شرعی قوانین کی کتاب یا کتب درکار ہیں۔

خاور بلال

محفلین
فاروق صاحب - ذاتی نوٹ:
آپ کی تحاریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ذاتیات پر بات کرنے کے شدید مخالف ہیں۔ آپ کے خیالات پر تنقید کی جائے تو اسے بھی بعض اوقات آپ ذاتیات کے زمرے میں فٹ کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس سید ابرار حسن کی ذات پر جتنی تنقید آپ کرچکے ہیں اتنی کسی نے بھی نہیں کی۔ سید ابرار حسن کو برار ھاسن کہہ کر کس نے مخاطب کیا یہ بھی مجھے یاد ہے۔

حدیث کے معاملے میں اپنے موقف کو واضح کرنے کیلئے آپ نے سید مودودی رحمتہ اللہ کے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ اگر یہ آپ کے خیالات کا یو ٹرن ہے تو میں آپکو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
 
صاحب، میرا روئے سخن کسی بھی شخص کی طرف نہیں ہے۔ اجازت دیجئے کہ میں دو واضح سوچوں کی وضاحت کرسکوں۔

1۔ ایسے لوگوں کی سوچ جو 'تقلید' کو اہم سمجھتے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ سوچنا بے کار ہے۔ جو سوچنا تھا وہ پرانے وقتوں کے لوگ ( اللہ اور اس کا رسول شامل نہیں نہیں ) سوچ گئے۔ اب ان کی کتب لو، ان کا قانون لو اور اس پر عمل کرو۔ سوال نہ کرو، قانون بنانے کا ذمہ صرف اور صرف ان لوگوں‌کو ہے جو "جانتے ہیں "‌ اور "علم رکھتے ہیں"۔ ایسے 'علماء، پروفیسرز۔ سکالر اور پیشہ ور' ہی قانون بنائیں گے اور عوام کو ان کی مرضی پر چلنا ہوگا۔ اور ایسے شخص کی حکومت کی کوئی معیاد نہیں‌ہوگی۔ معیار قانون سازی کا کیا ہے ؟ "علم" اور وہ لوگ جو گذر گئے جو آج کے مسائیل پر سوچ نہیں سکتے۔ اس نظام میں‌اہمیت ہے "سند یافتہ عالم"‌ یعنی فرد کی، شخصیت پرستی کی۔ کمی ہے عام آدمی کی ضرورت کی نمائندگی کی۔

2۔ ایسے لوگوں کی سوچ جو "وقت کی ضرورت" کو اہم سمجھتے ہیں ، جو منتخب نمایئندوں سے ایک مجلس شوری بناتے ہیں، یہ شوری، 'علماء، پروفیسرز، سکالرز اور پیشہ ور' حسب ضرورت مشاورت کرتی ہے اور اللہ کے احکامات کی روشنی میں قرآن اور سنت کے مطابق، "وقت کی ضرورت" کے مطابق قوانین بناتی ہے۔ اس نظام میں سوچ باہمی مشاورت سے فراہم ہوتی ہے۔ 'فرد' اپنی معیاد پوری کرکے چلا جاتا ہے۔ اور ہر نئی آنے والی قوم اور نئی آنے والی ملت اس باہمی مشاورت سے استفادہ کرتی رہتی ہے۔ کو شخص اس مد میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اس کو انعام و اکرام سے نوازدیا جاتا ہے۔ لیکن کسی فرد واحد کی پوجا نہیں کی جاتی، صرف اس کو بڑا جان کر اس کی اطاعت اس کے بعد بھی نہیں‌کی جاتی۔ یہ حق صرف اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ صاحب اختیار اشخاص آتے ہیں اور جاتے ہیں۔

ان دونوں نظاموں میں بنیادی اصول قرآن و سنت سے ہی وضع کئے جاتے ہیں۔ لیکن نظام نمبر ایک میں شخصیت پرستی کا عنصر زیادہ ہے۔ نظام نمبر دو میں باہمی مشاورت کا عنصر زیادہ ہے۔

میری کوئی تحریر کسی فرد یا اس فورم پر شرکت کرنے والے شخص کی بے عزتی کے لئے نہیں ، میری تنقید (مخالفت نہیں) فرد واحد کی سوچ اور شخصیت پرستی پر مبنی، نظام نمبر ایک کے لئے ہے۔ اور میری تائید باہمی مشاورتی سوچ پر مبنی نظام نمبر 2 کے لئے ہے۔

امید ہے اس وضاحت کے بعد میرا نکتہ نظر سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

والسلام
 

قسیم حیدر

محفلین
فاروق سرور خان نے کہا:
تعصب کا کوئی علاج نہیں۔ تعصب برتا جاتا ہے لوگوں سے، اصولوں سے نہیں۔ ملا اپنی ذاتی خوہشوں کی تکمیل میں اس قدر مگن رہے کہ ایک عدد ترتیب وار دفعات کے ساتھ ایک آئین یا قانوں کی کتاب بھی پیش نہیں‌کرسکے۔
ایک علمی سوال:
ترتیب وار دفعات کے ساتھ آئین یا قانون لکھنے کا آغاز کون سے سن میں ہوا تھا اور سب سے پہلے یہ طریقہ کس نے کون سے ملک میں اختیار کیا؟ علماء نے اس موضوع پر چودہ سو سال میں جو کام کیا اس کی ایک جھلک شاکر صاحب کی بتائی ہوئی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دس جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فقہ کی ان کتابوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جو علماء نے پہلے سے ترتیب دے رکھی تھیں۔ فرید احمد کئی کتابوں کے نام گنوا چکے ہیں۔ اگر آپ کھوج نکال سکیں کہ قانون کو ترتیب وار دفعات کے ساتھ لکھنے کا رواج کب ہوا تو بہت سے الجھنیں دور ہو جائیں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ کتابوں کو اس طریقے پر مرتب کرنے کا رواج اب شروع ہوا ہے۔ سابقہ ادوار میں یہ تقسیم ابواب کے لحاظ سے کی جاتی تھی۔ یعنی ہر باب میں اس سے متعلقہ مسائل بغیر کسی ترقیم کے جمع کر دیے جاتے۔
یہ بنیادی بات سمجھنے کے بعد فقہ کی کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ مجھے امید ہے آپ کی غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ اب مسئلہ رہ جاتا ہے ان کی ترقیم کا، سو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی طرح بعض قدیم فقہی مسائل کی جگہ کچھ نئے مسائل نے لے لی ہے۔ ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے لیکن بہرحال یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا ہے جو قرآن و حدیث اور دیگر متعلقہ علوم میں مہارت رکھتے ہیں۔
آپ نے ماشاءاللہ تاریخ کا خوب مطالعہ کر رکھا ہے، براہ مہربانی میری معلومات میں اضافہ فرمائیے کہ خلفائے راشدین نے قوانین کی جو کتابیں دفعات کے ساتھ مرتب کی تھیں وہ کہاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
1400 سال میں شخصیت پرستی کا جو چسکا ان کو لگا ہے، کہ انسانوں کو "مولانا" یعنی "میرا مولا" ، کہتے ان کی زبان نہیں‌تھکتی۔ لہذا تعصب کے مجرم بھی وہی قرار پائیں گے جو ہر معاملے کو شخصی تناظر میں ملاحظہ فرماتے ہیں۔
میری ایک ایسی پوسٹ کی نشاندہی فرما دیں جس میں کسی انسان کو میں نے “مولانا” کہا ہو۔میں تو ایک علمی سوال سامنے رکھا تھا اس کے جواب میں اس طرح الزام تراشی کی توقع نہ تھی۔ شاید آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ قرآن کریم میں لفظ “مولا” کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ التحریم میں ہے:
فان اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح المومنین
“تو اللہ ہی اس (نبی) کا مولا ہے اور اس کے بعد جبریل اور تمام اہل ایمان”
اس بارے میں دوسری آیات اور احادیث کو دیکھنے کے بعد میں احتیاط اسی میں سمجھتا ہوں کہ کسی انسان کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا مستحسن نہیں ہے۔ لیکن “اہل قرآن” ہونے کے ناتے آپ کو ان لوگوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے جو اس آیت کی روشنی میں کسی کو “مولانا” کہنا درست سمجھتے ہیں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
وقت آگیا ہے کہ اصولوں‌پرستی، قانون پرستی اور آئین پرستی کے اطوار اپنائے جائیں۔ شخصیت پرستی ختم کی جائے کہ قابل پرستش ذات صرف اللہ کی ہے، انسانوں کی پرستش ہمارے مذہب میں حرام ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ ناظم صاحب اس پوسٹ کو “سوال گندم، جواب چنا” والے تھریڈ میں منتقل کر دیں۔ میں نے کس انسان کی پرستش کی دعوت دی تھی یا میرے کس جملے سے شخصیت پرستی مترشح ہو رہی ہے؟ شخصیت پرستی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کے سامنے اللہ کا قرآن یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان بیان کیا جائے اور وہ سنانے والے سے کہہ دے کہ میں تیری بات ماننے پر تیار نہیں ہوں اس لیے کہ میں شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔ یہ شخصیت پرستی نہیں اللہ کی پرستش سے انکار ہے۔ ایسا سمجھنے والے انسان کو غور کرنا چاہیے کہ ایک بہت بڑا بت اس کے اپنے نفس کے اندر چھپا ہوا ہے جس کے آگے وہ سجدہ ریز ہے، جہاں سر اطاعت خم کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہو، وہاں جھک جانا بت کے آگے جھکنا نہیں، اللہ کے آگے جھکنا ہے۔ البتہ جو شخص اس بنا پر حق سے انکار کرتا ہے کہ وہ اس کے خودساختہ فلسفوں اور ذہنی بھول بھلیوں سے ٹکراتا ہے وہ دراصل اللہ کے آگے جھکنے کی بجائے اپنے بتِ نفس کے آگے جھکتا ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
یہ لوگ یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اس کو لکھا کس نے ہے ؟‌یہ ایوب خان کا ہے یا بھٹو کا یا کسی اور کا؟
فاروق سرور خان نے کہا:
ہر شخص نے پہلے اپنے نمائیندے کو ووٹ دیا اور پھر ان نمائیندوں نے ان اصولوں‌پر حرف صاد کیا۔

میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ اس قانون کو لکھنے والے کون تھے، ان کا ذاتی کردار کیا تھا، انہوں نے کبھی بددیانتی تو نہیں کی، کسی کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے تو نہیں ہیں، انہوں نے کبھی جھوٹ تو نہیں بولا، کسی سے دغابازی تو نہیں کی، قرآن کریم سے ان کی واقفیت کا کیا حال تھا، حدیث ِ رسول سے ان کی آشنائی کا کیا عالم تھا وغیرہ۔چلیں یہ باتیں رہنے دیتے ہیں، مجھے صرف اتنا بتا دیا جائے کہ ان میں سے کتنے ایسے تھے جو حقیقی معنوں میں عوام نے منتخب کیے تھے اور ان کی تعداد کیا تھا جو دھونس دھاندلی اور مک مکا سے اسمبلیوں میں پہنچے۔
آپ نے ان کے بنائے ہوئے قانون کو “مذہب” کا درجہ دیا ہے اس لیے یہ سوالات پوچھنا ہمارا حق ہے۔ (واضح رہے کہ میں ان قوانین کی بات نہیں کر رہا جو علماء کے مشورے اور رائے سے بنائے گئے ہیں، میں ان دفعات کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں جو “عوام کے حقیقی نمائندوں” نے ترتیب دی ہیں)
فاروق سرور خان نے کہا:
دیکھا جائے تو کچھ مسلمان انسانوں کی اسی طرح پوجا کرتے ہیں، اسی طرح بات مانتے ہیں، اسی طرح‌ان کی ڈاکٹرائن قبول کرتے ہیں، جو صرف اللہ تعالی کا حق ہے
آپ شاید بعض ناواقف مسلمانوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے (آپ اس سے اتفاق کریں گے) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مغربی ممالک میں یہودی پروفیسروں سے “اسلام”کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کی پوجا کرتے، بات مانتے اور ان کی خود ساختہ ڈاکٹرائن قبول کرتے ہیں۔ دین میں نئے نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں اور اپنے اندر چھپے خود ساختہ خدا کی پوجا اسی طرح کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔
خرم نے کہا:
قسیم بھائی کیوں‌گڑے مردے اکھاڑتے ہیں؟ پاکستان تو ایک "کافرِ اعظم" نے بنایا تھا نا؟
جب اس طرح مردوں کی قبر کشائی کی جائے تو قسیم بیچارا اور کیا کرے؟
فاروق سرور خان نے کہا:
پاکستان نے قانون سازی کے لئے قرآن کا راستہ اختیار کیا اور مجلس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیا۔ مولوی، ملا، آیت اللہ اپنے بدترین سیاسی حربوں کے باوجود اس مجلس شوری میں نہیں گھس سکے تو اس کو غیر اسلامی قرار دینے لگے۔
کافرِ اعظم کے فتوے آپ نے پڑھے ہوں گے تو لازمًا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ تیراندازی کس کمین گاہ سے ہوتی رہی ہے۔ اشرف علی تھانوی دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔ انہوں نے محمد علی جناح صاحب کے حق میں فتوٰی جاری کیا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ جناح صاحب ان سے ملنے بھی گئے تھے۔ ممتاز اہل حدیث عالم عبد اللہ بہاولپوری کی ذمے انہوں نے خود یہ کام لگایا تھا کہ وہ سندھ میں تحریک پاکستان کے لیے کام کریں۔تحریک پاکستان میں جناب شبیر احمد عثمانی کی جدوجہد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اگر آپ کے خیال میں ملاؤں نے پاکستان کی پیدائش کے بعد اسے اغوا کر لیا تھا تو براہ مہربانی اس مفروضے میں کچھ تبدیلی لے آئیے، یہ افسوسناک واقعہ 1947 سے پہلے وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ گلی گلی میں نعرے لگتے تھے “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ”۔ جناح صاحب کی فرمائش پر پاکستان کا پرچم سب سے پہلے علامہ شبیر احمد عثمانی نے لہرایا تھا۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے کسی کو امید نہ تھی کہ انگریز برصغیر سے نکل جائیں گے۔جنگ عظیم میں ہونے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصان نے تمام قابض طاقتوں کو اس درجے کمزور کر دیا کہ چند سال کے اندر اندر انہیں اپنی مقبوضات سے نکلنا پڑا۔1940 ء میں جب قرادرداد پاکستان منظور کی گئی تھی تو سیاسی افق پر کہیں پاکستان کے قیام کے آثار نہ تھے۔اس وقت یہ محض ایک سیاسی رائے تھی جس کی لوگوں اور علماء نے حمایت بھی کی اور مخالفت بھی۔ہر سیاسی رائے کے بارے میں یہی دو طرز عمل سامنے آتے ہیں۔ یہ ہے علماء کے ایک طبقے کا وہ “گناہ کبیرہ” جس کی وجہ سے آج سارے دینی طبقے کو رگڑا جا رہا ہے۔میں یہاں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ “بھائی تاریخ بہت جابر چیز ہوتی ہے سچ کو چھپاتی نہیں۔”
سید مودودی پر پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت جاننے کے لیے ان کے وہ سارے مضامین پڑھیے جو اس وقت انہوں نے لکھے اور بعد میں “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” کے نام سے شائع ہوئے۔ www.quranurdu.com میں اردو کتب کے کے سیکشن سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
خرم نے کہا:
اور یہ اسلامی پاکستان کی اصطلاح آپ نے کہاں سے نکال لی؟ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا آپ اسے سن 56 میں مسلمان کر رہے ہیں۔
جناب یہی سوال تو میں نے کیا تھا کہ جب “عوامی نمائندوں” نے آئین مرتب کر کے نہیں دیا تھا اور بقول فاروق صاحب “٘مذہب” ترتیب نہیں دیا گیا تھا تو اس سے قبل 1400 سو سال مسلمان کس قاانوں پر فیصلے کرتے رہے ہیں۔ میں نے سوال پیش کیا تھا کہ کس آئین کو معیاری تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کو اسلامی یا غیر اسلامی بنانے کی بات کدھر سے نکل آئی؟
خرم نے کہا:
اب آئیے آئین کی طرف۔ آپ آئین کو روتے ہیں، جتنے مطالب اور معانی احادیث اور قرآنی آیات کو پہنائے جاتے ہیں اگر اللہ کا وعدہ نہ ہوتا تو ہم تو نعوذ باللہ قرآن کو ہی بدل چکے ہوتے۔ خودکش حملے ہوں کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کہ لاقانونیت اور جہالت پر اصرار سب کا جواز ہمارے "علماء" قرآن اور حدیث سے ہی ثابت کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے بنی اسرائیل کے علماء کرتے تھے۔۔
خود کش حملوں کے بارے میں علماء کا موقف میں بارہا بیان کر چکا ہوں لیکن کلام نرم و نازک بے اثر۔ احادیث اور قرآنی آیات سے مختلف مطلب تو نکالے جا ہی رہے ہیں، آئین پاکستان کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔ شیر افگن نیازی، شریف الدین پیرزادہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کی تشریحات سے آپ واقف ہوں گے۔قبائلی علاقوں کے چند لوگوں کی غلطی کی سزا میں سارے علماء کو رگڑا جا سکتا ہے تو کیوں کہ یہی کلیہ آئین پاکستان اور جمہوریت کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔
خرم نے کہا:
یہی بات ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے اس دھاگہ پر سوال کئے گئے لیکن حسب توقع جو بات گفتنی تھی وہی ناگفتنی رہ گئی۔
یہی بات میں نے پہلی پوسٹ میں کہی تھی کہ آپ لوگوں کے اٹھائے ہوئے اکثر سوالوں کا نتیجہ بالآخر یہی نکلتا ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ کو بھی اس کا ادراک ہے۔ بہتر ہو گا کہ بحث برائے بحث کے نت نئے دروازے کھولنے کی بجائے اپنی توانائیاں کسی مفید کام میں خرچ کریں۔ نبیل بھائی نے بھی اس صورتحال پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
خرم نے کہا:
ہاں علماء کے برعکس مشائخ نے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کی اور آج بھی کبھی کسی پیر خانے سے پاکستان کے خلاف نہ کوئی بیان آیا نہ کبھی انہوں نے اس کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والی کسی حرکت کی حمایت کی۔
قرآن کریم میں علماء کا ذکر تو موجود ہے۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوءا (فاطر)
لیکن یہ مشائخ کیا چیز ہوتی ہے؟ اسلام کے خلاف جو سازش علامہ اقبال کے بقول ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیار ہوئی اور اس سازش کو کامیاب کرنے کے لئے ابلیس نے اپنے ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا کہ

مست رکھو ذکر وفکر و صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے

خرم نے کہا:
اگر یہی مُلا لوگوں کو کہے کہ سچے کو ووٹ دو، رشوت نہ دو، ملاوٹ نہ کرو، زکوٰۃ دو، اقرباء پروری نہ کرو تو یہ لوگ پھر بھی اس کی بات سُنیں گے نا؟ آخر آج بھی تو اس کی بات مان کر دھماکے کر رہے ہیں، ہتھیار اٹھا رہے ہیں، خون بہا رہے ہیں۔ لیکن مُلا ایسا کبھی کہے گا نہیں کیونکہ اس کی منزل اصلاح نہیں اقتدار ہے۔ وہ اس آگ پر تیل ڈالے گا اور اسے ہوا دے گا، بُجھائے گا نہیں۔ دہشت گردی کو دین کا لبادہ تو انہی مُلاؤں نے پہنایا ہے نا اور ان کے اس چلن سے لوگوں کو نہ تو انصاف ملے گا اور نہ آزادی کہ جو برتن کے اندر ہو وہی باہر آتا ہے۔
شاید آپ کے نزدیک متحدہ مجلس عمل ایک سیکولر جماعت ہے، اس میں کوئی ملا ہے نہ عالم۔ جمہوری ملاؤں اور قبائلی ملاؤں کا موازنہ کرتے وقت آپ اپنا وضع کردہ اصول فراموش کر دیے ہیں کہ “ان کی تعداد کتنی ہے”۔
 

فرید احمد

محفلین
جو شخص کل تک قرآن کے سوا کسی اور چیز پر ایمان نہ رکھنے پر چینخ و پکار کر رہا تھا ، دیکھیے تو سہی کس طرح آئین پاکستان پر اپنے ایمان کا سودا کر رہا ہے ؟
صاحبو، یہ آئین ہے پاکستان کی قوم کا، ہر شخص نے پہلے اپنے نمائیندے کو ووٹ دیا اور پھر ان نمائیندوں نے ان اصولوں‌پر حرف صاد کیا۔ اس طرح یہ آئین ہر پاکستانی کے دستخط سے جاری ہوا۔ ہم شخصیت پرستی کے عادی نہیں لہذا نمائیندوں کی معیاد مقرر ہے، اگر اس آئین کا احترام دل میں نہ ہوتا تو آج ہم سب پاکستانی اس کو معطل کرنے والے کے خلاف احتجاج نہ کررہے ہوتے۔
 

فرید احمد

محفلین
یہ بار بار دیکھا گیا کہ اروق صاحب کی مانگی چیز فراہم کر دو پھر بھی وہ اس کی نایابی کا رونا روے رہتے ہیں ، قانونی دفعات کا مطلابہ کئی بار کئی حضرات نے لنک دیے، کتبن کے نام گنوائے ، لیکن ابھی تک ان کی آنکھیں بند !‌
وسیے قانونی دفعات کا ہونا قرآن کی کس آیت سے ضروری ہے ؟ یہ بات پہلے سب مان چکے ہیں کہ خلافت راشدہ کے دور میں ایسی کوئی چیز نہ تھی ، تو پھر یقینا بعد کے لوگوں کی ہوئی ، اور شاید یہ چیز اب فاروق صاحب کے لیے " قرآن ثانی " کی حیثیت رکھتی ہوگی، جو اس پر یوں اصرار ان کو ہے ۔
 

عمر میرزا

محفلین
ً ریاست خلافت کا دستور

مقدمہ

یہ ریاست خلافت کے دستور کا مجوزہ خاکہ ہے جسے ہم امت مسلمہ اور ان لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔جو ریاست خلافت کے دوبارہ قیام اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کے اعادہ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔تاکہ ان کے زہن میں اسلامی ریاست کی حقیقت اس کی شکل و ہییت اور اس کے نظاموں کا تصور واضح ہو جائے۔
یہ ایک اسلامی دستور ہے جسے اسلامی عقیدہ سے منتبق کیا گیا ہے اور اسے احکام شریعت سے قوی ترین دلیل کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے۔
اور اس کے اخذ کرنے میں کتاب اللہ اور سنت رسول صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم پر اور اس چیز پر انحصار کیا گیا ہے جس کی طرف کتاب سنت اشارہ کرتے ہیں یعنی اجماع صحابہ اور قیاس۔
یہ اسلامی دستور ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اسے غیر اسلامی بناتی ہو ۔اور یہ دستور کسی مخصوص علاقے کے لئے نہیں بلکہ یہ ریاست خلافت کے لئے ہے جو کہ ایک عالمی ریاست ہوتی ہے بلکہ یہ دستور پوری دنیا کے لئے ہے کیونکہ ریاست خلافت اسلام کی ہدایت اور اس کے نور کو پوری دنیا تک لے کر جاتی ہے اور ان کے امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اور ان پر اسلام کے احکامات کو نافذ کرتی ہے۔
اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کو عزت بخشے اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کے اعادہ کی کوششوں کو منزل مقصود تک پہنچائے۔ اور اس مسودہ دستور کو ریاست خلافت میں نافذ کرنے کا شرف بخشے۔
اور اللہ کے کے لئے یہ امر ہرگز مشکل نہیں۔

مزید پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں
 

خرم

محفلین
آپ نے ماشاءاللہ تاریخ کا خوب مطالعہ کر رکھا ہے، براہ مہربانی میری معلومات میں اضافہ فرمائیے کہ خلفائے راشدین نے قوانین کی جو کتابیں دفعات کے ساتھ مرتب کی تھیں وہ کہاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔
وسیے قانونی دفعات کا ہونا قرآن کی کس آیت سے ضروری ہے ؟ یہ بات پہلے سب مان چکے ہیں کہ خلافت راشدہ کے دور میں ایسی کوئی چیز نہ تھی ، تو پھر یقینا بعد کے لوگوں کی ہوئی ، اور شاید یہ چیز اب فاروق صاحب کے لیے " قرآن ثانی " کی حیثیت رکھتی ہوگی، جو اس پر یوں اصرار ان کو ہے ۔
برادران خاور، قسیم، فرید و عمر،
آپ کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں لگے بندھے اصولِ حکومت وضع نہیں کئے گئے تھے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ انہوں‌نے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت ترتیب نہیں دیا تھا اور اپنے فہم و ادراک اور حالاتِ زمانی کے مطابق فیصلے کئے تھے۔ کیا یہ بات درست تسلیم کی جائے؟ اتنی بڑی سلطنت کا نظام چلانے کے لئے کم از کم ہدایاتی مراسلہ جات تو بھیجے جاتے ہوں گے۔ ان کا ہی کوئی ریکارڈ‌دستیاب ہے کیا آج؟ اور میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں اپنا امیر یا خلیفہ چُننے کا کوئی طریقہ بیان کیا گیا ہے ؟ میرے خیال میں بحث کی بجائے سوال و جواب کا طریقہ زیادہ موزوں رہے گا۔ اس لئے اب اس ڈگر کو آزمانا چاہتا ہوں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
برادران خاور، قسیم، فرید و عمر،
آپ کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں لگے بندھے اصولِ حکومت وضع نہیں کئے گئے تھے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ انہوں‌نے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت ترتیب نہیں دیا تھا اور اپنے فہم و ادراک اور حالاتِ زمانی کے مطابق فیصلے کئے تھے۔ کیا یہ بات درست تسلیم کی جائے؟ اتنی بڑی سلطنت کا نظام چلانے کے لئے کم از کم ہدایاتی مراسلہ جات تو بھیجے جاتے ہوں گے۔ ان کا ہی کوئی ریکارڈ‌دستیاب ہے کیا آج؟ اور میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں اپنا امیر یا خلیفہ چُننے کا کوئی طریقہ بیان کیا گیا ہے ؟ میرے خیال میں بحث کی بجائے سوال و جواب کا طریقہ زیادہ موزوں رہے گا۔ اس لئے اب اس ڈگر کو آزمانا چاہتا ہوں۔

اس سے میری مراد یہ ہے کہ انہوں‌نے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت ترتیب نہیں دیا تھا اور اپنے فہم و ادراک اور حالاتِ زمانی کے مطابق فیصلے کئے تھے۔ کیا یہ بات درست تسلیم کی جائے؟
جي ہاں يہ بات درست تسليم کي جائے گي
حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے جو چھ افراد کي مجلس شوري بنائي تھي ان چھ ميں سے دو کا انتخاب ہوا جن ميں ايک علي تھے اور دوسرے عثمان
چنانچہ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علي کي طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ميں آپ کي بيعت کرتا ہوں اس شرط پر کہ آپ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور سيرت شيخين يعني حضرات ابوبکر و عمر رض کے مطابق نظام حکومت چلائيں گے
تو حضرت علي نےے يہ کہہ کر بيعت وصول کرنے سے انکار کرديا کہ
ميں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اس کے بعد اللہ تعالي کي جانب سے عطاکردہ فہم و فراست اور تدبر و حکمت کے ساتھ نظام حکومت چلائوں گا يعني انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو تو قبول کيا ليکن سيرت شيخين کو اپنے ليے لازم کر لينے کي شرط سے انکار کرتے ہوئے بيعت وصول نہ کي
پھر جب
حضرت عثمان سے عبدالرحمن بن عوف نے يہي سوال کيا تو انہوں نے اس کو قبول کر ليا اور ان کے ہاتھ پر بيعت کر لي گئي ليکن انہوں نے باوجوديکہ سيرت شيخين پر چلنے کي شرط کو قبول کيا تھا ليکن بوجوہ وہ اس پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے حضرت عمر کے انتظامي احکامات ميں بہت سي ايسي تبديلياں کيں جو بعد ميں ان کي خلافت کے خلاف بغاوت حتي کہ ان کي شہادت کا پيش خيمہ ثابت ہوئيں
اتنی بڑی سلطنت کا نظام چلانے کے لئے کم از کم ہدایاتی مراسلہ جات تو بھیجے جاتے ہوں گے۔ ان کا ہی کوئی ریکارڈ‌دستیاب ہے کیا آج؟
ايسے تمام فرامين کا ريکارڈ تو شايد ہي ہو ليکن خلفائے راشدين کے اپنے گورنرون عاملون اور امراء کے نام بہت سے ايسے فراميں جن ميں انہيں حکومت کا نظم و نسق چلانے کي ہدايات کي گئيں ہيں تاريخ ميں محفوظ ہيں اور بلا شبہ ان سے استفادہ کيا جا سکتا ہے
اور میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں اپنا امیر یا خلیفہ چُننے کا کوئی طریقہ بیان کیا گیا ہے ؟
اس بات کا ذکر شايد ميں اپني پہلي کسي پوسٹ ميں کر چکا ہوں
خليفہ اول کا انتخاب بذريعہ بيعت ثقيفہ بنو ساعدہ ميں ہوا

خليفہ دوم بذريعہ نامزدگي خليفہ بنے

خليفہ سوم چھ آدميوں کي مجلس شوري کے ذريعہ منتخب ہوئے اور يہ امر قابل ذکر ہے کہ يہ چھ افراد جو شوري کے رکن تھے خود اميدواران خلافت بھي تھے اور اگر ان کي باہم قرابت داريوں کو ديکھا جائے تو اس شوري کا سٹرکچر ہي اس بات کا اشارہ کرديتا ہے کہ خلافت کا رخ کس سمت کو ہوگا

چوتھے خليفہ کا اتخاب ايسے ہنگامي اور ايمرجنسي کے حالات ميں ہوا کہ خلق خدا خليفہ پر بيعت کے ليے ٹوٹ رہي تھي اور خليفہ کو دل ناخواستہ کے ساتھ بيعت قبول کرنا پڑي

ايسي صورت ميں جب ہمارے پاس خلافت اسلامي کا اعلي معيار خلافت راشدہ ہے تو خلفائے راشدين کے طريقہ انتخاب سے تو کم از کم يہي ظاہر ہو تا ہے کہ خليفہ کے چنائو کے ليے کوئي خاص طريقہ بيان نہيں کيا گيا اس ضمن ميں اگر حضرت عمر کے اس قول کو مدنظر رکھا جائے تو زيادہ وضاحت ہو جائے گي
جب ان کے وصال کا وقت قريب ہوا تو لوگوں نے ان سے آئندہ خليفہ کے بارے ميں پوچھا تو انہوں نے جواب ديا

اگر ميں کسي کو خليفہ نامزد کردوں يہ يہ بہتر ہوگا کيونکہ ابوبکر نے مجھے نامزد کيا تھا اور اگر ميں کسي کو خليفہ نامزد کيے بغير رخصت ہو جائوں تو يہ اس سے بھيي بہتر ہو گا کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے کسي کو نامزد نہيں کيا تھا

نوٹ:ميں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت علي اور حضرت عمر کے جو اقوال نقل کيے ہيں وہ واوين ميں اس ليے نہيں رکھے کہ وہ ميں نے لفظ بلفط نقل نہيں کيے بلکہ ان کا مفہوم ادا کر ديا ہے
 

خرم

محفلین
شاکر بھائی آپ کی علمی معلومات کا بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔

اب مجھے انتظار ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی ان باتوں‌پر کب صاد کرتے ہیں۔ پھر انشاء اللہ اگلے سوال پوچھوں گا۔
 

فرید احمد

محفلین
آپ سے اتنی گذارش کہ جن چار پانچ کو تم نے مخاطب کیا ہے ، اس کی دوسری جانب کو یہ منوا لیں کہ دفعات وار کتاب کوئی لازمہ ایمان و اسلام نہیں ، اور باوجود اس کے ، ان کے اس مطالبہ کے جواب میں بہت سے حوالہ جات دیے گئے ہیں ، اور ہاں جمہوریت کے بارے میں آپ اپنے خیالات بھی درج کر دیں ۔
 

خرم

محفلین
آپ سے اتنی گذارش کہ جن چار پانچ کو تم نے مخاطب کیا ہے ، اس کی دوسری جانب کو یہ منوا لیں کہ دفعات وار کتاب کوئی لازمہ ایمان و اسلام نہیں ، اور باوجود اس کے ، ان کے اس مطالبہ کے جواب میں بہت سے حوالہ جات دیے گئے ہیں ، اور ہاں جمہوریت کے بارے میں آپ اپنے خیالات بھی درج کر دیں ۔
بھائی اگر میں اس دھاگہ کی غایت کو سمجھتا ہوں تو جو بات آپ نے کہی ہے وہی بات کہی گئی تھی۔ یقیناً دفعہ وار کوئی کتاب لازمہ ایمان و اسلام نہیں ہے اور ابتدائے اسلام میں ہمیں ایسی کسی کتاب یا طرزِ عمل کا حوالہ نہیں ملتا جس میں اصولِ حکمرانی وضع کئے گئے ہوں اور ان کی تشریح بیان کی گئی ہو اور ان پر چلنا لازم قرار دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ حکمران کے انتخاب کا کوئی متفق علیہ یا مخصوص طریقہ قرآن، حدیث یا صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین سے ثابت نہیں ہے۔ ابتدائے اسلام سے میری مراد پہلی صدی ہجری ہے۔
کیا ہم اس بات پر اتفاق کرتے ہیں؟

جمہوریت و ملوکیت کی بات انشاء اللہ آگے چل کر ضرور کریں گے فی الحال میری ذاتی شاید ایک اور بحث‌کو جنم دے گی اس لئے اس سے دانستہ احتراز کر رہا ہوں۔ برا نہ مانئے گا۔
 
بہت خوب شاکر، بہت ہی شکریہ۔ میں آپ کا ذاتی طور پر شکرگزار ہوں کہ آپ بہترین معلومات شئیر کرتے ہیں اور موضوع پر ہی رہتے ہیں۔ آپ سے پم سب کو سیکھنے کا بہترین موقعہ ملتا ہے۔

جس دور کا آپ نے تذکرہ کیا، ایک مثالی دور تصور کیا جاتا ہے۔۔ اس دور کے بعد اب تک مسلمانوں کے اقتدار کے جو جو ادوار گذرے، گواہ ہیں کہ مختلف ممالک میں مسلمانوں نے اپنے آئین بنائے ، کبھی باقاعدہ لکھ کر اور کبھی قرآن و سنت کے حوالے سے۔ ان بنیادی اصولوں یا آئین سے ہی قانون سازی ہوئی جو عموماَ قاضیوں یا بادشاہوں‌کے اپنے فیصلوں پر منحصر تھی۔ یہ مجموعہ آئین وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے، ایک بنیادی عنصر جو تبدیل نہیں‌ہوا وہ تھا بنیادی اصولوں کی قرآن و سنت سے فراہمی۔ جو کتب، روایات ، شرعی و فقہی کتب قرآن و سنت کے علاوہ آج دستیاب ہیں، سب اس بات کی غمازی کرتی ہیں کی وقت کی ضرورت کو عدل و انصاف کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہے۔ کچھ لوگوں نے کچھ مانا اور کچھ لوگوں‌نے کچھ۔ ایک بات اہم ہے کہ کسی قوم نے بھی زبردستی کا تھوپا ہو کبھی قبول نہ کیا۔

یہ سوچ کے آئین اور اس سے نکلا ہوا قانون کسی کتاب میں موجود ہے اور ہم اس کو ایک ریڈی میڈ سوٹ‌کی طرح درآمد کرکے پہن لیں لا یعنی ہے۔ "علماء‌" تعلیم دیں، بہت اچھا ہے۔ لیکن اس علم کو حکومت کرنے کا حق سمجھیں بے معنی۔ حکومت کو تاحیات حق قرار دیا جائے یہ اس سے بھی بے معنی کہ حکومت ملکیت میں بدل گئی۔ اس طرح ایک فرد یا افراد جو اپنےآپ کو "علم" کی بنیاد پر ممتاز قرار دیں اور امتیاز کو حق حکومت قرار دیں سراسر "اسرائیلیات"‌پر مبنی ہے۔ "علم"، جائے پیدائش، شجرہ، رنگ یا نسل یا ایسے ہی مرکبات کسی طور ایک شخص یا افراد کو نہ حق حکومت فراہم کرتے ہیں نہ حق قانون سازی۔ یہ سوچ کہ کسی ایک زندہ شخص کی ان مندرجہ بالا وجوہات پر اطاعت کی جائے شخصی عبادت ہے۔

اس تعلیم کو جو کتب، روایات ، شرعی و فقہی کتب قرآن و سنت کے علاوہ آج دستیاب ہیں، علم و اعلام کے لئے مناسب ہے۔ باہمی مشاورت سے حکومت و قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق، مت۔فقہ طور پر منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ لہذا ان کتب اور اس علم کا استعمال ایک باقاعدہ آئین و قانون کی شکل میں پاکستان میں‌موجود ہے۔ استعمال ہوتا ہے اور باوجود ہزار دقتوں کے ترقی کا ضامن ہے۔

تو فرق کیا ہے۔ فرق ہے
1۔ فرد واحد (شاہ، خلیفہ، اور ان کا پیشوا) کا سابقہ کتب کو بنا کسی تبدیلی کے بطور قانون استعمال کرنے کا
اور
2۔ اجتماعی منتخب نمائندوں کا باہمی مشاورت سے وقت کی ضرورت کے مطابق قانون سازی و حکومت جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔

نہ پاکستان کے جج کسی سے علم میں کم ہیں اور نہ ہی منتخب نمائندوں کو مشاورت فراہم کرنے والے۔ جس قانون اور آئین کے پیچھے قرآن و سنت کے اصول ہوں، جو ہر شخص کی تنقید کے لئے کھلا ہو، جس کے پیچھے پاکستانیوں کی اکثریت ہو۔ اس کو باطل قرار دینا ایک کریہہ عمل ہے۔ اور عوام الناس کو یہ کہہ کر دھوکہ دینا کہ "یہ اسلامی نظام "‌ نہیں‌ہے اس سے بھی بڑھ کر کریہہ عمل ہے۔ خاص طور پر جب کسی کے پاس ایک واضح جدید آئین یا قوانین یا متفقہ حکومتی ڈھانچہ عملی طور پر تو دور، دکھانے کے لئے بھی نہ ہو۔

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کرلو
امت احمد مرسل کو مقامی کرلو
 

باسم

محفلین
مفتی تقی عثمانی صاحب کتاب "نفاذ شریعت اور اسکے مسائل" کے صفحہ ۱۰۷ اور ۱۰۸ میں لکھتے ہیں:۔
"ظاہر ہے کہ مسودہ قانون مرتب کرنے کا کام کوئی ایسا سرسری کام تو نہیں ہے کہ چند علماء اور قانون داں افراد چند نشستوں میں مل کر بیٹھیں اور مہینے دو مہینے میں ایک مجموعہ قوانین تیار کرکے پیش کردیں، اس کام کیلیے وسیع وسائل، سخت محنت اور طویل فرصت کی ضرورت ہے۔
۔۔۔ملک کے جتنے وسائل اسلامی قانون بنانے کے اہم کام پر صرف ہونے تھے وہ تو سارے کے سارے ادارۂ تحقیقات اسلامی اور اسلامی مشاورتی کونسل کے اداروں پر خرچ ہو رہے ہیں، ان اداروں کو توملک کے مقبول و معتمد علماء دین کے سائے سے بھی پوری احتیاط کے ساتھ بچایا گیا ہے اور دونوں سرکاری ادارے جن پر قوم کا لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کیا جارہا ہے گیارہ سال کے عرصہ میں ابھی (۱۹۶۹ غالباً) تک کام کا چالیسواں حصہ بھی مکمل نہیں کرسکے،اس کے بعد علماء سے یہ مطالبہ کہ اس اہم کام کو تنہا اپنی ذمہ داری پر انجام دیں، علماء دین ااور ماہرین قانون کو خود جمع کریں، وسائل خود مہیا کریں، ادارے خود بنائیں، اجتماعات خود بلائیں، غرض حکومت کے کرنے کے سارے کام خود انجام دے کر حکومت کے سامنے پیش کریں، کتنا قرین انصاف ہے؟
پھر تھوڑی دیر کیلیے فرض کر لیجیے کہ علماء اپنا سارا وقت، ساری پونجی اور ساری توانائیاں اس کام پر صرف کر دیتے ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ سالوں کی جاں فشانی کے بعد جو مسودہ قانون یہ حضرات بناکر پیش کریں گے، اس کا حشر وہی نہیں ہوگا جو ۱۹۵۱ء کی دستوری سفارشات کا ہوا تھا؟ اس موقعہ پر علماء نےحکومت کی کسی ادنٰٰی امداد کے بغیر ہر مکتب فکر کے نمائندوں کوکراچی میں خود جمع کیا، وسائل خود مہیا کیے، سفارشات خود مرتب کرکےحکومت کو پیش کیں، صرف ملک نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ان سفارشات کو عوام کی سرگرم تائید و حمایت حاصل ہوئی، لیکن کیا حکومت کے کسی فرد نے ان سفارشات پر دستخط کرنے میں فخر محسوس کیا؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو قانون سازی کا یہ کام جو دستوری سفارشات سے سیکنڑوں گنا زیادہ دیر طلب اور مشقتت طلب ہے، علماء آخر کس بنیاد پر اس کا بیڑا اٹھائیں؟
 

خرم

محفلین
باسم بھائی فی الحال تو اس مشق سے بھی پہلے کی بات ہو رہی ہے۔ فی الحال ہم اس بات پر اتفاق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکمران و شورٰی مقرر کرنے کا کوئی لگا بندھا اصول قرآن و سُنت سے ہمیں نہیں ملتا۔ اس کے بعد قدم بقدم انشاء اللہ آگے بڑھیں گے۔
 
آپ سے اتنی گذارش کہ جن چار پانچ کو تم نے مخاطب کیا ہے ، اس کی دوسری جانب کو یہ منوا لیں کہ دفعات وار کتاب کوئی لازمہ ایمان و اسلام نہیں ، اور باوجود اس کے ، ان کے اس مطالبہ کے جواب میں بہت سے حوالہ جات دیے گئے ہیں ، اور ہاں جمہوریت کے بارے میں آپ اپنے خیالات بھی درج کر دیں ۔

فرید - جمہوریت کے بارے میں آپ اپنے خیالات سے بھی مستفید فرمائیے۔
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی میں تجویز کروں گا کہ ہم سب مرحلہ وار ان تمام موضوعات پر پہنچیں۔ پہلے جو سوالات پیش کئے گئے ہیں ان کے جوابات پر متفق ہو جائیں ہم سب پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ بہرحال یہ میری ذاتی تجویز ہے۔ آپ برادران اس سے بہتر کچھ خیال کریں تو فرمائیے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
فاروق بھائی میں تجویز کروں گا کہ ہم سب مرحلہ وار ان تمام موضوعات پر پہنچیں۔ پہلے جو سوالات پیش کئے گئے ہیں ان کے جوابات پر متفق ہو جائیں ہم سب پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ بہرحال یہ میری ذاتی تجویز ہے۔ آپ برادران اس سے بہتر کچھ خیال کریں تو فرمائیے۔
خرم بھائي

ميرا خيال ہے کہ جو سوالات آپ نے کيے تھے اور ميں نے ان کے جوابات ديے ان سے يہاں پر موجود لوگ متفق ہي نظر آرہے ہيں کيونکہ کسي نے اختلاف نہيں کيا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
علماء اپنا سارا وقت، ساری پونجی اور ساری توانائیاں اس کام پر صرف کر دیتے ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ سالوں کی جاں فشانی کے بعد جو مسودہ قانون یہ حضرات بناکر پیش کریں گے، اس کا حشر وہی نہیں ہوگا جو ۱۹۵۱ء کی دستوری سفارشات کا ہوا تھا؟ اس موقعہ پر علماء نےحکومت کی کسی ادنٰٰی امداد کے بغیر ہر مکتب فکر کے نمائندوں کوکراچی میں خود جمع کیا، وسائل خود مہیا کیے، سفارشات خود مرتب کرکےحکومت کو پیش کیں، صرف ملک نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ان سفارشات کو عوام کی سرگرم تائید و حمایت حاصل ہوئی، لیکن کیا حکومت کے کسی فرد نے ان سفارشات پر دستخط کرنے میں فخر محسوس کیا؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو قانون سازی کا یہ کام جو دستوری سفارشات سے سیکنڑوں گنا زیادہ دیر طلب اور مشقتت طلب ہے، علماء آخر کس بنیاد پر اس کا بیڑا اٹھائیں؟

علماء کي جانب سے اس طرح کا عذر لنگ کوئي معني نہيں رکھتا علماء کا کام يہي ہے کہ وہ علوم کے ميدان ميں ہمہ وقت تحقيق کے گھوڑے دوڑاتے رہيں کيا علما کو اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي يہ بات ياد نہيں:

وم۔۔۔ا علي۔۔۔۔۔نا الا البلاغ
علما کا کام ہے تحقيق کرنا اور اس کو لوگوں تک پہنچا دينا کيا علماء اس مسبب الاسباب سے نا اميد ہيں کيا علماء کو يہ توقع بھي نہيں رہي کہ وہ کبھي نہ کبھي اقتدار ميں آئيں گے اور اگر قدرت نے انہيں ايک مرتبہ يہ موقع فراہم کر ديا تو کيا علما اس وقت قانون سازی کا یہ کام جو دستوری سفارشات سے سیکنڑوں گنا زیادہ دیر طلب اور مشقتت طلب ہے کريں گے اگر ايسا ہوا تو وہ موقع علماء اسي طرح گنوا ديں گے علماء کو چاہيے کہ وہ اس وقت کے ليے ہوم ورک شروع کريں اور دور جديد کے تقاضوں کے پيش نظر قرآن و سنت کے بنييادي اصولوں پر رياستي اور انتظامي قوانين مرتب کريں تاکہ اس وقت انہيں مشکل نہ ہو کيوں کہ:

مسودہ قانون مرتب کرنے کا کام کوئی ایسا سرسری کام تو نہیں ہے کہ چند علماء اور قانون داں افراد چند نشستوں میں مل کر بیٹھیں اور مہینے دو مہینے میں ایک مجموعہ قوانین تیار کرکے پیش کردیں، اس کام کیلیے وسیع وسائل، سخت محنت اور طویل فرصت کی ضرورت ہے۔
 
Top