سید لبید غزنوی کی ڈائری سے ۔۔


ہمارا مسلہ یہ کہ ہم زندگی بس " چاھتے ہیں" میں گزار دیتے. جو کچھ " حاصل ہے" اسی پر خوش نہیں ہوتے. عقل ہمیں تب آتی جب حاصل شدہ بھی کھو جاتا. دوسرا ہم جو ہرٹ ہوتے یا کچھ نہ ملنے پر روتے ، تو یہ سب اسی وجہ سے کہ ہم اپنی زندگی کو دوسروں کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں. پھر ہمیں سواے محرومیوں اور احساس کمتری کےاور کچھ نظر نہیں آتا. اور یہی عادت ٹھیک کرنے والی ہے جناب . . ہمیں اپنی نظر سے ، اپنی سوچ و سمجھ سے اور خود کے غور و فکر سے آس پاس دیکھنا چاہیے تبھی ہم خوشیاں ، مسکراہٹیں ، سکوں ، محبتیں، کامیابی وغیرہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
 
زندگی اس قدر بے رحم ہے کہ اپنا دیا ہوا ایک لمحہ بھی واپس نہیں لیتی کبھی کبھی انسان چاہتا ہے اس پل کے کنارے پہ جا کھڑا ہو جہاں سے غلطی ہوئی تھی اور رستہ بدل لے مگر زندگی لینے دینے کے معاملے سے مکر جاتی ہے سب دروازے بند کر لیتی ہے وہاں بس تسلیم کرنا ہوتا ہے سارا بوجھ اٹھا کے چلنا ہوتا ہے چاہے سرخرو ہو جاؤ یا بکھر جاؤ
 
دل ماشاد نور چشم عزیزان من! جب تمہیں لگے لوگوں نے تمہیں تنہا و اکیلا کر دیا ہے تمہاری جانب سے محبت، ہمدردی اور خیرخواہی کے باوجود بھی تمہیں ہی ازیت پہنچے، انکو ضرورت ہو تو تم انکی ضرورت کے پورا کرنے کو فی الفور اپنا سب کچھ لے کر پہنچو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ سب مفقود الخبر ہو جائیں، تو میرے دوست گھبرانا مت، کچھ لوگ پیدا ہی اس لیے کیے جاتے ہیں کہ وہ گرنے والوں کو تھامنے کا وسیلہ بن جائیں انکا وجود دنیا والوں کے لیے رحمت اور نفع کا باعث بن جائے، انکی مخلوق خدا سے محبت کا فائدہ پتہ ہے کیا ہوتا ہے، ایسوں کو خدا گرتے وقت کسی دوسرے کی انگی نہیں تھماتا بلکہ خود آگے بڑھ کر انہیں تھام لیتا ہے
 
زندگی اس قدر بے رحم ہے کہ اپنا دیا ہوا ایک لمحہ بھی واپس نہیں لیتی کبھی کبھی انسان چاہتا ہے اس پل کے کنارے پہ جا کھڑا ہو جہاں سے غلطی ہوئی تھی اور رستہ بدل لے مگر زندگی لینے دینے کے معاملے سے مکر جاتی ہے سب دروازے بند کر لیتی ہے وہاں بس تسلیم کرنا ہوتا ہے سارا بوجھ اٹھا کے چلنا ہوتا ہے چاہے سرخرو ہو جاؤ یا بکھر جاؤ

اللہ کریم مجھے سرخرو کر دے یہ جو جمعرات اور جمعہ کا دن ہے تو رحمت مگر یہ مجھے کھینچ کے لے جاتا ماضی میں... مگر میں خوش ہوں قطع رحمی جیسا بدترین گناہ مجھ سے نہیں ہوا.. میں خوش ہوں اس بات پر کہ بے وفائی میں نے نہیں کی... میں خوش ہوں کہ میں نے راستہ نہیں بدلا.. وہ محبت ہی کیا جس میں درد اور کرب نہ ہو ازیت اور تکلیف نہ ہو.
 
دل کو بچائیے

آپ اپنے دل کو خیر کے کاموں میں مشغول رکھیں ورنہ آپ کا دل اپنے لئے کوئی اور مشغولیت ڈھونڈ لے گا۔
کیونکہ نفس کا میلان علی الشر، یعنی برائی کی طرف مائل ہوتا ہے اور یہ قرآن سے بھی ثابت ہے۔
پس جو دل فارغ ہوتا ہے تو خالی دل گناہوں کی طرف جاتا ہے اور اس میں وسوسے، وہم اور برے خیالات جنم لیتے ہیں۔
تو دل کو گناہوں کی طرف مائل ہونے سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ دل کو خیر کے کام میں مشغول کیا جائے۔ اور وہ خیر کا کام اللہ کا ذکر ہے جس کے لیے کوئی بھی وقت مقرر نہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اذکر اللہ ذکرا کثیرا
"اپنے رب کا بہت ہی ذکر کیا کرو."
تو جو دل اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے اس دل میں پریشانیاں، وہم اور معصیت کے تقاضے جنم نہیں لیتے۔
 
کانٹوں والا ایک درخت ہوتا ہے۔ اس کے کانٹے سب کو چبھتے ہیں۔ کانٹوں کو کوئی استعمال نہیں کرتا، مگر اس درخت میں صرف کانٹے ہی تو نہیں ہوتے، پتے ہوتے ہیں، پھل ہوتا ہے، پھول ہوتے ہیں، اس کی جڑیں ہوتی ہیں، تنا ہوتا ہے، لکڑی ہوتی ہے۔ کانٹے نقصان دہ ہوتے ہیں مگر باقی چیزیں تو نہیں۔ تم دیکھو، تمہارے اندر کیا ہے؟ دنیا میں کسی انسان کو صرف خوبیوں یا صرف خامیوں کے ساتھ پیدا نہیں کیا گیا۔ ہر شخص میں دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ مگر جس طرح کوئی اپنے دائیں ہاتھ کا زیادہ استعمال کرتا ہے اور کوئی بائیں ہاتھ کا، اسی طرح کسی کی خامیاں اس کی پرسنالٹی پر غالب آجاتی ہیں اور کسی کی خوبیاں۔
 
المیہ...!
جب درسگاہوں میں اساتذہ کی رہنمائی میں ورائٹی شو منعقد کیے جاتے ہوں، رقص و سرود کے رنگا رنگ پروگرام پیش کیے جاتے ہوں، جب کالجز اور یونیورسٹیوں میں رومانس پروان چڑھتے ہوں، جہاں مغنیہ، رقاصہ اور کھلاڑیوں کو قومی ہیروز قرار دیا جاتا ہو، فلمی اداکار نوجوانوں کے آئیڈیل ہوں، عریانی اور فحاشی کو آرٹ کا نام دیا جاتا ہو، کیا ایسی درسگاہوں سے طلباء بو علی سینا، طنطاوی، ابن الہیثم اور البیرونی بن کر نکلیں گے؟ شیطنیت ملکوتیت کو جنم نہیں دیتی اور زہر پلا کر آپ حیاتِ جاوداں نہیں لا سکتے آج کے طلباء کیا ہیں؟ وہی ہیں جو آپ نے بنا دیا ہے
 
قرآن کی محفل ایک گھاٹ ھے جس سے پانی بھی نصیب والوں کو ملتاھے کچھ لوگوں کو وہ چن لیتاھے اور چن کر اس گھاٹ تک لے آتا ھے
اگر انساں اس گھاٹ کے پانی کی قدر نہ کرے پانی کو ضائع کردے تو اس سے یہ نعمت چھین لی جاتی ھے اسکول توفیق نہیں ملتی اس گھاٹ تک آنے کی
اور جو اس گھاٹ سے خود بھی پانی پیے تو خود تروتازہ ھوگا اور جاکر دوسروں کو پلائے تو دوسرے تازہ دم ھوں گے
کسی کی گرمی کی شدت کو پانی ٹھنڈا کرے گا
بالکل اسی طرح جسطرح قرآن حالات کے مارے شخص کے دل کو ٹھنڈا کرتا ھے
یہ قرآن غذا ھے روح کی روح کو سکون تب ہی ملتا ھے جب یہ پراثر پانی اسکے اوپر گرتا ھے
 
تعلّق ہمیشہ سچ کی بنیاد پر بنائیں۔جھوٹ بول کر، اپنی حقیقت چھپا کر ، جو آپ نہیں، وہ بن کر کسی شخص کو وقتی طور پر تو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر ساری عمر کیلئے خود سے جوڑا نہیں جا سکتا اور نہ اس سے مستقل تعلّق بن سکتا ہے۔آپ کسی کو دھوکہ دے کر حاصل تو کر سکتے ہیں مگر جب حاصل کو آپکی حقیقت کا پتا چلتا ہے تو اس کے بعد آپکا جو بھی حال ہو ، وہ آپ کا اپنا کمایا ہے، اللہ جی ہمیں سچے سُچے اور پکے نمازی بنا دے، بس لے ہی آ اب خوشیاں ہماری ہمارے پاس۔
 
ابھی ہیں کچھ امتحان باقی، فلاکتوں کے نشان باقی۔ قدم نہ پیچھے ہٹیں کہ قسمت، ابھی ہمیں آزما رہی ہے۔ سیاھیوں سے حزیں نہ ہونا، غموں سے اندوہ گیں نہ ہونا۔ انہی کے پردوں میں زندگی کی، نئی سحر جگمگا رہی ہے۔ رئيس اہل نظر سے کہہ دو، کہ آزمائش سے جی نہ ہاریں۔جسے سمجھتے ہو آزمائش، وہی تو بگڑی بنا رہی ہے۔

ان شاء اللہ یہ آزمائش ختم ہونے کو ہے یہ تو اللہ کا وعدہ ہے مشکل کے بعد آسانی ہے، غم کے بعد خوشی ہے، یا رب ہماری خوشیاں اب لے ہی آ ہمارے
 

سین خے

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
۔

لیکن جن کے واسطے میں لکھتا تھا وہ خود دین کے ٹھیکدارتھے۔ ان کے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھت ہے۔ ان کے پاس جو دین ہے وہ خود عمل کے لیے نہیں بلکہ صرف دوسروں کے لیے ہے۔کبھی دل چاہتاہے ان دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے لوگوں کی اصل حقیقتوں سے لوگوں کو آگاہ کردوں تاکہ لوگ انکے فریب سے بچ سکیں ۔لیکن بس ایک بات آڑے آتی ہے کہ میں نہیں چاہتا دنیامیں کسی کو زلیل کرنے میں رسوا کرنے میں میرا تھوڑا سا بھی ہاتھ ہو۔

ہمارا معاشرہ بہت حد تک toxic ہو چکا ہے اور اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ مذہبی ٹھیکیداری کا بھی ہے۔ ٧٠سال گزر چکے ہیں نامعلوم کب ہم اس کینسر کو ڈائیگنوز کر سکیں گے اور کب اس کا علاج شروع کریں گے۔ اب تو صرف مایوسی کا ہی سامنا کرنا رہ گیا ہے۔ امید کوئی باقی بچی نہیں ہے۔

اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے آمین۔ مقابلہ جہاں ممکن ہو ایسے لوگوں کا ضرور کریں۔ اور ان کی باتوں پر توجہ تو دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اپنے آپ کو اتنا طاقتور بنائیں کہ ان کی باتوں پر دھیان ہی نہ دیں۔
 
اگر کسی کے جانے سے آپ کا دل دکھا ہے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آپ کے جذبات اس کے لیے سچے تھے۔ملاوٹ اس میں تھی آپ میں نہیں ۔کوئی بھی جدا ہونے کا درد سہنا پسند نہیں کرتا ۔مگر حقیقت یہ کہ جو ساتھ چلنا شروع کر ے وہ ہمیشہ ہی آپ کے ساتھ چلتا رہے۔مطلبی اور بناوٹی لوگ ’اپنا موڑ ‘ آنے پر مڑ جاتے ہیں اور مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ جسے چھوڑا ہے وہ کہاں پھنس گیا ہے ؟؟

کیسی تلخ بات ہے کوئی محسوس تو کرے انکی اذیت جو جہاں کوئی انہیں چھوڑ کر گیا ہو وہیں پڑے رہتے ہیں اس خواہش میں کہ شاید چھوڑنے والا پلٹ آئے ۔۔!پڑے رہنے سے بھی کوئی پلٹ کر آتاہے ؟ خود کو مطلبی اور بناوٹی لوگوں کی یاد سے باہر نکالیں ۔۔! باہر ایک بہترین زندگی آپکی منتظر ہے
 
ہم لوگوں نے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کرنی چھوڑ دی ہیں ‘ ہم نہیں جانتے کہ ہمار ی ایک مسکراہٹ ‘ ایک درگزر ‘ ہمدری کا ایک کلمہ ‘ مہربانی کا ایک عمل کبھی چھوٹا نہیں ہوتا۔یہ عمل ایک کمزور اور محروم انسان کے دل میں ہمارا وہ عکس قائم کرتاہے جو مدتوں نہیں بھلایا جاتا‘ یہ عکس کبھی ایک انسان تک نہیں رکتا بلکہ روشنی بن کر دوسروں میں منتقل ہوتا رہتا ہے
 
کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی پہلی ترجیح اللہ کی ذات ہوتی ہے ‘جن کی پہلی محبت اللہ ہے ‘ جن کے ہر کام میں ہر بات میں سارے کے سارے معاملات میں ساری کی ساری سوچوں میں اللہ غالب ہوتا ہے ‘ یقین کریں ایسے لوگ بہت پرسکون رہتے ہیں بہت زیادہ ‘ ان کا دل گناہ کی جانب مائل بھی ہوتو اللہ کا خوف اللہ کا ڈر اسکی محبت غالب آجاتی ہے اور وہ انہیں اس گناہ سے روک لیتی ہے ۔ان کے دل میں کسی کی محبت انہیں کمزور کر رہی ہو تو اللہ کی محبت جلدی سے انہیں تھام لیتی ہے اور انہیں مضبوط کر دیتی ہے ۔الحمد للہ اس طرح اسے اللہ کی محبت دنیاکی ٹینشوں سے بے نیاز رکھتی ہے ۔اس لیے اللہ سے اللہ کی محبت مانگا کریں۔
 
جب کوئی آزمائش انسان پر آتی ہے تو وہ اکیلے انسان پر نہیں آتی بلکہ اس سے وابستہ سارے لوگوں پر آتی ہے کہ اس مشکل گھڑی میں کون، کس کا کتنا ساتھ دے رہا ہے ۔
 
میں سوچتا تھا کہ بری زندگی وہ ہوتی ہے جب آپ اکیلے رہ جائیں لیکن نہیں سب سے بری زندگی وہ ہوتی ہے جب آپکے اردگرد کے لوگ آپ کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ اکیلے ہیں رویے عارضی ہوتے ہیں رویوں کے پیچھے زندگی مشکل نہ کریں کیونکہ مِنتوں اور ترلوں سے رشتے کبھی نہیں سنبھلتے

جو جانا چاہتے ہیں انھیں جانے کے لیے رستہ ضرور دیں کوئی بھی شخص دنیا کا آخری شخص نہیں ہوتا اگر آپ نے اپنی عزتِ نفس بچالی ہے تو یقین رکھیں وہ نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آئیں گے کچھ لوگوں کے لیے یہی سزا کافی ہوتی ہے کہ آپ اُنکے سامنے ہوتے بھی اُن کی دسترس سے دور ہوں
 
سچا ہونا اور سچا بن جانا دو یکسر مختلف باتیں ہیں
سچا انسان اس لیے بھی تلخ ہو جاتا ہے کہ دوسرے سچے بن جاتے ہیں۔ سچ پہ ہونے کی جو قیمت ایک انسان کو سچے بن جانے والوں کی وجہ سے چکانا پڑتی ہے وہ سچے بن جانے والوں کو کہیں اور سے جلد یا بدیر اصل یا سود سمیت چکانی ہی پڑتی ہے اس پر حد یہ کہ وہ فنکاریوں سے باز پھر بھی نہیں آتے۔
لیکن اس سارے معاملے میں قصور سچے انسان کے تلخ ہونے کے ساتھ ساتھ ان با اختیار آنکھوں کا بھی ہوتا ہے جو فنکاریوں کو سچا سمجھ کر فیصلے کرتا چلا جاتا ہے اور تلخیاں بڑھتے بڑھتے زہر بن جاتی ہے
 
بل گیٹس کی ہائی سکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر
۔•۔
#پہلا اصول:
زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال لو۔
۔•۔
#دوسرا اصول:
دنیا میں کسی کو تمہاری خود اعتمادی سے کوئی مثبت لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی سے توقع نہ رکھو کہ وہ تمہیں اعتماد دے گا۔ یہ تمہارا اپنا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ تم میں خود اعتمادی ذرا سی بھی پیدا ہوئی ہو، دنیا تم سے توقع کرے گی کہ تم ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرو
۔•۔
۔#تیسرا اصول:
ہائی سکول سے نکلتے ہی تم ہر سال چالیس ہزار ڈالر نہیں کمانے لگو گے۔ اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اس میں بہت وقت لگے گا۔
۔•۔
#چوتھا اصول:
اگر تمہیں شکایت ہے کہ تمہارے ہائی سکول کے ٹیچر بہت سخت ہیں تو انتظار کرو کہ کب جاب ملے، تمہیں اندازہ ہو گا کہ باس کیا بلا ہوتی ہے؟ ٹیچر کا تو پھر بھی ٹنیور ختم ہو جاتا ہے، باس تو زندگی بھر باس ہی رہتا ہے۔ شکایت کرنا بند کرو۔…
 
یاد رکھنا تمہارے اندر سے ہرانے والی ابھرتی آواز تمہاری نہیں یہ شیطانی وسوسہ ہے .. اس سے اللہ کی پناہ طلب کرو .. تمہارا تمہارے رب سے قصہ محبت کا قصہ ہے اور محبت یقین مانگتی ہے .. اور یہ شیطانی آواز اسی یقین کو ڈگمگانے آتی یے .. تمہیں اس مضبوط حصار سے تڑوانے آتی ہے جو تمہاری روح کی بالیدگی کی اصل ضرورت ہے .. اللہ تمہیں ہرانا نہیں چاہتا .. وہ سب سے پہلے تم سے تمہارے نفس پر فتح چاہتا ہے اور پھر اس فتح کو تمہاری عطا بناتا تمہارے یقین کو اس دنیا کی ظلمتوں میں روشنی سا منور کرتا ہے.. تو گھبرانا کیسا .. سفر میں آزمائش سے گزرنا تو سفر کا حصہ ہے .. گزرو گے نہیں تو پہنچو گے کیسے ...تم نگاہ گزرنے پر نہیں گزارنے والے پر رکھو .. سفر آسان.کرنا اسی یقین کا حصہ ہے!

الحمدللہ!
 
Top