سید لبید غزنوی کی ڈائری سے ۔۔

آپ اپنے آپ کو سمجھدار سمجھیں مگر دوسرے کو بےوقوف سمجھنے کی سمجھداری سے پرہیز کریں زندگی بغیر ڈگریوں کے چل سکتی ہے، زندگی ایک ہی کپڑے کو سو دفعہ پہن کے گزاری جا سکتی ہے، زندگی دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھا کر بھی چل سکتی ہے لیکن زندگی بغیر عزت کے نہیں گزر سکتی، ہمیشہ اُس شخص کو اپنے قریب رکھو اور چُنو جو آپ کو عزت دے سکے اور آپ پر لازم ہے کہ وہی عزت وہی احترام بمعہ منافع اسے واپس لوٹاؤ۔کامیابی اور سلامتی کی ڈھیروں دعائیں آپ سب کیلئے، اللہ کریم آپ سب ہمیشہ خوش و خرم اور صحت و ایمان کی بہترین حالت میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
 
میں ایسے لوگ ڈھونڈ رہا ہوں جن کے ماضی نے انہیں توڑ دیا ہو جن کی خواہشیں دم توڑ چکی ہوں اور وہ جینا بھول چکے ہوں ایسے لوگ زندگی کی حقیقت سمجھتے ہیں وہی جانتے ہیں درد کیا ہوتا ہے اور ایسے لوگ کسی کے جذبات سے نہیں کھیلتے
 
جب غم کا سخت اور تکلیف دہ موسم ےم پہ گزرے تو تم سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ اپنی حالت کا مطالعہ کرو،
کہ تمہارا بہت سا دکھ تمہارا اپنا انتخاب ہے اور در حقیقت ایک کڑوی دوا ہے جو تمہارے نفسی خفی کر امراض کا علاج کرنے کیلٸے تمہارا طبیب تمہیں پلاتا ہے۔
پس طبیب پہ بھروسہ کرو، اور اس کی دوا خاموشی اور قلب سکون کے ساتھ پی جاٶ،واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ،اللہ کو یقین کے ساتھ پکارو۔۔۔۔
صرف کہنا ہے لفظ کُن تُونے
صرف لگنا ہے لمحہ بھر مولا..
خوش رہٰیے۔۔۔۔
 
آپ جب بھی کمزور پڑنے لگو ، بس اتنا سوچ لیا کرو، کہ آپ کے ساتھ جو ہو رہا ہے ، بس اتنا ہی ہے جتنا آپ برداشت کر سکتے ، کبھی اللّٰہ آپ کو برداشت سے زیادہ بڑے امتحان میں نہیں ڈالتا اور وہ جو بھی کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ آپ کے لئے بہتر ہے تو کبھی مایوس مت ہونا ، جب بھی لگے اب کمزور پڑنے لگے ہیں ، اللہ سے باتیں کرنا ، نماز میں ، قرآنِ پاک کی تلاوت کے ذریعے ، بے شک وہ سب مشکلات کو آسانیوں میں بدلنے والا ہے ، بس کبھی مایوس ہو کر اس سے مانگنا مت چھوڑنا ، کیونکہ وہ عطا ضرور کرتا ہے ، اپنے بندے کی طلب دیکھتا ہے ، اسے جس کا رونا ، جس کا مانگنا پسند آجائے تو وہ کہتا ہے کہ یہ اور مانگے رو رو کر مانگے ، ضرور دونگا ، اور بے شک وہ رحیم ہے کریم ہے عطا کرنے والا رب ہے ❤
 
خاندانی نااتفاقیاں اور بدگمانیاں
کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی نااتفاقیاں، بدگمانیاں اور غلط فہمیاں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے- یہاں تک کہ خونی رشتے بھی بکھر کر رہ جاتے ہیں- سبھی اپنی انا کا پاس رکھنا چاہتے ہیں- آج کل ہر کسی کو رشتوں سے زیادہ اپنے حق پر ہونے کی فکر لاحق ہوتی ہے- کوئی یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ تھوڑی عاجزی دکھانے سے مسئلہ حل ہو سکتا- ساری نااتفاقیاں، بدگمانیاں ختم ہو سکتی، قیمتی رشتوں کو بچایا جا سکتا ہے- لیکن افسوس ہم اپنی اپنی اناوں کے جال میں کچھ اس طرح پھنس چکے ہیں کہ اسے توڑ کر باہر نکالنا ناممکن سا لگتا ہے...
مجھے افسوس ہے، ہمارے معاشرے کے بڑوں پر ان کی اس چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی سزا چھوٹوں کو سہنی پڑتی ہے- میں ہم سب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم کیا سبق دے رہے ہیں ہماری آنے والی پیڑھی کو، کہ جہاں اپنی اور اپنی انا کی بات آئے جائے چاہے کوئی بھی رشتہ توڑ دو اسے! دفعہ دور کر دو- ہمیں ایسا کر دیکھ وہ ننھی پیڑھی کس طرح سہی غلط میں فرق کر پائے گی-
جب والدین اپنے بچوں کے سامنے اپنے ہی بہن، بھائیوں اور رشتہ داروں کی برائیاں کر رہے ہوتے ہیں، تو دراصل وہ ان کے معصوم ذہنوں میں نفرت کے بیج بو رہے ہوتے ہیں
▬▬▬▬▬▬▬▬
 
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں
نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوںخطرہ ہے خوں خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میںبک نہ سکیں گے حسرت و ارمان اونچی سجی دکانوں میں
خطرہ ہے بات ماروں کو
مغرب کے بازاروں کو
چوروں کو مکاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
امن کا پرچم لے کر اٹھو
ہر انسان سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب ،
سارے جہاں سے پیار کروخطرہ ہے درباروں کو
شاہوں کے غم خواروں کو
نوابوں ، غداروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

حبیب جالب
 
ایک خاص چیز کو حاصل کرنے کے لیۓ ہم ڈھیروں دعائیں کرتے، اسباب تیار کرتے، ہاتھ پاؤں مارتے لیکن پھر بھی وہ چیز مل ہی نہیں رہی ہوتی۔۔۔
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ آخر ایسا کیوں ، سب کچھ تو کرنے کی کوشش کر رہا میں ، پھر کیوں یہ چیز مجھے نہیں دی جا رہی۔۔۔
مجھے یوسف علیہ سلام کے واقعہ نے سمجھایا کہ
جب انہوں نے اپنے ساتھی قیدی جو کہ آذاد ہونے والا تھا، سے کہا کہ یہاں سے نکل کر میرا ذکر اپنے آقا سے کرنا
جانتے ہیں، اسکے بعد وہ مزید چند سال قید ہی میں رہے ۔۔۔
پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ انجانے میں یوسف علیہ سلام اسباب پر بھروسہ کرنے لگے، انکا مقصد تو بس ذریعہ بنانا تھا ، مگر وہ ذریعہ پر بھروسہ کر بیٹھے۔
ہم بھی یہی کرتے ۔۔۔
ہم اسباب پر بھروسہ کرتے۔
خود کو اللہ کے حوالے کر دیں،
پورے کا پورا
اللہ پاک سے کہہ دیں ۔۔۔یہ میرے مسائل ہیں ، میں دعا بھی کر رہا اور کوشش بھی ، لیکن یہ آپ کی کن کے محتاج ہیں
اور انہیں آپ ہی نے حل کرنا ، میں اسکی طاقت نہیں رکھتا
یقین کریں کہ پھر آپ کے معاملات اللہ تعالی ایسے ہینڈل کریں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے
ان شاءاللہ العظیم۔۔۔۔۔۔
 
میرا کامل ایمان ھے کہ دعا سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں سچے دل سے نکلی دعا اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں ضرور قبول ھوتی۔اللہ پاک ہم سب کی جائز حاجات و عبادات صیام و قیام قبول فرمائے اللّٰہ تعالٰی آپ سب کا حامی و ناصر ھو۔اللہ سب کے گناھوں کو معاف فرمائے۔سب کی مشکلات حل کرے۔اور زندگی میں آنے والے دنوں میں زندگی کے لمحات کو سب کے لیے آسان کردے یا اللہ تمام انسانوں کی جائز نیک دعائیں قبول فرما۔اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھ ہدایت کی راہ پر ثابت قدم رکھنا۔آمین یا رب العالمين
 
چھتری پاس ہونے کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ یہ بارش کو ہی روک لے گی...!
چھتری تو انسان کو بارش میں کھڑا ہونے کا سہارا دیتی ہے۔
بالکل اسی طرح ہی تو "اعتماد" ہُوا کرتا ہے جو انسان کو کامیابی تو نہیں دے دِیا کرتا ہاں مگر کامیابی حاصل کرنے کیلئے ڈٹے رہنے کا موقع ضرور دِیا کرتا ہے...!
 
کانوں کا کچا ہونا ایسا مرض ہے جو جذباتی پن کی بیماری کا باعث ہے اور یہ بیماری ایسی ہولناک ہے کہ اسکی آگ اکثر اوقات رشتوں کو چند لمحات میں جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور پھر ساری عمر کی خوشیوں کو سلگھا سلگھا کر بے مزہ اور بے معنی کر دیتی ہے۔۔۔۔
 
جب اللہ رب العزت نے قرآن میں کہہ دیا کہ اولاد دینا میرا کام ہے تو لوگ اس بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتے میاں بیوی کی ذاتی زندگی بے اولادی کے طعنوںسے اس قدرمتاثر ہوتی ہے کہ ان کو اپنا جینا ہی بے مقصد لگنے لگتا ہے اللہ کی مصلحت ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ اولاد دے دے آپ ہمدردی نہ کیجئے بلکہ دعا کیجئے کہ اللہ رب العزت سب بے اولاد جوڑوں کو نیک وصالح اولاد دے-آمین! اللہ جس کو چاہے ۔بیٹا عطا کرے اور جسے چاہے ۔بیٹی۔ اور جسے چاہے دونوں ملا کر دے۔ اور جسے چاہے بانجھ کر دے
 
میں نے کبھی أن لوگوں کا سوگ نہیں منایا جو میری زندگی میں اب نہیں رہے۔
میں رب کا اس بات پر شکر ادا کرتا ہوں کہ أس نے مجھے لوگوں کی حقیقت دیکھا دی۔
کئی لوگ ہماری محبتوں اور توجہ کے قابل نہیں ہوتے اور ہم أن پر اپنے خالص محبت بھرے جذبات کا خزانہ لٹائی جاتے ہیں اور وہ ہمارے آستین میں چٔھپے سانپ کی طرح جب موقع ملے ڈس لیتے ہیں۔
رب سے دعا ہے کہ وہ ہمیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
آمین یارب العالمین۔
 
سب سے اہم ترین کام جنہیں کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرنی چاہیے وہ
اپنے تمام پچھلے گناہوں پر دِلی ندامت، شرمندگی اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ کرنی ہے۔
زندگی نے جو موقع دیا ہے اسے غنیمت جانیں اور اپنے گناہوں پر معافی کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال اور عقائد کی اصلاح کریں
یہ موقع کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے۔۔۔۔ابھی توبہ کیجئے اور تمام گناہوں سے پاک ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیجئے۔
 
یا اللہ میری اولاد میرے ساتھ بالکل ویسا ہی رویہ اور برتاؤ کرے جیسا میں اپنے والدین کے ساتھ کرتا ہوں...! کیا اس دعا پر آمین کہتے ہوئے آپکی زبان لڑکھڑا رہی ہے؟دل گھبرا رہا ہے؟ تو پھر والدین کے ساتھ اپنے لہجے، رویہ، اور سلوک پر نظر ثانی کریں، اگر وہ زندہ ہیں تو ان کی ہر جائز بات مان کر انکا دل جیتیں، اگر وہ دنیا سے جا چکے تو ایصالِ ثواب اور انکے قریبی دوستوں عزیزوں سے حسن سلوک کرکے انکو راضی کرلیں، اور والدین کو راضی کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن وقت گزر گیا تو پچھتائیں گے، کیونکہ جو آج بوئیں گے، وہ کل ضرور کاٹیں گے
 
پہلے رونا آتا تھا اُن تمام تکلیفوں کو سوچ کر جو میں نے سہی ہیں،،، لیکن اب "شکریہ" ادا کرتا ہوں تکلیفوں کا،،، ٹھوکروں کا، اور تجربات کا جنھوں نے اللّٰہ سبحان و تعالٰی کے ساتھ میرے ربط کو مضبوط کردیا، اور مجھے یہ سمجھا دیا کہ یہ سبھی تکلیفیں ہمیں آزمانے کیلئے ہوتی ہیں، ہمیں مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے ہوتی ہیں،،، ہمارے اندر جو کمی بیشی ہوتی ہیں، اُن کی کفالت کرنے کیلئے ہوتی ہیں،،، ہمیں عاجز بنانے کیلئے ہوتی ہیں،،،ہمیں اللّٰہ کی عدالت میں سرخرو کرنے کیلئے ہوتی ہیں.

اِن تکلیفوں نے مجھے اللّٰہ کے قریب جانے کا پتہ دیا ہے،،، اور اِس سے بڑھ کر کسی شخص کیلئے خوش نصیبی کیا ہوگی کہ وہ اللّٰہ کا قُرب ہی پا لے۔۔۔!!!
 
خوشی
ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے ملکر، عزیز رشتہ داروں سے ملکر، نیکی کرکے، کسی کا راستہ صاف کرکے، کسی کی مدد کرکے۔ خربوزہ میٹھا نکل آیا، تربوز لال نکل آیا، آم لیک نہیں ھوا، ٹافی کھا لی، سموسے لے آئے، جلیبیاں کھا لیں، باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا، پاس ھوگئے، میٹرک کرلیا،ایف اے کرلیا، بی اے کر لیا، ایم اے کرلیا، کھانا کھالیا، دعوت کرلی، شادی کرلی، عمرہ اور حج کرلیا، چھوٹا سا گھر بنا لیا، امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا، بہن کیلئے جیولری لے لی،بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں نانے نانیاں بن گئے دادے دادیاں بن گئے سب کچھ آسان تھا اور سب خوش تھے.
پھر ھم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی، بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے، پوزیشن کیا آئے، نمبر کتنے ھیں، جی پی اے کیا ھے، لڑکا کرتا کیا ھے، گاڑی کونسی ھے، کتنے کی ھے، تنخواہ کیا ھے، کپڑے برانڈڈ چاھیئں یا پھر اس کی کاپی ھو، جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست انڈسٹری بن گئی.
ھم سے ھمارے دور ھوگئے
شاید ھی ھمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ھو پر ان کو ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ھیں، سب پتہ ھے، گھر کتنے کنال کا ھو، پھر آرچرڈ سکیمز آگیئں، گھر اوقات سے بڑے ھوگئے، اور ھم دور دور ھوگئے، ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹرسائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے، سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے پھر ان کے بل بجلی کا بل، پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل، پھر بچوں کی وین، بچوں کی ٹیکسی، بچوں کا ڈرائیور، بچوں کی گاڑی، بچوں کے موبائل، بچوں کے کمپیوٹر، بچوں کے لیپ ٹاپ، بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، جہاز، فاسٹ فوڈ، باھر کھانے، پارٹیاں،پسند کی شادیاں، دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر، جم، پارک، اس سال کہاں جائیں گے، یہ سب ھم نے اختیار کئے اور اپنی طرف سے ھم زندگی کا مزا لے رھے ھیں کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ھے۔ جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔
اپنی زندگی کو سادہ بنائے
تعلق بحال کیجئے، دوست بنایئے، دعوت گھر پر کیجئے، بے شک چائے پر بلائیں، یا پھر مولی والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے، دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے، واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، لنکڈ ان، ٹی وی،خبریں، ڈرامے، میوزک، یہ سب دوری کے راستے ھیں آمنے سامنے بیٹھئیے، دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔ یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ھے بلکہ مفت، اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ھے جس کیلئے ھم اتنی محنت کرتے ھیں، اور پھر حاصل کرتے ھیں۔ خوشی ھرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاوں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔ بس محسوس کرنے کی بات ھے ،چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔ھمسائے کی بیل تو بجائیے ملئے مسکرائیے، بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔ پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پیتے تھے، ایک سیگریٹ سے سب کش لگاتے تھے،اور چھپاتے تھے۔ کباب انڈے والا برگر جس کو بند پلستر کہتے تھے بانٹ کر کھاتے تھے۔ بل ملکر ادا کیجئے، مہنگی جگہ بلا کر کسی غریب کا استحصال مت کیجئے،
کراچی کوئٹہ چائے والے، بندر روڈ، ناظم آباد، حیدری، کیفے پیالہ، برنس روڈ، لیاقت آباد، اب بھی کراچی میں ہی ہیں، جبکہ پرانی انارکلی، جین مندر بھی وھیں لاھور میں ھی ھے، ارم کیفے، میلوڈی، آبپارہ اسلام آباد میں اسی جگہ ھیں۔ سب اپنی پرانی جگہوں پر دوستوں کو بلائیے، اور پرانے رشتہ ناموں کو جوڑیئے!
ھم نے کیا کرنا ایسےچائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ھے۔ آؤ وھاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ھی چائے بنتی ھے ملائی مارکے، چینی ھلکی پتی تیز۔
آو پھر سے خوش رھنا شروع کرتے ھیں۔
 
یہاں سب ایک دوسرے سے بنا کر رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو بنا کے بھی رکھتے ہیں، اندر نفرت کے زہر سے بھری پوٹلیوں کے انبار لگے ہوتے ہیں، لیکن لہجوں سے شہد ٹپکتا ہے، ملتے وقت تمہیں کچھ اس انداز سے اپنی بانہوں میں لیں گے کہ ماں کی گود یاد آ جائے گی، لیکن جونہی انہیں محسوس ہو گا کہ تم ان سے آگے بڑھ رہے ہو، وہی بانہیں تمہیں ایسے بھینچیں گی کہ تمہارا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا، اقتدار اور طاقت کے جتنے بھی کھیل یہاں کھیلے جاتے ہیں انکے کوئی رولز نہیں ہوتے انکا ایک ہی گول ہوتا ہے اوپر سے اوپر جانا، اب چاہے وہ کسی کے سر پر پیر رکھ چڑھنا پڑے یا دل پر.... کچھ وقت لگا ہے سب کچھ سیکھ جائیں گے..
 
وہ زندگی ہی کیا جسے دشمن نصیب نہ ہو، وہ جہد ہی کیا جسے غدار نصیب نہ ہو، وہ مزاج ہی کیا جسے تنقید نصیب نہ ہو، وہ چال ہی کیا جسے عداوتیں نصیب نہ ہو، وہ علم ہی کیا جسے تحقیر نصیب نہ ہو، وہ شہرت ہی کیا جسے حسد نصیب نہ ہو، وہ درد ہی کیا جسے سنگ دلی نصیب نہ ہو، وہ خودی ہی کیا جسے متکبر نصیب نہ ہو، وہ قدم ہی کیا جسے انگارے نصیب نہ ہوں، وہ آنکھ ہی کیا جسے آنسو نصیب نہ ہو، وہ دل ہی کیا جسے خنجر نصیب نہ ہو، وہ پشت ہی کیا جسے تیر نصیب نہ ہو، وہ جگر ہی کیا جسے مکاری نصیب نہ ہو، وہ احساس ہی کیاجس کے سمندر کو منافقوں کے طوفان نصیب نہ ہوں، وہ زندگی ہی کیا جسے اپنی ہی غلطیاں،اپنا نفاق، اپنے گناہ،اپنی بد تہذیبی و بد اخلاقی نصیب نہ ہو، درد و غم، رنج و کرب کو اپنوں کے وار نصیب نہ ہوں
 
Top