شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

غزل کا ساز اُٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے میر سناؤ بڑی اُداس ہے رات

کہیں نہ تم سے تو پھراور کس سے جا کےکہیں
سیاہ زلف کے سایوں بڑی اُداس ہے رات

سنا ہے پہلے بھی ایسے میں بجھ گئے ہیں چراغ
دلوں کی خیر مناؤ بڑی اُداس ہے رات

دیئے رہو یونہی کچھ دیر اور ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ بڑی اداس ہے رات​
 

ظفری

لائبریرین

کسی کو یوں تو ہوا کون عمر پھر بھی
یہ حسن وعشق تو دھوکہ ہے سب مگر پھر بھی

ہزار بار زمانہ ادھر سے گذرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگذر پھر بھی

تیری نگاہ سے بچنے میں عمر گذری ہے
اُتر گیا رگِ جاں میں یہ نشتر پھر بھی​
 

ظفری

لائبریرین

اب اکثر چپ چپ سے رہے ہیں یونہی کب لب کھولیں ہیں
پہلے فراق دیکھا ہوگا ، اب تو بہت کم بولیں ہیں

دن میں ہم کو دیکھنے والوں ، اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تم ان خشک راہوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں

غم کا فسانہ سُننے والوں آخرِ شب آرام کرو
کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا سو لیں ہیں​
 

ظفری

لائبریرین

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

گھروں پہ نام تھے ، ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دُوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا

تمام رشتوں کو میں گھر میں چھوڑ آیا تھا
پھر اس کے بعد مجھے کوئی اجنبی نہ ملا

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

 

سارہ خان

محفلین
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

وہی کارواں ، وہی راستے ، وہ زندگی کے مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر ، کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

میں قفس میں قید ہو باغباں مجھے غرض ہے بہار سے
نہ چمن ہے میرا آشیاں جو خزاں میں ائے تو غم نہیں
 

ظفری

لائبریرین

یہ زرد پتوں کی بارش میرا زوال نہیں
میرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں

اُداس ہوگئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے یہ انتقال نہیں

تمام عمر غریبی میں باوقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں

وہ لا شریک ہے اُس کا کوئی شریک کہاں
وہ بے مثال ہے اُس کی کوئی مثال نہیں

میں آسمان سےٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کہاں ملی تھی یہ دُنیا مجھے خیال نہیں

وہ شخص جس کو دل وجاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں

بشیر بدر​
 

حجاب

محفلین
بڑی مطمئن میری زندگی تیرے بعد بھی
وہی شوخیاں وہی تازگی تیرے بعد بھی
وہی جاگنا رات کو دیر تک میری دلنشیں
وہی شغلِ جاں وہی دل لگی تیرے بعد بھی
وہی خوشبوؤں کو بکھیر دینا فضاؤں میں
وہی موسموں کو تلاشنا میرے اجنبی تیرے بعد بھی
وہی نوچنا پھول پتّیاں میرے ماہ رو
وہی ڈھلتی شام کی دلکشی تیرے بعد بھی
یہ نہ سوچنا مجھے چاہ گزید بنا گئی تیری بے رخی
وہی شوق ہیں میرے آج بھی تیرے بعد بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حجاب

محفلین
قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں
اک آنسو اُس شخص کا،جو بےگانہ ہے
اک آنسو اُس نام کا جو ہم لے نہ سکے
اک آنسو اُس دعا کا جو پوری نہ ہوئی
ایک فضول سی بات کہ جو بے سود کہی
آنسو میرا خواب میں جس سے گھبراؤں
آنسو میری مُراد جسے میں بہلاؤں
اک آنسو اُس چہرے کا جو یاد رہے
آنکھوں کے رستے جو دل میں اُتر جائے
اک آنسو اُس ٹھہرے ٹھہرے لہجے کا
اک آنسو اُس وہم کا ذہن میں جو آیا
اک آنسو اُس جھوٹ کا جو اوروں سے کہا
پھیکی ہنسی سے کیسے قصہ ختم کیا
لمحہ لمحہ رات گزرتی جاتی ہے
قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں۔
 

منصور

محفلین
کچھ اس کی زلف کھلی ‘ کچھ میرے ارمان کھلے
جو اس کی آنکھ اٹھی ‘ مستی کے سامان کھلے

ابھی کمسن ہے ‘ واقفِ آدابِ عشق نہیں
سب کے سامنے مجھ سے وہ نادان کھلے

کویئ مکیں آے کہ مسافر‘ پل دو پل ٹہرے
کویئ تو ہنگامہ دل ہو کہ بند مکان کھلے

کبھی جگر تھا جہاں ‘ اک نشان ہجر ہے وہاں
یہی ہے جستجو کہ اس پر یھ نشان کھلے

آ تو پنہچا ہے بیٹھا ہے پاینتی میرے
کوی گر ایسا بھی بتاو کہ یھ مہمان کھلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(منصور)
 

ظفری

لائبریرین
وہ ضد پر اُتر آتے ہیں اکثر اوقات
پر چیز پہ وہ بحث کریں گے میرے ساتھ
ہرگز بھی نہ مانیں گے جو میں چاہوں گا
لیکن جومیں چاہوں گا کریں گے وہی بات
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
تم جانو،تم کوغیرسے جورسم وراہ ہو
مجھ کوبھی پوچھتے رہوتوکیاگناہو
بچتے نہیں مواخذہ روزحشرسے
قاتل اگررقیب ہے توتم گواہ ہو
کیاوہ بھی بے گنہ کش وحق ناشناش ہیں
ماناکہ تم بشرنہیں،خورشیدوماہ ہو
ابھراہوانقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتاہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہو
جب میکدہ چھٹاتوپھراب کیاجگہ کی قید
مسجدہو،مدرسہ ہو،کوئی خانقاہ ہو
سنتے ہیں جوبہشت کی تعریف سب درست
لیکن خداکرے وہ تراجلوہ گاہ ہو
غالب بھی گرنہ ہوتوکچھ ایساضررنہیں
دنیاہو یارب اورمرابادشاہ ہو
(اسداللہ خان غالب)


والسلام
جاویداقبال
 

حجاب

محفلین
اس دل کے چند اثاثوں میں اِک موسم ہے برساتوں کا۔۔۔۔۔۔۔
اِک صحرا ہجر کی راتوں کا اِک جنگل وصل کے خوابوں کا
اُس چودھویں رات کے سائے میں جب آخری بار ملے تھے ہم
یہ دل پاگل کب بھولتا ہے وہ باغ سفید گلابوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ماوراء

محفلین

شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں
مجھے وعدوں کی خالی سیپیاں اچھی نہیں لگتیں

گزشتہ رُت کے رنگوں کا اثر دیکھو کہ اب مجھ کو
کھلے آنگن میں اُڑتی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
 

حجاب

محفلین
موسمِ گُل میں آخری پیغام

جب یہ سوچو کہ بھر چُکا ہے دل
میری چاہت میری رفاقت سے
خود کو وقفِ عذاب مت کرنا
لمبا چوڑا خطاب مت کرنا
ایک سوکھا ہوا گلاب کا پھول
بس لفافے میں بھیج دینا تم
میری تشنہ محبتوں کے نام
موسمِ گُل کا آخری پیغام
 

تیشہ

محفلین
جب زبان پر چپُ کے تالے لگ جائیں
تو دل میں اُٹھنے والے طوفاں
اندر ہی اندر توڑ پھوڑ کرتے رہتے ہیں
ذہن میں اُٹھتی سوچیں
وجود کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں
آنکھوں میں بننے والے عکس دھندلے ہوکر
پلکوں کے پار کہیں گمُ ہوجا تے ہیں
تو پھر الفاظ یونہی کاغذ پر اُترنے لگتے ہیں

جن کو تم شعر ‘ کہتے ہو ۔ ۔ ۔ !
اسے ہم ‘ عذاب ِ شعور کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top