شرعی قوانین کی کتاب یا کتب درکار ہیں۔

پاکستان میں آج کل نفاذِ شریعت کا نعرہ ہر طرف سے لگ رہا ہے۔ اور بہت سے لوگ ‌ اس نفاذ شریعت کے حق میں بولتے ہیں اور انتظار میں ہیں۔ یقیناَ یہ لوگ کچھ ایسا پڑھ چکے ہیں جن سے مجھ جیسا قاری محروم ہے۔ یہ ماننے کو عقل نہیں کہتی کہ بنا کسی شرعی قوانین کی کتاب کے اور بنا کسی شرعی حکومت کے ڈھانچے کے لوگ کس طرح نفاذ شریعت کرنے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ شرعی قوانین کی ایک ایسی کتاب درکار ہے جس پر بیشتر لوگوں کی مثبت رائے ہو۔

وہ کتاب یا کتب جن میں‌شرعی قوانین ترتیب سے لکھے ہوں درکار ہے۔ تاکہ یہ جانا جاسکے کہ شریعت کے نفاذ کے بعد حکومت کی شکل کیا ہوگی اور اس کے قوانین کیا ہوں گے۔ اس کے ادارے کس طرح کام کریں گے۔ مالیاتی نظام کیا ہوگا، ٹیکس کون دے گا اور کتنا ہوگا؟ صحت عامہ اور تعلیم عامہ کا نظام کیا ہوگا؟ اور وہ نظام کس طرح آج کے پاکستانی نظام سے مختلف ہوگا؟ مزید یہ کہ ایسی کسی کتاب یا کتب پر آج کون کون سا عالم اپنی منظوری دے چکا ہے اور ایسی شرعی حکومت مزید کہاں کہاں‌قائم ہے؟ مزیدیہ کہ ایسی کسی کتاب کا قانون نمبر 1، قانون نمبر 15 اور قانون نمبر 34 کیا ہیں‌تاکہ اس کا موازنہ کسی دوسری جگہ طبع ہونے والی کتاب سے کیا جاسکے۔

والسلام
 

خرم

محفلین
اگر ایس کوئی کتاب ہوگی بھی فاروق بھائی تو اسی صدی کی یا اس سے پچھلی صدی کے کسی "عالم" کی لکھی ہوئی ہوگی۔ میرے خیال میں تو ایسا آئین کبھی بھی نہ مرتب کیا گیا اور نہ ہی مروج تھا۔ لیکن پھر بھی دیکھتے ہیں کہ کونسے نسخہ جات سامنے آتے ہیں۔ ویسے سخن گسترانہ سی بات ہے کہ ہمارے تو فقہی مذاہب بھی ان ادوار میں تشکیل پاتے ہیں جب خلافت راشدہ کے اختتام کو بھی عرصہ گزر گیا تھا اور امورِ مملکت تو بہرحال اسلام میں فقہی مسائل سے بہت کم اہمیت کے حامل ہیں۔
 
خرم، درست فرمایا آپ نے۔ آج کا نفاذ شریعت کا نعرہ اتنا پر کشش ہے کہ بہت سے اچھے اچھے لوگ اس پر کچھے جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ وہ شریعت کونسی شریعت ہوگی؟ لہذا میں نے ایک ایسی کتاب یا کتب کا ایک سنجیدہ مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ ابہامات سے بالا تر ہو کر یہ سوچا جاسکے کے کیا پاکستان کے عوام کے منتخب کردہ نمائندے، جو آئین و قوانین پاکستان کے قانونی اداروں میں قرآن اور سنت کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں وہ مولوی کے ایک فتوے سے اچانک بے کار کیسے ہوگیا۔ بہتر معاشیات، بہتر حالات، بہتر انتظامیہ آپس میں مسائیل پر بات چیت کئے بغیر کیسے سامنے آسکتی ہے؟ خاص طور پر جب ایسے کسی بھی متبادل نظام کے کسی ڈاکومینٹ کا وجود ہی نہیں۔ پرانے 'عالم' ٹیچر تھے یا قانون ساز، اس کا تصفیہ کون کرے گا؟ بہرحال اس علم سے مناسب استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن آنکھ بند کر اس کو قانون نہیں تصور کیا جاسکتا۔

قرآن اللہ تعالی کے قوانین اور اس کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان قوانین اور اصولوں سے باہر کوئی قانون پاکستان کی قانون ساز اسمبلیاں نہیں بناتی ہیں۔ لیکن تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب غیر اسلامی ہے، ایسا کہنا سراسر دھوکہ دہی ہے۔ مولوی وہی نظام چاہتے ہیں جس کو روتے رہتے ہیں۔

مودودی صاحب ان شرعی عدالتوں کے بارے میں لکھتے ہیں، ملا اپنی اسی نشاط ثانیہ کے لئے آزردہ ہیں:
ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اُس سرزمین میں مغلوب و محکوم ہو گئے جس پر انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔ انگریزی سلطنت جتنی جتنی پھیلتی چلی گئی مسلمانوں سے ان طاقتوں کو چھینتی چلی گئی جن کے بل پر ہندوستان میں اسلامی تہذیب کسی حد تک قائم تھی۔ اس نے فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ اسلامی قوانین کو منسوخ کیا، شرعی عدالتیں توڑ دیں، دیوانی اور فوجداری معاملات میں خود اپنے قوانین جاری کیے، اسلامی قانون کے نفاذ کو خود مسلمانوں کے حق میں صرف نکاح و طلاق وغیرہ تک محدود کر دیا اور اس محدود نفاذ کے اختیارات بھی قاضیوں کے بجائے عام دیوانی عدالتوں کے سپرد کر دیئے جن کے حکام عمومًا غیر مسلم ہوتے ہیں

اور مزید یہ کہ مودودی صاحب انگریز تعلیم کی مخالفت میں لکھتے ہیں، اس جدید تعلیم کے "پرانے لوگ" یعنی "ہند کے مولوی" کس قدر مخالف تھے اور ہیں:
اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ مرحوم سر سید احمد خاں کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اُٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں مٰں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا گیا۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی۔

جب پاکستان بنا توملاؤں کا خیال تھا کہ پاکستان میں پھر وہی ملاؤں کی حکومت ہوگی جو مغلیہ دور میں‌تھی۔ وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی - وہی حلوے مانڈے ہوں گے، وہی کنواریوں کی قلقاریاں ہوں گی اور یہ ملا ہوں گے۔ اسی نظام کو ملا شریعت کہتے ہیں جس کا دور دور سے بھی قرآن سے واسطہ نہیں۔ یہ وہ اسرائیلیات ہیں جن کو کھینچ تان کر قرانی آیات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔

لیکن پاکستان نے قانون سازی کے لئے قرآن کا راستہ اختیار کیا اور مجلس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیا۔ مولوی، ملا، آیت اللہ اپنے بدترین سیاسی حربوں کے باوجود اس مجلس شوری میں نہیں گھس سکے تو اس کو غیر اسلامی قرار دینے لگے۔

خود مودودی اس ملاؤں کی حکومت کی تباہی کو قضائے الہی تسلیم کرتے ہیں، لکھتے ہیں:
اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ پہلے مسلمانوں کی سلطنت متفرق ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوئی پھر مرہٹوں اور سکھوں اور انگریزوں کے سیلاب نے ایک ایک کر کے ان ریاستوں میں سے بیشتر کا خاتمہ کر دیا اور اس کے بعدقضائے الٰہی نے انگریزوں کے حق میں اس ملک کی حکومت کا فیصلہ صادر کیا اور ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اُس سرزمین میں مغلوب و محکوم ہو گئے جس پر انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔

ملاؤں کا یہ نظام اتنا اچھا تھا کہ جب انگریز برصغیر سے گئے اور مسلمان اپنی کمزوری کی انتہا کو پہنچ گئے تو 1947 میں ہندوستانیوں نے ملاؤں‌کی خدمات کا اعتراف کیا، ان کو گلے سے لگا کر معافی مانگی۔ اور صدیوں کا "انصاف" جو قاضی عدالتوں سے عام آدمی کو ملتا رہا تھا اس کا شکریہ ------- لاکھوں مسلمانوں کی جانوں، عزتوں اور ملکیتوں کا جنازہ نکال کر ------ ادا کیا۔

جناب مولانا حالی اپنی کتاب حیات جاوید میں صفحہ 263 پر لکھتے ہیں کہ سرسید کے علیگڑھ یونیورسٹی قائم کرنے کے خلاف، ہر شہر اور قصبہ کے مولوی سے 'سرسید کے کافر ہونے ' کی بابت دستخط کروائے گئے تھے۔ جن مولویوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا ان پر تکفیر کا فتوی لگایا گیا تھا۔ تو بھائی یہ جدید تعلیم تو حرام ہے۔ خبردار جو کسی نے کمپیوٹر استعمال کیا‌ :)

والسلام،
 

خرم

محفلین
ویسے یہ مودودی صاحب جس "اسلامی دور" کا ذکر فرما رہے ہیں اس دور میں اسلامی کام کونسا ہوا تھا؟ میرا مطلب ایسے اسلامی کام سے ہے جیسا وہ خود یا آج کا مُلا چاہتا ہے۔ خیر فاروق بھائی اب تو ایک اور لبادہ اوڑھ لیا گیا ہے۔ اب تمام گزشتہ ادوار کو ناقص قرار دے کر ایک نیا ہی نظریہ ایجاد کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ صرف یہی ہے کہ مُلا نے تمام عمر جن لوگوں سے اپنے آپ کو بہتر و برتر جانا ہے، اُن کی حمایت کے بغیر ان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس کے لئے دین کا نام استعمال کئے بغیر تو کوئی بات بنے گی ہی نہیں۔ ویسے سمجھ نہیں آتی کہ اپنی دولت پر متکبر لوگوں‌کی حکومت سے نکل کر اپنی عبادت پر متکبر لوگوں‌کی حکومت میں جانے سے عوام و اسلام کا کیا بھلا ہوگا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
فاروق صاحب بات اگر مودودی صاحب کی شروع ہو گئی ہے تو انہوں نے ایک جدید اسلامی ریاست کے موضوع پر خامہ فرسائی کی تھی، کتاب کا نام "اسلامی ریاست، فلسفہ، نظامِ کار اور اصولِ حکمرانی" ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/24 Islami Riyasat.pdf

مودودی صاحب کی دیگر کتب۔
http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/
 

خرم

محفلین
ارے بھائی یہی تو بات ہے۔ سوال کی اصل تو یہ ہے کہ کیا گزشتہ صدی سے پہلے بھی کبھی "خلافتِ اسلامی" یا "اسلامی طرزِ حکومت" یا "شرعی قوانینِ حکومت" نامی کسی چیز پر کتب و قوانین کا وجود موجود تھا یا یہ سب اصطلاحات انگریزوں و دیگر اقوام کی غلامی میں جانے کے کافی عرصہ بعد نمودار ہوئیں؟ باقی رہ گئی بات مودودی صاحب کی تو وہ تو تمام عمر شورٰی کا کردار ہی متعین نہ کرپائے اپنی جماعت کے اندر اور یہ کہ امیر کس حد تک آزاد اور کس حد تک پابند ہوگا اس کی رائے کا باقی باتیں تو بعد کی ہیں۔
 
قرآن اللہ تعالی کے قوانین اور اس کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان قوانین اور اصولوں سے باہر کوئی قانون پاکستان کی قانون ساز اسمبلیاں نہیں بناتی ہیں۔ لیکن تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب غیر اسلامی ہے، ایسا کہنا سراسر دھوکہ دہی ہے۔ مولوی وہی نظام چاہتے ہیں جس کو روتے رہتے ہیں۔

فاروق صاحب آپ یا تو کافی سادہ ہیں یا آپ پاکستان کے آئین سے بالکل نا واقف ہیں۔

سود کی حرمت کا بہت واضح بیان قرآں میں ہے اور ہمارے قانون ساز ادارے اسے کمال شفقت سے رواں رکھے ہوئے ہیں ۔

قتل کی سزا کے بارے میں قرآن کے بہت واضح احکامات ہیں اور اس کے تین طریقے ہیں

قصاص :جان کے بدلے جان
دیت : کسی شرط پر لواحقین چھوڑ دیں

مگر ہمارا قانون چونکہ برطانیہ کا قانون ہے اس لیے صدر صاحب خون معاف کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کھلا تضاد نظر نہیں آیا فاروق صاحب کو انتہائی حیرت ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں ہمارا آئین 1935 کا انڈین آئین کا چربہ ہے اور سینکڑوں خلاف اسلام قوانین اس میں موجود ہیں جسے بیان کرنے کے لیے ایک کتاب کی ضرورت ہے۔
 

خرم

محفلین
محب بھائی لیکن یہ بھی تو موجود ہے نا آئین میں کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سُنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ اب غالباً سود کی حرمت کے لئے کوئی قانون ہی نہیں بنایا گیا تو یہ تو سُستی ہوئی۔ اگر میرا حافظہ درست کام کرتا ہے تو غالباً نوازشریف کے دوسرے دور حکومت کے اواخر میں سپریم کورٹ نے ایک حکم بھی سُنایا تھا کہ تمام سودی کاروبار کو سود سے پاک کیا جائے ایک خاص مدت تک یا اس کی معیاد بتائی جائے کہ یہ کب تک ممکن ہوگا۔ اسی طرح قتل کا معاملہ ہے۔ صدر کی معافی کو عدالت میں آئین کی رو سے خارج کروایا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی نے کوشش ہی نہ کی تو اس میں قصور تو ہمارا ہوا نا۔
 

فرید احمد

محفلین
اور کیا معلوم نہیں ابھی چند ہی ماہ پہلے مشرف نے اس سود کے خاتمہ کے قانونی مسودہ کا کیا انجام کیا ؟

حالات حاضرہ سے اتنا تجاہل ؟
 

فرید احمد

محفلین
ترکی خلافت جو شاید خلافت نبوی کا بچا کھچا سرمایہ تھی ، غلط ہی سہی ، اس کا سلسلہ نسب خلافت سے ملتا تو تھا ۔ اس کی جانب سے جو قاضی مقرر کیے جاتے تھے ، ان کے فیصلے اور رہنما اصول اب طبع ہو کر آ رہے ہیں، ویسے اس موضوع پر صدیوں پرانی کئی تصنیفات ہیں ۔ تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ کا یونانی فلسفہ جسے بعد میں مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا ، وہ کیا اسلامی قانون کی صدیوں ہرانی کتابیں نہیں ؟
غزالی کی احیاء العلوم ، اور رازی ، رومی اور ابن تیمیہ کی کتابوں کی پڑھیے ۔

شاید اب ہم کو ہمارا اسلام ہی ناقص معلوم ہوگا ؟

سوچنے کے لیے ایک بات !

کیا خدا نے ہم کو ایسا دین دیا جو فقط ایک صدی تک بھی اصلی شکل میں باقی نہ رہا ؟

آج تک اس کے نظام کو سمجھانے والی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ؟

آج بھی وہ اصلی شکل میں نہیں ، ملاوں کا تبدیل کردہ ہے تو 1400 سال سے اور آئندہ کب تک ، ہم اسلام کے بر حق ہونے کا دعوی کس بل بوتے پر کرتے ہیں ؟

اس سے کسی پنچایت یا کمپنی یا چھوٹی سی کمیٹی کا دستور اچھا جو کم سے ایک ڈیرھ صدی تو چل ہی جاتا ہے ، ایسٹ انڈیا کمپنی نے تو کچھ اس سے زیادہ ہی قوی نظام زندگی دنیا کو دیا ؟

دبے لفظوں میں کیا یہی اعتراض ہماری تحریروں سے نہیں جھلکتا ؟
 

خرم

محفلین
اور کیا معلوم نہیں ابھی چند ہی ماہ پہلے مشرف نے اس سود کے خاتمہ کے قانونی مسودہ کا کیا انجام کیا ؟
میری یادداشت کے مطابق حکومت نے اس سے معذوری ظاہر کی تھی۔ لیکن معذوری کا اظہار حلت کا ثبوت نہیں‌ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سودی کاروبار حرام ہے لیکن حکومت میں اتنی will نہیں کہ وہ اسے بدل سکے۔ تو یہ کمزوری آئین کی نہیں حکومت کی اور ہم سب کی ہوئی۔
ترکی خلافت جو شاید خلافت نبوی کا بچا کھچا سرمایہ تھی ، غلط ہی سہی ، اس کا سلسلہ نسب خلافت سے ملتا تو تھا ۔ اس کی جانب سے جو قاضی مقرر کیے جاتے تھے ، ان کے فیصلے اور رہنما اصول اب طبع ہو کر آ رہے ہیں، ویسے اس موضوع پر صدیوں پرانی کئی تصنیفات ہیں ۔ تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ کا یونانی فلسفہ جسے بعد میں مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا ، وہ کیا اسلامی قانون کی صدیوں ہرانی کتابیں نہیں ؟
بھائی سلسلہ نسب کا ملنا تو کوئی بڑائی نہیں ہوتی۔ اعمال کو مِلنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی متفقہ کتاب موجود ہے جس کے من و عن نفاذ سے یہ کہا جا سکے کہ شریعت نافذ ہوگئی۔ دیکھئے حکمرانی کی رہنما اصول تو ہر فلاحی ریاست کے ایک ہی ہوا کرتے ہیں۔ عدل و انصاف، عوام کی فلاح و بہبود، جمہور کی فکری و نظریاتی صلاحیتوں کی نشونما یہ سب تو ہر اچھی حکمرانی کے لئے ضروری ہیں۔ اسلام یقیناً ایک ایسی ریاست کے قیام کو سپورٹ‌ کرتا ہے لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم ایک شرعی مملکت بنائیں گے اس سے کیا مراد ہے؟ یہ الجھن کم از کم مجھے تو درپیش ہے کہ وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کے لگانے سے ایک مملکت شرعی مملکت بن جاتی ہے اور اس کی کوئی متفق علیہ مثال اور قوانین موجود ہیں یا نہیں؟ کیا چہار ائمہ نے اور ان کے بعد آنے والوں نے ان معاملات پر کچھ لکھا یا یہ سب فسانہ گزشتہ صدی میں تراشا گیا؟
اسلام یقیناً مکمل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ بھی اسلام کا نام لگا کر کیا جائے وہ مکمل ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ دنیا کی پہلی فلاحی مملکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تشکیل دی۔ کیا آپ اس کو ایک شرعی مملکت مانتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر عہد رسالت و صدیق اکبر کو آپ کہاں فِٹ کریں گے؟ پھر دورِ عثمانی و حیدرِ کرار دورِ عمر فاروق سے مختلف ہیں اور معاشرتی حدود و قیود بھی مختلف ہیں تو ان کے بارے میں آپ کیا خیال فرمائیں گے؟ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے امور ہیں جن کے متعلق اسلام ایک مملکت کو پابند کرتا ہے اور یہ پابندی کن احکام میں وارد ہوئی ہے؟ جب ہم ایک نظامِ حکومت کو غیر شرعی قرار دیتے ہیں تو ہمارے پاس ایک ایسا پیمانہ بھی تو ہونا چاہئے جس کی بنیاد پر ہم کسی بھی طرزِ حکومت کو شرعی یا غیر شرعی قرار دے سکیں۔ یہ تعین کیا جانا چاہئے کہ ایک شرعی حکومت کی تعریف و حدود و قیود کب متعین کی گئیں اور کس نے کیں؟ اور یہ جو آجکل شور سا برپا ہے نفاذِ شریعت کا اس کی اصل کیا ہے اور اس نظریہ کی تعریف کیا ہے؟
 
بہت عمدہ سوالات ہیں آپ کے خرم اور ان کا جواب مفصل طریقے سے دینے سے ہی بات بنے گی نہ کہ جلدی میں چند لائنیں لکھنے سے۔

ایک مختصر قانون یہ ہے کہ ملک کا قانون کتاب و سنت کے تحت ہوگا اور اسی سے تمام قوانین اخذ کیے جائیں گے ، اقتدار اعلی اللہ کے پاس ہوگا اور اس کے احکامات کے مخالف احکامات صادر کیے ہی نہیں جا سکیں گے جیسے سود کا جاری ہونا یا حکام کو ماورائے اسلام اختیارات دینا جس کی ایک مثال صدر کا قتل کو معاف کرنا ہے جس کا حق کسی طرح سے بھی اسلامی حکومت میں سوائے وارثین کے کسی کو نہیں۔

چاروں خلفائے راشدین میں حاکمیت اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کو تھی فروعی معاملات میں اختلاف انہیں غیر شرعی نہیں کرتا۔ اس پر طویل اور مفصل بحث لازم ہے جس پر انشاءللہ بات ہوگی۔
 

فرید احمد

محفلین
خرم صاحب ! میں نے سیاست مدنیہ کے متعلق اسلامی فلاسفروں کی بات کی تھی ، شاید آپ کی توجہ اس پر نہ گئی ۔ وہ غور کرنے اور اپنانے کی کی چیز ہے ۔ اگر کوئی صاحب دعوی اسلام اور اسلامی حکومت کا کرتا ہے ، اور اپنے تئیں اس کو قرآن سے ، سنت سے ثابت کرتا ہے تو پھر اب دوسروں کا کام ہے کہ اس کو مانیں یا پھر کم سے کم قرآن و سنت کی رو سے اس کو غلط ثابت کر دکھائیں ۔

میں یہاں بحث دہرانے کے لیے نہیں ، مگر ناچار کہتا ہوں کہ سخت سزاوں کا قصوروار بعد کے نبی کے بعد مفکرین اور مذہب پرستوں کو قرار دیا جاتا ہے ، جب وہ لوگ ان سخت سزاوں کو ( قصاص، کوڑے لگانا ، ہاتھ کاٹنا) قرآن سے ثابت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی سخت سزا انہوں نے نہیں گڑھی ۔ اب دوسرے اس کو خلاف اسلام مانتے ہیں تو قرآن سے رد کر دکھائیں ۔

دوسری مثال :

نوٹ : اس مثال سے میرا یا کسی اور کا متفق ہونا ضروری نہیں ، اور اس کو مثال کی حد تک ہی رکھیں ،)

طالبان نے اپنے طور پر اسلامی حکومت کا اعلان کر دیا ، بقول ان کے اسلامی شریعت وہ چلا رہے تھے ، (یہاں موجودہ پاکستانی طالبان کو نطر انداز کر دیں ، افغانستان کی مرحوم طالبانی حکومت کی بات کرتا ہوں ) اب یا تو ان کے اسلام کے نام لینے کو ہم درست سمجھتے ، یہ کہ کر ہم نے تو قرآن و سنت کو اتنا زیادہ پڑھا سمجھا نہیں کہ پوری حکومت کا نظام بنا سکیں یا کسی کا بنایا ہوا -- یا دعوی کیا ہوا -- نظام ہم جانچ سکیں ، لہذا اسی کو مان لیں ۔ یا پھر اسلام اور قرآن و سنت کے نام پر اس کو غلط کہہ کر اس کا رد کریں ۔

یہ تو علقمندی کی بات نہ ہی ہوگی کہ اپنے جہل یا عدم فہم یا کسی اور وجہ سے ثالثی بن کر تماشائی بن جائیں ۔ اور بلا دلیل اس کی مخالفت تو بیوقوفی کہی جائے ۔

خیر طالبان کی بات بطور تمثیل تھی ، اور وہ بھی مرحوم طالبانی حکومت کی بات ، موجودہ سوات والی یا وزیرستان والی یا القاعدہ والی بات نہیں ۔ دوستوں سے گذارش کہ یہ فقط مثال ہے ،

اور آپ کے ان الفاظ پر نظر ثانی فرمائیں تو کرم ہوگا
دنیا کی پہلی فلاحی مملکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تشکیل دی۔ کیا آپ اس کو ایک شرعی مملکت مانتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر عہد رسالت و صدیق اکبر کو آپ کہاں فِٹ کریں گے؟ پھر دورِ عثمانی و حیدرِ کرار دورِ عمر فاروق سے مختلف ہیں اور معاشرتی حدود و قیود بھی مختلف ہیں تو ان کے بارے میں آپ کیا خیال فرمائیں گے؟
سمجھ میں نہیں آیا کہ دور فارقی اور دور صدیقی کو کس معنی کر الگ کہا جا رہا ہے ؟
 

قسیم حیدر

محفلین
بہت عمدہ سوالات ہیں آپ کے خرم اور ان کا جواب مفصل طریقے سے دینے سے ہی بات بنے گی نہ کہ جلدی میں چند لائنیں لکھنے سے۔

ایک مختصر قانون یہ ہے کہ ملک کا قانون کتاب و سنت کے تحت ہوگا اور اسی سے تمام قوانین اخذ کیے جائیں گے ، اقتدار اعلی اللہ کے پاس ہوگا اور اس کے احکامات کے مخالف احکامات صادر کیے ہی نہیں جا سکیں گے جیسے سود کا جاری ہونا یا حکام کو ماورائے اسلام اختیارات دینا جس کی ایک مثال صدر کا قتل کو معاف کرنا ہے جس کا حق کسی طرح سے بھی اسلامی حکومت میں سوائے وارثین کے کسی کو نہیں۔

چاروں خلفائے راشدین میں حاکمیت اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کو تھی فروعی معاملات میں اختلاف انہیں غیر شرعی نہیں کرتا۔ اس پر طویل اور مفصل بحث لازم ہے جس پر انشاءللہ بات ہوگی۔
محب بھائی! آپ ہی اس سلسلے میں پیش قدمی کریں۔ہو سکے تو میرے ایک سوال کا جواب بھی سے دیا جائے۔ یہ لوگ حدیث کو تو قابل اعتماد مانتے نہیں ہیں۔ ملا کی شریعت کو بھی بھاڑ میں جھونکیے۔ یہ فرمائیے کہ آپ جو نظام اس کے متبادل تجویز فرماتے ہیں اس کے خدوخال کیا ہوں گے۔ مجوزہ "اسلامی جمہوری نظام" کے تحت قانون سازی کرنے والے ارکان کی صفات کیا ہوں گی؟ اور وہ قانون کہاں ہے جو اس وقت لاگو کیا جائے گا۔
 

خرم

محفلین
سمجھ میں نہیں آیا کہ دور فارقی اور دور صدیقی کو کس معنی کر الگ کہا جا رہا ہے ؟
کافی سارے فرق تھے ان دونوں ادوار میں۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شیر خوار بچوں کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ عہد صدیقی میں یہ انتظام نہیں تھا۔ اب اس میں سے کس دور کو آپ شرعی قرار دیں گے اور کس بنیاد پر؟
 

قسیم حیدر

محفلین
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی بنیاد پر
علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین الھدیین (بخاری)
"تم پر لازم ہےکہ میری سنت کو پکڑے رہو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو بھی"
شیر خوار بچوں کا وظیفہ مقرر کرنا اور اس طرح کے دوسرے فلاحی کام دورِ فاروقی اور دورِ صدیقی کی شرعی حیثیت کو کیسے مختلف کر سکتے ہیں؟ اس طرح کے کام اسلامی ریاست سرانجام دے سکتی ہے اور "ملا کی شریعت" میں اس کی کوئی ممانعت نہیں۔
 

فرید احمد

محفلین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شیر خوار بچوں کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ عہد صدیقی میں یہ انتظام نہیں تھا۔ اب اس میں سے کس دور کو آپ شرعی قرار دیں گے اور کس بنیاد پر؟
خرم ! ریاستہائے متحدہ امریکہ ( کتنا بڑا نام ) میں رہتے ہو اور آپ کی فہم کہاں گم ہو گئی ہے ؟

دور صدیقی میں اتنی آمد نہ تھی، جتنی دور فاروقی میں ۔

اور دور صدیقی میں وظیفہ نہ تھا تو ممنوع بھی نہ تھا ۔ جو بعد میں دور فاروقی میں آیا تو دونوں میں فرق ہو گیا !
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جسٹس تنزيل الرحمن نے ضياء الحق دور ميں مجمموعہ قوانين اسلامي مرتب کيا جو چار پانچ جلدوں پر محيط ہے اس کي خوبي يہ ہے کہ
انہوں نے اسے موجودہ قوانيں کي طرح شق وار اور دفعہ وار مرتب کيا
مسلم سماج سے متعلق تمام قوانيں مثلا وراثت، حضانت، نان و نفقہ، نکاح ، طلاق، شہادت، خلعہ،تجارت، ، املاک، شفعہ وغيرہ اس ميں شامل ہيں
انہوں نے چاروں مشہور آئمہ مذاہب يعني حنابلہ، شوافع،احناف اور مالکي فقہ کے علاوہ فقہ جعفري کو بھي پيش نظر رکھا تمام فقہوں پر بحث کر نے کے بعد اس کي قابل قبول صورت کو شق وار مرتب کيا
اس کے علاوہ انہوں نے ان قوانيں کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلم ممالک ميں رائج قوانين کو بھي بطور متوازي بحث شامل رکھا ہے اور تقابلي جائزہ کے بعد نسبتا بہتر صورت پيش کي ہے اس کے علاوہ مولانا محمد متين ہاشمي، مولنا مودودي وغيرہ علما نے بھي اسلامي قوانين کي ترتيب و تاليف کے سلسلہ ميں جديد خطوط پر کام کيا ہے اور مستقل تصانيف سامنے آئي ہيں جن سے آج بھي عدالتوں ميں استفادہ کيا جاتا ہے اور وکلا انہيں عدالتوں ميں پيش کرتے ہيں اور ان قوانين کي رو سے فييصلے بھي ہو رہے ہيں فتاوي قاضي خان بھي اس سلسلہ ميں کافي معروف ہے
يہ تو ہيں وہ قوانين جو کسي بھي اسلامي ملک کے مسلم معاشرہ ميں معاشرتي مسائل و تنازعات کے عدالتي حل کے ليے ہيں
ليکن اسلامي رياست کن خدو خال پر ہوگي
اس کا ڈھانچہ کيا ہو گا
شورائي نظام کيا ہے
جمہويت کيا ہے
اسلامي حکومت کا سربراہ کييسے چنا جائے گا
ان مسائل پر بھي گفتگو ہوتي رہي ہے

بنيادي بات وہي ہے جو آئين پاکستان ميں قرارداد مقاصد کے اندر موجود ہے اب اس کي عملي صورت کو حاصل کرنے کے ليے مخلصانہ فيصلوں کي ضرورت ہے
خلاف راشدہ کي بات ہوئي
اس ميں پہلے خليفہ کا انتخاب لوگوں کي رائے کے ذريعہ ہوا
دوسرے خليفہ کا انتخاب نامزدگي کي صورت ميں ہوا
تيسے خليفہ کا انتخاب چھ افراد کي مجلش شوري کے ذريعہ ہوا اور اس مجلس شوري کا ہر فرد خود بھي خلافت کا اميدوار تھا
چوتھے خليفہ کا انتخاب انتہائي ہنگامي صورت حالات اور نامساعد حالات ميں اس طرح ہوا کہ انہيں نے با دل ناخواستہ خلافت کا بوجھ اٹھانا پڑا
اس کے بعد دھونس دھاندلي اور قبضہ و تسلط کے ذريعہ خلافت کو ملوکيت ميں تبديل کرتے ہوئے بادشاہت کي بنياد رکھ دي گئي اور پھر ايک آدھ استثني کے علاوہ شايد ہي مسلمانوں نے خلافت اسلامي کا کوئي دور ديکھا ہو اور اس کي حقيقي روح سے فيض ياب ہوئے ہوں
بہرحال يہ طے ہے کہ خلافت راشدہ ميں خليفہ کے انتخاب کے ليے کوئي بھي طريقہ استعمال کيا گيا ليکن اسلامي حکومت کا نظام قرآن و سنت کے مقرر کردہ منہاج اور طريقہ کے مطابق تھا اور اس دور ميں جو بھي شرعي يا انتظامي احکام تھے وہ قرآن و سنت کے بنيادي اصولوں سے مطابقت رکھتے تھے
 

قیصرانی

لائبریرین
کل دوست سے بات ہو رہی تھی۔ وہ افغانستان میں ہوتے ہیں آج کل۔ ویسے ہی بات ہوئی تو میں نے کہا کہ یہ جو مجاہدین اور طالبان سوات اور دیگر جگہوں پر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہ رہے ہیں، انہیں سود کا کاروبار اور خواتین جو جائیداد میں حصہ نہ دینا کیوں نہیں دکھائی دیتا۔ لڑکیوں‌کے سکول اور حجام کی دوکانیں‌ہی کیوں؟ ان دوست صاحب نے بہت اچھی بات کہی کہ یہ جو کام حکومت بنانے کے لئے ضروری ہیں، وہ اب کئے جا رہے ہیں۔ رہا سودی کاروبار یا جائیداد کے مسئلے، اگر ان میں‌الجھ گئے تو ان کے اپنے مجاہدین انہیں‌چھوڑ‌جائیں گے
 

خرم

محفلین
خرم ! ریاستہائے متحدہ امریکہ ( کتنا بڑا نام ) میں رہتے ہو اور آپ کی فہم کہاں گم ہو گئی ہے ؟
بس بھائی بتا کر نہیں‌گئی۔ آپ کو مِلے تو لوٹا کر شکریہ کا موقع ضرور دیجئے گا۔
باقی جو بات بیان کرنا چاہ رہا تھا اور جسے شاکر بھائی نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا وہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت سازی کے لگے بندھے قوانین نہیں ہیں بلکہ کچھ رہنما اصول بتا دئیے گئے ہیں اور ان حدود کے اندر رہ کر قانون سازی کرنا امت کی صوابدید اور وقتِ مخصوص کے حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسلام حکمرانوں کو عدل کرنے اور جمہور کو اظہارِ رائے اور عمل و علم کی آزادی کے مواقع پیدا کرنے کا مکلف کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ کون سے طریق اختیار کرتے ہیں جب تک وہ حدود اللہ سے نہیں ٹکراتے تب تک وہ اسلامی ہیں۔ اہل علم کی کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر من و عن عمل کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ہر محقق کسی نہ کسی سطح پر اپنے معاشرتی حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اسلام ایک انتہائی متحرک دین ہے۔ اسلام کے نفاذ کا مطلب عملاً چودہ صدیاں واپس جانا نہیں بلکہ اس روح پر عمل کرنا ہے جو چودہ صدیاں پہلے زمانہ نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں موجود تھی۔ ایسے قوانین بنانا جن میں امت کی اور انسانوں‌کے لئے آسانی ہو اور ان کی بھلائی ہو اور عدل ہو عین اسلام ہے اور ایسا طرزِ حکومت ہی اسلامی ہوگا اور اسے ہی آپ شریعت کا نفاذ کہیں گے۔ شریعت سُنت نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم مخلوق پر انتہائی مہربان تھے۔ بس ایسا طرزِ حکومت جو اللہ کی مخلوق کے لئے آسانی پیدا فرمائے اور انہیں ان کا حق پہنچائے وہی اسلامی ہے۔ باقی یہ لڑکیوں کےسکول بند کرنا، حجاموں کی دوکانیں بند کروانا ان سب کا اسلام سے تعلق جتنا بھی کھینچیں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث پاک تو تحصیل علم کو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیتی ہے اور ہمارے "اہل اسلام" لڑکیوں کے سکول بند کرواتے پھرتے ہیں۔ یہ جہالت مُلا کا اسلام تو ہو سکتی ہے محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہرگز نہیں۔
 
Top