سید لبید غزنوی کی ڈائری سے ۔۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک لمبے عرصے بعد دوبارہ محفل کا حصہ بننے پر دل مسرت سے بھر ا ہوا ہے اور شمولیت کے بعد میں چاہتا ہوں ایک لڑی شروع کروں جس میں تمام احباب گرامی اپنے بہترین خیالات کا ۔۔اس لڑی میں پیش کیے گئے مواد پر بھرپور انداز سے اظہار کریں۔

کچھ وضاحت ۔۔

اس لڑی کے اندر میں وہ تحریریں لکھا کروں گاجو گزرے دو سال سے میں اپنی ڈائری میں تحریر کررہا ہوں۔ ان میں سے بعض تحریریں منقولات ہیں جنہیں میں نے اپنے الفا ظ میں کچھ اضافہ یا کچھ کمی ‘ کانٹ چھانٹ‘ الفاظ کو پہلے سے بہتر چناؤ اور ترتیب و درستگی کےبعد لکھا ہے ۔گزرے دو سالوں کا کرب لیے ہوئے ‘ رنج و غم میں لکھی گئی یہ چھوٹی چھوٹی تحریریں اپنے اندر بہت سارے رموز و اسرار لیے ہوئے ہیں۔مجھے امید ہے پڑھنے والے تمام احباب کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔مفاد عامہ کی غرض سے بہت کچھ کہنے کو دل چاہتاہے لیکن اپنے دل پر پتھر رکھ کر لبوں کو سی لیا ہے کسی بھی اس شخص کا نام ذکر نہیں کروں گا جس نے مجھے او ر میرے تمام خاندان کو بے انتہا تکلیفوں سے گزارا۔اور میں بہت کچھ صرف اس نکتہ نظر سے تحریر کرتا رہا کہ شاید کبھی انہیں سمجھ آئے کہ یہ لکھی ہوئی خوبصورت باتیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ عمل کے لیے ہیں ۔لیکن جن کے واسطے میں لکھتا تھا وہ خود دین کے ٹھیکدارتھے۔ ان کے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھتاتھا۔ان کے پاس جو دین ہے وہ خود عمل کے لیے نہیں بلکہ صرف دوسروں کے لیے ہے۔کبھی دل چاہتاہے ان دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے لوگوں کی اصل حقیقتوں سے لوگوں کو آگاہ کردوں تاکہ لوگ انکے فریب سے بچ سکیں ۔لیکن بس ایک بات آڑے آتی ہے کہ میں نہیں چاہتا دنیامیں کسی کو زلیل کرنے میں رسوا کرنے میں میرا تھوڑا سا بھی ہاتھ ہو۔میں ان لوگوں کے تمام عیوب پر بس اس لیے پردہ ڈال رہا ہوں کہ اللہ کریم آخرت میں میرے عیوب کو لوگوں سے سامنے ظاہر نہیں کریں گے ۔یہ تو اللہ کا وعدہ ہے

ساری باتیں تو ان شاء اللہ ہوتی رہیں گی ۔۔ابھی اس لڑی میں شامل کیے جانے والے مواد کے متعلق مزید بات ہو جائے ۔۔۔!احباب گرامی

کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تحریر آپ کی نہیں یہ تو فلاں کی تحریر ہے اس لیے یہ وضاحت کرنا میں نے مناسب خیال کیا ۔بہت سارے الفاظ میرے تحریر کردہ ہیں۔جو گاہے بگاہے میں واتس ایپ گروپس میں شئیر کرتا رہتاہوں جنہیں بہت سارے احباب اپنے ناموں سے اپنے گروپس میں ڈال دیتے ہیں ۔

کی گئی وضاحت کے پیش نظر تمام تحریروں کے نیچے میرا نام موجود ہو گا ۔۔امید ہے ایڈمن حضرات بھی اس لڑی کو کسی اچھی جگہ شامل کریں گے ۔تمام احباب کو اس میں ہر طرح کی بات کرنے کی کھلی اجازت ہے ۔لیکن دین داروں کے متعلق کسی بھی بات میں اگر کوئی بھی مجھ سے سوال کرے گا تو میں پہلے بتادوں ۔معذرت خواہ ہوں کسی بھی قسم کا کوئی جواب نہیں دوں گا۔۔۔یہ خالصتا میرا انکا او راللہ کا معاملہ ہے ۔

ہاں اگر میں کبھی کسی کا نام ذکر کروں گا تو یہ اس کا اصل نام نہیں ہو گا جسے اس تحریر میں مخاطب کیا گیا ہو گا۔۔

اگر کبھی بہت زیادہ تلخ یا ترش الفاظ لکھ بیٹھوں تو امید ہے احباب نظر انداز کریں گے ۔

ان تحریروں میں ماضی کی تلخیاں بھی ہونگی ‘ حسرتیں اور لاحاصل تمنائیں بھی ہونگی ۔ان میں مستقبل کی ٹھنڈی روشن اور حاصل امیدیں بھی ہونگی ۔

زیادہ بڑے نام کی خواہش نہیں ہے ۔ بس یہ تمام تحریریں میرے نام سے زندہ رہیں اور میرےبعد بھی لوگ انہیں پڑھیں اور انہیں کچھ سیکھنے کو ملے ان کے لیے نفع کا باعث ہوں اور وہ میرے لیے بھی دعائیں کر یں جب وہ اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے دعا کرنے کو ہاتھ اٹھائیں۔
 
ہرمنٹ کوئی نا کوئی اس دُنیا سے رُخصت ہو رہا ہے اور اس فانی دُنیا کو اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہے اور اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو رہا ہے ۔ ہم سب اس قطار میں لگے ہوئے مگر انجان بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں پتہ کے ہم سے آگے قطار میں کتنے لوگ ہیں ۔ ہم اس قطار میں پیچھے نہیں جا سکتے ۔ اور نہ ہی اس قطار سے باہر جا سکتے ہیں ۔ اور نہ ہی قطار کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ہم سب کی بار ی مقرر کر دی گئی ہے ‘ تو جب تک ہم اس قطار میں اپنی باری کا انتظار کریں آئیں تب تک اپنے رب سے رشتہ پکا کریں ‘گناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں ‘غریبوں کی مدد کریں‘ نماز کی پابندی کریں‘ لوگوں کو خوشیاں دیں اور ہر کام صاف دل اور اچھی نیت کے ساتھ کریں‘دین داری اختیار کریں ‘ دنیا داری سے بھی ناطہ رکھیں مگر اتنا نہیں کہ دین داری پر دنیا داری غالب آجائے ‘کسی مسئلے کے حل کے لیے بس خود کو ہی عقل کل نہ سمجھیں بلکہ کسی سیانے سے حل معلوم کر لیا کر یں
 
ڈرنا تو مجھے چاہیے بدلتے ہوئے تو میں نے دیکھا ہے،کس بری طرح سے کچلا ہے دل کو اور پاؤں تلے مسلا ہے میرے پورے وجود کو، دل اب بھی ماننے کو تیار نہیں کہ آپ کریں گے ظلم، آپ توڑیں گے رشتہ خود اپنی اس زبان سے جسے میں محبت اور الفت کی بولیاں بولتے تھے ۔ اسی زبان سے میرے ہی خلاف بولیں گے دل آج بھی نہیں مانتا، اور کتنا ظلم کرنا ہے مجھ پر میں سہہ رہا ہوں اور سہتا ہی رہوں گا، معاف کیا آپ کو،دنیا میں لوگوں کو دھوکہ دے ہی لے گے جھوٹ بول کر باتیں بدل کر مفہوم بگاڑ کر بات کچھ کی کچھ بنا کر الزامات لگا کر پاک صاف ہو ہی جائیں گے،آپکو لگتا بس آپکا معاملہ اللہ کی عدالت میں جانا،اور کسی کا نہیں،اپنی تکلیف آزمائش اور میری سزا لگتی ہے، معاف کیا اس دنیا میں بھی یقین رکھیں اُدھر بھی معاف کر دوں گا محبت کرتا ہوں
 
میں بھی دنیا کے کھیلوں سے تھک گیا ہوں... لوگوں کی مکاریاں اور عیاریاں دیکھ دیکھ کر، اور پتھروں سے بھی سخت دلوں اور رویوں کو دیکھ دیکھ کر، کس بری طرح سے رویا تھا معافیاں مانگی تھیں اہنا رشتہ بچانے کو... دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں.. یہ تو دنیا ہے... کوئی بات نہیں معاف کیا.... شاید اسے مجھ پر ظلم کر کے دلی تسکین ملتی ہے... چلیں میں بھی اسکی خوشی کی خاطر سہتا ہی رہوں گا... میرے رب تو سب دیکھ رہا ہے مجھے گرانے میں لوگ کیسے انسانیت سے نیچے گر رہے ہیں ۔تف انکی دین داریوں پر۔صد افسوس ان پر دنیا رکھ لی اور آخرت تباہ کر لی ۔
 
اتنی سی بات ضرور یاد رکھیے گا
کسی کے لیے بھی دل میں نفرت کینہ اور بغض رکھنا دل کو سخت اور مزاج پر تلخ بنانے کا باعث ہے اور مومن کی پہچان ہے اس کے دل کی نرمی اور مزاج حسین ۔ جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دے تو سمجھ لو اب انسانیت ختم ہو گئی ہے
 
دل پاک کیجئے، من صاف کیجئے، بس اچھی بات کیجئے ، چھوٹوں پر شفقت کیجئے، بڑوں کا ادب و احترام کیجئے، کرنا چاہو جو دل کو اچھا، تن کو سُتھرا، من کو اُجلا، وضو کیجئے، قرآن لیجئے، زیارت کیجئے، تلاوت کیجئے، اگر کہیں کبھی، کسی سے پہنچے جو تکلیف آپ کو، صبر کیجئے، برداشت کیجئے، معاف کیجئے، صلح کیجئے، دیکھیں نہ کبھی کسی کی ماں، بہن یا بیٹی کو بری نظر سے، آنکھوں میں حیاء پیدا کیجئے، دل میں خوفِ خدا پیدا کیجئے، کھاتے ہو رزقِ خدا، کرتے ہو پھر تم گناہ، بس کیجئے، ہوش کیجئے، کچھ شرم کیجئے، دل کسی کا ٹوٹ نہ جائے، کوئی بھی اپنا روٹھ نہ جائے، خیال کیجئے، دھیان کیجئے، سب کی عزت کیجئے، سب کا احترام کیجئے، جہاں تک ہوسکے ممکن، کام آئیں دوسروں کے، پڑوسیوں کا خیال کیجئے

سید لبید غزنوی
 
لوگوں کے ذہن کسی کے منفی کردار پہ جلدی یقین کر لیتے ہیں خواہ بہتان بازی یا بغیر ثبوت جھوٹ سے ہی کیوں نہ کسی کی کردار کشی کی جائے، کیوں کرتے ہو ایسا ؟ بتاؤ تو سہی لوگوں کی کردار کشی میں مصروف لوگو، صاحبو انسانیت وہ چیز ہے جو دشمن کو بھی سہارا دینے پر مجبور کر دیتی ہے، اور احساس وہ چیز ہے جس میں غیروں کا دکھ بھی آپ کو اپنا لگتا ہے، اپنے اندر جھانک کر دیکھو کیا انسانیت زندہ ہے؟ کہیں انسانیت مر تو نہیں گئی، اور دیکھو کیا احساس زندہ ہے؟ کہیں کھو تو نہیں گیا.. اگر ایسا ہے تو بڑے گھاٹے کا سودا کیا ہے، خسارے کا سودا کیا ہے، مومن ایسے سودے پر کبھی راضی نہیں ہوتا، اور مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے بعض لوگ اپنا ایمان بھی کھو چکے ہیں
 
الفاظ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں انسانی احساس کی حقیقی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔ انسانی احساس کا بہترین ترجمان انسانی رویے ہیں۔ اگر انسانوں کے باہمی رویے خوبصورت نہ ہوں تو ان کے کہے ہوئے خوبصورت الفاظ بھی ان کے بدصورت رویوں کے زیرسایہ اپنی خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں
 
کچھ ایرے ہیں، کچھ غیرے ہیں، کچھ نتھو ہیں، کچھ خیرے ہیں، کچھ جھوٹے ہیں، کچھ سچے ہیں، کچھ بڈھے ہیں، کچھ بچے ہیں، کچھ ململ ہیں، کچھ لٹھے ہیں، کچھ چیمے ہیں، کچھ چٹھے ہیں، کچھ تِلیر اور بٹیرے ہیں، کچھ ڈاکو اور لٹیرے ہیں، کچھ روٹی توڑ مچھندر ہیں، کچھ دارا، کچھ سکندر ہیں، کچھ اپنی بات کے پکے ہیں، کچھ جیب تراش اُچکے ہیں، کچھ ان میں ہر فن مولا ہیں، کچھ رولا ہیں، کچھ غولا ہیں، کچھ تاک دھنا دھن تاکے ہیں، کچھ الٹے سیدھے خاکے ہیں، کچھ ان میں رنگ رنگیلے ہیں، کچھ خاصے چھیل چھبیلے ہیں، کچھ چورا چوری کرتے ہیں، کچھ سینہ زوری کرتے ہیں، ہر چند بڑے ہشیار ہیں یہ، شہ زور ہیں یہ، سردار ہیں یہ، اب قوم کی خاطر مرتے ہیں، اسلام کا بھی دم بھرتے ہیں

شورش کاشمیری
 
طالبِ حسن پہ تُھو، حسنِ ریا کار پہ تُھو، پیار شطرنج نظر آئے ، تو اُس پیار پہ تُھو، جس کے پلّو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ، ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تُھو، جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کا ٹتی ہو، ایسی تلوار مع۔ صاحبِ تلوار پہ تُھو، شہر آشوب زدہ ، اُس پہ قصیدہ گوئی، گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تُھو، ہجر تخلیقِ جہاں ، وصل ہے بربادیِ وقت، ہجر منظورِ نظر ، خواہشِ دیدار پہ تُھو، سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسّر ہو خوشی، ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تُھو، روزِ اوّل سے جو غیروں کا وفادار رہا، شہرِ بد بخت کے اُس دوغلےکردار پہ تُھو، ہم کو تقسیمِ جہاں اور جھپٹنے کا ہُنر، جس نے سکھلایا ہے اُس دیدہِ بیدار پہ تُھو، زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور، عادلِ شہر ترے عدل کے معیار پہ تُھو، کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تری دانش نے، اے عدو ساز ، تری دانشِ بیمار پہ تُھو
 
اپنی زندگی میں دینا شروع کردیں،کسی کو راستہ، کسی کو علم، کسی کو وقت، کسی کو مشورہ اور کسی ضرورت مند کو اس کی ضرورت کے مطابق کچھ پیسے دے دیں، غیر ضروری خواہشات اور دباؤ سے دور رہیں یاد رکھیں کہ دینےکی خصوصیت تو صرف اللہ پاک کی ہے، جب آپ دینا شروع کر دیتے ہیں تو آپ کی نسبت رب کریم سے جڑ جاتی ہے، پھر آپ پریشانی اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے، جتنا زیادہ آپ دینے والے بنیں گے اتنی زیادہ آپ کی زندگی میں خوشیاں آنا شروع ہو جائیں گی، بس آپ طے کرلیں ہر روز کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور دینا ہے، اللہ کریم ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم کو دینے والوں میں رکھے

آمین یا رب العالمین
 
دنیا کا ہر انسان سوچتا ہے، آئندہ کس قسم کے حالات پیش آئیں گے؟ خواہ مصیبت میں گرفتار ہو یا آرام سے ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں لیٹا ہو، وہ آنے والے وقت کے لیے بے چین رہتا ہے، آرام سے رہ کر بھی آرام سے نہیں رہ سکتا، کبھی اٹھ کر بیٹھتا ہے، کبھی بیٹھ کر لیٹتا ہے، پھر اٹھ کر ٹہلنے لگتا ہے، آنے والا وقت کیسا ہو گا؟ اچھا ہو گا یا برا ہو گا؟ دنیا کے کروڑوں لوگ آنے والے لمحے کے لیے اس قدر بے چین ہوتے ہیں اس قدر تڑپتے ہیں اور اندر ہی اندر پریشان ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ جب وہ آنے والا وقت آ جاتا ہے تو پھر دوسرے آنے والے وقت کے لیے پریشان ہونے لگتے ہیں.... او اللہ کے بندوں اللہ پر توکل کرو اور اس پریشانی کو دل و دماغ سے نکال دو یقیناً اللہ کی طرف آنے والا کل ہمارے لیے پیغام رحمت اور برکت لائے گا بس ایمان و ایقان سے دل کو مضبوط رکھیں
 
وہ کیسی عورتیں تھیں؟ جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں، جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں، صبح سے شام تک مصروف، لیکن مسکراتی تھیں، جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں، دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں، کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں، جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں، محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں، کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں، وہ کیسی عورتیں تھیں؟ میں جب گھر اپنےجاتا ہوں تو فرصت کے زمانوں میں، انہیں ہی ڈھونڈتا پھرتا ہوں، گلیوں اور مکانوں میں، جزدان میں، تسبیح کے دانوں میں، باورچی خانوں میں، مگر اپنا زمانہ ساتھ لیکر کھو گئی ہیں وہ، کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ
 
تم محبت بھی کرتے ہو،انسانوں سے نہیں اشیا سے،تمہیں کثرت عزیز ہے،تم آلائش سے،آرائش سے،آسائش سے،زیبائش سے اُور نمائش سے محبت کرتے ہو،تم فطری جذبات سے محروم ہو چکے ہو،تم اپنے مکان کو سجاتے رہتے ہو،اس میں فانوس روشن کرتےہو،اس میں چراغاں کرتے ہو،مگر تمہارے دل کی دنیا میں چراغاں نہیں،مکان جگمگا رہے ہیں،دل بجھے ہوئے،باہر کا چراغاں دل کا اندھیرا دور نہیں کرسکتا،یہ روشنیاں کیا ہیں،جبکہ اتنا اندھیرا ہے،یہ محفلیں کیا ہیں،روح کے اندر تنہائی چیختی رہتی ہے،یہ انتشار کیا ہے؟سب منتشر ہیں، ایک دوسرے کے پاس رہنے والے ایک دوسرے سے ناشناس کیوں ہیں؟کیا کوئی کسی کو نہیں جانتا؟کیا کوئی کسی کے دل کے قریب نہیں؟کیا کوئی کسی کے اندر نہیں جھانکتا؟ کیا سارے ہی سب سے اجنبی ہیں؟کیا سارے اپنے آپ سے بیگانہ ہیں؟
 
باپ کے بعد جو شخص عورت کے ناز نخرے اٹھاتا ہے وہ اسکا شوہر ہوتا ہےاور یہ بات کچھ خواتین ماننا تو دور کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتیں۔
جو خواتین کہتی ہیں مرد کسی کا نہیں ہوتا صرف اپنی ذات کا ہوتا ہے وہ ذرا حساب لگائیں سارے سال کا کمانے والا کتنے جوڑے بناتاہے۔
اگر شوہر کبھی غصے سے بول دے۔۔
تو خدارا یہ سوچ کر برداشت کرلیا کرو وہ صرف اپنے لیے ہی تو محنت نہیں کرتا تمہاری ضرورتوں کیلیے بھی کرتا ہے۔ پھر یہ تو وہ ہستی ہے
کہ اگر انسان کو سجدہ جائز ہوتا تو اول نمبر اس کا آنا تھا۔ ویسے بھی شوہر دل کے برے نہیں ہوتے بس زبان کے کڑوے ہوتے ہیں۔۔
کامیاب عورت وہ نہیں جو پیسے کماسکے، کامیاب عورت وہ ہے جو گھر کو سنبھال سکے اور گھر کو اپنی قابلیت سے جنت بناسکے...❤❤❤
 
ایک نفسیاتی نکتہ ہے، عورت کسی کے متعلق فطرتاً تجسس میں مبتلا رہتی ہے، اسے ڈرایا جائے کہ شجر ممنوعہ کی طرف نہ جاؤ، عذاب الہی نازل ہو گا تو وہ بے شک ڈرے گی مگر تجسس میں مبتلا رہے گی تنہا اس اسرار کو سمجھنے کا حوصلہ نہ ہو گا، تو وہ مرد کو بہکا کر اُدھر لے جائے گی، عورت آگ سے ڈرتی ہے مگر چولہے کی جلتی ہوئی لکڑی کو پکڑ کر ادھر سے ادھر رکھ دیتی ہے، یعنی جس سے ڈرتی ہے ایک دن اسی کو پکڑتی ہے، مرد ہوتا ہے مہم جو وہ پہاڑ کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر لیتا ہے، عورت ہوتی ہے مرد جو خواہ وہ کتنا ہی خوفناک ہو وہ اسے سر کر لیتی ہے
 
جھوٹی ہی تسلّی ہو ، کچھ دل تو بہل جائے

دھندلی ہی سہی لیکن، اک شمع تو جل جائے

اُس موج کی ٹکّر سے ساحل بھی لرزتا ہے

کچھ روز جو طوفاں کے آغوش میں پل جائے

اے جلوہؑ جانانہ!! پھر ایسی جھلک دکھلا

حسرت بھی رہے باقی، ارماں بھی نکل جائے

اِس واسطے چھیڑا ہے پروانوں کا افسانہ

شاید ترے کانوں تک پیغامِ عمل جائے

میخانۂ ہستی میں مے کش وہی مے کش ہے

سنبھلے تو بہک جائے، بہکے تو سنبھل جائے

ہم نے تو فناؔ اِتنا مفہومِ غزل سمجھا

خود زندگئ شاعر اشعار میں ڈھل جائے


فناؔ نظامی کانپوری
 
زندگی میں آسائشوں آور راحتوں کے ساتھ ساتھ آزمائشوں اور تکلیفوں کا بھی سامنا ہوتا ہے، اللّٰه پاک اپنے بندوں کو کبھی مرض سے تو کبھی مال کی کمی سے، کبھی کسی رشتہ دار کی موت سے تو کبھی دشمن کے ڈر سے، کبھی کسی نقصان سے تو کبھی آفات و بَلِیّات سے آزماتا ہے انہی مصیبتوں اور آزمائشوں کے ذریعے فرما بردار و نافرمان، محبت میں سچےّ اور محبت کے زبانی دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان آزماشوں میں ثابت قدم رکھے اور ہم سے راضی ہو جائے آمین ثم آمین
 
لوگ کیا کہیں گے؟
ارے لوگوں کا بس چلے تو آپ سے قہقہے چھین کر سِسکیاں تھما دیں، کہنے سننے کی تو دور کی بات۔۔
یہ تو اللہ نے سب کو انکی حدود میں رکھا ہوا ورنہ لوگ تو کسی کو سانس نہ لینے دیں
اس لیے ہر حال میں شکر کریں اور خوش رہیں
 
Top