شرعی قوانین کی کتاب یا کتب درکار ہیں۔

خرم

محفلین
عمر دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیجئے کہ خلفائے راشدین نے قرآن و سُنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے ذاتی قیاس و تجربہ کی بنیاد پر حکومت کی۔ مزید یہ کہ خلیفہ کے چناؤ سے لیکر اس کے امورِ مملکت کے چلانے تک تمام امور کسی لگے بندھے قانون یا ضابطہ کے پابند نہیں تھے بلکہ وقتِ موجود کے تقاضوں کے پیشِ نظر اختیار کئے جاتے تھے اور ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی تھیں۔
 

خرم

محفلین
برادرانِ گرامی،
آپ لوگوں کی خاموشی کو میں اس بات کی تائید سمجھوں کہ ہمیں اتفاق ہے کہ مسلمان حکمران چُننے کا ایک باقاعدہ طریقہ یا اہلیت کی شرائط اور نظامِ حکومت چلانے کا ایک باقاعدہ نظام ہمیں قرآن، سُنت یا اجماعِ صحابہ سے نہیں ملتا؟ اگر آپ میں سے کسی بھائی کو اس سے اختلاف ہے تو براہِ کرم قرآن، سُنت اور اجماعِ صحابہ سے دلائل بیان فرمائیں۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم!
سب مسلمانوں کا ایمان ہے اسلام ایک مکمل دین ہے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ضابطہ حیات وہ ہوتا ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے رہنمائی کرے خواہ ان کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نےانسانیت کو پیش آنے والے تمام معاملات کے بارے احکامات بذریعہ وحی اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وساطت ہم تک پہنچا دیئے ہیں۔اور اس پر تمام مسلمان متفق ہیں اور یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔

ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کرنے سے پہلے یہ جان لے کہ اس بارے اللہ کی رضا کیا ہے۔
اللہ نے اس عمل کا پسند فرمایا ہے یا ناپسند ،وہ عمل فرض ہے یا مندوب یا مباح یا مکروہ یا حرام ۔اگر وہ کسی عمل کرنے کے بارے حکم نہیں جانتا تو اسے چاہیے کہ وہ رجوع کرے قران اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت سے ۔

اوراگر آج کوئی یہ کہے کہ فلاں فلاں معاملے میں اسلام خاموش ہے یا اسلام ہماری رہنمائی نہیں کرتا تو وہ اس کی اسلام کے بارے میں کم فہمی ہی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ نہ تو نطام حکومت اور دیگر حکومتی معاملات میں حاموش ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسرے دین یا قوموں سے نطام حکومت مستعار لینے کی ضرورت ہے۔بالفاظ دیگر اگر واقعی ہمارا دین " نظام حکومت یا امیر" کے چناؤ کے لئے جمہوررت کا محتاج ہے تو ہمیں کھلے دل سے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہمارا دین نامکمل ہے (نعوذ باللہ)

آپ لوگوں کی خاموشی کو میں اس بات کی تائید سمجھوں کہ ہمیں اتفاق ہے کہ مسلمان حکمران چُننے کا ایک باقاعدہ طریقہ یا اہلیت کی شرائط اور نظامِ حکومت چلانے کا ایک باقاعدہ نظام ہمیں قرآن، سُنت یا اجماعِ صحابہ سے نہیں ملتا؟ اگر آپ میں سے کسی بھائی کو اس سے اختلاف ہے تو براہِ کرم قرآن، سُنت اور اجماعِ صحابہ سے دلائل بیان فرمائیں۔

حرم صاحب! میرا یہ ا یمان ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام نے ہر عمل سرانجام دینے کا طریقہ بتایا ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا سیاست یا حکومت سے ۔اگر اسلام ایک مکمل دین ہے تو اس نے ایک نظام حکومت بھی ضرور دیا ہو گا۔

آپ بتایئے کہ کیا آپ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔
جواب عنایت فرمایئے انشااللہ بعد میں دلائل سے بھی بات ہو گی۔۔
ولسلام۔
 
برادرانِ گرامی،
آپ لوگوں کی خاموشی کو میں اس بات کی تائید سمجھوں کہ ہمیں اتفاق ہے کہ مسلمان حکمران چُننے کا ایک باقاعدہ طریقہ یا اہلیت کی شرائط اور نظامِ حکومت چلانے کا ایک باقاعدہ نظام ہمیں قرآن، سُنت یا اجماعِ صحابہ سے نہیں ملتا؟ اگر آپ میں سے کسی بھائی کو اس سے اختلاف ہے تو براہِ کرم قرآن، سُنت اور اجماعِ صحابہ سے دلائل بیان فرمائیں۔

خرم بھائی لوگ ابھی ایمرجنسی کی مشکلات میں الجھے ہیں اس لیے اس طرف زیادہ تر خاموشی ہی رہے گی ۔ میں اس پر طویل گفتگو کا ارادہ رکھتا ہوں مگر اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا اور طویل مباحث کرنے پڑے گے اور ساتھ ساتھ تحقیقی مواد کو تلاش کرنا ہوگا یہ سب آسان کام نہیں ہیں۔

میں اختلاف کرتا ہوں کہ

مسلمان حکمران چُننے کا ایک باقاعدہ طریقہ یا اہلیت کی شرائط اور نظامِ حکومت چلانے کا ایک باقاعدہ نظام ہمیں قرآن، سُنت یا اجماعِ صحابہ سے نہیں ملتا

خلیفہ کی شرائط قرآن و سنت اور اجماع صحابہ سے ملتی ہیں ہمیں اور یہ وہی طریقے ہیں جس سے خلفا راشدین منتخب ہوئے ، جزئیات میں اختلاف ضرور ہے مگر اصول میں قطعا نہیں اور یہ اختلاف خلافت کے ختم ہونے تک پیدا نہیں ہوا۔ امت کی کمزوری اصولوں کی کمزوری نہیں کہلا سکتی ، پوری خلافت کو ضبط تحریر میں لانا ہوگا اور مستشرقین کے تعصب سے نظریں ہٹا کر اسلام کے نظام کو دیکھنا ہوگا جس کی طرف سے پچھلے 80 سال میں مغرب نے ہمیں بہت سے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا ہے اور ہمارے لیے ہمارا نظام ہی ہماری نظروں میں فرسودہ اور ناقابل عمل قرار دے دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
عمر دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیجئے کہ خلفائے راشدین نے قرآن و سُنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے ذاتی قیاس و تجربہ کی بنیاد پر حکومت کی۔
یہ کیا منطق ہوئی ؟ اصول و حدود تو قرآن و سنت کے ، تو پھر قیاس و تجربہ کہاں ؟ اور اگر ہے تو ذاتی نہیں بلکہ قرآن وسنت کے دلائل سے اجتہاد کہا جائے گا ۔" ذاتی قیاس " اور " تجربہ " کہ دینا سراسر غلط ہے ۔ یہ بات تو اسلامی اصولوں سے انحراف کا کھلا دروازہ ہی سمجھ لو ۔

میں اختلاف کرتا ہوں اس بات سے کہ :
مسلمان حکمران چُننے کا ایک باقاعدہ طریقہ یا اہلیت کی شرائط اور نظامِ حکومت چلانے کا ایک باقاعدہ نظام ہمیں قرآن، سُنت یا اجماعِ صحابہ سے نہیں ملتا
بلکہ صحیح طریقہ ہے ، ہاں اپنی اپنی فہم کو اس کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے ۔ کسی انسان کو اپنی عقل پر اتنا نازاں نہ ہونا چاہیے
 

خرم

محفلین
چلیں جُزو وار بات کرتے ہیں۔
آپ مجھے صرف اس ایک بات کا جواب عطا فرما دیجئے کہ قرآن اور سُنت میں خلیفہ چُننے کا کیا طریقہ مذکور ہے اور کسے خلیفہ ہونا چاہئے؟ اور پھر اس کی روشنی میں اس اختلاف کی وضاحت فرما دیجئے جو نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے فوراً بعد پیدا ہوا اور آج تک چلا آرہا ہے اور یہ کہ اس میں کون حق پر تھا اور کون ناحق؟

عمر میں نے پہلے بھی عرض کی تھی میرے بھائی کہ اللہ نے امتِ محمدی صل اللہ علیہ وسلم پر آسانی فرمائی ہے کہ انہیں اکثر معاملات میں پابند نہیں‌فرمایا۔ یہ آسانی خاص اللہ کی رحمت سے ہے اور اس کو دین کے نعوذ باللہ نقص پر انطباق انتہائی غلطی ہے۔ یہ تو وجہ شکر ہے نہ کہ وجہ نزاع۔ آپ سے ایک اور سوال بھی میں نے کیا تھا پاک فوج والے دھاگے پر۔ اگر اس کا بھی جواب مرحمت فرمادیں تو مشکور ہوں گا۔
 

عمر میرزا

محفلین
میں نے سوال کیا کہ
باقاعدہ نظام حکومت کیا ہوتا ہے
آپ نے جواب دیا
عمر دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیجئے کہ خلفائے راشدین نے قرآن و سُنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے ذاتی قیاس و تجربہ کی بنیاد پر حکومت کی۔ مزید یہ کہ خلیفہ کے چناؤ سے لیکر اس کے امورِ مملکت کے چلانے تک تمام امور کسی لگے بندھے قانون یا ضابطہ کے پابند نہیں تھے بلکہ وقتِ موجود کے تقاضوں کے پیشِ نظر اختیار کئے جاتے تھے اور ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی تھیں۔

اسے سوال کا جواب تو نہی کہا جا سکتا۔ سید ھی سی بات ہے کہ ایک باقاعدہ نظام حکومت اس کہا جاتا ہے جو کے کسی بھی معاشرے کو نظم و ضبط میں لیکر آتا ہےاور معاشرے میں نظم وضبط قائم رکھنے کےلئے وہ کسی قانون یا ضابطہ حیات کا مرہون منت ہوتا ہے یہ قانون انسانی بھی ہوتا ہے مگر عقیدے کا تقاضہ ہے کے اسے صرف من جانب حق تعالی ہی ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ انسانی معاشرے میں فلاح عامہ قائم رکھنے کے لئے کچھ اور اداروں‌کی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسے عدلیہ ، پولیس وغیرہ ۔معاشرے میں‌پائے جانے والے افراد کی تربیت کے لئے مدارس اور جامعات کا قیام بھی ضروری ہوتا ہے ۔ریاست کو بیرونی حطرات سے بچانے کی حاطر فوج بھی تشکیل دی جاتی ہے حکمران کے معاونین بھی ہوتے ہیں‌ تاکہ حکومت احسن طریقے سے کام کر سکے وغیرہ وغیرہ ۔اور یہ تمام عناصر یعنی حکومتی ادارے، حکومتی قوانین،اس کے چلانے والے لوگوں کو ہی باقاعدہ نظام حکومت کہا جاتا ہے۔

اب چلتے ہیں آپ کے سوالات کی طرف آپ نے کہا کہ اسلام ایک باقاعدہ نظام حکومت نہیں‌دیا ۔۔

ویسے ایک منطقی بات ہے اگر اسلام ایک باقاعدہ نظام حکومت نہیں دیتا تو نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم کو بھی ایک ریاست کی تشکیل نہیں دینی چاہیے تھی وہ بس اپنے اصحاب کو لیتے اور عرب کے کسی دور دراز نخلستان میں مسجد بنا کر اللہ کی حمدو ثناء کرتے مگر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک ریاست قائم کی بلکہ اسکے پھیلاؤ اور دفاع کے لئے جنگیں تک لڑیں بالسیف جہاد کیا۔کعبہ کو کفار مکہ سے چھین لیا دوسرے قبائل کو ریاست اسلامی میں شامل ہونے کا کہا ۔ریاست کے افراد کی ایسی اخلاقی تربیت کی کہ وہ عرب جو صدیوں سے ایک دوسرے سے باہم دست گریبان تھے انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھائی۔

نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نےاپنی مدینہ ہجرت کے بعد کیسے ایک باقاعدہ نظام حکومت ترتیب دیا وہ ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے اور وہ نطام ان آٹھ بنیادی ستونوں پر قائم تھا
1) حکمران
2) معاون تفویض ( نائب حکمران)
3 معاون تنفیض ( وزراء )
4) امیر فوج
5) گورنر (والی)
6) عدلیہ
7 ) انتظامی ادارے برائے مفاد عامہ
8 ) مجلس امت
ریاست کے یہ ارکان رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم کے عمل سے ماحوذ ہیں ۔آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلمنے ریاست کے ڈھانچے کو اسی شکل میں استوار کی تھاآپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم خود ریاست کے سربراہ تھے ۔اس طرح جب آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلیفہ یا امام مقرر کرنے کا حکم دیا تو دراصل آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مسلمانوں کو ھکمران مقرر کرنے کا حکم دیا ۔ جہاں تک معونین کا تعلق ہے تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا معاون بنایا جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے
(( وزیر ای من السماء جبریل و میکائیل و من اھل الارض ابوبکر و عمر ))
" آسمان پر میرے دو وزیر جبریل اور میکائیل ہیں اور اہل زمین میں میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں "

( ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ یہاں لفظ ' وزیر ای " میرے دو وزیر سے مراد میرے دو معاون ہیں کیونکہ عربی میں اس کا یہی مفہوم ہے ۔جہاں تک لفظ منسٹر یا وزیر کا تعلق ہے جس معنوں میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک مغربی اصطلاح ہےجس کا مظلب یہ ہے کہ ایک متعین قسم کی حکمرانی کا عمل اس سے مسلمان واقف نہ تھے اور یہ اسلامی نظام ھکومت سے بھی متناقض ہےکیونکہ رسول اللہ نے جس معاون کو وزیر کے نام سے پکارا ہے اس آپ نے کوئی محصوص زمہ داری نہیں‌سونپی بلکہ وہ خلیفہ کے لئے کام کرنے کی عمومی زمہ داری سرانجام دیتا ہے اور اس کے پاس خلیفہ جتنے ہی احتیارات ہوتے ہیں۔ )

جہاں تک والیوں کا تعلق ہے تو آپ نے انہیں مختلف ولایہ (صوبوں ) پر مقرر کیا ۔آپ نے عتاب اسید کو فتح مکہ کے مکہ کا والی مقرر کیا ، بازان بن ساسان کے کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے انہیں یمن کا والی مقرر کیا رسول اللہ نے اس کے علاوہ اس کے علاوہ بھی کئی والی مقرر کئے ۔رسول اللہ نے لوگوں کے درمیان تنازعات آپ نےکا فیصلہ کرنے کے لئے قاضی مقرر فرمائے آپ نے حضرت علی ابن طالب کو یمن کا قاضی مقرر کیا اور معاز بن جبل اور ابو موسٰی الاشعری کو یمن کی قضا تہ اور امارت عطا کی ۔
طبرانی نے ثقہ راویوں کے ذریعے مسروق سے روایت کیا انہوں بیان کیا :

(( کان اصحاب القضا ء علی عھد رسول ستتہ : عمر علی و عبداللہبن مسعود و ابیی بن کعب و زید بن چابت و ابو موسی الا شعری ))

" رسول اللہ کے دور میں قضاتہ ( عدلیہ )‌ پر یہ چھ لوگ مقرر تھے : عمر ، علی ، عبد اللہ بن مسعود ، ابی بن کع ، زید بن ثابت اور ابو موسٰی الا شعری "

جہاں تک انتظامی معاملات کا تعلق ہے تو رسول اللہ نے ریاست کے مختلف شعبوں‌کو چلانے کے لئے سیکرٹری مقرر فرمائے جو کہ ان اداروں کے مدیر تھے ۔معقیب بن ابی فاطمہ غنیمتوں‌کے انچارج تھے ،جبکہ خذیفہ بن یمان حجاز کی پیدوار کا تخمینہ لگانے پر معمور تھے آپ نے دیگر محکموں پر مزید لوگ مقرر کئے ۔

جہاں تک فوج کا تعلق ہے جو کہ انتظامی لحاظ سے امیر جہاد کے ماتحت ہوتی ہے ،تو عملی طور پر رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی فوج کے کمانڈر انچیف تھے اور آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم فوج کے انتظامی اور دیگر امور کو منظم کرتے تھے۔ تاہم رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مختلف مہمات کے لئے مختلف لوگوں کو کمانڈر مقرر کیا ۔ایک موقع پر آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے عبداللہ بن حجش کو کو قریش کی جاسوسی کےلئے مشن کی قیادت دے کر بھیجا ۔ ایک اور موقع پر آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ابو سلمہ بن عبدالامر کو 150 آدمیوں کے دستے پر امیر بنا کر بھیجا اور آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اسے ایک جھنڈا بھی عطا کیا اس دستے میں چند بہترین مسلمان جنگ جو بھی شامل تھے۔ اس میں ابو عبیدہ بن جراح ،سعد بن ابی وقاص اور اس اسد بن حضیر بھی شامل تھے۔
نبی پاک صلٰی اللہ علیہ وسلم نے فقط تیرہ سالہ مدنی زندگی میں ریاست اسلامیہ کے دفاع اور پھیلاؤ کے لئے 27 غزوات اور 35 سرایہ کییں اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے

جہاں تک مجلس امت کا تعلق ہے جس کا کام مشورہ دینا اور ھکمرانوں کا محاسبہ کرنا ہے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کوئی مستقل مجلس امت قائم نہیں کی لیکن صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے جب بھی ضرورت محسوس کی مسلمانوں سے مشورہ کیا آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نےغزوہ احد میں مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ لیا اور کیئ اور موقعوں پر ایسا ہی کیا ۔آپ عموما لوگوں سے مشورہ لیتے تھے اور چند اصحاب کو تو بلحصوص بلا کر باقاعدگی سے مشورہ لیتے تھے ۔یہ اصحاب لوگوں کے سردار سمجھے جاتے تھے یہ حمزہ ،ابوبکر ،جعفر، عمر علی ،عبداللہ بن مسعود ،سلمان ،عمار،خذیفہ ،ابو زر ، المقداد اور بلال رضوان اللہ اجمعین تھےیہ رسول اللہ کی باقاعدہ مجلس شوری تھی ۔۔۔
صنعت حرفت کی ترویج بھی ایک یقینی عمل تھا آپ نے اصحاب کی ایک جماعت کو شام روانہ کیا کہ وہ ہتھیار سازی کی صنعت کے بارے معلومات حاسل کریں۔۔۔۔


باقی آئندہ۔۔
وسلام
 

خرم

محفلین
عمر بھائی،
اللہ آپ کو دورِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری باتیں لکھنے کا اجر دے آمین۔
میرا سوال تو صرف یہ تھا کہ حکمران چُننے کا اللہ یا اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی باقاعدہ طریقہ کیا ہمیں عطا کیا گیا؟ آپ اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔
باقی باتیں تو پھر انشاء اللہ مرحلہ وار کریں گے۔
 

عمر میرزا

محفلین
عمر بھائی،
اللہ آپ کو دورِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری باتیں لکھنے کا اجر دے آمین۔

نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری باتیں لکھنے سے مقصود یہ تھا کہ پیارے بھائی کو یہ واضح ہو جائے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک باقاعدہ نظام حکومت ترتیب دینے کا طریقہ کار بتا دیا ہے

میرا سوال تو صرف یہ تھا کہ حکمران چُننے کا اللہ یا اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی باقاعدہ طریقہ کیا ہمیں عطا کیا گیا؟ آپ اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔

وہ بھی آپ ہی کے سوال کا جواب ہے۔ آپ اس بات پر تو متفق ہوں کہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے ایک باقاعدہ نظام حکومت دیا ہے ۔اگر اللہ نے مجھے اور آپ کو کچھ اور دن زندگی کے عطا کئے تو آپ کے دوسرے سوال پر بھی بات ہوگی۔
 

فرید احمد

محفلین
خرم ! تم مکمل طریقہ صراحۃ چاہتے ہو شاید ! اور وہ نہ ملے تو کہنا چاہتے ہو کہ پھر ہر دور میں ہر کوئی آزاد !
ایسا مکمل طریقہ صراحۃ آج تک دنیا نہیں دے پائی ، ہر قوم وملت اور دستور میں اصول ہوتے ہیں ،
اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کا ہر جنرل اپنے فوجی اقتدار کو دستور سے مدلل نہ کر سکتا ۔ ہر ایک اپنے کرتوت کو دستور سے ثابت کرتا ہے ۔

اور مکمل صراحۃ کوئی طریقہ نہ تو جو طریقہ بھی اپنایا جائے وہ ذاتی قیاس و تجربہ کا کیسے کہ دیا آپ نے ؟: اصول کی پابندی ضروری ہے ، یہی تو منطقی بات ہے ، اور یہ اصول موجود ہے ۔ ورنہ جمہوریت درست تو پھر آمریت بھی درست ۔ الیکشن درست تو پھر فوجی بغاوت بھی درست ۔
کیا یہ اصول تسلیم نہیں کہ
صاحب اقتدار دین دار ہو ، عادل ہو !
موجودہ زمانے میں جس طرز حکمرانی کو اسلامی ثابت کرنے کوشش کی جاتی ہے ، یا کم سے کم اسلام مخالف نہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے ، اس میں یہ دونوں چیزیں ہیں ؟
میرا خیال ہے کہ آپ یہ سوال اٹھائیں کہ امیر مملکت منتخب کرنے کا کوئی واضح طریقہ آج تک دنیا نہیں دے پائی !
 

خرم

محفلین
خرم ! تم مکمل طریقہ صراحۃ چاہتے ہو شاید ! اور وہ نہ ملے تو کہنا چاہتے ہو کہ پھر ہر دور میں ہر کوئی آزاد !
فرید بھائی میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تشکیلِ حکومت کے کون سے واضح احکام ہمیں قرآن اور سُنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم سے ملتے ہیں۔ اور سعی یہ ہے کہ ایک متفقہ نتیجہ پر پہنچا جائے اس ضمن میں اور پھر اس بات کی تحقیق کی جائے کہ کن امور میں امت کو پابند نہیں کیا گیا اور وقتِ مخصوصہ کے لحاظ سے اجماع کی اجازت ہے۔
صاحب اقتدار دین دار ہو ، عادل ہو !
بھائی اب دین دار تو جس کسی کو بھی اللہ، حضرت محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے اور روزِ قیامت پر یقین ہے وہ دین دار (یعنی دین کا حامل) ٹھہرا۔ اس کے علاوہ ہر آئین یا دستور میں عموماً یہ شق ہوتی ہے کہ کوئی بھی صاحب امر اخلاق باختہ اور کسی جرم میں سزا یافتہ نہ ہو (پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 اس بات کا تقاضا کرتے ہیں)۔ تو یہ اصول تو تقریباً ہر ریاست کو درکار ہوتے ہیں۔
ن
بی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری باتیں لکھنے سے مقصود یہ تھا کہ پیارے بھائی کو یہ واضح ہو جائے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک باقاعدہ نظام حکومت ترتیب دینے کا طریقہ کار بتا دیا ہے۔
عمر بھائی اس بات پر تو ابھی بات چلنی ہے۔ فی الحال تو پہلا سوال یہ ہے کہ اسلام نے خلیفہ چُننے کا کیا طریق کار بتایا ہے اور اس کی اہلیت کی کیا شرائط مقرر کی ہیں؟
 
Top