شرعی قوانین کی کتاب یا کتب درکار ہیں۔

یہ ڈسکشن بہت اچھا جا رہا ہے۔ اور بہت سی اچھی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ خاص طور پر جناب شاکر القادری کی تحریر۔
سب سے درخواست ہے کہ وہ کسی طور پر جسٹس تنزيل الرحمن کا مجمموعہ قوانين اسلامي کا کوئی لنک اگر فراہم کرسکیں تو عنائیت ہوگی۔
 

قسیم حیدر

محفلین
فاروق سرور خان نے کہا:
جب پاکستان بنا توملاؤں کا خیال تھا کہ پاکستان میں پھر وہی ملاؤں کی حکومت ہوگی جو مغلیہ دور میں‌تھی۔ وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی - وہی حلوے مانڈے ہوں گے، وہی کنواریوں کی قلقاریاں ہوں گی اور یہ ملا ہوں گے۔ اسی نظام کو ملا شریعت کہتے ہیں جس کا دور دور سے بھی قرآن سے واسطہ نہیں۔

لعنۃ اللہ علی الکٰذبین
جناب، حلوے مانڈے کچھ بھی نہیں اس سے بڑھ کر آسائشوں اور تعیشات سے تو وہ لوگ مستفید ہو رہے ہیں جنہوں نے اسلام دشمنوں کی یونیورسٹیوں سے “اسلام” سیکھا ہے اور اب اپنا خودساختہ دین امت پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ملا بیچارہ تو خوامخواہ بدنام کر دیا گیا ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
ملاؤں کا یہ نظام اتنا اچھا تھا کہ جب انگریز برصغیر سے گئے اور مسلمان اپنی کمزوری کی انتہا کو پہنچ گئے تو 1947 میں ہندوستانیوں نے ملاؤں‌کی خدمات کا اعتراف کیا، ان کو گلے سے لگا کر معافی مانگی۔ اور صدیوں کا "انصاف" جو قاضی عدالتوں سے عام آدمی کو ملتا رہا تھا اس کا شکریہ ------- لاکھوں مسلمانوں کی جانوں، عزتوں اور ملکیتوں کا جنازہ نکال کر ------ ادا کیا۔
اس طنز کے باوجود یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے ذمے دار سیاست دان تھے۔ میں انتہائی ادب کے ساتھ آپ کو خیرخواہانہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اپنی آنکھوں سے تعصب کی اندھی پٹی اتار کر حقائق کو دیکھیں ورنہ ہو سکتا ہے کل کلاں کہا جانے لگے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکنے کے پیچھے بھی خون کے پیاسے کسی ملا کا ہاتھ تھا۔

فاروق سرور خان نے کہا:
سرسید کے علیگڑھ یونیورسٹی قائم کرنے کے خلاف، ہر شہر اور قصبہ کے مولوی سے 'سرسید کے کافر ہونے ' کی بابت دستخط کروائے گئے تھے۔ جن مولویوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا ان پر تکفیر کا فتوی لگایا گیا تھا۔ تو بھائی یہ جدید تعلیم تو حرام ہے۔ خبردار جو کسی نے کمپیوٹر استعمال کیا‌۔
دوسرے تھریڈز پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سرسید پر کفر کے فتوے ان کے گمراہ کن عقیدوں کی وجہ سے لگے تھے۔ پھر بار بار ایک ہی بات کو دہرانے کا فائدہ۔ جدید تعلیم کے بارے میں علماء کا موقف جاننا ہے تو جناب تقی عثمانی کی کتاب “اسلام اور جدت پسندی” کا مطالعہ کیجیے۔
ہو سکے تو سرسید کے اختیار کردہ طریقے کی خامیوں پر بھی ایک آرٹیکل لکھیے گا۔ سرسید بھی انسان ہی تھے، ان کی سوچ میں بھی ہزار خامیاں ہو سکتی ہیں۔علی گڑھ سے نکلنے والی کھیپ کی اخلاقی حالت اور اسلام سے ان کی وابستگی کے بارے میں سرسید نے اپنی زبانی جو کہا اور لکھا تھا، اس پر بھی روشنی ڈالیے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
پاکستان کے عوام کے منتخب کردہ نمائندے، جو آئین و قوانین پاکستان کے قانونی اداروں میں قرآن اور سنت کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں
یہ لطیفہ بھی خوب رہا۔ گلی محلے اور نالی گٹر کی سطح پر کرپشن کرنے والے “عوام کے منتخب نمائندے” جو ایک باوردی جرنیل کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں، آپ کی بات ان پر سراسر بہتان ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
وہ کتاب یا کتب جن میں‌شرعی قوانین ترتیب سے لکھے ہوں درکار ہے۔
شرعی قوانین کا اولین ماخذ قرآن کریم اور دوسرا ماخذ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ کوئی شرعی قانون تلاش کرنا ہو تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان بنیادی مصادر کی طرف رجوع کیا جائے۔ آپ کا سوال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن کریم میں قتل کی سزا کس دفعہ کی کونسی شق کے تحت بیان کی گئی ہے۔ شاکر صاحب نے بہترین جواب دیا ہے اس بارے میں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
شریعت کے نفاذ کے بعد حکومت کی شکل کیا ہوگی اور اس کے قوانین کیا ہوں گے۔ اس کے ادارے کس طرح کام کریں گے۔ مالیاتی نظام کیا ہوگا، ٹیکس کون دے گا اور کتنا ہوگا؟ صحت عامہ اور تعلیم عامہ کا نظام کیا ہوگا؟
ان میں سے اکثر باتوں کی تفصیل کتب حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بیان کی گئی ہے۔ جو آپ کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں لہٰذا بات پھر احادیث کی حفاظت پر آ رکے گی اور اس موضوع پر ہماری تفصیلی ڈسکشن پہلے ہو چکی ہے۔ محمد وارث نے “اسلامی ریاست” کا حوالہ دیا ہے اس میں “اسلام کے دستوری قانون کے ماخذ” والا باب پڑھ لیں۔
ساڑھے سات سو صفحات کی اس تحقیقی کاوش (جسے محمد وارث نے خامہ فرسائی کا نام دیا) کے چند عنوانات پیش خدمت ہیں۔
اسلام کا فلسفہ سیاست
اسلامی ریاست کیوں؟
تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
اسلام کا سیاسی نظریہ
اسلامی ریاست کی نوعیت
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
قرآن کا فلسفہ سیاست
اسلامی تصور قومیت
اسلامی نظم مملکت، اصول اور نظام کار
اسلام کے دستوری قانون کے ماخذ
اسلامی ریاست کی بنیادیں
ریاست کے حدودِ عمل
ریاست کا مقصد وجود
اسلامی دستور کی بنیادیں
اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اجتہاد کا مقام
قانون سازی، شورٰی اور اجماع
نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلہ کا صحیح طریقہ
اسلامی ریاست کے چند پہلو
خلافت و حاکمیت
ذمیوں کے حقوق
اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرہ عمل
اسلام کے اصول حکمرانی
اسلام اور عدل اجتماعی
اسلامی انقلاب کی راہ
سابقہ تجربات کی بنیاد پر میں اپنے فاضل دوست سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ سنجیدگی سے اس کتاب کا مطالعہ کریں گے۔ لیکن جو احباب واقعی تحقیق کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کتاب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اس دوران ہم انتظار کرتے ہیں کہ سابقہ سوالات کو نئے روپ میں پیش کر کے وہ ایک نئے تھریڈ کا آغاز کب کرتے ہیں۔
 
جب قرآن اور سنت قانون کا مآخذ ‌ٹھہرے اور کوئی مزید کتاب قوانین کی موجود نہٰیں تو یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ملا 1430 سال میں بھی اسلامی حکومت کا کوئی متفقہ ڈھانچہ ترتیب نہیں دے سکے۔ تو پھر وہ اس نفاذِ شریعت کے نعرے کے پیچھے ہے کیا؟ ایک مبہم خیال کہ جب اقتدار مل جائے گا تو پھر توجہ دیں گے؟ تعلیم سے دوری۔ اسلام سے دوری، کسی بھی اصل سوچ سے عاری؟

دھماکے کرکے، معصوم جانوں‌ کو ضایع کرکے "نفاذ‌شریعت" کا دعوی کرنے والا یہ ہوس اقتدار سے پر ٹولہ اب تو بہت صاف پہچانا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ قانون ساز اسمبلیوں‌میں‌ منتخب ہو کر پہنچے ہیں، ان کو لوگ گٹر کا کوڑا سمجھتے ہیں اور جو لوگ پاکستان بھر میں دھماکے کرکے ، معصوم جانیں لے کر "نفاذ‌شریعت" کررہے ہیں، ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اور اگر میں دھماکہ کرنے والے اور فساد کرنے والے تخریب کاروں‌کی ہوس اقتدار پر تف بھیجتا ہوں تو جواب میں‌لعنتیں بھیجتے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ان کی شریعت مولوی اصل میں ہے کچھ اور اور نام لیا جاتا ہے رسول پاک کا۔

آج تک کوئی سورما اپنی تمام تر معلومات کے باوجود پاکستانی سیاسی نظام میں‌ ایک بھی تبدیلی تجویز نہیں کر سکا، لے دے کر منتخب نمائیندوں‌ک برایاں گنا کر اپنی تسکین کرلیتے ہیں۔

چلئے میری تنقید چھوڑئیے۔ بلکہ جانے دیجئے۔ آپ (سب) خالصتاَ اپنا بے لاگ ، نیک نیتی پر مبنی " اسلامی نظام "‌ یہاں ‌لکھئے یا نقل کیجئے، وہ مضمون کہ جس سے آپ متفق ہوں۔ مکمل نہ سہی، جو آپ کے علم میں ہے اس کے مطابق لکھئے۔ اگر ہم کسی مشترکہ نتیجے پر پہنچ گئے تو اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم ایک ایسے نظام کا ڈھانچہ تو ہوگا جس کے اصول قرآن اور سنت سے آئے ہوں۔ اور جن اصولوں پر قانوں سازی کی جاسکے۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ذاتی نوٹ، قسیم حیدر صاحب کے لئے:
آپ کئی بار لکھ چکے ہیں:‌ "یہ حدیثوں پر یقین نہیں رکھتے"
عرض‌یہ ہے کہ اس امر کو کسی اور دھاگہ کے لئے اٹھا رکھئے۔ میرے نظریات حدیث کے بارے میں کیا ہیں۔اس کا جواب، میرے الفاظ میں نہیں بلکہ مودودی کے الفاظ‌ میں حاضر ہے۔
جناب مودودی کے الفاظ جو قابل قدر ہیں اور جن سے میں اتفاق کرتا ہوں، امید ہے کہ آپ پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کتب روایات کا فرق واضح ہوجائے گا :
کچھ دوسرے عناصر ہیں جو دین و دنیا کی تقسیم کا نظریہ اختیار کرچکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص تصورات کے مطابق جس چیز کو دین سمجھ بیٹھا ہے صرف اسی کے دائرے تک قرآن کی ہدایت کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ اور عناصر ہیں جو قرآن کی ہدایت کو جامع اور ہمہ گیر مانتے ہیں، مگر جب اس سے استفادے کا سوال سامنے آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے لیے رہنمائی کا اصل ماخذ و منبع قرآن سے باہر کسی اور جگہ ہے جہاں سے نظریات و تصورات لاکر وہ قرآن سے ان کی تصدیق و توثیق کرانے کے لیے زور لگارہا ہے۔ اور کسی کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کا تعلق نہ صرف سنت سے کاٹ کر، بلکہ پچھلی چودہ صدیوں میں امت کے علماء و فقہاء اور مفسرین نے قرآن کی تشریح اور تعلیماتِ قرآن سے اخذ و استنباط کا جو کچھ کام کیا ہے اس سب سے بے نیاز ہوکر، اس کا اپنا ذہن الفاظِ قرآن سے جو مفہوم اخذ کرتا ہے صرف اس سے ہدایت حاصل کرے۔
ہم نے کبھی اس خیال کی تائید نہیں کی کہ ہر شخص کو ائمہ حدیث کی اندھی تقلید کرنی چاہیے یا ان کو غلطی سے مبرا سمجھنا چاہیے۔ نہ کبھی ہم نے یہ دعویٰ کیا کہ ہر کتاب میں جوروایت قال رسول اللہ سے شروع ہو اس کو آنکھ بند کرکے رسول اللہ کی حدیث مان لیا جائے۔ برعکس اس کے ہمارے نزدیک کسی حدیث کو حدیثِ رسول قرار دینے کی ذمہ داری ایک گراں بار ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے کی جرات کافی تحقیق کے بغیر ہر گز نہ کرنی چاہیے۔

اب دوسرے گروہ کو لیجیے جو دوسری انتہا کی طرف چلا گیا ہے۔ یہ لوگ محدثین کے اتباع میں جائز حد سے بہت زیادہ تشدد اختیار کرتے ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ محدثین کرام نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی نگاہ میں احادیث کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیار ہے ، ٹھیک اسی معیار کی ہم بھی پابندی کریں۔ مثلا مشہور کو شاذ پر، مرفوع کو مرسل پر، مسلسل کو منقطع پر لازما ترجیح دیں اور ان کی کھینچی ہوئی حد سے یک سرِ مُو تجاوز نہ کریں۔ یہی وہ مسلک ہے جس کی شدت نے بہت سے کم علم لوگوں کو حدیث کی کلی مخالفت یعنی دوسری انتہا کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس بحث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جس طرح حدیث کو بالکلیہ رد کردینے والے غلطی پر ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی سے محفوظ نہیں ہیں جنہوں نے حدیث سے استفادہ کرنے میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرلیا ہے۔ مسلکِ حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہ وہی مسلک ہے جو ائمہ مجتہدین نے اختیار کیا ہے۔

جب ہر روایت بلحاظِ متن اور بلحاظِ اسناد دوسری روایت سے مختلف ہے تو ہر روایت کے متعلق جدا جدا تحقیق کرکے رائے قائم کرنی چاہیے کہ وہ قبول کرنے کے لائق ہے یا رد کردینے کے لائق۔ سب کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے لیکر پورے مجموعے کے متعلق ایک ہی رائے قائم کرلینا کسی معقول انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ لوگ احادیث پر فردا فردا نگاہ ڈالیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک قلیل تعداد ایسی حدیثوں کی ہے جنہیں دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حدیثیں رسول اللہ کی نہیں ہوسکتیں، وہاں ایک کثیر تعداد ایسی حدیثوں کی بھی ہے جو حکمت کے جواہر سے لبریز ہیں، جن میں قانون اور اخلاق کے بہترین اصول پائے جاتے ہیں، جو اسلام کی حقیقت اور اس کے مصالح و حکم پر بہترین روشنی ڈالتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک رسول ہی کی حدیثیں ہوسکتی ہیں۔

والسلام
 

خاور بلال

محفلین
ویسے یہ مودودی صاحب جس "اسلامی دور" کا ذکر فرما رہے ہیں اس دور میں اسلامی کام کونسا ہوا تھا؟ میرا مطلب ایسے اسلامی کام سے ہے جیسا وہ خود یا آج کا مُلا چاہتا ہے۔

"اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا"
یہ ہیں سید مودودی رح کے وہ الفاظ جن پر آپ نے تبصرہ فرمایا ہے۔ آپ کی فیروز الغات میں "اسلامی تہذیب کا سیاسی اقتدار" کے کیا معنی ہیں؟


باقی رہ گئی بات مودودی صاحب کی تو وہ تو تمام عمر شورٰی کا کردار ہی متعین نہ کرپائے اپنی جماعت کے اندر اور یہ کہ امیر کس حد تک آزاد اور کس حد تک پابند ہوگا اس کی رائے کا باقی باتیں تو بعد کی ہیں۔

خرم صاحب! منجن بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اپنے منجن کی خاطر دوسروں پر بے بنیاد باتیں کسنا اچھی بات نہیں۔ کیا آپ اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتانا پسند کریں گے؟ ہمیں مزے مزے کی کہانیاں بہت اچھی لگتی ہیں خاص طور سے اگر وہ جھوٹی بھی ہوں، اور مزہ دوبالا ہوجاتا ہے اگر اس کے ٹائٹل پر لکھا ہو "سچی کہانیاں"۔

میں ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر جارہا ہوں۔ امید ہے واپسی پر مزید "سچی کہانیاں" پڑھنے کو ملیں گی۔

اللہ حافظ
 

فرید احمد

محفلین
فاروق سرور خاں
قرآن کے اجتماعی نظام پر ملاوں کی خامہ فرسائیاں ؟ ( جو حقیقۃ ملاوں کی تو نہیں ، بلکہ رازی غزالی ، تیمیہ ، ابن رشد وغیرہ کی کاوشیں ہیں ) آپ کے نزدیک ملائی اسلام ہے ، قرآن کا حقیقی نہیں ، تو جناب جن خاکوں اور دھانچوں کو آپ ملاوں کی کتابوں میں مانگ رہے ہیں ، اور آپ کی فہم کے مطابق نہیں ( حالاں کہ ہے ، اور میں نے غزالی، ابن رشد ، تیمیہ ، رازی وغیرہ کی سیاست مدنیہ کی بحثوں کا حوالہ پہل دیا تھا) تو جناب ایک موضوع کے متعلق دفعہ وار خاکہ آپ ذکر کر دیں ، قرآن کے مطابق ، ۔۔۔۔۔۔۔ مدلل کوشش کر دیکھیں ۔
فقط ایک دفعہ آپ نے ذکر کی ، حکومت کے متعلق ، کہ خلیفہ جمہوریت سے ہو ، اور جمہوریت ہی قرآنی شوری ہے، ۔۔۔تو آپ نے دیکھا کہ آپ سے اس کا ثبوت مانگا گیا اور آپ کنی کاٹ گئے ،
 
( جو حقیقۃ ملاوں کی تو نہیں ، بلکہ رازی غزالی ، تیمیہ ، ابن رشد وغیرہ کی کاوشیں ہیں )
اس مد میں‌کم از کم ایک ریفرنس فراہم کردیجئے جو ان معروف مصنفین نے "نفاذ شریعت کے لئے بم دھماکوں‌، اور معصوم کے قتل کی ضرورت"‌ پر لکھا ہو۔
جناب، میں کیا کہوں۔ جو لوگ اس دھماکوں سے پُر "نفاذ شریعت " کے لئے برسر پیکار ہیں‌، اپنے آپ کو ملا کہتے ہیں۔ ان کے ' نمبر دو اسلام' کی جو حمایت کرتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ شامل ہیں۔ جمہوریت قرانی شوریٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے اورخلفائے راشدین نے اس روش پر عمل جاری رکھا۔ نامزد ہوئے، لوگوں نے ووٹ دیا یعنی بیعت کی۔ جمہوریت کے بالعکس ملوکیت یا بادشاہت ہے، درمیان کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ اس پر ایک مفصل مضمون میرے دستخط میں موجود ہے۔ آپ کو موقع ملے تو دیکھ لیجئے۔ کوشش یہ کی ہے کہ پڑھنے والے کو ایک اچھا ریفرنس فراہم ہو جائے۔ اس مضمون میں اسلامی معاشرے میں قانون سازی، عدلیہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جماعت یعنی قانون ساز ادارے اور انتظامیہ کے بارے میں کافی کچھ لکھا ہے۔ آپ کو موقع ملے تو پڑھ لیجئے۔

اگر آپ کا کسی سوال کے بارے میں تشنگی رہی تو اشارہ فرمادیں، جواب دے کر خوشی ہوگی۔

جن لوگوں نے پاکستان کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے کی بنیاد رکھی ہے وہ نا تو ان پڑھ تھے اور نا ہی جاہل۔ جسٹس تنزیل الحمٰن کی کتاب "‌کلیہ شریعت" دیکھئے۔ اسلامی قوانین کے بارے میں مزید چار جلدیں دیکھئے۔ پاکستانی آئین، قوانین، انتاظمی و سیاسی ڈھانچہ بہت سمجھ دار ماہرین کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ ایک لمبی لسٹ ہے میرے پاس ایسی کتب کی اور ایسے اشخاص‌کی۔ ان تمام معاملات میں سابقہ کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے کیا تجویز ہے کسی کے پاس۔ قوانیں کو بہتر بنانے کی کیا تجویز ہے۔ اس سیاسی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کے لئے کیا تجویز ہے۔ تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کے مسائیل ہیں اور وہ معاشی ہیں۔ معیشیت یقیناَ 1947 سے 1957 سے اور 1967 سے بہتر ہے۔ مزید سنورنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا، پاکستانی اپنے آپ پر مسلسل تنقید کرتا ہے اور اسی تنقید سے اپنے آپ کو سنوارتا ہے۔ بموں کے دھماکے کرکے "نفاذ شریعت"‌ نہیں کرتا۔

ہندوستانی "ملاؤں" نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ میزان فراہم کیا کہ اگر پاکستان میں اس ملائی نظام کا وجود نہیں ہے جو مغلیہ دور میں تھا تو یہ اسلامی نظام نہیں ہے۔ مان لیجئے کہ "شریعتِ مولوی" ہر طور "شریعت محمدی"‌ سے مختلف ہے۔ بیشتر مسلمان اس ہوس اقتدار کو خوب سمجھتے ہیں، اسی لئے پاکستان کے سیاسی نظام کو پسند کرتے ہوئے انتخابات کے انتظار میں رہتے ہیں۔

والسلام،
 

خرم

محفلین
خرم صاحب! منجن بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اپنے منجن کی خاطر دوسروں پر بے بنیاد باتیں کسنا اچھی بات نہیں۔ کیا آپ اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتانا پسند کریں گے؟ ہمیں مزے مزے کی کہانیاں بہت اچھی لگتی ہیں خاص طور سے اگر وہ جھوٹی بھی ہوں، اور مزہ دوبالا ہوجاتا ہے اگر اس کے ٹائٹل پر لکھا ہو "سچی کہانیاں"۔

میں ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر جارہا ہوں۔ امید ہے واپسی پر مزید "سچی کہانیاں" پڑھنے کو ملیں گی۔
نہ بھائی نہ۔ مجھے تو آپ معاف ہی رکھئے۔ ہاں یہیں کسی دھاگے پر آپ کو سید مودودی کی تحریروں سے وہ اقتباسات بھی مل جائیں گے جن میں وہ ایک طرف تو امیر کو شورٰی کے فیصلوں کا پابند کرنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف امیر کو شورٰی کےمشورہ سے آزاد کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے سوا گزشتہ چند دنوں سے محترم ارشاد احمد حقانی کی کافی کالم بھی آئے جماعت کی تاریخ پر۔ ان سے بھی استفادہ اچھا ہوگا۔ اس کے سوا میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جماعت والوں کی صحبت کا کافی تجربہ ہے اور ہمیں دین و جاں دونوں‌عزیز ہیں۔ ویسے کبھی جی چاہے تو پتہ چلائیے گا کہ مودودی صاحب کی جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کس نے کی تھی؟

قسیم بھائی،
آپ کی باتیں سر آنکھوں‌پر لیکن آپ یہ تو مانیں گے نا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ ایک شخص کی اپنی ذاتی رائے اور فہم کے مطابق ایک نظام کا خاکہ ہے۔ یعنی ایک Derived نظام ہے ایک ایسا نظام نہیں ہے جس کا حکم قرآن یا احادیث یا اصحاب کے عمل سے ثابت ہو یا جس کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہو گزشتہ تاریخ میں۔ یہاں میں لفظ "حکم" پر توجہ دلانا چاہوں‌گا۔ جو مودودی صاحب نے لکھا وہ ان کے نزدیک وقت کی ضرورت تھی اور انہوں نے اپنی فہم کے مطابق اس پر قلم اٹھایا۔ اس سے اس چیز کا فرض ہوجانا یا واجب ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو انہوں نے لکھا وہ عین اسلامی ہو گیا۔ ان سے اختلاف کرنے کا حق ہر مسلمان کو ہے اور اکثریت اس حق کو استعمال بھی کرتی ہے۔ ایک شخصی رائے کو پورے اسلام پر منطبق کرنا میرے نزدیک تو کافی نامناسب بات ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
فاروق صاحب ، ملا ہندستانی ہو یا پاکستانی سب برابر !‌
اور یہی حال مسٹر کا ہے ۔
ایک قرآن و سنت کا نام لیتا ہے اور
دوسرا اس کی فقط مخالفت کرتا ہے ، اتنی سکت بھی نہیں رکھتا کہ مخالفت کے لیے ہی سہی قران و سنت کا نام لے یعنی قرآن و سنت سے مدلل رد کرے ۔

یہ ذہن نشین کر لیں کہ میری تحریروں کامقصد پاکستان میں چل قبائلی جھگڑوں سے نہیں ، جہاں ایک مذہب کا نام لیتا ہے تو دوسرا اقتدار کا ۔
اگر آپ کا ان پاکستانی ملاوں کی وجہ سے عالم اسلام کے اکثر علماء کو مطعون قرار دیتے ہو تو میں کہوں گا کہ حکومت پاکستان کے کرتوت کی بنیاد پر یا جمہوریت کے علمبردار امریکہ کے کرتوت کی بنیاد پر تمام جدید تعلیم یافتہ حضرات مطعون ہیں ۔

رہی بات بم گرانے یا دوسرے امور کی ؟

آپ پاکستان ہی کے ملاوں میں ریفرنس کرا لیں آپ کو جواب ملے گا کہ صحیح نہیں ۔

اور دلیل روز روشن کی طرح سامنے آ چکی ہے مگر کور چشم لوگ دیکھتے نہیں ۔

لال مسجد کے معاملہ میں غازی کے شدت پسندانہ اور مسلح موقف کی کسی ایک مدرسہ نے بھی تائید نہیں کی ، حتی کہ وفاق المدارس کی جانب سے اس کے مدرسہ کی رکنیت ختم کر دی گئی ۔ اس کی طرف سے تمام مدارس کو ، علماء‌ کو لڑنے کے خطوط اور دعوتیں دی گئی تھیں‌، مگر پورے پاکستان کے مدراس نے بیک زبان اس کی مخالفت کی ۔
معاملہ کو سلجھانے اور ہو چکنے کے بعد کے واقعات میں مجلس عمل یا دیگر حضرات کی کارکردگی سے علماء کے اس موقف میں کوئی فرق نہیں پڑا کہ غازی کا اسلحہ اٹھانا غلط تھا ۔
 

فرید احمد

محفلین
خرم لکھتے ہیں :
آپ کی باتیں سر آنکھوں‌پر لیکن آپ یہ تو مانیں گے نا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ ایک شخص کی اپنی ذاتی رائے اور فہم کے مطابق ایک نظام کا خاکہ ہے۔ یعنی ایک Derived نظام ہے ایک ایسا نظام نہیں ہے جس کا حکم قرآن یا احادیث یا اصحاب کے عمل سے ثابت ہو یا جس کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہو گزشتہ تاریخ میں۔

اس اعتبار سے تو چونکہ دفعہ وار نظام ، خاکہ ، اور دھانچہ قرآن ہی میں نہیں ، فقط چند رہ نما اصول ہیں‌، لہذا جو کئی لکھے گا وہ اپنے دماغ سے لکھے گا ۔ تو پھر خدا کا اصلی نظام اور حکم کیسے دنیا میں آئے گا ؟

میں پہلے کہ چکا ہوں کہ پماری تحریریں اس نتیجہ پر پہنچ رہی ہیں کہ " خدا نے ہمیں ایسا دین دیا جس میں مکمل رہ نمائی نہیں‌ ، ہمیں ہونے کا دعوی ہے مگر پیش نہیں کر سکتے ، بلکہ 1400 سال میں فقط 50 سال مشکل سے یہ نظام چلا ، اور بس ۔ ۔ ۔ اور اب نظام تو کیا ، اس کا خاکہ ، دھانچہ اور فہم بھی کہیں نہیں ، 1400 سالوں میں کوئی دانشور بھی خدا نے ایسا پیدا نہیں کیا جو اس کے دین اور نظام کا خاکہ لکھ جاتا ! ! !‌
ذرا ان اعتراضوں کا حل سوچیں تو شاید آپ کو اپنی ذہنی الجھنوں کا جواب مل جائے ۔
 

فرید احمد

محفلین
فاروق صاحب !
جسٹس تنزیل الحمٰن کی کتاب "‌کلیہ شریعت" دیکھئے۔ اسلامی قوانین کے بارے میں مزید چار جلدیں دیکھئے۔

داکٹر تنزیل الرحمن کی کتاب دیکھی پڑھی ہے ،

مگر آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ نے پڑھی ہے ؟

اگر جواب ہاں میں ہے تو اس میں تو وہ بہت سے باتیں ہیں جو ملاوں کی شریعت والی ہیں !

اگر معلوم نہ ہو تو یہاں کچھ نمونے پیش کروں گا ۔
 

خرم

محفلین
خرم لکھتے ہیں :


اس اعتبار سے تو چونکہ دفعہ وار نظام ، خاکہ ، اور دھانچہ قرآن ہی میں نہیں ، فقط چند رہ نما اصول ہیں‌، لہذا جو کئی لکھے گا وہ اپنے دماغ سے لکھے گا ۔ تو پھر خدا کا اصلی نظام اور حکم کیسے دنیا میں آئے گا ؟

میں پہلے کہ چکا ہوں کہ پماری تحریریں اس نتیجہ پر پہنچ رہی ہیں کہ " خدا نے ہمیں ایسا دین دیا جس میں مکمل رہ نمائی نہیں‌ ، ہمیں ہونے کا دعوی ہے مگر پیش نہیں کر سکتے ، بلکہ 1400 سال میں فقط 50 سال مشکل سے یہ نظام چلا ، اور بس ۔ ۔ ۔ اور اب نظام تو کیا ، اس کا خاکہ ، دھانچہ اور فہم بھی کہیں نہیں ، 1400 سالوں میں کوئی دانشور بھی خدا نے ایسا پیدا نہیں کیا جو اس کے دین اور نظام کا خاکہ لکھ جاتا ! ! !‌
ذرا ان اعتراضوں کا حل سوچیں تو شاید آپ کو اپنی ذہنی الجھنوں کا جواب مل جائے ۔
جی نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ اصل بات جو بیان کرنا چاہ رہا ہوں وہ وہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی کہ اسلام میں حکومت سازی کے چند رہنما اصول ہی ہیں۔ باقی سب کے لئے امت کو آزادی دی گئی ہے کہ ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے جو اصول عوام کی سہولت اور کاروبارِ زندگی و حکومت چلانے کے لئے بنانا چاہو وہ بنا لو۔ لہٰذا ہر طرزِ حکمرانی جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ عدل کرتا ہو اور انہیں انکی ضروریات فراہم کرتا ہو اسلامی کہلائے گا۔ اب اگر زید نے اپنی سمجھ کے مطابق ایک اصول وضع کیا اور بکر نے دوسرا اور دونوں‌ہی اسلام کی حدود کے اندر لیکن اپنے قوانین میں مختلف ہیں تو دونوں ہی اسلامی کہلائیں گے۔ شرعی نظام سے عمومی مراد ایسا نظام لیا جاتا ہے جس سے سرِمُو انحراف کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ یہ اصطلاح اور طریق دونوں ہی اسلام کے خلاف ہیں۔ دیکھئے اسلام نے تو قرآن کو ایک تلاوت پر متفق کرنے کا بھی کوئی حکم نہیں دیا لیکن ایسا ہوا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے کام ہیں جن کے لئے اللہ نے اپنی رحمت سے نبی پاک صلعم کے صدقے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی امت کو آسانی عطا فرمائی ہے۔ بدقسمتی سے اب امت پھر گائے کے رنگ، اس کی عمر اور اس کی کیفیت جاننے کے چکر میں پڑ رہی ہے۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو یہ طریق انتہائی ناپسند تھا اور اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ دین بہت سیدھا سا ہے، اسے سیدھا ہی رہنے دیا جائے۔ یہ نت نئے طریق اور اصطلاحیں دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہیں اُلٹا اس کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔ اللہ نے تو صاف فرما دیا کہ جو تمہیں یہ رسول صل اللہ علیہ وسلم دیں اسے پکڑ‌ لو اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُک جاؤ۔ اب جن چیزوں سے منع نہیں فرمایا گیا ان کی فکر میں کیوں گھُلیں اور امت پر سختیاں کریں؟ پہلے بھی عرض کیا کہ حدیث نبوی ہے کہ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جس کے سوال کی وجہ سے امت پر سختی والا حکم آیا۔ اب جو سختی امت پر اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی اس پر ہم آپ کیوں مصر ہوں؟ غالباً حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حیاتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ لاڈ نہیں کرتے تھے کہ مبادا کہیں اس کے خلاف کوئی حکم آجائے اور وصال مبارک کے بعد ہم نے اپنی بیویوں سے جی بھر کے لاڈ پیار کرنا شروع کردیا۔ تو بھائی امت پر رحم کرنا چاہئے۔ دین کو آسان بنانا چاہئے سخت نہیں اور جن معاملات میں دین نے آزادی دی ہے ان سے جی بھر کے لطف اندوز ہوں کہ دین تو کب کا مکمل ہو چُکا۔
 
بہت شکریہ خرم۔

دیکھا جائے تو ہر قوم یا ملک کا کوئی دستور ہے۔ یہ دستور ہی اس قوم کو بنیادی اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ بنیادی اصول ہی اس قوم کا آئین ہوتا ہے اور اسی دستور یا آئین (‌قانون نہیں) کی پابندی وہ ہر قانون بنانے کے وقت کرتے ہیں۔ اگر بنیادی اصولوں یعنی اس قوم کے دستور یعنی اس قوم کے آئین میں کوئی تبدیلی لانی ہو تو بہت بڑے پیمانے پر مشاورت یا بحث کی جاتی ہے۔

اگر میں کہوں‌کہ مسلمان قوم کو بنیادی دستور، یعنی قانون بنانے کے اصول یعنی بنیادی آئین قرآن فراہم کرتا ہے تو درست ہوگا یا غلط ہوگا؟

صاحبو نہ صرف میں ---- ان فاضل ججوں، ممبران قومی اسمبلی اور ان کمیٹیوں کی رائے سے متفق ہوں کے قرآن ایک بہترین آئین فراہم کرتا ، جس کا جز جز پاکستان کے آئین ( قانون نہیں )‌میں موجود ہے -- بلکہ -- میرا اپنا بھی یقین کامل ہے کہ قرآن میں ایک بہترین آئین موجود ہے۔ یہ آئین، یہ دستور، یہ اصول، کوئی نام دے لیجئے۔ ہمارے (یعنی پاکستان کے ) آئین میں‌واضح طور پر موجود ہیں اور تمام قانون سازی اس آئین کی روشنی میں ہی ہوتی ہے۔

پاکستان کی عدلیہ قرآن کے کس اصول پر قائم ہوئی؟ پاکستان کی مقنننہ قرآن کے کسی اصول کے مطابق قائم ہوئی؟ پاکستان کی انتظامیہ قرآن کے کس حکم کے مطابق قائم ہوئی اور اس کے لئے پاکستان کے کتنے عالموں نے مشورے فراہم کئے اور اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ 1973 کی آئین ساز اسمبلی کی مکمل پروسیڈنگز موجود ہیں۔ اس آئین میں ہونے والی تبدیلیاں موجود ہیں۔

اب آئیے ان کے اطلاق پر تو یہاں بہت بڑا سقم پایا جاتا ہے۔وہ اس لئے کہ عام آدمی کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ امن و امان کے لئے جو انسان یعنی پولیس مین ذمہ دار ہے ، اس کی علمی اور ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوگا۔ قوم کی تعلیم میں وقت لگے گا۔ یہی حال ہر شعبے کا ہے۔

پاکستان کا آئین کی کونسی شق خلاف قرآن ہے کوئی صاحب اس پر روشنی ڈالیں۔

پھر لفظ مسلم کا مصدر لیجئے یا مومن کا ایک سلامتی ہے اور دوسرا امن ----- تو صاحب یہ سلامتی اور امن کے علمبردار ملا کراچی سے خیبر تک دھماکوں میں کیوں مصروف ہیں۔ آج کراچی سے خیبر تک ہر مسجد کا ملا اپنے سواتی ملا بھائی کے ساتھ چیخ‌ رہا ہے کہ تباہ کردو اس فوج کو اور قتل کردو معصوم انسانوں کو۔ جی ؟ ؟ ‌؟ کیا کہا ؟ ؟‌ ؟

یہ وہی ملا ہیں جو زمانے سے جہاد جہاد کی رٹ لگارہے تھے۔ تو آج یہ اپنے حلیفوں کے ساتھ جاکر سواتی ملاؤں سے کیوں‌نہیں لڑتے جو ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں ، کیوں‌ ہر مسجد کا ملا ان سواتی غنڈوں کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے ؟

اب یہ بہت واضح ہو تا جارہا ہے کہ "شریعت مولوی" کچھ اور ہے اور "شریعت نبوی " کچھ اور۔

والسلام
 

باسم

محفلین
اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں کچھ ایسے اصولی اور بنیادی احکام دے دیے ہیں جن کی روشنی میں اس شعبے کی تمام جزئیات کو متعین کیا جاسکتا ہے، دستور حکومت کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اسلام نے اس سے متعلق ہمیں کچھ بنیادی ہدایات عطا فرمائی ہیں ان بنیادی ہدایات میں ردوبدل کا تو کسی انسان کو اختیار نہیں ہے، پوری قوم متفق ہوکر بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی بات منظور کرنا چاہے تو نہیں کرسکتی۔
لیکن ان ہدایات کی پابندی کرنے کے بعد دوسرے جزوی معاملات کو امت مسلمہ کے اجتماعی مشورے پر چھوڑ دیا گیا ہے ان میں امت مشورہ سے جو طے کرلے اسلام اس میں حارج نہیں ہوتا۔
یہ بنیادی مسائل مندرجہ ذیل ہیں:۔
ان الحکم الا للہ
(۱)حاکمیت اعلٰی صرف اللہ کو حاصل ہے
اسلامی دستور کی یہ وہ دفعہ ہے جو سے لادینی جمہوریتوں سے ممتاز کرتی ہے، لادینی جمہوریتوں میں اقتدار اور حاکمیت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا جاتا ہے، لہذا اگر عوام کثرت رائے سے کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہیں جواللہ کے احکام کے خلاف ہو تو وہ ایسا کرسکتے ہیں لیکن اسلام میں حاکمیت کا اصل حق اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں انسان کو حکومت کا اختیار اس کی خلافت کے طور پر ملتا ہے
انی جاعل فی الارض خلیفۃ(۲:۳۱)
اس لیے انسانوں کو اللہ کے حکم کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
(۲)قران و سنت کے خلاف کوئی قانون نہ منظور کیا جائے گا اور نہ باقی رہ سکے گا اور نہ قران و سنت کے خلاف کوئی انتظامی حکم دیا جاسکے گا۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکفرون(۵:۴۴)
(۳)حکومت کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ وہ عدل و انصاف قائم کرے۔ داخلی خارجی فتنہ و فساد کو رفع کرے لوگوں کو نیکیوں پر آمادہ کرےاور برائیوں سے روکے
(۴)مملکت کے تمام عہدے اور اموال حکام کے ہاتھ میں امانت ہیں اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مستحق تک پہنچائے
(۵)طرز حکومت آمرانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگا اور تمام اہم امور باشندوں کے مشورے سے انجام پائیں گے
(۶)اتحاد قومیت کی بنیاد ہوگی اور مملکت کیلیے لازم ہوگا کہ وہ مسلمانوں سے جغرافیائی، قبائلی، نسلی اور دیگر غیر اسلامی تعصبات کو دور کرے اور ملت اسلامیہ کی وحدت اور استحکام کیلیے کوشاں ہو اور تمام مسلمان باشندوں کے درمیان معاشرتی مساوات قائم کرے
(۷)مملکت کے سربراہ کا مسلمان راست باز اور علمی عملی صلاحیتوں سے متصف ہونا ضروری ہے
(۸)تمام باشندوں کیلیےان کی بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی جائے گی جس میں جان مال آبرو مذہب کا تحفظ نیک مقاصد کیلیے جماعت بندی اور صحت مند تنقید کی آٓزادی شامل ہے
(۹)کسی شخص کو جرم کا ثبوت مہیا کیے بغیر کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی
(۱۰)عدلیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلیے ہر دباؤ سے آٓزاد ہوگی اور
سوائے قانون شریعت کے کسی کی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔

مزید ۹ نکات اور مندرجہ بالا نکات کے متعلق قرانی آیات کے حوالوں کیلیے
نفاذ شریعت اور اس کے مسائل از جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی مد ظلہ۱۳۵ صفحہ کی اس کتاب میں پاکستان کے آٓئین کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے متعلق عمدہ بحث کی گئی ہے
 

باسم

محفلین
فاروق سرور صاحب
73 کے آئین کی دفعہ 227 جو حصہ نہم میں "اسلامی احکام" کے زیر عنوان لکھی گئی ہے کے الفاظ یہ ہیں
"تمام موجودہ قوانین کو ان اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جو قران و سنت میں مذکور ہیں اور جنہیں مابعد کی عبارتوں میں "اسلامی احکام" کہا گیا ہے اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو ان احکام کے منافی ہو"۔
تو کیا آپ آئین میں موجود قران و سنت کے الفاظ میں سے صرف قران کے لفظ کو باقی رکھ کر سنت کے لفظ کو حذف کروانا چاہتے ہیں؟
 
باسم بہت اچھے نکات آپ نے پیش کئے ہیں۔ آپ کا بہت ہی شکریہ۔ ان تمام اصولوں کی جو آپ نے بیان فرمائے ہیں ۔ میں انشاء اللہ تعالی آج آیات کے ریفرنس فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔

جب میں نے اس تھریڈ‌کی ابتدا کی تو اور ابتدا میں یہ سوال پوچھا تو کسی ایک شخص نے بھی قرآن و سنت کے ترجمان آئین پاکستان کی طرف اشارہ نہٰیں کیا۔ کیا ایسا ہے کہ لوگ جانتے نہیں اور اگر جانتے ہیں تو یہ کس نفاذ شریعت کی بات کر رہے ہیں؟ بلکہ بات کہاں ، یہاں تو توپ گولہ بارود سے شریعت نافذ ہو رہی ہے۔

آپ نے جس سہو کی طرف اشارہ کیا ہے اسکی تصحیح کردیتا ہوں۔ درست بات وہ ہے جو آپ نے کہی ہے کہ قوانین جو کہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں سے برآمد ہونگے، قرآن اور سنت کے مطابق ہونگے۔ میرے ذہن میں قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں، لہذا آپ میرے پیغامات میں صرف قرآن اور قرآن اور سنت دونوں الفاظ پائیں گے۔ اسی دھاگے میں قرآن اور سنت کے الفاظ پہلے بھی استعمال کئے ہیں۔ اور کئی بار اس ضمن میں اپنا مافی الضمیر ادا کرچکا ہوں، روایتی قرآن اور حدیث کی بحث یہاں بے کار ہے اس لئے کہ ایک مسلمان سے یہ پوچھنا کہ وہ رسول اللہ کے فرمان اور ان کی سنت پر یقین رکھتا ہے؟ ایک بے معنی سوال ہے۔ جو سنت رسول کا قائل نہیں اس کو دعوی مسلمانی بھی نہیں کرنا چاہئیے۔ تو عرض‌یہ ہے کہ الفاظ نہ پکڑئے۔ اور مہربانئ فرما کر شروع کے پیغامات پڑھ لیجئے۔

دوبارہ آئین سے الفاظ نقل کردیتا ہوں، جن سے میں‌مکمل اتفاق کرتا ہوں بحیثیت ایک ووٹر یا شہری۔ اس سۃو کی طرف اشارہ فرمانے کا شکریہ۔

"تمام موجودہ قوانین کو ان اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جو قران و سنت میں مذکور ہیں اور جنہیں مابعد کی عبارتوں میں "اسلامی احکام" کہا گیا ہے اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو ان احکام کے منافی ہو"۔

لیکن اتنی دور کیوں‌جائیں آپ اس آئین میں، مزید یہ کہ اس آئین کے ابتدائیے کا پہلا جملہ دیکھئے:
Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;​

اور پانچواں جملہ دیکھئے۔
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;​

کوئی صاحب ان دو جملوں کے تراجم فراہم کردیں۔

جس آئین اور قوانین کے پیچھے جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی مد ظلہ، جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن اور مزید ایسے ہی لوگ شامل ہوں، ایک منتخب اسمبلی کے دستخطوں سے منظور ہوا ہو، جس کے پیچھے ساری پاکستانی قوم ہو، اس کو کوئی ایک غیر منتخب شخص بیک قلم کس طرح باطل قرار دیتا ہے؟‌ اور کہتا ہے کہ اسے اٹھا کر ایک طرف رکھو اور شریعت نافذ کرو؟ تو صاحب وہ کونسی شریعت ہے، جو سامنے نہیں آتی؟ اور مسلسل سرحد پار (ہندوستان) سے تنقید کا شکار ہے؟ یہاں ‌زیادہ تر پاکستان پر تنقید کرنے والے ہندوستانی ہیں۔ اور آج بھی اسی نظام پر یقین رکھتے ہیں جو ان کی جنت گم گشتہ ہے۔

جب بھی پاکستان میں جمہوریت کی بات ہوتی ہے، کچھ لوگ اس اسلامی جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے مخالف ملاؤں کی حمایت۔ جبک پاکستان کا ہر قانون - پاکستان کے آئین کے مطابق ہوگا اور یہ آئین ضمانت دیتا ہے کہ اس کے تحت بننے والا ہر قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا۔ تو مزید کیا تبدیلی لائے جائے؟ کونسا قانون غیر مناسب قانون ہے یا قرآن اور سنت کے مظابق نہیں ہے؟ اگر کوئی ایسا قانون ہے جس کے اضافے یا ترمیم کی ضرورت ہے تو اپنے نمائندے کو لکھیں۔ کچھ نہ کچھ بہتر ہوگا۔ اس آئین، اس قانون کو آج پاکسان کے سولہ کروڑ عوام کی حمائت حاصل ہے اور اس پر پاکستان کے ہر شہری نے مجموعی طور پر اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے دستخط کئے ہیں اور عرصہ 24 سال سے یہ آئین ہمارا رہنما ہے۔ اسلامی قانون سازی کی ایک پریکٹیکل مثال ہے اور اس عرصے میں ہونے والی ترقی کے پیچھے یہ ایک بنیادی اصول کا کام دیتا ہے ، مشعل راہ ہے۔ یہ ہے نمایاں فرق شریعت نبوی اور شریعت مولوی کا۔

تعلیم بتدریج بھیلے گی اور تبدیلی بتدریج آئے گی، جو لوگ ایک رات میں اس معجزے کی توقع رکھتے ہیں وہ یہ تجربہ حیدرآباد ہندوستان میں کیوں‌نہیں کرتے؟

والسلام
 

باسم

محفلین
بہت اچھا کیا وضاحت کردی
اور شاید یہ ملا بھی ویسی ہی شریعت چاہتا ہے جیسی میں اور آپ چاہتے ہیں۔
ملاحظہ ہو
ummat_news-03112007-21.gif

روزنامہ امت کراچی
لیکن ہم پر کچھ ایسے منافقین مسلط ہیں جو یہ نہیں چاہتے اور ایسے ہر مطالبے کو طاقت سے کچل دیتے ہیں جس سے فساد پھیلتا ہے
 
اگر یہ لوگ شریعت محمدی چاہتے ہیں تو اس خبر میں دئے گئے طریقے درست نہیں بھائی۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ یہ لوگ اتفاق رائے سے اسمبلیوں میں جائیں ۔ زبردستی سے کوئی بھی کچھ قابل قبول نہیں۔ شریعت لائیے، قابل قبول طریقے سے لائیے۔ تاکہ ایک اتفاق رائے ہو کہ سب لوگوں نے مشترکہ دستخطوں اپنے نمائیندے اسمبلی میں بھیجے ہیں اور بھر ان نمائیندوں نےیہ طریقہ کار منظور کیا ہے۔ زبردستی کا قانون کوئی بھی ہو، اچھا یا برا۔ کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔ آپ بھی قبول نہیں‌ کریں گے۔ لہذا باہمی مشاورت سے فیصلہ ضروری ہے۔ بغاوت، سرکاری عمارتوں پر قبضہ دراصل قوم کے خلاف بغاوت ہے۔ اور سرکاری عمارتیں بھی عوام کے پیسے سے بنی ہیں۔ لہذا عوام کے نمائیندوں‌کا فیصلہ ضروری ہے۔
 

خرم

محفلین
تاکہ پھر کوئی مشرف اپنے صدراتی گدی بچانے کو ان کو اسمبلی سے نکال باہر کرے ۔
فرید بھائی اب یہ تو میری آپکی ہم سب کی کمزوری ہے۔ اگر کوئی آپ کی بھینس کھول کر لے جائے (معاف کیجئے گا دیہاتی آدمی ہوں بھینس سے آگے کی سوچ نہیں سکتا) تب تو آپ اور میں چُپ نہ بیٹھیں گے لیکن جب مملکت کی بات آتی ہے تو ہم بے انتہا مجبور ہو جاتے ہیں۔ بھائی اگر شریعت کو ڈنڈے سے ہی آنا ہے تو پھر اللہ تبارک و تعالٰی کے لیے کیا مشکل تھا کہ دو فرشتے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقرر فرمادیتا اور جو کوئی بھی اسلام کا انکار کرتا وہ فرشتے اسے بھسم کر دیتے یا اسے اُس کے گھر سمیت آسمان تک اُٹھا کر نیچے جا پھینکتے؟ اگر نفاذِ شریعت کشت و خون سے مباح ہے تو پھر اللہ کے پیارے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں نہ کیا؟ کیوں طائف کے پہاڑوں کو آپس میں ٹکروا نہ دیا؟ کیا پاکستان کے گلی کوچوں میں اس سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے جتنا طائف کی گلیوں میں ہوا تھا؟ شریعتِ محمدی نافذ کرنے سے پہلے آپ سیرتِ محمدی صل اللہ علیہ وسلم تو نافذ کر لیجئے۔ وگرنہ قتل کرنے والوں نے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شریعت کے لئے ہی قتل کیا تھا (اپنے خیال میں)۔
 

فرید احمد

محفلین
میں شاید تم سے زیادہ دیہاتی ہوں ،یار لوگ عجیب ہیں ، میں شریعت کی بات کرتا ہوں ، دنڈے کی ہر گز نہیں ، فاروق صاحب یک طرفہ دنڈے کی مخالفت ک بجائے شریعت پر برسے جا رہے ہیں ، دونوں چیزیں جدا ہیں ، بالکل ایسے ہی جیسے قانون کی بات مشرف بھی کرتے ہیں اور وکلاء بھی ، بس سمجھ لیں کہ اس وقت مشرف اور وہ دنڈے والے سب یکساں ہیں‌ ۔ اور میرے نزدیک وکلاء اور دین فکر مند ہم سب ایک جیسے ہیں ۔

اگر ان قبائلیوں کا دنڈا چلانا غلط ہے ، مذہب کے نام پر ، تو اس سے مذہب کیوں برا ہو گیا ؟ اور مذہب کے علمبردار کیوں برے ہو گئے ؟
مشرف یا نواز یا بے نظیر غلط ہیں تو کہیں پوری مملکت خداداد ( ویسے تمام ہی ملک خداداد ہوتے ہیں ، کوئی انسان زاد نہیں ہوتا ) پوری تو دیانتداروں سے خالی نہیں ہو جاتی !

میں نے اوپر لکھا ہے کہ " قبائلی " اس سے میرا موقف سمجھنے میں شاید آپ کو مدد ملے گی ، ورنہ ملاوں کی فوج شہروں اور دوسرے علاقہ جات میں کم نہیں‌ ، اور پاکستان افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی وہ ایسے بے بس نہیں ۔

دوسری بات یہ کہ فاروق صاحب کی پوسٹس سے ہمیشہ یہ تاثر ملا کہ وہ میری بات کو ایک عام مسلمان کی بات کم اور ہندستانی ( یعنی پاکستان مخالف ) کی بات سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں ، جب کہ حقیقت اس سے جدا ہے ، وہ ہر بار لکھتے ہیں‌ کہ سب سے پہلے پاکستان ! ! !‌

ان سے سوال ہے کہ پہلے پاکستان اور پھر انڈیا اور سعودیہ یہ کس قرآن کا حکم ہے ؟

وہ آخر میں ایسا کیوں نہیں لکھتے کہ سب سے پہلے اسلام یا سب سے پہلے قرآن

کاش کہ فاروق صاحب پاکساتی حالات پر ہندستانی ملاوں کے مضامین اور خیالات سے واقف ہوتے ! شاید لکھنؤ انڈیا سے ایک ماہنامہ " الفرقان " شائع ہوتا ہے ، لال مسجد کے متعلق اس میں جو کچھ ہے وہ پڑھنا مفید ہوگا ۔
یہاں اب تک ایسے حضرات ہیں ، جو کشمیر کی لڑائی کو"جہاد " نہیں مانتے !‌ اور سوائے طالبان کی چند سالہ حکمرانی کے انہوں نے کسی مسلح جد و جہد کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا ۔ جب کہ یہ بھی واضح ہیں کہ ان مسلح گروپوں کی بہ نسبت حکومت کے سیاہ اعمال کی بھی کمی نہیں ، اور یہ ممکن ہے کہ اس مسلح لڑائی کو کوئی حکومتی جبر کے خلاف عوامی رد عمل کا نام دے سکے ۔ خیر میں تو یہ نہیں کہتا ۔

میرے لیے ان حالات میں پاکستان کی مسلح خانہ جنگی اور نفاذ شریعت یا دیگر امور پر کچھ لکھنا غلط فہمی کو ہوا دینے کا بڑا سبب ہے ، اور میں اس پر زیادہ لکھنے سے گریز کرتا ہوں ، پاکستانی عوام اور خواص کے جو احوال میڈیا میں آتے ہیں ، اور کبھی کبھار کوئی آنے والے کی باتیں واسطہ در واسطہ جو معلوم ہوتی ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انڈیا میں ہم مسلمان قدرے امن و سکون میں ہیں ، اللہ اس کو باقی رکھے ، گر چہ کلی اور دائمی سکون کی گارنٹی نہیں ۔ اور شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ برادران وطن کی جانب سے بار بار بھڑکانے اور غیض و غضب دلوانے کے باوجود یہاں کے رہ نماوں نے ہٹھیار اٹھانے کی حکمت عملی نہیں اپنائی ، بلکہ مفاہمت، اخوت اور قانونی چارہ جوئی سے کام لیا ہے ، اور کمال ہے کہ اس درمیاں یہاں کے رہ نما مسلمانوں کی دینی دنیوی ترقی کے اسباب و اداروں پر بھی توجہ دے رہے ہیں ، جس طرح بھی ہو سکے ، مکمل نہ سہی ،
اگر برادران وطن کا تعصب درمیان میں نہ ہو تو مجموعی اعتبار سے مسلمان زیادہ خواندہ ہیں ، اور اہلیت رکھتے ہیں ۔
خیر ، چھوڑے ان باتوں کو ،
میرا مقصد انڈیا ۔۔ پاکستان کی میچ کھیلنا نہیں ، فاروق صاحب کو واضح کرنا تھا کہ بحیثیت انسان ہونے کے ، اور پھر مسلمان ہونے کے ، اور پھر ایک علاقہ برصغیر کے باشندے ہونے کے اور پھر پڑوسی ہونے کے میرے لیے سب یکساں ہیں ، اگر تم امریکہ میں رہ کر اول پاکستان بول سکتے ہو تو انڈیا سے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں اول میں اور میرا پڑوسی ۔
 
Top