی حفاظت مال کی حفاظت سے بدر جہا زیادہ ضروری ہے ۔
( 2 ) مال کو چور لے گیا اور پھر واپس مل گیا تو اس میں کوئی نقص نہیں آیا ، مگر عورت کو کوئی لے اڑا تو کیا واپسی کے بعد اس کا عیب جاتا رہا ؟
( 3 ) مال میں خود اڑنے کی صلاحیت نہیں ، اس پر کسی کی نظر پڑ جائے تو اپنے اختیار سے خود بھاگ کر اس کے پاس نہیں جا سکتا ، مگر عورت بسا اوقات نظر کے اثر سے خود ہی اڑ جاتی ہے ۔
پانچویں وجہ :
شریعت نے ہر ایسی چیز کو حرام قرار دیا ہے جو صحت کے لئے مضر ہو ، غیر محرم کی طرف دیکھنے سے صحت تباہ ہو جاتی ہے ، دل دماغ ، اور اعصاب پر بہت برا اثر پڑتا ہے ، مالیخولیا اور جنون تک کے واقعات کا مشاہدہ ہے ، مردوں میں جریان منی ، سرعت انزال ، نامردی اور عورتوں میں سیلان رحم (لیکوریا ) اور بانجھ پن جیسے موذی امراض اسی بے پردگی اور بد نظری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔
پردہ کی مخالفت کا اصل راز :
بے دین معاشرہ میں پردہ کی مخالفت کا اصل راز نظارہ بازی کا مبادلہ ہے شوہر کو بیوی پر قناعت نہیں اور بیوی کو شوہر پر قناعت نہیں ، مرد بیوی اور بیٹیوں کو اس لئے پردہ نہیں کرواتا کہ پھر دوسرے بھی اس سے پردہ کروائیں گے ، تو یہ لذت دیدار سے محروم ہو جائے گا ، علاوہ ازیں بیوی اور بیٹیوں کے اس اعتراض بلکہ احتجاج سے بھی ڈرتا ہے کہ خود تو ہر وقت نئے سے نئے مزے اڑا رہا ہے اور ہمیں ان لذتوں سے روک رہا ہے ۔ بے دین عورتیں بھی اسی لئے پردہ کی مخالف ہیں کہ وہ مختلف مردوں سے نظر بازی کی لذت سے محروم ہو جائیں گی ، نامحرم مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ہی پانی بہانے لگتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت بہت تیز ہو جاتی ہے اور جنسی قوت تباہ ہو جاتی ہے ۔ دنیا میں یہ کتنا بڑا عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی بڑا ہے ۔
ایسی شرمناک حقیقت اس لئے بتا رہا ہوں کہ شاید کسی کو شرم آجائے اور ایسی بے شرمی سے توبہ کر کے دنیا و آخرت کے عذاب سے بچ جائے ۔ واللہ ! دل پر پتھر رکھ کر بتا رہا ہوں ۔ ایسی بے حیائی کی باتیں میں از خود نہیں کہہ رہا بلکہ بے دین اور بے حیا معاشرہ مجھ سے کہلوا رہا ہے ،یہ بے حیائی دیکھ کر میرے دل میں درد اٹھتا ہے جو ایسی باتیں بتانے پر مجبور کر رہا ہے کہ شاید یہی کسی کی ہدایت اور دنیا و آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بن جائے ، میں تو زبان سے بتاتے ہوئے شرم و حیا سے پانی پانی ہو رہا ہوں مگر آج کے مسلمان کو ایسی بے حیائی کے کام کرنے سے بھی شرم نہیں آتی ۔ فکر آخرت نہیں تو کم از کم کچھ انسانی غیرت اور شرم و حیا ہی ہوتی ۔ یا اللہ ! تو ہی قوم کو ہدایت دے ۔
چند اشکال اور ان کے جواب :
آخر میں پردہ کے بارے میں عام پیدا ہونے والے کچھ اشکلات کے جوابات بھی سمجھ لیجئے :
بچپن میں ساتھ رکھنے سے پردہ معاف نہیں ہوتا :
( 1 ) بعض خواتین کہتی ہیں کہ ہم نے تو اپنے دیوروں کو بچپن سے پالا ہے اس لئے ہم تو ان کی ماں جیسی ہیں ، ان سے کیا پردہ ؟ اسی طرح بعض مرد کہتے ہیں کہ فلاں لڑکی تو میری بیٹی کی طرح ہے ، یا لڑکی کہتی ہے کہ فلاں شخص تو میرے ابا کی عمر کا ہے اس سے بھلا کیا پردہ ؟
اس قسم کے خیالات دین سے بے فکری اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، قیامت میں اللہ تعالی کے سامنے ایسے فریب کام نہیں دیں گے ، میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اور صاف صاف احکام سنا چکا ہوں کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت کی عورتوں کے لئے والد کی طرح نہیں تھے ؟ پھر پردہ کا حکم کیوں فرماتے تھے ؟ ایسے کھلے احکام میں بہانہ تراشی وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور فکر آخرت سے بالکل خالی ہو ۔
آج کے مسلمان کی مکاری :
میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالی کی نافرمانی سے انسان کی عقل بھی مسخ ہو جاتی ہے ، گناہوں کا وبال عقل پر ایسا پڑتا ہے کہ پھر موٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ، چنانچہ اسی جہالت کو دیکھ لیں ، اگر کسی میں ذرا سی بھی عقل ہو تو وہ کبھی ایسی جہالت کی بات نہیں کہہ سکتا ، عقل کا فیصلہ تو یہ ہے کہ جب ان سے نکاح درست ہے تو پردہ کیوں نہیں ؟ مگر یہ دغا باز مسلمان ویسے تو کسی کو بیٹی ، کسی کو ماں اور کسی کو بہن بنائے رکھتا ہے مگر جب ان میں سے کسی سے شادی کا شوق ہو جائے تو اس کے لئے سب کچھ حلال ہو جاتا ہے ۔
اگر ایسی مثالوں سے پردہ معاف ہو جائے تو دنیا میں پردہ کا حکم کہیں بھی نہیں ر ہے گا ، اس لئے کہ ہر مرد عورت میں عمر کے لحاظ سے کسی نہ کسی رشتہ کی مثال موجود ہے ، عمر کے لحاظ سے مرد اور عورت دونوں آپس میں یا باپ بیٹی جیسے ہوں گے یا ماں بیٹے جیسے یا بھائی بہن جیسے ، بس چھٹی ہوئی ، بات وہی ہے جو میں نے بتائی کہ اللہ تعالی اپنے نافرمانوں کی عقل کو اندھا کر دیتے ہیں ۔ پھر وہ ایسی موٹی بات سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہتی ۔
بوڑھوں سے پردہ کی زیادہ ضرورت :
( 2 ) جب کوئی شخص بوڑھا ہو جائے تو سمجھتے ہیں کہ اب اس سے پردہ کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی سراسر جہالت ہے ، کسی عمر میں بھی قطعی طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ اب اس میں قوت باہ بالکل نہیں رہی ، بالفرض قوت باہ نہ رہی ہو تو کیا بوس و کنار کی قوت بھی نہیں رہی ، دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ عملاً بالکل صفر ہونے کے باوجود لپٹے رہتے ہیں ، بڑھاپے میں اعصابی کمزوری کی وجہ سے قوت ضبط کم ہو جاتی ہے ، اس لئے اس قسم کے خطرات جوانوں کی بنسبت بوڑھوں سے زیادہ ہیں ، اگر کوئی بوڑھا دست درازی نہ بھی کرے تو دل میں تو مزا لیتا ہی رہے گا ، اور یہ بھی کبیرہ گناہ ہے ، اور جو عورت اس کے سامنے بے پردہ آئی چونکہ اس نے اس کو اس کبیرہ گناہ میں مبتلا کیا اس لئے وہ بھی سخت گناہ گار ہوئی ، خوب سمجھ لیجئے ، بڑھاپے سے صرف عملی قوت ختم ہوتی ہے دل کی شہوت ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اور زیادہ تیز ہو جاتی ہے ۔
اسی تفصیل پر بوڑھی عورت کو قیاس کر لیں ، عورت خواہ کتنی ہی بوڑھی ہو جائے اور کیسی ہی ناقابل عمل ہو جائے ، اس کے دل سے شہوت ختم نہیں ہوتی ، جب یہ کسی جوان مرد کو دیکھے تو کچھ بعید نہیں کہ دل للچانے لگے جو گناہ کبیرہ ہے ، یہ جو میں نے کہہ دیا کہ عورت بڑھاپے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو جائے ، یہ صرف ایک مفروضہ کے طور پر کہہ دیا ہے ورنہ حقیقت ہی ہے کہ عورت کسی عمر میں بھی ناقابل عمل ہرگز نہیں ہوسکتی ، اسی لئے حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالی کی دور رس نگاہ نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ عورت خواہ کتنی ہی بوڑھی کیوں نہ ہو اس کے لئے بلا محرم سفر کرنا جائز نہیں ، کیا عجیب جملہ فرمایا :
لکل ساقطۃ لا قطۃ ۔
''ہر گری پڑی چیز کو دنیا میں کوئی نہ کوئی اٹھانے والا موجود ہے ۔''
قرآن کریم میں سورہ نور میں فرماتے ہیں :
والقواعد من النساء التی لا یرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجت بزینۃ وان یستعففن خیر لھن واللہ سمیع علیم ۔ ( 24 ۔ 60 )
اس سے بوڑھی عورتوں کے لئے صرف اتنی رخصت نکلتی ہے کہ ان پر چہرہ کا پردہ فرض نہیں ، اس لئے کہ ان کی طرف کسی غیر محرم مرد کی نظر سے کسی قسم کے فتنہ کا کوئی اندیشہ نہیں ، اس کے باوجود ارشاد ہے : غیر متبرجت بزینۃ ۔ یعنی ان کے لئے بھی اپنی زیب و زینت غیر محرم مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ، پھر آگے ارشاد ہے :
وان یستعففن خیرلھن ۔
یعنی ان کیلئے بھی چہرہ کی بے پردگی سے پرہیز بہتر ہے ، ذرا غور کیجئے کہ جب فتنہ کا کوئی اندیشہ نہ ہونے کی حالت میں یہ احکام ہیں تو جن مواقع میں فتنہ کا خطرہ ہو وہاں کیا حکم ہو گا ؟ بوڑھی عورت کا غیر محرم مرد کے ساتھ تنہائی میں ایک جگہ جمع ہونا اس کے ساتھ سفر کرنا ، اس کے ساتھ بے حجابانہ اختلاط اور بات چیت کرنا ، اس کی طرف بلا ضرورت دیکھنا یہ سب کام حرام ہیں ، اس لئے کہ ان میں فتنہ کا خطرہ موجود ہے ، جس کی تفصیل ابھی بتا چکا ہوں ۔
نامحرم کی طرف دلی رغبت بھی حرام ہے :
میری اس تقریر پر کہ دل کی رغبت پر بھی مواخذہ ہے ، شاید کسی کو اشکال ہوا ہو کہ دل کی رغبت تو غیر اختیاری ہے، اس پر مواخذہ اور عذاب کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دل کی رغبت کے اسباب و مقدمات اختیاری ہیں ، اس لئے یہ رغبت بھی اختیاری ہی کے حکم میں ہے ، دل کی شہوت کے اسباب و مقدمات جو اختیاری ہیں ان کی تفصیل یہ ہے :
( 1 ) غیر محرم کو قصداً دیکھنا ۔
( 2 ) غیر محرم پر ابتداء غیر ارادی نظر پڑی مگر نظر کو فوراً ہٹایا نہیں بلکہ قصد اً دیکھتا رہا۔
( 3 ) غیر ارادی نظر کو فوراً ہٹا لیا مگر دل میں اس کے خیال کو قائم رکھا ، یعنی قصد اً سوچتا رہا ۔
( 4 ) بدوں دیکھے غائبانہ ہی غیر محرم کا تصور قصد اً دل میں لا کر اس سے لذت حاصل کر رہا ہے ۔
یہ چاروں چیزیں اختیاری ہیں ، اس لئے حرام ہیں ۔
البتہ اگر کسی غیر محرم پر غیر ارادی طور پر اچانک نظر پڑ گئی اور اس کو فوراً ہٹا لیا اس کے باوجود غیر اختیاری طور پر اس کا اثر دل پر ہو گیا ، اسے قصداً دل میں بٹھایا نہیں اور اپنے اختیار سے نہیں سوچ رہا بلکہ گندے خیال کو دل سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے ، اس پر کوئی مواخذہ نہیں ، خواہ یہ خیال آکر فوراً نکل جائے یا بلا اختیار بار بار کھٹکتا رہے ، دونوں صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ اس کو قصداً نہ سوچے ۔
بزرگوں سے زیادہ پردہ کی ضرورت ہے :
( 3 ) بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بزرگوں سے بالخصوص اپنے پیر سے پردہ کی ضرورت نہیں ، شاید یہ لوگ انہیں نامرد سجمھتے ہیں ۔
یہ بہت سخت جہالت ہے ، بزرگوں میں تو لطافت مزاج کی وجہ سے شہوت اور بھی زیادہ تیز ہوتی ہے ، اور عفت کی وجہ سے قوت باہ بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ، البتہ ان میں نفس پر ضابط رکھنے کی ہمت ہوتی ہے ، اس کے باوجود ان کے سامنے بے پردہ جانے میں چار گناہ ہیں ؛
1 ۔ شریعت کے حکم کی مخالفت ، میں پہلے بتا چکا ہوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خواتین کو پردہ کرنے کا حکم تھا ، خواتین بھی کیسی ؟ صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن ، کیا کوئی بزرگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے ؟
2۔ قصداً شہوت انگیزی کے مواقع فراہم کرنا ، یہ حقیقت بتا چکا ہوں کہ بزرگوں میں دوسروں سے زیادہ شہوت ہوتی ہے ۔
۔ بے پردہ سامنے جانے والی عورت کے دل میں رغبت پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ 3
4 ۔ بسا اوقات یہ رغبت ابتلاء کا سبب بن جاتی ہے، بالخصوص یہ عذاب ان لوگوں پر آتا ہے جو نفس کو خطرہ سے محفوظ سمجھتے ہیں ، جیسا کہ ایک بزرگ کے پاس باندی چھوڑنے کا قصہ بتا چکا ہوں ۔
یہ حقیقت بھی خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ جو بزرگ یا پیر عام عورتوں یا خاص مریدینوں کو بے پردہ سامنے آنے سے نہیں روکتا ، وہ بزرگ ہر گز نہیں ہو سکتا ، درحقیقت وہ بزرگ کی صورت میں بھیڑیا ہے ۔
مدت تک بے پردہ رہنے سے پردہ معاف نہیں ہوتا :
( 4 ) بعض عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں سے مدت تک پردہ نہیں کیا ، ان کے سامنے آتے رہے ، وہ ہماری شکل و صورت کو خوب اچھی طرح دیکھ چکے ہیں ، اب ان سے پردہ کرنے کا کیا فائدہ ؟ یا کہتی ہیں کہ جوانی میں تو پردہ کیا نہیں اب بڑھاپے میں کیا پردہ کریں ؟ یہ بھی بے سمجھی کی بات ہے ، اگر کوئی سالہا سال کسی گناہ میں مبتلا رہے تو وہ گناہ اس کے لئے حلال نہیں ہو جاتا ، بلکہ اس پر تو فرض ہے کہ اور بھی زیادہ توجہ سے مالک کے سامنے خوب گڑ گڑا کر توبہ کرے ، ساری عمر گناہوں میں گذار دی تو اب بڑھاپے میں جبکہ قبر میں پہنچنے والے ہیں ، حساب و کتاب بہت قریب ہے، بہت جلد ہی مالک کے سامنے پیشی ہونے والی ہے ، اب تو توبہ کر لو ؂
ظالم ابھی ہے فرصت توبہ نہ دیر کر ۔؛۔ وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا
اچانک نظر پڑ جانے سے پردہ معاف نہیں ہوتا :
( 5 ) بعض خواتین کہتی ہیں کہ فلاں رشتہ دار کی کئی بار مجھ پر اچانک نظر پڑ گئی ہے ، اب اس سے پردہ کا کیا فائدہ ؟ یہ تو بہت بڑی حماقت ہے اگر کسی کے سامنے اچانک ستر کھل جائے تو کیا کوئی احمق سے احمق عورت بھی اس سے یہ نتیجہ نکال سکتی ہے کہ اب اس سے ستر چھپانے کی ضرورت نہیں اس لئے اس کے سامنے ننگی پھرتی رہے ۔
بلا قصد غیر اختیاری طور پر کوئی غلطی ہو جانے کے بعد اپنے اختیار سے قصداً وہ گناہ کرنا جائز نہیں ، بلکہ پہلے بتا چکا ہوں کہ اگر قصداً بھی کسی گناہ میں مبتلا رہا اور سالہا سال اس گناہ میں مبتلا رہے تو بھی یہ گناہ حلال نہیں ہوتا بلکہ اس سے توبہ کرنے کی فکر تو بہت زیادہ ہونا چاہئے ۔
شرعی پردہ کیلئے الگ مکان ضروری نہیں :
( 6 ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کئی بھائی یا بہت سے رشتہ دار ایک ساتھ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں ، الگ مکان لینے کی گنجائش نہیں اس لئے پردہ مشکل ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شرعی پردہ کے لئے الگ مکان لینے کی کوئی ضرورت نہیں ، شریعت بہت آسان ، اللہ تعالی کی رحمت اپنے بندوں پر بہت وسیع ہے ، وہ بندوں کو تکلیف اور تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے ، بلکہ راحت و سہولت میں رکھنا چاہتے ہیں ، شرعی پردہ کے بارے میں ان کی دی ہوئی سہولتوں اور کرم نوازی کی تفصیل سنیں ، رحمت ہی رحمت ہے ، رحمت ہی رحمت ، سراپا رحمت ، اگر کسی کے دل میں ذرہ بھر بھی احساس ہو تو اس رحیم و کریم کی مہربانیوں ، کرم نوازیوں اور احکام میں دی ہوئی سہولتوں پر قربان ہوجائے اور مر مٹنے کے لئے بے تاب ہوجائے ، یا اللہ ! تو سب کے دلوں کو احساس اور محبت سے منور فرما، شکر نعمت سے معمور فرما ، ناقدری اور ناشکری سے حفاظت فرما، تیری وہ رحمت جس کی وجہ سے تو نے ایسے آسان احکام دیئے ، اسی رحمت کے صدقہ سے تجھ سے شکر نعمت کی توفیق طلب کرتے ہیں ، سب کے دلوں پر اپنی وہی رحمت نازل فرما ۔
شرعی پردہ میں شرعی آسانیاں :
اب رب کریم کی کرم نوازی اور رحمت کی تفصیل سنئے :
( 1 ) ایسے حالات میں خواتین ذرا ہوشیار رہیں ، بے پردگی کے مواقع سے حتی الامکان بچیں ، لباس میں احتیاط رکھیں بالخصوص سر پر دوپٹہ رکھنے کا اہتمام رکھیں ۔
( 2 ) مرد آمد و رفت کے وقت ذرا کھنکار کر خواتین کو پردہ کی طرف متوجہ کردیں ، بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے غیر محرم رشتہ دار سمجھانے کے باوجود گھر میں کھنکار کر آنے کی احتیاط نہیں کرتے ، اچانک سامنے آجاتے ہیں ، آمد و رفت کا یہ سلسلہ ہر وقت چلتا ہی رہتا ہے ،ان سے پردہ کرنے میں ہمیں بہت مشکل پیش آتی ہے، ایسے حالات میں خواتین جتنی احتیاط ہوسکے کریں ، اسے جہاد سمجھیں ، جتنی زیادہ مشقت برداشت کریں گی اتنا ہی اجر زیادہ ہوگا ۔
( 3 ) غیر محرم مرد کی آمد پر خواتین اپنا رخ دوسری جانب کرلیں ۔
( 4 ) اگر رخ دوسری جانب نہ کر سکیں تو سر سے دوپٹہ سرکا کر چہرہ پر لٹکا لیں ۔
( 5 ) بلا ضرورت شدیدہ غیر محرم سے بات نہ کریں ۔
( 6 ) کسی غیر محرم کی موجودگی میں خواتین آپس میں یا اپنے محارم کے ساتھ بے حجابانہ بے تکلفی کی باتوں اور ہنسی مذاق سے پرہیز کریں ۔
( 7 ) ان احتیاطوں کے باوجود اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم کی نظر پڑ جائے تو معاف ہے، بلکہ اس طرح بار بار بھی نظر پڑتی رہے، ہزار بار اچانک سامنا ہوجائے تو بھی سب معاف ہے، کو ئی گناہ نہیں ، اس سے پریشان نہ ہوں ، جو کچھ اپنے اختیار میں ہے اس میں ہر گز غفلت نہ کریں اور جو اختیار سے باہر ہے اس کے لئے پریشان نہ ہوں ، اس لئے کہ اس پر کوئی گرفت نہیں ،ہزاروں بار بھی غیر اختیاری طور پر ہوجائے تو بھی معاف ، وہاں تو معافی ہی ہے ۔ دیکھئے رب کریم کا کتنا بڑا کرم ہے ، مگر ان کی اس مہربانی اور معافی کو سن کر نڈر اور بے خوف نہ ہوجائیں ، جس حد تک احتیاط ہوسکتی ہے اس میں ہر گز ہر گز کوتاہی نہ کریں ، ورنہ خوب سمجھ لیں کہ جس طرح وہ رب کریم شکر گذار اور فرمانبردار بندوں پر بہت مہربان ہے ، اسی طرح ناقدروں ، ناشکروں اور نافرمانوں پر اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے ۔
ہم پانچ بھائی ہیں ، بسا اوقات رمضان المبارک کا مہینہ والدین کے ساتھ گذارنے کے لئے سب بھائی بیوی بچوں سمیت والدین کے ساتھ ایک ہی مکان میں ایک دو مہینے گذارنے ، مگر بحمد اللہ تعالی مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف سے احتیاط کی برکت سے کبھی اچانک نظر پڑ جانے کا بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ، اور شریعت کے اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو بھی کبھی کسی قسم کی بھی کوئی تنگی اور تکلیف قطعا محسوس نہیں ہوئی ، رحمت ہی رحمت اور مسرت ہی مسرت سے وقت گذارتا رہا ، میں نے اپنا یہ قصہ اس لئے بتایا ہے کہ جو تدبیریں میں نے اکٹھے رہنے کی صورت میں بتائی ہیں وہ صرف خیالی نہیں بلکہ ہم خود ان کی نافعیت کا تجربہ کر چکے ہیں ، اپنے اوپر آزمانے کے بعد آپ کو بتا رہا ہوں ۔
پردہ عورت پر فرض ہے نہ کہ مرد پر :
( 7 ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو ہمارے کہنے کے باوجود غیر محرم رشتہ دار عورتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں ، ہم سے پردہ نہیں کرتیں ۔
یہ حضرات پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ پردہ عورت پر فرض ہے ، مرد پر فرض نہیں اس لئے اگر عورتیں بے پردہ سامنے آتی ہیں تو وہ عورتیں گناہ گار ہیں مرد پر کوئی گناہ نہیں ، ایسی صورت میں ان ہدایات پر عمل کریں :
( 1 ) اپنی نظر نیچی رکھیں ۔
( 2 ) بلا ضرورت غیر محرم عورت سے بات نہ کریں ۔
(3 ) ایسے مواقع میں پردہ کی اہمیت بیان کیا کریں ، اس میں ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ نے فرض تبلیغ اداء کردیا ، دوسرا فائدہ یہ کہ شاید ان عورتوں کو آپ کی تبلیغ سے ہدایت ہوجائے تو آیندہ کے لئے ان گھروں میں آپ کی آمدورفت میں سہولت ہوجائے گی ، آپ کے سامنے غیر محرم عورتیں نہیں آئیں گی ، خدانخواستہ ان کو ہدایت نہ بھی ہوئی تو کم از کم اتنا فائدہ تو ہوگا ہی کہ آپ کے سامنے آنے سے شرمائیں گی ، انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ وہ غیر کے سامنےایسی حالت میں جانے سے شرماتا ہے جو اس غیر کو ناپسند ہو ، بہت سی عورتیں عوام بلکہ فساق و فجار تک سے پردہ نہیں کرتیں مگر علماء و صلحاء سے پردہ کرتی ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء و صلحاء بے پردگی کو برا سمجھتے ہیں ، اس لئے یہ عورتیں ان کے سامنے بے پردہ آنے سے شرماتی ہیں ، آپ اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کردیں آپ بے پردگی کو برا سمجھتے ہیں تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ غیر محرم عورتیں آپ کے سامنے آنا چھوڑ دیں گی ، یہ نسخہ بہت مجرب ہے میں نے کئی لوگوں کو بتایا انہوں نے اس پر عمل کیا تو ان کو غیر محرم عورتوں سے نجات مل گئی ۔
 
گھر میں شرعی پردہ کروانے کے طریقے :
( 8 ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم گھر میں پردہ کروانا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں بہت کوشش اور بہت تبلیغ کرتے ہیں مگر کوئی اثر نہیں ہوتا بیوی پردہ نہیں کرتی ، اس حالت میں ہم سخت گناہ گار ہو رہے ہیں کیا کریں ؟ ایک مولوی صاحب نے لکھا کہ میں مسجد میں امام ہوں ، میری بیوی غیر محرم قریبی رشتہ داروں سے پردہ نہیں کرتی ، سمجھانے کے باوجود باز نہیں آتی ، بے پردگی کی وجہ سے میں فاسق ہوں اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے ، اب میں کیا کروں ؟ کیا امامت چھوڑدوں ؟
ایسی حالت میں شرعی احکام یہ ہیں :
( 1 ) اپنے اعمال درست کریں ، اپنا ظاہر و باطن شریعت کے مطابق بنانے کی کوشش کریں ، جب انسان خود نیک ہوتا ہے تو دوسروں پر اس کی بات اثر کرتی ہے ، بلکہ لوگ اس کے عمل ہی سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔
( 2 ) اپنی خواہشات نفسانیہ اور دنیوی کاموں میں بیوی پر ناراض نہ ہوں اور سختی نہ کریں ، ورنہ وہ سمجھے گی کہ دینی کاموں میں آپ کی ناراضی بھی آپ کی افتاد طبع ہی ہے ، دین کو تو صرف غصہ نکالنے کا بہانہ بنا رکھا ہے ۔
( 3 ) بیوی کے لئے ہدایت کی دعا کیا کریں ۔
( 4 ) نرمی اور محبت سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں ۔
(5 ) روزانہ بلا ناغہ تھوڑی سی دیر کے لئے کوئی ایسی کتاب پڑھ کر سنایا کریں جس سے دل میں اللہ تعالی کی محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو، جیسے ''حکایات صحابہ '' وغیرہ ، زبانی بتانے کی بجائے کتاب پڑھ کر سنایا کریں ، اس کا اثر زیادہ ہوتا ہو ،اس کی کئی وجوہ ہیں :
1 ۔ قدرتی طور پر انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ اس پر اپنے ساتھیوں کی بات کا اثر بہت کم ہوتا ہے ، بالخصوص میاں بیوی کا آپس کا ایسا تعلق ہے کہ یہ ایک دوسرے کی نصیحت کی طرف بہت کم التفات کرتے ہیں ، اغیار بالخصوص اکابر اور ان سے بھی بڑھ کر گذشتہ زمانہ کے بزرگوں کی باتوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔
2 ۔ کتاب میں اس کے مصنف کی للہیت اور اخلاص کا اثر ہوتا ہے ۔
3 ۔ کتاب پڑھنے میں کسی بات کی نسبت پڑھنے والے کی طرف نہیں ہوتی بلکہ ہر بات کی نسبت کتاب کے مصنف کی طرف ہوتی ہے ، اس لئے اس میں اپنے نفس کی آمیزش سے حفاظت نسبتاً آسان ہے ۔
4 ۔ کتاب پڑھ کر سنانے میں وقت کم خرچ ہوتا ، زبانی بتانے میں بات لمبی ہو جاتی ہے ، جس سے سننے والے کی طبیعت اکتا جاتی ہے ۔
5 ۔ اگر سختی کا تحمل ہو تو بقدر ضرورت سختی سے کام لیں مگر خوب سوچ کر ، پہلے خوب سمجھ لیں کہ اگر سختی کرنے سے بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا گھر ہی میں رہ کر وبال جان بن گئی ، تو آپ ان حالات کا تحمل کر سکیں گے؟ اگر خدانخواستہ پریشان ہو کر آپ نے بیوی کی خوشامد کی تو کیا عزت رہی؟ اپنی عزت برباد کرنے کے علاوہ دوسرا نقصان یہ کہ آیندہ کے لئے بیوی ہر معاملہ میں سر پر چڑھ کر ناچے گی ، اس لئے بلا سوچے سمجھے کوئی سخت اقدام ہر گز نہ کریں ۔
6 ۔ اگر نرمی گرمی کسی تدبیر سے بھی بیوی ہدایت پر نہیں آتی تو شوہر پر کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ جو ہدایات بتا چکا ہوں ان میں سے کسی میں غفلت نہ کرے، اپنا اختیار پورے طور پر استعمال کرے ، اس پر صرف یہی فرض ہے ، آگے ہدایت اللہ تعالی کے قبضہ میں ہے، شوہر کے اختیار میں نہیں ، اس لئے ہر ممکن کوشش کے باوجود بیوی پردہ نہ کرے تو شوہر پر کوئی گناہ نہیں ۔
بے پردہ بیوی کو طلاق دینا بھی ضروری نہیں ، جب عیسائی اور یہودی جیسی کافر عورت سے نکاح جائز ہے تو بے پردہ مسلمان عورت سے بطریق اولیٰ جائز ہے ، البتہ یہ خیال رہے کہ یہودی اور عیسائی عورت سے نکاح ہو تو جاتا ہے مگر اس زمانہ میں ان سے نکاح جائز نہیں ، سخت گناہ ہے ، اس لئے کہ اولاً تو ایسی عورتیں شوہر ہی کو مرتد بنا دیتی ہیں ، اور اگر شوہر بچ بھی جائے تو اولاد یقیناً اپنے دین پر لے جاتی ہیں ، اسی طرح یہ بھی خیال رہے کہ بے پردہ بیوی کو گھر میں رکھنے کی اجازت جو میں نے بتائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے بعد اس کی بے دینی کا علم ہوا ، یا علم تو شادی سے پہلے سے تھا مگر اس وقت خود اپنے اندر ہی آخرت کی فکر نہ تھی ، بعد میں اللہ تعالی نے ہدایت دی تو پردہ کی فکر پیدا ہوئی ، مقصد یہ ہے کہ ابتداء بے پردہ عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ، البتہ شادی کے بعد ایسا ابتلاء پیش آیا تو مجبوری اس پر صبر کرنا جائز ہے ۔
آخر میں ان رشتہ داروں کی فہرست سن لیجئے جن سے پردہ فرض ہے مگر دینداری کے بلند بانگ دعوے کرنے والے لوگ بھی اس کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بارہ میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی علانیہ بغاوت کر رہے ہیں ۔ ( 1 ) چچا زاد ( 2 ) پھوپھی زاد (3 ) ماموں زاد ( 4 ) خالہ زاد ( 5 ) دیور ( 6 ) جیٹھ ( 7 ) بہنوئی ( 8 ) نندوئی ( 9 ) پھوپھا ( 10 ) خالو ( 11 ) شوہر کا چچا ( 12 ) شوہر کا ماموں ( 13 ) شوہر کا پھوپھا ( 14 ) شوہر کا خالو ( 15 ) شوہر کا بھتیجا ( 16 ) شوہر کا بھانجا ۔
یا اللہ ! تو سب کو صاحب ایمان بنا دے ، اپنی محبت عطاء فرما، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطاء فرما ، اپنی محبت اپنا تعلق ایسا عطاء فرما دے جو دنیا بھر کے تعلقات پر غالب آجائے ، اپنا وہ خوف عطاء فرما جو دنیا بھر کے خوف پر غالب آجائے ، یا اللہ ! تو صحیح معنوں میں مسلمان بنا دے ، ایسے مسلمان ، ایسے مؤمن بنا دے جن کے اسلام اور ایمان پر قرآن کریم میں تو نے بار بار شہادت دی ہے ، وہ اسلام عطاء فرما وہ ایمان عطاء فرما ، جس سے تو اور تیرا حبیب صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو جائیں ۔
وصل اللھم و بارک وسلم علی عبدک و رسولک محمد و علی الہ وصحبہ اجمعین ، والحمد اللہ رب العلمین ۔
 

شمشاد

لائبریرین
اوپر آپ نے ایک حوالہ لکھا ہے :

ایک جہالت کی اصلاح :
جاہلوں میں مشہور ہے کہ چچی اور ممانی اور بھتیجے کی بیوی اور بھانجے کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں، اس لئے سمجھتے ہیں کہ شوہر کے چچا اور ماموں اور اس کے بھتیجے اور بھانجے سےشرعاً پردہ نہیں، یہ سخت جہالت ہے قرآن کریم میں ان عورتوں کو حلال قرار دیا گیا ہے،یعنی شوہر کے چچا، ماموں اور بھتیجے، بھانجے کی وفات یا طلاق کے بعد ان کی بیوی سے نکاح جائز ہے،دیکھئے جہالت کتنی بری بلا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے حلال کی ہوئی عورتوں کو حرام بتا رہا ہے ، اللہ تعالی کا مقابلہ کر رہا ہیں، نعوذ باللہ من ذلک ، خوب یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں کہ شوہر کے چچا اور ماموں اور اس کے بھانجے اور بھتیجے سے پردہ فرض ہے۔

اس اقتباس میں مجھے ۔۔۔۔۔۔شوہر کے چچا، ماموں اور بھتیجے، بھانجے کی وفات یا طلاق کے بعد ان کی بیوی سے نکاح جائز ہے،۔۔۔۔۔ کی مجھے سمجھے نہیں آئی۔ ذرا وضاحت فرما دیں یہ چچا، ماموں، بھتیجے یا بھانجے کی وفات یا طلاق کے بعد اس کی بیوی سے کس کا نکاح جائز ہے؟ کیا ایک آدمی کا اپنے چچا کی وفات کے بعد اپنی چچی سے یا ماموں کی وفات کے بعد ممانی سے نکاح جائز ہے؟
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
الف عین بھائی اگر لائبریری میں شامل کیا جائے تو کیا ہی بات ۔۔۔۔ پروف ریڈنگ کے لیے میں کتاب بھی مہیا کر سکتا ہوں
اور شمشاد بھائی اس کا سادہ جواب ہاں ہیں کہ ان سے نکاح ہو سکتی ہے ماموں اور چچا کی بیوی سے اگر وہ محرم نہ ہو جیسے چچی بھی ہوں اور خالہ یعنی دو بھائیوں پر دو بہنیں جزاک اللہ فی الدارین


اللہ اکبر کبیرا
 

الف عین

لائبریرین
واجد اطلاعاً عرض ہے کہ میں الف عین وہی ہوں جسے لوگ اعجاز اختر یا اعجاز عبید کے نام سے واقف ہیں۔
فائل بھیج دیں میرے ای میل پر تو اچھا ہے۔
 
قرآنی احکام سے کیسی غفلت

یا یھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلا بیبھن (33 : 59)
: ''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مؤمنین کی عورتوں سے کہ جہاں کبھی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر میں لپٹ کر نکلا کرو، اور چادر کو چہرہ پر لٹکا لیا کرو، تاکہ چہرہ پر کسی کی نظر نہ پڑے۔''
۔

جناب یہ سب شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔

یہ بات آپ سے نہیں عمومی ہے۔ اس آئت کے ترجمہ میں بہت سارا فرق ہے۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ (چند ہندوستانی مترجمین نے اپنے علاقائی نظریات کی بناء پر ایسا ترجمہ کیا ہے لیکن باقی ہندوستانی و پاکستانی مترجمین نے ایسا نہیں کیا ) جس کی تصحیح ضروری ہے۔

اس آیت میں لفظ جلابیب کے معنی تقریباَ تمام مترجمین نےبیرونی لباس یا بیرونی لبادہ shirts/gowns/wide dresses کے لئے ہیں ۔ "منہہ پر نقاب ڈالنے" یا "چادر کو چہرہ پر لٹکا لیا کرو" - اس آئت سے کسی طور بھی نہیں بننتا ہے۔ اس وجہ سے اس ترجمے کی تصحیح ضروری ہے تاکہ عمومی غلطی کا امکان نہ رہے۔ اس سے بدن ڈھناپنے کے بنیادی نظریہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن قرآن کریم کے الفاظ کو لاپرواہی سے رد و بدل کرنا کس طور درست ہو سکتا ہے۔

سب کی آسانی کے لئے، تمام اردو اور انگریزی ترجمے فراہم کررہا ہوں۔ تاکہ مفہوم سمجھنے میں آسانی رہے۔ لفظ جلابیب پر علماء اور عربی دان طبقہ کا اتفاق ہے کہ یہ بیرون لبادہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

[AYAH]33:59[/AYAH] [ARABIC] يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا[/ARABIC]
Tahir ul Qadri اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں پھر انہیں ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے

Yousuf Ali O Prophet! Tell thy wives and daughters, and the believing women, that they should cast their outer garments over their persons (when abroad): that is most convenient, that they should be known (as such) and not molested. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.​

Ahmed Ali اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
Ahmed Raza Khan اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
Shabbir Ahmed اے نبی کہو! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہ وہ لٹکالیا کریں اپنے اوپر اپنی چادر کے پَلّو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور ہے اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔
Literal You, you the prophet, say to your wives and your daughters and the believers' women they (F) near (lengthen) on them from their shirts/gowns/wide dresses, that (is) nearer that (E) they (F) be known (better than being identified), so they (F) do not be harmed mildly/harmed, and God was/is forgiving, merciful.
Yusuf Ali O Prophet! Tell thy wives and daughters, and the believing women, that they should cast their outer garments over their persons (when abroad): that is most convenient, that they should be known (as such) and not molested. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.
Pickthal O Prophet! Tell thy wives and thy daughters and the women of the believers to draw their cloaks close round them (when they go abroad). That will be better, so that they may be recognised and not annoyed. Allah is ever Forgiving, Merciful.
Arberry O Prophet, say to thy wives and daughters and the believing women, that they draw their veils close to them; so it is likelier they will be known, and not hurt. God is All-forgiving, All-compassionate.
Shakir O Prophet! say to your wives and your daughters and the women of the believers that they let down upon them their over-garments; this will be more proper, that they may be known, and thus they will not be given trouble; and Allah is Forgiving, Merciful.
Sarwar Prophet, tell your wives, daughters, and the wives of the believers to cover their bosoms and breasts. This will make them distinguishable from others and protect them from being annoyed. God is All-forgiving and All-merciful.
H/K/Saheeh O Prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers to bring down over themselves [part] of their outer garments. That is more suitable that they will be known and not be abused. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
Malik O Prophet! Enjoin your wives, daughters and the believing women that they should draw their outer garments over their persons. That is more proper, so that they may be recognized and not bothered. Allah is Forgiving, Merciful.[59]
Free Minds O prophet, tell your wives, your daughters, and the wives of the believers that they should lengthen upon themselves their outer garments. That is better so that they would be recognized and not harmed. God is Forgiver, Merciful.
Qaribullah O Prophet, tell your wives, your daughters and the believing women to draw their veils close to them, so it is likelier they will be known, and not hurt. Allah is the Forgiver, the Most Merciful.
George Sale O prophet, speak unto thy wives, and thy daughters, and the wives of the true believers, that they cast their outer garments over them when they walk abroad; this will be more proper, that they may be known to be matrons of reputation, and may not be affronted by unseemly words or actions. God is gracious and merciful.
JM Rodwell O Prophet! speak to thy wives and to thy daughters, and to the wives of the Faithful, that they let their veils fall low. Thus will they more easily be known, and they will not be affronted. God is Indulgent, Merciful!
Asad O Prophet! Tell thy wives and thy daughters, as well as all [other] believing women, that they should draw over themselves some of their outer garments [when in public]: this will be more conducive to their being recognized [as decent women] and not annoyed. [Cf. the first two sentences of 24:31 and the corresponding notes.] But [withal,] God is indeed much- forgiving, a dispenser of grace! [The specific, time-bound formulation of the above verse (evident in the reference to the wives and daughters of the Prophet), as well as the deliberate vagueness of the recommendation that women "should draw upon themselves some of their outer garments min jalabibihinna)" when in public, makes it clear that this verse was not meant to be an injunction (hukm) in the general, timeless sense of this term but, rather, a moral guideline to be observed against the ever-changing background of time and social environment. This finding is reinforced by the concluding reference to God's forgiveness and grace.]
Hilali/Khan** O Prophet! Tell your wives and your daughters and the women of the believers to draw their cloaks (veils) all over their bodies (i.e.screen themselves completely except the eyes or one eye to see the way). That will be better, that they should be known (as free respectable women) so as not to be annoyed. And Allah is Ever OftForgiving, Most Merciful.
QXP Shabbir Ahemd** O Prophet! Tell your wives, your daughters, and women of the believers that they should draw their outer garments over their person (when in public (24:31)). This is easy and proper, so that they may be recognized and not bothered. Allah is Absolver of imperfections, Merciful​
 
phpThumb.php
phpThumb.php
phpThumb.php
 
Top