اجنبی سی راہوں کا
اجنبی مسافر ایک
مجھ سے پوچھ بیٹھا ہے
راستہ بتا دو گے
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر سن
راستہ کوئی بھی ہو
واسطہ کوئی بھی ہو
منزلیں نہیں ملتیں
منزلیں تو دھوکہ ہیں
منزلیں جو مل جائیں
جستجو نہیں رہتی
زندگی کو جینے کی
آرزو نہیں رہتی
آغاز یوں ہوا تھا
اس نے گلاب بھیجا
میں نے کتاب کھولی
اور اس میں رکھ دیا وہ
سب سے اسے چھپایا
انجام یہ ہوا ہے
کچھ خشک پتیاں ہیں
تھوڑی سی ہے مہک بھی
بس اور کچھ نہیں ہے
میں بہت ہی بزدل تھا
اور کم سخن سا بھی
تو بہت بہادر تھی
اور جانِ محفل بھی
صد ہزار لوگوں کے
تنہا دل کی دھڑکن بھی
میں بہت ہی بزدل تھا
اتنا بھی نہ کہہ پایا
تُجھ پہ میری جاں واری
تو بہت ہی ہے پیاری
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو، اور جو نہ چاہو نہ کہو