سید لبید غزنوی کی ڈائری سے ۔۔

ہم اپنی خوش فہمی کو آگہی کہتے ہیں اور دوسروں کی آگہی کو غلط فہمی حیرت ہے یوم حساب سے پہلے ہی ہم ایک دوسرے کی عاقبت خراب کرنے میں مصروف ہیں ہم خود کو جنت کا مکیں سمجھتے ہیں اور دوسروں کو دوزخ کا۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے ۔ ہم خود کو اہم سمجھتے ہیں بلکہ بہت ہی اہم سمجھتے ہیں۔ اور دوسروں کو حقیر اور کمتر، کون سمجھائے سلجھے ہوئے الجھے لوگوں کو، کعبے کے گرد چکر لگانے سے لوگوں کو دیے چکر معاف نہیں ہوں گے، باز آ جاؤ ان چکر بازیوں سے تمہارے افعال و اعمال نے لوگوں کے سامنے تمہاری جھوٹی محبتوں اور باتوں کی قلعی کھول دی ہے، یا رب تیرے ہی بندے تجھے ہی دھوکہ دینے کو جھوٹ بھی ثواب سمجھ کر بولتے ہیں، میں تو کچھ نہیں کہتا تو خود ہی ان سے سمجھ لے، یا رب سب کی جان اور دین کو سلامت رکھ
 
❤❤
"کیا کریں گے آپ؟ نسیں کاٹیں گے؟ پھندا ڈال کر جھول مریں گے؟ ٹرین کے نیچے آئیں گے ؟ اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگائیں گے؟ سمندر میں ڈوب جائیں گے؟ کنپٹی پر پستول رکھ کر خودکشی کریں گے ؟ یا زہر کھا کر مریں گے؟؟ یا ایک دو نیند کی گولیاں کھا کر غافل نیند سو جائیں گے؟ میں بتاؤں.. کسی بھی چیز کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.. اتنی بزدلی بھری ہمت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.. آپ پھر بھی زندہ رہیں گے.. یہاں کے گناہ کی سزا وہاں مت بھگتنا.. آپ آج کے لیے صرف ایک کام کریں.. صرف ایک کام..
نماز پڑھ کے ڈھیر سارا رو لیں اور قرآن پاک پڑھیں ترجمے کے ساتھ ، دیکھنا وہ کیسے آپ سے باتیں کرے گا وہ اللہ ہے نہ سب جانتا ہے ، روئیں اور بے حد روئیں اور پھر ایک غافل نیند سو جایئں.. مر جانے سے بہتر ہے اللہ سے باتیں کرتے کرتے سو جائیں"❤
اور میں نے یہ کیا ہے دنیا جہان کا سکون ہے ایسی نماز میں جس سے آپ اللّه سے باتیں کریں اپنا ہر دکھ اس پاک ذات کے سامنے رکھیں اپنے ہر گناہ کی معافی اس رب سے مانگیں ۔۔۔۔۔یقیننًا بہت سکون ملتا ہے
 
کہاں کائنات کا رب ، عظیم الشان، شاہوں کا شہنشاہ، جس کی کرسی زمین و آسمان پر محیط ہے، جسکی تعریف زمین و آسمان کی ہر شے ہمہ تن گوش ہے۔
جس کی رفعتیں بیان کی جائیں تو قلم ختم ہو جائیں سیاہی خشک ہوجائے، مگر حق ادا نہ ہوسکے۔
اس عظیم رب نے کھنکھناتی مٹی سے بنے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اشرف المخلوقات بنایا۔
کبھی سوچتی ہوں ہمارے سجدوں کی، ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کی کیا اوقات اور کیا حیثیت ہے اس عظیم ہستی کے سامنے؟
ہم نے اللہ کی عظمت کو پہچانا ہی نہیں،
ہم اس رب کی وہ قدر نہ کرسکے جو اس کا حق تھا،
انبیاء، صحابہ کرام اور اسلاف، اللہ کی معرفت رکھتے تھے اسی لیے وہ سراپا اطاعت تھے، تبھی ان کے دن روزوں سے میدانوں میں اور راتیں سجدوں میں گناہوں کی معافی مانگتے گزرتی تھیں۔
اور ایک ہم ہیں، دو چار روح سے خالی سجدے کرلیے، واجبی سا قرآن پڑھ لیا، شاپر میں سوراخ کی مانند کھوٹ سے اٹی تھوڑی سی نیکیاں کرلی، اور انہیں اپنے لیے کافی سمجھ لیا!
یہ سچ ہے اگر اس کریم رب کی رحمت نہ ہو تو ہم میں سے کسی کی معافی نہ ہوسکے، کوئی اپنے عمل کی بنا پر جنت میں نہ جاسکے!
 
اُسے کہنا، محبت یُوں بھی ہوتی ہے، مہینوں رابطہ نہ ہو، بھلے برسوں قبل دیکھا ہو، ہم نے ایک دوجے کو، مگر پھر بھی، مگر پھر بھی سلامت ھی یہ رہتی ہے، اُسے کہنا، مجھے اُس سے محبت ہے، کہ جیسے پھول کا خوشبو سے اک انجان رشتہ ہے، اُسے کہنا محبت میں، ہے کوئی تیسرا بھی جو محبت کی وجہ بھی ہے، اسے کہنا، کہ دنیا میں، ناجانے کب ملیں گے ہم؟ مگر روز حشر ہم ساتھ ہوں گے عرش کے نیچے، ہاں اس کے عرش کے نیچے، جو میرا اور تمہارا، اور محبت کا خدا بھی ہے
 
اُن لوگوں کو وضاحتیں دے دے کر اپنا وقت اور سکون برباد نہ کریں جو ہمیشہ آپ کو غلط سمجھنے کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں.....!!!
 
ہمارا اچھا ہونا، کسی کی پرواہ کرنا، رونا دھونا، چیخنا چلانا، دعا کرنا، مصروفیت ترک کرنا کوئی معنے نہیں رکھتا لوگ اپنے حساب سے چلتے ہیں.....!!!
 
دور رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بات دلوں کی نزدیکیوں سے ہوتی ہے ، دل کے رشتے قسمت سے بنتے ہیں ورنہ ملاقاتیں ہزاروں سے ہوتیں ہیں....!!!
 
”اعتماد“ ایک چھوٹا سا لفظ ہے جسے پڑھنے میں سیکنڈ، سوچنے میں منٹ، سمجھنے میں دن، مگر ثابت کرنے میں ساری زندگی لگ جاتی ہے.....!!!!
 
اور ہم سب اس زندگی میں کہانی کے کردار ہیں جس کا دورانیہ بہت کم رہ گیا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنا کردار ادا کر کے چلے گئے ہیں اور بہت جانے والے ہیں ۔ کہانی کے وہی کردار یاد کیے جائیں گے، جنہوں نے لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کی، بدلہ نہیں لیا۔ طاقت کے ہوتے ہوئے بھی معاف کردیا اور ہلاکت ہے ان کے لیے جو اپنی انا کا شکار رہے، جنہوں نے اپنی خوشی اور سکون کی خاطر لوگوں کا جینا حرام کیا۔ بے شک ہر کردار کو کیفر کردار تک پہنچنا ہے.....!!!
 
لبید جان زندگی کبھی نہیں رکتی کسی کے لیے، ایک کے بعد ایک نیا چہرہ نظر میں آتا ہے، اور زندگی میں شامل ہو جاتا ہے، کس قدر مضبوط ہوتا ہے انسان، کھوجانے والوں پہ دو آنسو بہا کے نئے مل جانے والوں سے ویسے ہی جذبات وابستہ کر لیتا ہے، کتنی جلدی خود کو حالات کے رنگ میں ڈھال لیتا ہے اور جن کی زندگیاں واقع ہی رک جاتی ہیں انہیں دنیا قدموں کی دھول بنا دیتی ہے، یہاں چاہ کے بھی کوئی عمر بھر کے روگ نہیں جھیل سکتا، اور یہ ہمارے رب کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر، غم کی کیفیت کو وہ ہم پر ہمیشہ طاری نہیں رکھتا
 
جو شخص اپنے اندر ہی اندر گہرا چلا جاتا ہے، وہی اوپر کو اٹھتا ہے اور وہی رفعت حاصل کرتا ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ جو درخت جس قدر گہرا زمین کے اندر جائیگا، اسی قدر اوپر جا سکے گا، اور اسی قدر تناور ہو گا۔ ہم اپنی ساری زندگی اوپر ہی اوپر، اپنے خول کو، اور اپنے باہر کو جاننے پر لگا دیتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل انسان ہمارے اندر رہتا ہے۔ جب میں اپنے اندر نگاہ مارتا ہوں تو اس کے اندر کچھ الفاظ، کچھ تصورات، کچھ خیال، کچھ یادیں، کچھ شکلیں اور کچھ خواب پاتا ہوں ........!!!
 
زندگی جب آپکو تنہائی اور تنہا رہنے کے گر سکھا رہی تو سیکھ لینے چاہئے۔ اپنے مصائب دکھ تکالیف کہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔کسی بھی خاص و عام سے توقع بیکار ھے۔کسی نے آپکا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا نا؟ پھر تنہائی راس آنے لگتی ھے کیونکہ پردے ہٹ چکے ہوتے ہیں۔پھر توقعات کا خالی کشکول خاموشی سے اپنے ہی بھرم کی خاطر رکھ دینا چاہیئے۔ رب کی ہی ذات ہوتی ھے جو ہر حال میں جو اپنے بندے کا ہاتھ ہر حال میں تھام لیتی ھے ۔ گرنے سے بچا لیتی ھے۔اور اس پہ یقین کامل ہی قلب سکون کا باعث بن جاتا ھے...
 
کسی نے سچ کہا ہے، اگر انسان کا دنیا میں کسی سے رشتہ نہ ہو، کوئی پریشانی نہ ہو، کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہ پڑے تو وہ بے فکری سے جانوروں کی طرح گہری نیند سو جاتا ہے، کوئی اپنے آپ کو جانور نہیں کہتا، لیکن ایسے حساس لوگ بھی ہوتے ہیں جو تمام رشتوں اور محبتوں سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں، خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، کوئی انہیں نہیں پوچھتا وہ کسی کو نہیں پوچھتے، اور ایسے ہی وقت گزارتے ہیں جیسے کوئی جانور جنگل میں میں کسی سے کچھ لیے دیے بغیر، کچھ سوچے سمجھے بغیر زندگی گزار رہا ہو، ایسی حساسیت سے باہر آئیے لوگوں میں گھل مل کر رہیے، کچھ انکو بتائیے، کچھ ان سے پوچھیے، جانوروں کی مانند زندگی نہ گزاریے، رشتوں اور محبتوں سے کٹ کر زندگی نہیں گزرتی، اور جو گزارنے کی سعی کرے وہ جانور ہے... اور آخر کار ثابت ہوا کچھ لوگ جانور ہی ہیں...
 
ہم کسی کو کہہ کر اپنے لئیے مخلص نہیں کر سکتے، اخلاص تو ایک دلی احساس ہے، یہ خود پیدا ہو جائے تو ٹھیک ، ورنہ ساری باتیں رائیگاں اور بیکار ھی۔۔۔۔ں اور اپنے صرف وہ ہی نہیں ہوتے، جو خون کے رشتے میں ہوں ، بلكہ اپنا تو ہر وہ ہوتا ہے، جسے آپ کا خیال اور احساس ہو، اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو اپنا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انکے اندر سے احساس ختم ہو چکا ہے جب تک آپ انکے لیے مفید ہیں، تب تک تو سب کچھ ٹھیک ہے، اگر آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں یا بیمار ہیں، یا اپنے کسی ذاتی کام میں مصروف انکا کام بھول بیٹھے ہیں تو پھر طعنے ہزار ہیں، خدارا کسی دوسرے کی تکلیف بھی تکلیف ہوتی ہے اسکا بھی خیال کریں، طعن و تشنیع بھی کریں، اور پھر امید بھی رکھیں کے وہ اخلاص سے کام کرے بروقت کرے، ایسا نہیں ہوتا
 
گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا
جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا۔۔۔

ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی
ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا۔۔۔

اس طرح ہم نے تیری محبت زمانے کے ہاتھوں میں دی
جس طرح گل نے خوشبو کو باد صبا کے حوالے کیا۔۔۔

بے بسی سی عجب زندگی میں اک ایسی بھی آئی کہ جب
ہم نے چپ چاپ ہاتھوں کو رسم حنا کے حوالے کیا۔۔۔

خون نے تیری یادیں سلگتی ہوئی رات کو سونپ دیں
آنسوؤں نے ترا درد روکھی ہوا کے حوالے کیا۔۔۔
(فرحت عباس شاہ)
 
عربی کے چند کلمات ایک جگہ پڑھے تو ان کی جامعیت نے حیران کر دیا، چار کلمات پر مشتمل یہ نہایت قیمتی نصیحتیں گویا والدین کے بچوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی کلید ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیں:

اقتربوا من أبناءکم و شاوروھم، وحاوروھم، واکسبوھم، قبل ان تخسروھم ترجمہ: اپنے بچوں کے قریب رہا کرو، ان سے مشورے کیا کرو، تبادلہ خیال کیا کرو، ان کے دل جیت لو، قبل اس کے کہ تم انہیں ہمیشہ کے لئےکھو دو
 
ان لڑکیوں کے لیئے جو یہ سمجھتی ہیں کہ بس محبوب مل جائے تو اور کچھ نہیں چاہیئے۔ محبوب کے ساتھ زندگی جیسی بھی ہوئی گذار لیں گے۔
جب پیٹ میں روٹی نا ہو, جب برسوں بھی پسند کا کھانے کو نا ملے, جب محبوب لاپرواہ ہو, جب وہ آپ کو لے جا کر سسرال والوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر بھول جائے, جب اولاد تکلیف سے تڑپ رہی ہو اور دوا کے پیسے نا ہوں, جب محبوب باہر مزید عورتوں پہ اپنی عاشق مزاجی کے سبب فدا ہو رہا ہو, جب شادی کے چند دن بعد ہی محبت کا سیاپا ختم ہو کر اصل زندگی شروع ہو جائے, جب رہنے کو گھر اچھا نا ہو تو ساری محبت رفو چکر ہو جاتی ہے۔
ایک بات لکھ کر رکھ لیں... محبوب بدل سکتا ہے لیکن اچھا انسان نہیں بدلتا۔ نکاح کرنے کے لیئے اچھا شریف ذمےدار اور کمانے والا عزت کرنے والا شخص چنیں, محبوب نہیں۔ جب شوہر پیٹ بھرنے والا اور عزت کرنے والا ہو تو محبت لازمی ہو جاتی ہے۔ آپ نہیں جانتیں کہ کون بہترین ہے۔ اللہ تعالی جانتے ہیں اس لیئے رب کے فیصلوں پہ سر جھکائیں۔ دل کے آگے نہیں, ورنہ یہ دل آپ کو رلانے اور خوار کرنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا...
پیار ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے آگے ہر دیوار منہدم ہو جاتی ہے....
اگر ہونے والے شوہر اور بیوی کے خاندان میں ایسی نا اتفاقی ہو کہ ان کو غالب گمان ہے کہ ہمارا ازدواجی تعلقات زیادہ دیر نہیں رہ پا سکتے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ نکاح ہوتا ہی اسی لیے کہ دو خاندان آپس میں جڑ جائیں اور شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور الفت ہو اور وہ سکون سے زندگی بسر کر سکیں اگر یہ چیز نہیں ہے تو نکاح کا مقصد ہی نہیں پایا جا رہا ۔
ہاں اگر ایسی نا اتفاقی ہے کہ اس کو دور کیا جا سکتا ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا جائز ہے
 
لوگ سمجھتے ہیں نفرت کا جذبہ سب سے زیادہ شدید ہے سب سے بَڑی سزا ہے کہ نفرت ہو تو محبت مَر جاتی ہے مگر ” اجنبیت “ کا رشتہ بہت کڑی سزا ہے اجنبیت وہ مقام ہے کہ تعلق رہتا ہی نہیں نفرت کی انتہا اجنبیت ہوتی ہے جب شکوٰہ شکایت ہونا ہی بند ہو جائیں تو تعلق مَر جاتا ہے، لڑائیاں جھگڑے تعلق کو بچانے کی کوششیں ہوتی ہیں تعلق کے زندہ ہونے کی علامت ہیں سو ایک طرح سے دیکھا جائے تو نفرت کا ہونا بھی محبت کی نشانی ہے، بیگانگی تو اجنبیوں کے ساتھ ہوتی ہے تعلق میں آ جائے تو مطلب کہ تعلق اب دم توڑ چکا ہے جب تک لڑائیاں جھگڑے ہیں تعلق کو بچانے کی امید زندہ ہے ڈرنا اس وقت سے چاہیئے جب خاموشی آ کے ڈیرا جما لے ہر بات پہ ایک ہی جواب آئے ” جی ٹھیک ہے “۔
 
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا، اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا، تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں، میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا، مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر، راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا، ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا، اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا ؟
 
ہم لوگ ہدایت مانگتے ہیں اللہ سے۔ لیکن ہمارے ہدایت کے کانسیپٹ ہی کلئیر نہیں ہیں۔ ہدایت یہ نہیں کہ بس مل گئی اور زندگی بن گئی۔ ہدایت ایک ساری عمر کی جدوجہد ہے۔ ہر دن کے ہر گھنٹے کے ہر پل میں آپکو کچھ فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ یس اور ناٹ۔ رائٹ اور لیفٹ۔ اور ہدایت یہی ہے کہ ہر لمحے میں اپنے نفس سے لڑ کر اللہ کی رضا کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ اور ہماری خود سے یہ لڑائی ساری زندگی چلتی رہتی ہے۔ یقین مانیں اللہ آپ سے محبت کرتا ہے تبھی آپکو گراتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ آپکا دل گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے پتھر کا ہوگیا ہے سو اسکو اب توڑنا ہوگا۔ یہ بھی اللہ کی رحمت ہوتی ہے کہ وہ اس طریقے سے انسان کو پلٹنے کا موقع دیتا ہے۔
 
Top