محمد تابش صدیقی
منتظم
سیکھے ہیں "بندروں" کے لیے ہم مصوری
آدمیوں کی عادات و اطوار میں جو بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، اُس پر ’جانور حضرات‘ کو تو شاید ہی کبھی کوئی تشویش ہوئی ہو۔ البتہ یہ آدمی ہی ہیں جو (کسی دوسرے) آدمی کو بگڑتا دیکھ کر (اپنا ہی) منہ بگاڑ لیا کرتے ہیں ۔جانور کھڑے تماشا دیکھتے ہیں کہ:
’’دیکھو تو سہی! کیسا بگڑا ہوا آدمی ہے۔ اچھا خاصا اور ہٹا کٹا ہے۔ نہ صرف آدمی ہے، بلکہ پولیس کا آدمی ہے، سرکار کا آدمی ہے، دربار کا آدمی ہے… ہے بہ ہر صورت آدمی… یعنی شکل صورت سے آدمی … مگر اِس قدر بگڑا ہوا کہ سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘‘۔
اس کے بعد نظیرؔ اکبر آبادی کی نظر سے یہ منظر دیکھتے ہیں کہ … یکسر بگڑ گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی … اور اُس کے بگاڑ کو دیکھ کر:
جو منہ بگاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی!
ہاں تواے صاحبو! ہماری خرابیوں اورہمارے بگاڑ پر ہمارے جانور تو ہمیں کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بُرا نہ بھلا۔ سوچتے ہوں گے کہ انسان اپنی زندگی کو جنت بنائے یا جہنم؟ (اور جب تک ان دونوں آسمانی مقامات میں سے کہیں نہیں جاتا، تب تک) ہماری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ ہمیں کیا؟…نیز… سانوں کی؟
مگر اب سنا ہے کہ جانوروں میں جنم لینے والے علمی، عملی اور فکری بگاڑ پر خود آدمی بلبلا اُٹھا ہے، اِس بگاڑ کا ذمہ دار بھی آدمی ہی کو قرار دیا گیا ہے اور آدمی ہی نے قرار دیا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ کہاں قرار دیا ہے؟ تو کس منہ سے عرض کریں کہ ہمارے ملک میں قرار دیا ہے۔ اب پوچھیے گا کہ ملک میں یہ بگاڑ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟ تو کس منہ سے عرض کریں کہ وہیں، جہاں سے اِس ملک کے تمام آدمیوں میں اور اُن کے کاموں میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے، یعنی ہمارے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں۔ بھائیو! آج کل تو:
آسماں سے جو کوئی تازہ بلا آتی ہے
پوچھتی سب سے مِرے گھر کا پتا آتی ہے
ہمارے قارئین میں سے جو (آدمی ٹائپ) لوگ کبھی اسلام آباد کے’’ مرغزار‘‘ سے اُٹھتی ہوئی سڑک کے رستے ’’دامنِ کوہ‘‘ پر چڑھے ہیں، اُنہوں نے سر راہ، مرگلہ کے پہاڑی اور جنگلی ’بندروں کی بیٹھک‘ کا سلسلہ دیکھا ہو گا۔ اِس خوب صُورت سڑک کے کنارے کنارے جو پتھریلی حفاظتی دیوار بنی ہوئی ہے،جنگلی بندر مرگلہ سے اُتر کر اُسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھولوں کی جھومتی بیلوں کے ساتھ ساتھ (پریوں کی طرح) قطار اندر قطار بیٹھے رہتے ہیں۔ پھر:
سب دیکھ دیکھ اُن کو بجاتے ہیں تالیاں!
بچے خوش ہوتے ہیں، خواتین چیخیں مارتی ہیں(جن کا جواب ویسی ہی چیخوں سے بندر بھی دیتے ہیں… نقلچی کہیں کے!) اس پر اُن کے مرد حضرات (یعنی خواتین کے مرد حضرات) مارے خوشی کے اور احساسِ تشکر سے سرشار ہو کر، اُن کی (یعنی بندروں کی) خاطر تواضع اشیائے خور و نوش سے کرنے لگتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی دن گزرتے ہیں کہ ایک معاصر اخبار میں انہی بندروں کی ایک بڑی دلچسپ کہانی چھپی ہے۔ کوئی صاحب ہیں رچرڈ گارشٹانگ (Richard Garstang) یہ ایک ایسی تنظیم کے تیکنیکی مشیر ہیں جو پاکستان کے نشیبی اور دلدلی علاقوں سے متعلق کوئی پروگرام رکھتی ہے۔ (ہمارے متعلق دنیا کی تمام ’’بندریلو‘‘ طاقتیں کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور رکھتی ہیں)۔ تنظیم کا نام ہے:
Pakistan Wetlands Programme (PWP)
اِس تنظیم کے بندروں کو… معاف کیجیے گا… اس تنظیم کے بندوں کو ہمارے مرگلہ کے بندروں کی فکر کھائے جارہی ہے۔ اُن کے اعمال کی، اُن کے افکار کی، اُن کے کردار کی۔ رچرڈ گارشٹانگ صاحب جو کچھ کہتے ہیں اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے باسی مرگلہ کے بندروں کو چپاتی، نان، پیزا، چپس، بسکٹ ،بن کباب، پاپ کارن، حتیٰ کہ چاکلیٹ بھی کھلا کھلا کر ان کی عادات و اطوار بری طرح بگاڑ رہے ہیں۔ عادات و اطوار ہی نہیں، ان کا کردار بھی بگاڑ رہے ہیں۔ کیوں کہ مرگلہ کے یہ بندر نہ صرف ان پکی پکائی (اور کاربوہائیڈریٹس وغیرہ پر مشتمل) نشاستہ دار غذاؤں کے عادی ہوکر اپنی فطری غذاؤں کو خیر باد کہہ رہے ہیں، بلکہ ان’’ لذیذ لقمہ ہائے تر‘‘ کے لالچ میں روزانہ پہاڑ سے اُتر کر سڑک پر ندیدوں کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ سخی داتا جو کچھ پیش کرتے ہیں اُن پر جھپٹ جھپٹ کر لپکتے ہیں، لپک لپک کر جھپٹتے ہیں اور آپس میں بھی چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ اپنی فطری غذائیں چھوڑ کر انسانی غذائیں کھانے سے ان بندروں کی صحت بھی انسانوں کی طرح خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ (صحبت تو خراب ہو ہی چکی ہے)۔ ڈر ہے کہ اُن کے جسم میں شکر اور نشاستہ کی مقدار بڑھ جائے گی۔ اُن کے دانتوں میں کیڑے لگ جائیں گے۔ اُن کا وزن غیر فطری طور پر بڑھنے لگے گا اور ہوتے ہوتے وہ بھی انسانوں( کی بیویوں ) کی طرح کاہل اور موٹے ہوتے چلے جائیں گے۔ رچرڈ صاحب نے بندروں میں بگاڑ کی بدترین مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
’’میں نے بعض بندروں کو کچرے کے ڈبوں سے بھی اشیائے خورونوش تلاش کرتے دیکھا ہے‘‘۔
غالباً اُنہوں نے انسانوں اور اُن کے بچوں کو اسلام آباد میں یہی کام کرتے نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہے تو اُن کے لیے فکر مند نہیں ہوئے۔ بہرحال رچرڈ صاحب کو فکر ہے کہ کسی دن، کسی شیشے کے کسی ٹکڑے سے، کسی بندر کا ہاتھ کٹ گیا تو اُسے ’لگ پتا جائے گا‘۔ بندر کا زخم آسانی سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ اسے نوچتا رہتا ہے۔نہ مرہم پٹی کرواتا ہے، نہ ATSکا انجکشن لگواتا ہے۔(ابھی اتنا انسان نہیں ہوا)۔
قصہ مختصر یہ کہ PWP کی رپورٹ کی رُو سے مرگلہ کے بندر جو پہلے بڑے نیک چلن،بہت نیک اطوار تھے، اور اپنے اندر شرفِ حیوانیت رکھتے تھے، اب اسلام آباد کے باسیوں کی صحبت اُنھیں خراب کر رہی ہے۔ کم بخت بالکل ہی انسان ہوتے جارہے ہیں۔ اور اُن کے اندر ’انسانیت‘ کے جراثیم جنم لینے لگے ہیں۔
اب ایک دفعہ کا قصہ سنیے۔ ایک روز ہم بھی اپنے بچوں کے ساتھ دامن کوہ جاتے جاتے راستے میں گاڑی رُکواتے ہیں۔ اپنے بچوں ہی کی بگڑی زبان میں چند ’’بنانے‘‘ اور ایک لفافے میں ’’پاپ کارن‘‘ کے دانے تحفہ کے طور پر دے کر ان بندروں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے بہانے اُسی پتھریلی دیوار پر ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھ جاتے ہیں۔ اور مقامی بیوٹی پارلر کی طرف منہ کر کے اُن سے کہتے ہیں:
سیکھے ہیں ’’بندروں‘‘ کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!
پھر بیٹھے بیٹھے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ ہم نے اُٹھ کر انقلابی سیاسی لیڈروں کے سے پُر جوش انداز میں ان بندروں سے ’’منہ زبانی‘‘ خطاب کرنا شروع کردیا:
’’اے اسلام آباد کے مقتدر اور قابلِ احترام بندرو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اس قدر حریص، لالچی اور ندیدے ہو گئے ہو؟‘‘
یہ سن کر اُن میں سے ایک فلسفی ٹائپ بندر نے بہت مختصر سا جواب دیا:
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ’تو بس بندرہی‘ ہستم‘‘
(میرے ہم نشیں کے جمال نے مجھ میں اثر کر دیا ہے، ورنہ میں تو بس بندر ہی ہوں)۔ ہم بوکھلا کر فوراً ان کے پہلو سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
رچرڈ گارشٹانگ صاحب نے اسلام آباد کے بندروں سے جو اظہارِ ہمدردی کیا ہے، اُن کے ساتھ جس یکجہتی اور جس ’بھائی چارے‘ کا مظاہرہ کیا ہے وہ اُنھی کو زیبا ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی کسی خاص انسانی نسل کا ذکر آیا ہے، جسے انسان سے بندر بنادیا گیا تھا۔ شاید اب تک اس کے جینز باقی ہیں۔ہمارے کالمی دانشور جہاں اتنی بہت ساری تحقیق کرتے رہتے ہیں، وہاں ذرا سی تحقیق اس بات کی بھی کر لیں کہ مذکورہ نسل اب …’ کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے؟‘…ایک رچرڈ گارشٹانگ صاحب ہی پر بس نہیں، چارلس ڈارون صاحب نے بھی بندروں کے ساتھ اپنی فطری، جبلی، شعوری اور لاشعوری جینیاتی عقیدت و احترام کا اظہار بڑی سوچ بچار سے کیا تھا اور گارشٹانگ صاحب سے بڑھ کر کیا تھا۔ ڈاروِن صاحب نے تو مارے عقیدت کے اور بجا طور پر بندروں کو اپنے آباء و اجداد میں بھی شمار کرلیا تھا۔ کیا خبر کہ مسٹر ڈاروِن پر کیا کیا گزری تھی اور کسے معلوم کہ اُن پر کیسا کیسا آبائی وقت آن پڑا تھا کہ اُنھوں نے( ویسا) ’وقت پڑنے پر بندروں کو باپ بنالیا‘۔ یہ منظر دیکھ کر اکبرؔ اِلہٰ آبادی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کہنے لگے:
کہا شدّاد نے خدا ہوں میں
ڈاروِن بولا بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مِرے اِک دوست:
’’فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست‘‘
(یعنی ہرشخص کی فکر ی بلندی اُتنی ہی ہوتی ہے جتنی بلندی تک جانے کی اُس میں ہمت ہو)
نئے پڑھنے والوں کو معلوم ہو کہ اہلِ فارس بندر کو ’بوزنا‘ کہتے ہیں۔ صاحب! کیا خوب کرتے ہیں۔ انہیں ایسا کرتے ہی رہنا چاہیے!
٭
احمد حاطب صدیقی
آدمیوں کی عادات و اطوار میں جو بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، اُس پر ’جانور حضرات‘ کو تو شاید ہی کبھی کوئی تشویش ہوئی ہو۔ البتہ یہ آدمی ہی ہیں جو (کسی دوسرے) آدمی کو بگڑتا دیکھ کر (اپنا ہی) منہ بگاڑ لیا کرتے ہیں ۔جانور کھڑے تماشا دیکھتے ہیں کہ:
’’دیکھو تو سہی! کیسا بگڑا ہوا آدمی ہے۔ اچھا خاصا اور ہٹا کٹا ہے۔ نہ صرف آدمی ہے، بلکہ پولیس کا آدمی ہے، سرکار کا آدمی ہے، دربار کا آدمی ہے… ہے بہ ہر صورت آدمی… یعنی شکل صورت سے آدمی … مگر اِس قدر بگڑا ہوا کہ سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘‘۔
اس کے بعد نظیرؔ اکبر آبادی کی نظر سے یہ منظر دیکھتے ہیں کہ … یکسر بگڑ گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی … اور اُس کے بگاڑ کو دیکھ کر:
جو منہ بگاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی!
ہاں تواے صاحبو! ہماری خرابیوں اورہمارے بگاڑ پر ہمارے جانور تو ہمیں کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بُرا نہ بھلا۔ سوچتے ہوں گے کہ انسان اپنی زندگی کو جنت بنائے یا جہنم؟ (اور جب تک ان دونوں آسمانی مقامات میں سے کہیں نہیں جاتا، تب تک) ہماری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ ہمیں کیا؟…نیز… سانوں کی؟
مگر اب سنا ہے کہ جانوروں میں جنم لینے والے علمی، عملی اور فکری بگاڑ پر خود آدمی بلبلا اُٹھا ہے، اِس بگاڑ کا ذمہ دار بھی آدمی ہی کو قرار دیا گیا ہے اور آدمی ہی نے قرار دیا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ کہاں قرار دیا ہے؟ تو کس منہ سے عرض کریں کہ ہمارے ملک میں قرار دیا ہے۔ اب پوچھیے گا کہ ملک میں یہ بگاڑ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟ تو کس منہ سے عرض کریں کہ وہیں، جہاں سے اِس ملک کے تمام آدمیوں میں اور اُن کے کاموں میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے، یعنی ہمارے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں۔ بھائیو! آج کل تو:
آسماں سے جو کوئی تازہ بلا آتی ہے
پوچھتی سب سے مِرے گھر کا پتا آتی ہے
ہمارے قارئین میں سے جو (آدمی ٹائپ) لوگ کبھی اسلام آباد کے’’ مرغزار‘‘ سے اُٹھتی ہوئی سڑک کے رستے ’’دامنِ کوہ‘‘ پر چڑھے ہیں، اُنہوں نے سر راہ، مرگلہ کے پہاڑی اور جنگلی ’بندروں کی بیٹھک‘ کا سلسلہ دیکھا ہو گا۔ اِس خوب صُورت سڑک کے کنارے کنارے جو پتھریلی حفاظتی دیوار بنی ہوئی ہے،جنگلی بندر مرگلہ سے اُتر کر اُسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھولوں کی جھومتی بیلوں کے ساتھ ساتھ (پریوں کی طرح) قطار اندر قطار بیٹھے رہتے ہیں۔ پھر:
سب دیکھ دیکھ اُن کو بجاتے ہیں تالیاں!
بچے خوش ہوتے ہیں، خواتین چیخیں مارتی ہیں(جن کا جواب ویسی ہی چیخوں سے بندر بھی دیتے ہیں… نقلچی کہیں کے!) اس پر اُن کے مرد حضرات (یعنی خواتین کے مرد حضرات) مارے خوشی کے اور احساسِ تشکر سے سرشار ہو کر، اُن کی (یعنی بندروں کی) خاطر تواضع اشیائے خور و نوش سے کرنے لگتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی دن گزرتے ہیں کہ ایک معاصر اخبار میں انہی بندروں کی ایک بڑی دلچسپ کہانی چھپی ہے۔ کوئی صاحب ہیں رچرڈ گارشٹانگ (Richard Garstang) یہ ایک ایسی تنظیم کے تیکنیکی مشیر ہیں جو پاکستان کے نشیبی اور دلدلی علاقوں سے متعلق کوئی پروگرام رکھتی ہے۔ (ہمارے متعلق دنیا کی تمام ’’بندریلو‘‘ طاقتیں کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور رکھتی ہیں)۔ تنظیم کا نام ہے:
Pakistan Wetlands Programme (PWP)
اِس تنظیم کے بندروں کو… معاف کیجیے گا… اس تنظیم کے بندوں کو ہمارے مرگلہ کے بندروں کی فکر کھائے جارہی ہے۔ اُن کے اعمال کی، اُن کے افکار کی، اُن کے کردار کی۔ رچرڈ گارشٹانگ صاحب جو کچھ کہتے ہیں اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے باسی مرگلہ کے بندروں کو چپاتی، نان، پیزا، چپس، بسکٹ ،بن کباب، پاپ کارن، حتیٰ کہ چاکلیٹ بھی کھلا کھلا کر ان کی عادات و اطوار بری طرح بگاڑ رہے ہیں۔ عادات و اطوار ہی نہیں، ان کا کردار بھی بگاڑ رہے ہیں۔ کیوں کہ مرگلہ کے یہ بندر نہ صرف ان پکی پکائی (اور کاربوہائیڈریٹس وغیرہ پر مشتمل) نشاستہ دار غذاؤں کے عادی ہوکر اپنی فطری غذاؤں کو خیر باد کہہ رہے ہیں، بلکہ ان’’ لذیذ لقمہ ہائے تر‘‘ کے لالچ میں روزانہ پہاڑ سے اُتر کر سڑک پر ندیدوں کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ سخی داتا جو کچھ پیش کرتے ہیں اُن پر جھپٹ جھپٹ کر لپکتے ہیں، لپک لپک کر جھپٹتے ہیں اور آپس میں بھی چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ اپنی فطری غذائیں چھوڑ کر انسانی غذائیں کھانے سے ان بندروں کی صحت بھی انسانوں کی طرح خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ (صحبت تو خراب ہو ہی چکی ہے)۔ ڈر ہے کہ اُن کے جسم میں شکر اور نشاستہ کی مقدار بڑھ جائے گی۔ اُن کے دانتوں میں کیڑے لگ جائیں گے۔ اُن کا وزن غیر فطری طور پر بڑھنے لگے گا اور ہوتے ہوتے وہ بھی انسانوں( کی بیویوں ) کی طرح کاہل اور موٹے ہوتے چلے جائیں گے۔ رچرڈ صاحب نے بندروں میں بگاڑ کی بدترین مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
’’میں نے بعض بندروں کو کچرے کے ڈبوں سے بھی اشیائے خورونوش تلاش کرتے دیکھا ہے‘‘۔
غالباً اُنہوں نے انسانوں اور اُن کے بچوں کو اسلام آباد میں یہی کام کرتے نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہے تو اُن کے لیے فکر مند نہیں ہوئے۔ بہرحال رچرڈ صاحب کو فکر ہے کہ کسی دن، کسی شیشے کے کسی ٹکڑے سے، کسی بندر کا ہاتھ کٹ گیا تو اُسے ’لگ پتا جائے گا‘۔ بندر کا زخم آسانی سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ اسے نوچتا رہتا ہے۔نہ مرہم پٹی کرواتا ہے، نہ ATSکا انجکشن لگواتا ہے۔(ابھی اتنا انسان نہیں ہوا)۔
قصہ مختصر یہ کہ PWP کی رپورٹ کی رُو سے مرگلہ کے بندر جو پہلے بڑے نیک چلن،بہت نیک اطوار تھے، اور اپنے اندر شرفِ حیوانیت رکھتے تھے، اب اسلام آباد کے باسیوں کی صحبت اُنھیں خراب کر رہی ہے۔ کم بخت بالکل ہی انسان ہوتے جارہے ہیں۔ اور اُن کے اندر ’انسانیت‘ کے جراثیم جنم لینے لگے ہیں۔
اب ایک دفعہ کا قصہ سنیے۔ ایک روز ہم بھی اپنے بچوں کے ساتھ دامن کوہ جاتے جاتے راستے میں گاڑی رُکواتے ہیں۔ اپنے بچوں ہی کی بگڑی زبان میں چند ’’بنانے‘‘ اور ایک لفافے میں ’’پاپ کارن‘‘ کے دانے تحفہ کے طور پر دے کر ان بندروں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے بہانے اُسی پتھریلی دیوار پر ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھ جاتے ہیں۔ اور مقامی بیوٹی پارلر کی طرف منہ کر کے اُن سے کہتے ہیں:
سیکھے ہیں ’’بندروں‘‘ کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!
پھر بیٹھے بیٹھے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ ہم نے اُٹھ کر انقلابی سیاسی لیڈروں کے سے پُر جوش انداز میں ان بندروں سے ’’منہ زبانی‘‘ خطاب کرنا شروع کردیا:
’’اے اسلام آباد کے مقتدر اور قابلِ احترام بندرو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اس قدر حریص، لالچی اور ندیدے ہو گئے ہو؟‘‘
یہ سن کر اُن میں سے ایک فلسفی ٹائپ بندر نے بہت مختصر سا جواب دیا:
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ’تو بس بندرہی‘ ہستم‘‘
(میرے ہم نشیں کے جمال نے مجھ میں اثر کر دیا ہے، ورنہ میں تو بس بندر ہی ہوں)۔ ہم بوکھلا کر فوراً ان کے پہلو سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
رچرڈ گارشٹانگ صاحب نے اسلام آباد کے بندروں سے جو اظہارِ ہمدردی کیا ہے، اُن کے ساتھ جس یکجہتی اور جس ’بھائی چارے‘ کا مظاہرہ کیا ہے وہ اُنھی کو زیبا ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی کسی خاص انسانی نسل کا ذکر آیا ہے، جسے انسان سے بندر بنادیا گیا تھا۔ شاید اب تک اس کے جینز باقی ہیں۔ہمارے کالمی دانشور جہاں اتنی بہت ساری تحقیق کرتے رہتے ہیں، وہاں ذرا سی تحقیق اس بات کی بھی کر لیں کہ مذکورہ نسل اب …’ کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے؟‘…ایک رچرڈ گارشٹانگ صاحب ہی پر بس نہیں، چارلس ڈارون صاحب نے بھی بندروں کے ساتھ اپنی فطری، جبلی، شعوری اور لاشعوری جینیاتی عقیدت و احترام کا اظہار بڑی سوچ بچار سے کیا تھا اور گارشٹانگ صاحب سے بڑھ کر کیا تھا۔ ڈاروِن صاحب نے تو مارے عقیدت کے اور بجا طور پر بندروں کو اپنے آباء و اجداد میں بھی شمار کرلیا تھا۔ کیا خبر کہ مسٹر ڈاروِن پر کیا کیا گزری تھی اور کسے معلوم کہ اُن پر کیسا کیسا آبائی وقت آن پڑا تھا کہ اُنھوں نے( ویسا) ’وقت پڑنے پر بندروں کو باپ بنالیا‘۔ یہ منظر دیکھ کر اکبرؔ اِلہٰ آبادی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کہنے لگے:
کہا شدّاد نے خدا ہوں میں
ڈاروِن بولا بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مِرے اِک دوست:
’’فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست‘‘
(یعنی ہرشخص کی فکر ی بلندی اُتنی ہی ہوتی ہے جتنی بلندی تک جانے کی اُس میں ہمت ہو)
نئے پڑھنے والوں کو معلوم ہو کہ اہلِ فارس بندر کو ’بوزنا‘ کہتے ہیں۔ صاحب! کیا خوب کرتے ہیں۔ انہیں ایسا کرتے ہی رہنا چاہیے!
٭
احمد حاطب صدیقی