شادی جسم و جان اور قسمت و سر نوشت کا ملاپ ہے،

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
ملن اور بندھن کي محفل نکاح ميں ايک طرف اپنے احساسات و نشاط سے بھرپور عفت و حيا کي چادر ميں لپٹي ہوئي ناز و سرور اور محبت سے سرشار اور اپني آرزوں کے ساتھ زندگي کے نئے سفر اور نئے راستے پر نظريں جمائے دُلہن موجود ہوتی ہے تو دوسري جانب اميد و شوق اور مصمم ارادوں کا مالک، عشق سے لبريز اور زندگي کے نشيب و فراز والي اس نئي اور طويل راہ پر اپني منزل کي جانب خوف و اضطراب کے ساتھ نظريں جمائے ہوئے دولہا ہوتا ہے۔ تو تيسري جانب خوشي و مسرت ميں ڈوبے ہوئے والدين کہ جن کي آنکھوں ميں خوشي کے آنسو ان کي محبت و شفقت کے بھرپور احساسات کي عکاسي کر رہے ہوتےہيں،
انسان کي طبع اور جبلّت اپنے ’’جوڑے‘‘ کي متلاشي ہے جب کہ جان و دل ميں موجزن يہ دريائے پُر تلاطم صرف ’’ہمسر‘‘ اور ’’ہم رتبہ اور ہم پلہ‘‘ ہي سے ساکن ہو سکتا ہے، بے قرار روح ’’اُس‘‘ کے بغير پھيکے پن اور خلا کا احساس کرتي ہے۔ اللہ بھي ان ميں سے ہر ايک کو دوسرے کے بغير پسنديدہ نگاہوں سے نہيں ديکھتا ہے جب کہ پيغمبر اکرم صلی علی علیہ وسلم نے ’’شادي‘‘ کو اپني سنت، رضائے الٰہي تک پہنچنے کي راہ اور نصف دين کو محفوظ کرنے کا وسيلہ قرار ديا ہے۔زندگي ايک طولاني سفر ہے کہ جس ميں مختلف منزليں ہيں ليکن اس کا ايک بلند بالا ہدف بھي ہے۔ زندگي ميں انسان کا ہدف يہ ہونا چاہيے کہ وہ اپنے اور ديگر موجوداتِ عالم کے وجود کو اپنے معنوي کمال کے لئے استعمال کرے۔ ۔
حقيقت تو يہ ہے کہ ہم اس دنيا کے لئے خلق نہيں ہوئے ہيں۔ ہم نے دنيا ميں اس حالت ميں قدم رکھا ہے کہ ہميں اس ميں آنے کا کوئي اختيار نہيں تھا۔ ہم اس دنيا ميں ايک ايسے بچے کي مانند ہيں جو دوسروں سے اثر ليتا ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ہماري عقل رُشد پيدا کرتي ہے اور ہم اختيار اور انتخاب کي قدرت کے مالک بن جاتے ہيں۔ يہ وہ جگہ ہے
کہ جہاں لازمي ہے کہ انسان صحيح انداز سے سوچے، صحيح چيز کا انتخاب کرے اور اپنے اُس انتخاب کے مطابق قدم اٹھائے اور آگے بڑھے! اگر انسان اس فرصت کو غنيمت جانے اور اس دنيا کے چند دنوں سے کہ جب تک وہ يہاں ہے، بہترين استفادہ کرے تو وہ اپنے آپ کو کمال تک پہنچا سکتا ہے اور جس دن اِس دنيا سے رخصت ہو گا تو وہ اُس شخص کي مانند ہو گا کہ جو زندان سے رہائي پاتا ہے اور يہيں سے حقيقي زندگي کا آغاز ہوتا ہے۔
شادي کہ جسے اللہ تعالی نے (انساني رشد و کمال کے لئے بہترين) روش و طريقہ قرار ديا ہے اور انساني خلقت بھي اسي کا تقاضا کرتي ہے، اللہ تعالی کے اسرار ميں سے ايک سِرّ، اس کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور حيات بشري کے مظاہر ميں سے ايک ناقابلِ اجتناب مظہر ہے۔ ايسا ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالی آسماني قوانين ميں شادي کو لازم اور واجب يا جائز قرار ديتا اور لوگوں کو چھوڑ ديتا کہ وہ (ازروئے ناچاري يا ازروئے اختيار) شادي کريں۔ ليکن اس نے يہ کام نہيں کيا بلکہ ’’ازدواج‘‘ کو ايک ’’قدر‘ ‘ (value) قرار ديا ہے يعني جو بھي رشتہ ازدواج ميں منسلک نہيں ہو گا وہ خود کو اس فضيلت سے محروم کر دے گا۔
اسلام کي رُو سے گھر بسانا ايک فريضہ ہے اور يہ ايسا عملي فريضہ ہے کہ مرد و عورت مل کر اس کام کو ايک ’’خدائي امر‘‘ اور ايک ’’وظيفے‘‘ کے تحت انجام ديں۔ اگرچہ کہ ’’شادي‘‘ کو شرعاً زمرہ واجبات ميں (براہ راست) ذکر نہيں کيا گيا ہے ليکن اسلامي تعليمات ميں اس امر کے لئے اتني توجہ اور ترغيب دلائي گئي ہے کہ انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس امر کے لئے کتنا اصرار کرتا ہے۔
يہ اصرار صرف ايک کام کو معمولي طور سے انجام دينے کے لئے نہيں ہے بلکہ ايک يادگار واقعے اور انساني زندگي اور معاشرے پر تاثير گزار امر کي حيثيت سے اس پر توجہ دي گئي ہے، لہٰذا اسي لئے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے بندھن پر اتني زيادہ ترغيب دلائي گئي ہے اور ’’جدائي‘‘ اور ’’دوري‘‘ کو مذمت کي نگاہ سے ديکھا گيا ہے۔ خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہا زندگي کو پسنديدہ نگاہ سے نہيں ديکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ جو نوجوان ہوں اور شادي اور گھر بسانے کي دہليز پر کھڑے ہو کر بھي تنہائي کو ترجيح ديں۔ ايک مرد اور عورت کا تمام زندگي اکيلے زندگي گذارنا، اسلام کي نگاہ ميں کوئي مطلوب چيز نہيں ہے۔ ايسا انسان، معاشرے ميں ايک بيگانے موجود کي مانند ہے۔ اسلام کي خواہش يہ ہے کہ ايک گھرانہ، انساني معاشرے کي ايک حقيقي اکائي ہو نہ کہ ايک اکيلا انسان۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ ’’نکاح ميري سنت ہے‘‘۔ البتہ، تخليق انساني کي ايک خاص روش ہے اور تمام انسانوں اور تمام اقوام و اديان ميں يہ روش رہي ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۰ نے کيوں فرمايا کہ يہ ميري سنت ہے؟ آخر اس کو اپني سنت قرار دينے اور اپنے رفتار و عمل سے مخصوص کرنے کے کيا اسباب ہيں؟ شايد يہ سب اس جہت سے ہو کہ اسلام نے گھر بسانے کے لئے بہت زيادہ تاکيد کي ہے جب کہ دوسري شريعتوں اور اديان ميں شادي پر کم تاکيد کي گئي ہے۔
اسلام نے ’’شادي‘‘اور ’’گھر بسانے‘‘ پر جو تاکيد کي ہے کہ وہ دنيا کے کسي بھي مکتبِ فکر اور دنيا ميں رائج کسي بھي فلسفے اور سياست ميں موجود نہيں ہے۔ اسلام اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکياں اس سن و سال ميں شادي کريں کہ جس ميں وہ (جسماني و عقلي طور پر) شادي کے قابل ہوجائيں۔ نکاح، فطري تقاضے کو پورا کرنے کے علاوہ ايک ديني اور اسلامي سنت بھي ہے۔۔
(1)
نایاب
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
کہتے ہیں جواني کے زمانے کي شادي دراصل ’’وقت سے پہلے کِھلنے والا پھول‘‘ ہے کہ جو جلد ہي مرجھا جاتا ہے ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر شادي اور اس کے فلسفے کو صحيح طور پر درک کيا جائے اور يہ صحيح طور پر انجام پائے تو جو اني کي شادياں اچھي اور بہت پائيدار ثابت ہوتی ہیں ور ايسے خاندان ميں مياں بيوي مکمل طور پر ايک دوسرے کے سچے دوست اور اچھے جيون ساتھي ثابت ہوتے ہیں ۔
اسلام کي يہي خواہش ہے کہ يہ مقدس امر اپنے صحيح وقت پر کہ جب اِس کي ضرورت محسوس کي جائے جتنا جلدي ممکن ہو، انجام پائے بہتر ہے۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اوّلاً، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے دامن ميں چھپي ہوئي خير و برکات اپنے صحيح وقت پر انسان کو حاصل ہوں گي قبل اس کے کہ زمانہ گزرے يا اس کي زندگي کا بہترين حصہ گزرجائے۔ دوسري بات يہ کہ وقت پر شادي جنسي انحرافات اور بے راہ روي کا راستہ روکتي ہے۔ لہٰذا حديث ميں ارشاد ہوا ہے کہ ’’مَنْ تَزَوَّجَ اَحرَزَ نَصْفَ دِيْنِہِ‘‘ ١ (جس نے وقت پر شادي کي اس نے اپنا نصف دين محفوظ کر ليا)۔
شادي کي برکتيں اور فوائدرشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر ايک دوسرے کا شريک حيات اور جيون ساتھي بننا اور ’’خوشحال گھرانے‘‘ کي ٹھنڈي فضا ميں سانس لينا دراصل زندگي کے اہم ترين امور سے تعلق رکھتا ہے۔ شادي، مرد اور عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون اور مل جل کر زندگي کي گاڑي کو خوش دلی کے ساتھ چلانے کا ايک وسيلہ ہے۔ يعني ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے، اطمينان قلب اور ايک ’’غمخوار‘‘ و ’’مونس‘‘ کي تلاش کا وسيلہ ہے کہ جس کا وجود مياں بيوي کي مشترکہ زندگي کا جزوِلا ينفک ہے۔ شادي، انسان کي جنسي، شہوتي اور جبلّتي جيسي فطري ضرورتوں کا مثبت جواب دينے کے علاوہ توليد نسل اور صاحب اولاد ہونے جيسي زندگي کي بڑي خوشيوں کو بھي اپنے ہمراہ لاتي ہے۔
نکاح دو اجنبيوں اور مختلف ماحول و خاندان کے لڑکے لڑکي کو ايک دوسرے سے ملا ديتے ہيں۔ يوں يہ آپس ميں اس طرح شير و شکر ہو جاتے ہيں کہ يہ پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے لئے محرم، ايک دوسرے کے سب سے نزديک اور مہربان و غمخوار بن جاتے ہيں۔۔ مياں بيوي کے درميان محبت و خلوص اور ايثار و فدا کاري کا يہ رشتہ اور معاشرے ميں گھرانے کي ’’اکائي‘‘ کي تشکيل دراصل مرد و عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون، کمال اور اُن کي شخصيت کے رشد اور پختگي ميں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب کے بغير مرد کا وجود بھي ناقص ہے اور عورت کا وجود بھي نا مکمل رہتا ہے۔ اگريہ گھرانہ، صحيح و سالم اور محبت و خلوص کي فضا ميں تشکيل پائے تو يہ معاشرے کے موجودہ اور آئندہ حالات پر اثر انداز ہو گا۔
اللہ تعالی نے انساني جوڑے کو اس کي جنس (انسانيت) سے ہي قرار ديا ہے يعني عورت کا جوڑا مرد اور مرد کا جوڑا عورت کو قرار ديا ہے تا کہ ’’لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ يعني يہ انسان خواہ مرد ہو يا عورت، اپنے مياں يا بيوي سے آرام و سکون حاصل کرے۔ يہ آرام و سکون دراصل باطني اضطراب کي زندگي کے پُر تلاطم دريا سے نجات و سکون پانے سے عبارت ہے۔ زندگي ايک قسم کا ميدان جنگ ہے اور انسان اسميں ہميشہ ايک قسم کے اضطراب و پريشاني ميں مبتلا رہتا ہے لہٰذا يہ سکون بہت اہميت کا حامل ہے۔ اگر يہ آرام و سکون انسان کو صحيح طور پر حاصل ہو تو اس کي زندگي سعادت و خوش بختي کو پا لے گي، مياں بيوي دونوں خوش بخت ہو جائيں گے، اور اس گھر ميں پيدا ہونے والے بچے بھي بغير کسي نفسياتي دباو اور الجھن کے پرورش پائيں گے اور خوش بختي ان کے قدم چومے گي ۔ صرف مياں بيوي کے باہمي تعاون، اچھے اخلاق و کردار اور پُرسکون ماحول سے اس گھرانے کے ہر فرد کے لئے سعادت و خوش بختي کي زمين ہموار ہو جائے گي۔ زندگي کي کڑي دھوپ ميں ايک ٹھنڈي چھاوں جب مياں بيوي دن کے اختتام پر يا درميان ميں ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں تو دونوں ايک دوسرے سے يہي اميد رکھتے ہيں کہ انہوں نے گھر کے ماحول کو خوش رکھنے، اسے زندہ بنانے اور تھکاوٹ اور ذہني الجھنوں کو دور کر کے اسے زندگي گزارنے کے قابل بنانے ميں اپنا اپنا کردار موثر طريقے سے ادا کيا ہوگا۔ ان کي ايک دوسرے سے توقع بالکل بجا ہے۔ انسان کي زندگي ميں مختلف ناگزير حالات و واقعات کي وجہ سے طوفان اٹھتے ہيں جس ميں وہ ايک مضبوط پناہ گاہ کا متلاشي ہوتا ہے۔ مياں بيوي کا جوڑا اس طوفان ميں ايک دوسرے کي پناہ ليتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے مضبوط بازوں کا سہارا لے کر اپنے محفوظ ہونے کا احساس کرتي ہے اور مرد اپني بيوي کي چاہت و فدا کاري کي ٹھنڈي چھاوں ميں سکھ کا سانس ليتا ہے۔ مرد اپني مردانہ کشمکش والي زندگي ميں ايک ٹھنڈي چھاوں کا ضرورت مند ہے تا کہ وہاں کي گھني چھاوں ميں تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنا سفر شروع کرے۔ يہ ٹھنڈي چھاوں اسے کب اور کہاں نصيب ہو گي؟ اس وقت کہ جب وہ اپنے گھر کي عشق و الفت، مہرباني اور محبت سے سرشار فضا ميں قدم رکھے گا، جب وہ اپني شريکہ حيات کے تبسّم کو ديکھے گا کہ جو ہميشہ اس سے عشق و محبت کرتي ہے، زندگي کے ہر اچھے و بُرے وقت ميں اس کے ساتھ ساتھ ہے، زندگيکے ہر مشکل لمحے ميں اس کے حوصلوں ميں پختگي عطا کرتي ہے اور اسے ايک جان دو قالب ہونے کا احساس دلاتي ہے۔ يہ ہے زندگي کي ٹھنڈي چھاوں۔ بيوي بھي اپني روز مرہ کي ہزاروں جھميلوں والي زنانہ زندگي ميں (صبح ناشتے کي تياري، بچوں کو اسکول کے لئے تيار کرنا، گھر کو سميٹنا اور صفائي، دوپہر کے کھانے کي تياري، بچوں کي اسکول سے آمد اور دوپہر کاکھانا کھلانا، سلانا، نماز، شام کي چائے، شوہر کي آمد اور رات کے کھانے کي فکر جيسي ديگر) دسيوں مشکلات اور اور مسائل کا سامنا کرتي ہے، خواہ وہ گھر سے باہر کام ميں مصروف ہو اور مختلف قسم کي اجتماعي اور سياسي فعاليت کو انجام دے رہي ہو يا گھر کي چار ديواري ميں گھريلو کام کاج ميں عرقِ جبيں بہا رہي ہو کہ اس کے اندرون ِ خانہ کام کي زحمت و سختي اور اہميت گھر سے باہر اُس کي فعاليت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے۔ ايک صنف ِ نسواں اپني لطيف و ظريف روح کے ساتھ جب ان مشکلات کا سامنا کرتي ہے تو اسے پہلے سے زيادہ آرام و سکون اور ايک مطمئن شخص پر اعتماد اور تکيہ کرنے کي ضرورت ہوتي ہے۔ ايسا شخص کون ہے؟ وہ اس کے وفادار شوہر کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ ! انسان مشين تو نہيں ہے ! انسان کوئي گاڑي يا مشين تو نہيں ہے، انسان روح (اور جسم) سے مرکب ہے، وہ معنويت کا طالب، ہے، وہ ہمدردي و مہرباني اور ايثار و فدا کاري کے جذبات و احساسات کا نام ہے اور وہ زندگي کي کڑي دھوپ ميں آرام و سکون کا متلاشي ہے اور آرام و سکون صرف گھر کي فضا ميں ہي اسے ميسر آ سکتا ہے۔ گھر کے ماحول کو آرام دہ ماحول ہونا چاہيے۔ مياں بيوي ميں ايک دوسرے کے لئے موجود ہمدردي اور ايثار و محبت کے يہ احساسات ان کے اندروني سکون ميں اُن کے مددگار ثابت ہوتے ہيں۔ اس آرام و سکون کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنے کام کاج کو متوقف اور فعاليت کو ترک کر دے، کام کاج اور فعاليت بہت اچھي اور ضروري ہے۔ اس آرام و سکون کا تعلق دراصل زندگي کي مشکلات و مسائل سے ہے۔ انسان کبھي کبھي اپني زندگي ميں پريشان ہو جاتا ہے تو اس کي بيوي اسے سکون ديتي ہے اور مرد اپنے مضبوط بازوں سے بيوي کے وجود کو سنبھالتا اور اسے سہارا ديتا ہے تا کہ اسے آرام مل جائے۔ يہ سب اسي صورت ميں ممکن ہے کہ جب گھر کي فضا اور ماحول آپس کي چپقلش، لڑائي جھگڑوں، باہمي نا اتفاقي اور مشکلات کا شکار نہ ہو۔​
محتاج دعا
نایاب
 
اسلام و علیکم نایاب ،

آپ کی تحریر پڑھی اور اچھی لگی ، اور ہم تو شادی کے پہلے ہی قائل تھے آپ کی تحریر سے تو اب دل کرتا ہے بندہ ایک بار پھر سے جرآت کرے اور ان کوتاہیوں کا مداوا کرے جو پہلے پہل اناڑی پن میں‌سرزد ہو گئیں۔ اب بس ہماری بیگم کی نظر نا پڑے ہماری اس جرآتِ‌رندانہ پہ ۔

خوش رہیے۔

واسلام
 

مغزل

محفلین
شکریہ نایاب صاحب بہت اچھی تحریر ہے اگر دوسرا حصہ پہلی تحریرکا حصہ ہے تو اسے پہلے مراسلے میں شامل کردیں۔
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ نایاب صاحب بہت اچھی تحریر ہے اگر دوسرا حصہ پہلی تحریرکا حصہ ہے تو اسے پہلے مراسلے میں شامل کردیں۔
السلام علیکم
محترم م- م- مغل جی
توجہ سے نوازنے کا شکریہ۔
اللہ سدا آپ کو اپنی رحمتوں سے نوازے آمین
ابھی تو نہ جانے کتنے حصے باقی ہیں۔
جیسے جیسے وقت ملے گا ۔۔ لکھتا جاؤں گا۔
محترم مغل جی اگر یہ صاحب کی جگہ بھائی لگا دیا کریں تو مشکور و ممنون ۔۔
محتاج دعا
نایاب
 

جاسمن

لائبریرین
اِس موضوع پہ ایسی جامع تحریروں کا فقدان ہے۔ آپ نے کمال لکھا ہے۔بہت جامع ،بہت خوبصورت۔متفق ہوں سب باتوں سے۔
آپ کے پاس خیالات تو کمال کے ہیں،الفاظ بھی جمال کے ہین:)
اِس جمال و کمال کو سلام
کنجوسی کیوں کرتے ہیں نایاب بھائی لکھنے میں؟؟؟
اور مہربانی فرما کے شمشاد بھائی کو لانے کی کوشش کریں۔ہم انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ محفل میں ان کے جانے کے بعد ایک خلا ہے جو بھرتا نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
کنجوسی کیوں کرتے ہیں نایاب بھائی لکھنے میں؟؟؟
میری محترم بٹیا
آپ پر سلامتی ہو سدا
یہ میری ذاتی تحریر نہیں ہے ۔ یہ کسی سائٹ سے کاپی کی تھی ۔
آج دوبارہ نگاہ پڑی ہے ۔ لنک تلاشوں گا ۔ ان شاء اللہ

شمشاد بھائی کو لانے کی کوشش کریں۔
شمشاد بھائی سے رابطہ نہیں ہو رہا ۔ میرے پاس ان کا فون نمبر تھا لیکن فون کے ساتھ ہی لاپتہ ہو گیا ۔
ویسے کوشش جاری ہے ۔ ان شاء اللہ رابطہ ہوجائے گا ۔
بہت دعائیں
 
Top