شاخ ِ جاں پر کوئی کلی چٹخے ...

La Alma

لائبریرین

شاخ ِجاں پر کوئی کلی چٹکے
ہو بہاراں ، کہ زندگی چٹکے

جب سے ٹھوکر پہ رکھی ہے منزل
گردِ رہ سے بھی رہبری چٹکے

ہم ہیں بیزار اس محبت سے
کیوں عبث دل میں عاشقی چٹکے

کیسے پت جھڑ میں گُل کوئی کھلتا
اور ضد تھی ہمیں ، ابھی چٹکے

خاک پر رکھیں گر جبینِ ناز
کیا عجب مہرِ بندگی چٹکے

کشتِ انساں کی آبیاری سے
نخلِ آدم پہ آدمی چٹکے

اے غمِ ہجر، تیرے ہی دم سے
غنچِہِ شعر و شاعری چٹکے
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
لا علمہ ، مقام تو چٹکنے کا ہے. معلوم ہوتا ہے لکھنے میں چٹکے کی بجائے چٹخے لکھا گیا ہے
ویسے تو چٹکنے یا کھلنے کے متبادل کے طور پر لیا ہے .لیکن اس کا ایک معنی تڑخنا بھی نکلتا ہے لہٰذا چٹکنا کر دینا ہی بہتر ہے .
 

نایاب

لائبریرین
جب سے ٹھوکر پہ رکھی ہے منزل
گردِ رہ سے بھی رہبری چٹکے
واہہہہہہہہ
بہت خوب محترم بٹیا
بہت سی دعاؤں کے ہمراہ بصورت داد
lailma1.jpg

بہت دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بہت خوب محترم بٹیا
بہت سی دعاؤں کے ہمراہ بصورت داد
lailma1.jpg

بہت دعائیں
نایاب بھائی آپ کا تہہِ دل سے شکریہ .
"نخلِ آدم پہ آدمی چٹکے " کی عکاس تصویر....
کہیں رقصِ عالم سے متاثر ہو کر انتقامًا ابنِ آدم کو انگلیوں پر تو نہیں نچوایا جا رہا :)
 

نایاب

لائبریرین
کہیں رقصِ عالم سے متاثر ہو کر انتقامًا ابنِ آدم کو انگلیوں پر تو نہیں نچوایا جا رہا :)
محترم بٹیا
شاعر شاعری کہتا ہے اس کا اپنا مشاہدہ ہوتا ہے ۔
جسے اس کے وجدان نے الفاظ کی صورت دی ہوتی ہے ۔
قاری تک جب پہنچتی ہے یہ شاعری تو قاری کا وجدان اسے اپنے مشاہدے کی صورت مجسم کرتا ہے ۔
یہ میرا شوق ہے ۔ کچھ لفظ لیکر گوگل چاچا کو دیتا ہوں جو تصویر پسند آتی ہے ۔ اس پر لکھ لیتا ہوں ۔
ابن آدم تو حقیقت میں انگلیوں پر ہی رقص کرتا ہے ۔۔۔۔۔ بلاشک
بہت دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
غنچے اور کلیاں چٹکتی ہیں، ہر چیز نہیں چٹکا کرتی۔ یہاں تک کہ گل کے لیے بھی چٹکنا غلط ہے۔ ردیف اگر واقعی پسند ہی ہے تو کوئی اور غلطی تو نہیں ہے غزل میں۔
 

La Alma

لائبریرین
غنچے اور کلیاں چٹکتی ہیں، ہر چیز نہیں چٹکا کرتی۔ یہاں تک کہ گل کے لیے بھی چٹکنا غلط ہے۔ ردیف اگر واقعی پسند ہی ہے تو کوئی اور غلطی تو نہیں ہے غزل میں۔

شکریہ . سر یہ درست ہے کہ لغوی معنوں میں اس ردیف کا استعمال کئی جگہوں پر بعید از حقیقت ہے مگر متشاعروں کے لیے بعید از خیال تو نہیں .
 

فاخر رضا

محفلین
شاخ ِجاں پر کوئی کلی چٹکے
ہو بہاراں ، کہ زندگی چٹکے

جب سے ٹھوکر پہ رکھی ہے منزل
گردِ رہ سے بھی رہبری چٹکے

ہم ہیں بیزار اس محبت سے
کیوں عبث دل میں عاشقی چٹکے

کیسے پت جھڑ میں گُل کوئی کھلتا
اور ضد تھی ہمیں ، ابھی چٹکے

خاک پر رکھیں گر جبینِ ناز
کیا عجب مہرِ بندگی چٹکے

کشتِ انساں کی آبیاری سے
نخلِ آدم پہ آدمی چٹکے

اے غمِ ہجر، تیرے ہی دم سے
غنچِہِ شعر و شاعری چٹکے
استاد کے اسی تبصرے کی امید تھی مگر آپ پلیز لکھتی رہیں. کچھ لوگ روایت سے بغاوت کرنے والے بھی ہونے چاہئیں. ہمیشہ مشہور کی تقلید میں ہی فتوی نہیں آنا چاہیے
 

La Alma

لائبریرین
استاد کے اسی تبصرے کی امید تھی مگر آپ پلیز لکھتی رہیں. کچھ لوگ روایت سے بغاوت کرنے والے بھی ہونے چاہئیں. ہمیشہ مشہور کی تقلید میں ہی فتوی نہیں آنا چاہیے
ارے ایسا بلکل بھی نہیں جیسا آپ سمجھے . سب کی رائے میرے لیے نہایت قابلِ احترام ہے .اصلاح ِ سخن میں پوسٹ کرنے کا واحد مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ جہاں جہاں کمی یا کوتاہی ہو اس کی نشان دہی ہو سکے اور بہتری لائی جا سکے .میں نے اصلاح کو کبھی بھی منفی نہیں لیا نہ ہی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ ہے بلکہ میں سب کی بہت مشکور ہوں کہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور امید ہے آئندہ بھی ملتا رہے گا .
آپ کی پسندیدگی کا بھی بہت شکریہ .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ لوگ روایت سے بغاوت کرنے والے بھی ہونے چاہئیں
بھائی روایت سے انحراف کرنا یا بغاوت کرنا تو ٹھیک ہے لیکن روایت کی ایسی تیسی کردینا بالکل مناسب نہیں ۔ براہِ کرم میری اس بات کو اس مذکورہ غزل کے پس منظر مین نہ لیا جائے ۔ میں یہ ایک عمومی بات کررہا ہوں ۔ لاالمہ (درست ہے نا؟!) صاحبہ نے تو محض ردیف نبھانے کی خاطر ہر چیز کو چٹکادیا ہے ۔ لیکن آج کل ہر دوسرا شاعر جدت کے نام پر زبان کو اس طرح توڑمروڑ رہا ہے کہ بخدا کراہت محسوس ہونے لگتی ہے ۔
 
Top