سولھویں سالگرہ سید عمران بھائی کے ساتھ علمی اور معلوماتی مکالمہ

تب سمجھ میں آیا کہ کتابی علوم کا اصل لطف اہل خدا کی صحبتوں سے حاصل ہوتاہے۔ جب گولہ میں رس بھرا جاتا ہے تب اسے رس گلہ کہا جاتا ہے۔ جب کباب آگ پر بھونا جاتا ہے تب اس کی خوشبو فضاؤں میں اڑتی ہے۔ پھیکا گلّہ اور کچا قیمہ جو کھائے اصل لطف نہ پائے۔
بس یہ تھی مختصر سی داستاں ہزار داستانوں میں!!
!
آپ کی داستان حیات سبق آموز پہلو یہی ہے اور ہماری بھی یہی سمجھ آیا ۔
 
بھیا آپ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ دانشمندانہ اور پر اثر گفتگو کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اتنا پرمزاح مزاج رکھتے ہیں۔اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ علم فنون کے ماہر حضرات زاہد خشک ہوتے ہیں۔ان سے گفتگو کرنے سے پہلے انسان اپنی ہمت اور سوچ کو یکجا کرتا ہے تو آپ کی شخصیت کے حوالے سے یہ کیا کھلا تضاد نہیں ؟
 

سید عمران

محفلین
بھیا آپ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ دانشمندانہ اور پر اثر گفتگو کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اتنا پرمزاح مزاج رکھتے ہیں۔اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ علم فنون کے ماہر حضرات زاہد خشک ہوتے ہیں۔ان سے گفتگو کرنے سے پہلے انسان اپنی ہمت اور سوچ کو یکجا کرتا ہے تو آپ کی شخصیت کے حوالے سے یہ کیا کھلا تضاد نہیں ؟
ہوتے ہوں گے ہمیں کیا خبر ہم کون سا ماہرِ فنون ہیں!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ننھیال ددھیال دونوں دیوبند کے بڑے زمیں دار تھے۔ ددھیال کی بہ نسبت ننھیال بڑے گاؤں کی مالک تھی۔ تجوریاں سونے کے زیورات سے بھری رہتیں۔ پلنگ کے پائے تک سونے کے تھے۔ اس زمانے میں جب عصری تعلیم کو انگریز کافروں کی طرف نسبت کرکے اجتناب کیا جاتا نانا نے میٹرک کرلیا۔سارے قصبہ میں ہاہاکار مچ گئی۔یوں خاندان میں عصری تعلیم کے ٹرینڈ سیٹر بن گئے۔اثر رسوخ ہونے کے باعث نانا انگریز سرکار کے یہاں ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوئے۔
اکثر و بیشتر سرکاری دوروں میں انگریزوں کے ساتھ ہوتے۔ شکل و صورت قد کاٹھ بالکل قائد اعظم جیسا پایا تھا۔ پینٹ شرٹ پہن کر ہیٹ لگاتے تو مشابہت کی وجہ سے ایک نظر میں قائد اعظم محمد علی جناح کا گماں گزرتا۔ انگریزوں کے ساتھ دوروں میں بسا اوقات بچوں کو بھی لے جاتے۔ پہلی بیٹی ہونے کے باعث ہماری والدہ کے ساتھ محبت زیادہ تھی سو اسفار میں وہی زیادہ ساتھ رہتیں۔ کبھی بطور تفریح ترازو کے ایک پلڑے میں والدہ کو بٹھا کر دوسرے پلڑے میں سرکاری سونا رکھ کر تولا جاتا۔ نانا گھر آکر ہنستے کہ آج میری بیٹی کو سونے میں تولا گیا ہے۔
صحبت کا اثر تھا کہ نانا اور ان کی اولاد کی بود باش انگریزوں جیسی ہوگئی۔ڈائننگ ٹیبل پر چھری کانٹے سے کھانا۔ چائے کو تما م تر لوازمات کے ساتھ پیش کرنا۔ ٹی کیٹل میں چائے دم کرکے چائے دانی پر ٹی کوزی ڈھکنا، دودھ کو الگ سے گرم کے ملک پاٹ میں رکھنا، ساتھ شوگر پاٹ ہونا، کھانے کے لیے کراکری مخصوص ترتیب سے رکھنا۔ ہم نے والدہ کو شروع سے ایسا ہی کرتے دیکھا، چھری کانٹے کا استعمال، چائے پینے اور سرو کرنے کا طریقہ ان ہی سے سیکھا۔ گرچہ خود ڈھنگ سے یہ کام کبھی نہیں کیا۔
آسائشوں کے عروج کے سبب رعونت اور نخوت ننھیال کے مزاج کا حصہ تھی جو نسل در نسل بطور ورثہ منتقل ہوتی گئی۔ جب وہ وقت آیا کہ تقسیم ہند کا غوغہ مچا اور قیام پاکستان پر منتج ہوا تو اہم سرکاری رازوں کے راز داں ہونے کے باعث نانا پر پابندی عائد کردی گئی کہ ہجرت کرکے پاکستان نہ جائیں۔ ادھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا، مشرقی پنجاب میں جو آگ بھڑکی تو اس کی تپش یوپی کی حدود تک محسوس کی جانے لگی۔ مسلمانوں کا مستقبل کیا حال کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس وقت مسلمانوں کو پاکستاں جائے اماں محسوس ہونے لگا۔
تب ننھیال نے بڑا فیصلہ کیا۔ ہندوستان چھوڑنے کا۔ اصل مشکل نانا پر عائد پابندی تھی۔اس وقت ایک دوست پر اعتماد کیا، اسے ہم راز بنایا اور تمام سرکاری فائلیں سونپ کر بڑے بھائی کے ساتھ بمبئی آگئے۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ وہاں سے بذریعہ بحری جہاز کراچی پہنچے۔ اس وقت یہ شہر لٹے پٹے مہاجرین کی خیمہ بستی تھا۔ یہاں مارٹن کوارٹرز کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں دو خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے لگے۔ کیسا عروج کیسا زوال!!!
قدرت کی طرف سے ملے اس سبق نے خاندانی نخوت اور رعونت منہ کے بل گرادی۔گرچہ رسی جل جانے کے باوجود بل نہیں گئے تاہم جو جل گیا وہ بھی غنیمت تھا۔ سمجھو قسمت میں دولت لکھی ہو تو کہیں نہیں جاتی۔بر وقت تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کام آنے لگا۔اہم سرکاری پوسٹس کے لیے قابل اور پڑھے لکھے افراد کا کال تھا۔ انگریزوں کی پڑھائی اور ان کے ساتھ رہنے کا تجربہ کام آیا۔ ایک ایک کرکے سب بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعینات ہوگئے۔بڑے ماموں اسکالر شپ پر جرمنی گئے، سول انجینئر بن کر وطن لوٹے اور اپنی فرم کھول لی۔ چھوٹے ماموں نے پی آئی اے میں جاب کی۔ بعد میں انگلینڈ سے اچھی آفر آئی تو بیوی بچوں کو لے کر لندن گئے اور وہیں کے ہورہے۔
اب کچھ حال ددھیال کا۔ ہمارے والد صاحب کمسنی میں اکیلے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ وہاں سے والدین اور بھائی بہنوں کے کاغذات بنوا کر بھجوادئیے۔ ہندوستان میں دادی کے بیری کے بڑے بڑے باغات تھے، جائیدادیں الگ تھیں۔ دل نے گوارہ نہ کیا کہ سب چھوڑ چھاڑ بھوکے ننگے منہ اٹھائے نئی جگہ چلے جائیں۔ دادا کاغذات لے کر آئے تو دادی نے اپنے اور چھوٹے بیٹے کے کاغذات پھاڑ دئیے کہ ہم یہاں زمینوں کی دیکھ بھال کریں گے اور نئے دیس میں آپ کو خرچہ پانی بھیجیں گے۔ دادا مجبوراً بیٹیوں کے ہمراہ کراچی آگئے۔ چند برسوں بعد دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۶۵ کی جنگ چھڑ گئی جس کے بعد ہجرت کا باب دائماً بند ہوگیا۔ ادھر ہند سرکار نے بڑے بڑے زمیں داروں کی زمینیں ضبط کرلیں۔ دادی کے تمام باغات بھی اسی لپیٹ میں آگئے۔لے دے کے وہ بڑے بڑے مکانات رہ گئے جو دادی کی ملکیت میں تھے۔ انہیں کرائے پر اٹھا کر گزر بسر کا سامان کیا۔ یوں دادی کے پاس چند مکانات کا کرایہ اور پچھتانے کے سوا کچھ نہ بچا!!!
یہ سروائیول فار دا فٹیسٹ کا زمانہ تھا، ابھی عسرت کا دور چل رہا تھا، جب ننھیال اور ددھیال کے درمیان رشتے طے ہوئے۔ والدین کے خاندان ایک دوسرے کے دیکھے بھالے تھے چناں چہ رشتہ طے ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوئی۔ خالہ کی شادی باہر کہیں دور پرے کے لوگوں میں ہوئی۔ والد نے اپنے بل بوتے پر پڑھائی جاری رکھی، جاب بھی کرتے تھے اور پڑھائی بھی۔ یہاں تک کہ گریجویشن مکمل کی۔ کچھ عرصہ بعد دبئی چلو والا فیز آیا۔ والد دبئی تو نہ گئے جدہ چلے گئے۔ یوں والدہ بھی عسرت کے دور سے نکل آئیں!!!
جب ہم نے آنکھ کھولی تو خاندان کا دورِ عسرت گزر چکا تھا۔ ہر طرف عیش و عشرت اور مال و دولت کے جلوے تھے۔ انگریز کی باقیات زندگی میں دوبارہ در آئی تھیں۔ وہی بود و باش پھر اختیار کرلی گئی۔ اگرچہ مال و دولت اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ واپس آگئے تھے تاہم درمیانی عرصہ میں قدرت سے ملے سبق نے دل نرم کردئیے۔ اسی دوران دار العلوم دیو بند کے مہتمم قاری طیب صاحب نے کراچی کا سفر کیا۔ گزشتہ ہم وطن سے محبت کا تعلق فطری ہوتا ہے۔ نانا ان سے ملنے گئے تو الگ ڈھنگ سے واپس آئے۔ پھر ان سے مستقل رابطہ میں رہنے لگے۔ قاری طیب صاحب جب کراچی آتے تو پاکولا کمپنی کے مالک کے یہاں قیام کرتے مگر بڑے ماموں کے یہاں بھی بیان اور درس کے لیے مدعو کیے جاتے۔ ان کے اثرات خاندان بھر پر مرتب ہوئے اور دین داری کا رجحان نظر آنے لگا۔ کم از کم نماز روزہ حج زکوٰۃ کی ادائیگی کے سب پابند ہوگئے۔گو باقی معاملات میں ابھی بھی بہت آزادی تھی تاہم نری آزادی سے یہ مَری قید بہتر!!!
جب ہم پیدا ہوئے تو ننھیال ددھیال دونوں کے لاڈلے بن گئے۔نجانے کیوں؟ وجہ آج تک نہیں جان پائے۔ نہ تو ایسا تھا کہ ہم ہجرت کے بعد تیسری نسل میں اپنے خاندان کی پہلی اولاد تھے کیوں کہ ہم سے پہلے ننھیال ددھیال میں بہت سے کزنز ’’معرض وجود‘‘ میں آچکے تھے۔ نہ ہی ایسا تھا کہ بہت ساری لڑکیوں کے بعد پہلا لڑکا تھے۔بہرحال ہر دو طرف ہماری مانگ تھی اور بہت محبتیں ملتی تھیں۔ سالگرہ کسی کی ہوتی کیک پر چھری سے پہلا وار ہم سے چلوایا جاتا، اصل کارروائی بعد میں شروع ہوتی۔ نانا میں بالکل قائد اعظم جیسا رکھ رکھاؤ اور سنجیدگی تھی، کسی اولاد یا پوتے نواسے کو گود میں نہیں لیا لیکن ہمیں گود میں اٹھائے چہل قدمی کے لیے باہر نکل جاتے۔ اس پر کوئی حسد بھی نہیں کرتا کیوں کہ ہم سب کے پیارے تھے!!!
خاندان میں شادیاں ہوتیں تو کئی دنوں تک سلسلہ دراز ہوتا، ایک نمٹتی تو دوسری تیار ہوتی، درمیانی عرصہ میں مختلف فنکشنز، پارٹیز، دعوتیں آنا جانا، گھومنا پھرنا ہوتا۔ بظاہر سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ہر روز عید اور رات شب براءت تھی۔ اس دوران ہم نے انٹر کرلیا۔ انڈیا گھوم آئے۔ تب اچانک والد صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ جدہ سے کراچی آئے۔ ایک ہفتہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہے اور انتقال کرگئے!!!
یہ سب اتنا جھٹ پٹ اور اچانک ہوا کہ پورا خاندان ہل گیا۔ یہ قدرت کا دوسرا جھٹکا تھا جو ہمارے خاندان کو لگا۔ جس دل کو خبر نہ ہو کہ معمولی سا دکھ بھی کیا ہے اسے براہ راست اتنا بڑا صدمہ ملے، زندگی موت کا۔ کوئی اس کیفیت کو محسوس کرسکتا ہے؟ ہم نے والد کو قبر میں اترتے دیکھا۔ دیکھا سارے ٹھاٹھ باٹ قبر کے باہر رہ گئے۔ اندر کچھ نہ گیا۔ سڑکوں کی روشنیاں بھی قائم رہیں اور جم خانہ اور فائیو اسٹارز ہوٹلز کی رونقیں بھی۔ لیکن ہمارے دل میں جو اندھیرا اتر گیا تھا وہاں ان روشنیوں کی رمق نہیں پہنچ رہی تھی۔
کتنے دن بے قراری اور بے بسی کے گزرے کوئی حساب نہیں۔ تب رمضان آیا اور ہم مستقل مسجد کے ہورہے۔ عرصہ بعد پہلی بار مسجد میں داخل ہوئے تو واپسی کا دل نہیں ہوا۔ بے بسی اور بے قراری کی جو کیفیت تھی اسے کچھ قرار آگیا۔ عصر کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھے تھے تو ایک صاحب آئے، علیک سلیک کی، نہ جانے کیا کیا کہا، کہیں ساتھ چلنے کی دعوت دی، ہم کچھ نہ جاننے کے باوجود سب باتوں پر سر ہلا کر ہاں کہتے رہے۔
اگلے دن ہمارا بوریا بستر باندھ مکی مسجد لے گئے، وہاں سے ایک تبلیغی جماعت حیدرآباد جارہی تھی۔ کچھ نہیں معلوم یہ کیا جماعت ہے، حیدرآباد کیوں جارہی ہے وہاں کیا کرے گی؟ دس دن ان کے ساتھ گزارے، ماحول سے دور ہوئے تو عظیم سانحہ کے ڈپریشن سے باہر آنے کا موقع ملا۔ باہر آئے تو دنیا یکسر بدلی ہوئی دیکھی۔ یہ وہ دنیا نہیں تھی جس میں زندگی گزری تھی، جسے ہم جانتے تھے پہچانتے تھے۔ اجنبی دنیا، اجنبی لوگ، اجنبی ماحول۔ ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگا تاہم پوری طرح ایڈجسٹ نہیں ہوسکے۔
ہم نے اس دنیا میں شعور کی کچھ منازل طے کیں تو محسوس ہوا کہ یہ ہماری منزل مقصود نہیں۔ یہ لوگ خود تو اچھے تھے مگر علمی لحاظ سے نہیں۔ ہم میٹرک اور انٹر کی مہینوں دراز تعطیلات کے دوران دنیا بھر کے کئی موضوعات پر کتابیں کھنگال چکے تھے، سارے مذاہب، تمام مسالک پڑھ چکے تھے۔ اپنے ہم عمروں کی صحبت سے بے زار تھے۔ ان کی باتیں عامیانہ اور سوچ سطحی لگتی۔ عمر رسیدہ بزرگوں کے پاس بیٹھنا اچھا لگتا جو ہم سے آگے کی سوچ، علم اور تجربہ بیان کرتے تھے۔اس دوران ایسے ایسے اہل علم حضرات سے واسطہ پڑا جن کی علمی مباحث سے آگاہی بڑھی اور علوم کے نئے در وا ہوئے۔ تب ہم نے جانا کہ یہ ہماری منزل ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد محسوس ہوا ابھی بھی کمی ہے۔
گھر میں ہر قسم کے ڈائجسٹ آتے تھے۔ ان میں ایک سسپنس ڈائجسٹ تھا۔ اس میں مختلف صوفیا کے حالات پر ذکیہ بلگرامی کا مضمون ہوتا۔ ہم وہ صفحات کاٹ کر الگ رکھ لیتے۔ صوفیا نے ایک بات سکھائی جو کہیں سے نہیں ملی کہ اللہ سے محبت بھی کی جاتی ہے۔ ہمیں آج تک اللہ سے ڈرنے کا سبق ملا تھا۔ محبت کا باب کسی نے نہیں پڑھایا۔ یہ تذکرہ تو چھڑتا کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے لیکن کیا ہمارا منہ تھا کہ ان سے محبت کریں؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ ہم ابھی یہی سمجھ رہے تھے کہ جو خدا سے محبت کرتے تھے وہ چلے گئے ؎
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
چوں کہ ہم سمجھتے تھے کہ اب وہ لوگ نہیں رہے سو اطمینان سے تھے۔ لیکن زندگی کا ایک موڑ ایسا بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے حرم و عجم میں ایسے بندوں سے ملاقات کرائی جس کا بیاں لغت کرنے سے قاصر ہے۔ تب سمجھ میں آیا کہ کتابی علوم کا اصل لطف اہل خدا کی صحبتوں سے حاصل ہوتاہے۔ جب گولہ میں رس بھرا جاتا ہے تب اسے رس گلہ کہا جاتا ہے۔ جب کباب آگ پر بھونا جاتا ہے تب اس کی خوشبو فضاؤں میں اڑتی ہے۔ پھیکا گلّہ اور کچا قیمہ جو کھائے اصل لطف نہ پائے۔
بس یہ تھی مختصر سی داستاں ہزار داستانوں میں!!!
ماشاءاللہ، ماشاءاللہ
اللہ کرے آپ کی آزمائشیں بس وہیں تک ہوں جو ہو چکیں اور اللہ پاک آنے والا تمام وقت راحت و سکون اور اپنی خوشنودی سے بھر دے
 

سید عمران

محفلین
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سانحہ کا لفظ اتنا ہولناک ہے کہ جسے کہیں لکھا ہوا بھی پائیں تو ایک مرتبہ تو وہ دیکھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف مبذول کرا دیتا ہے
دوسری بات یہ کہ مجھے ہمیشہ لگتا سانحہ اللہ پاک کی طرف سے دعوت ہوتی ہے کوئی اسے ٹھکرا دیتا ہے اور کوئی قبول کر لیتا ہے
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سانحہ کا لفظ اتنا ہولناک ہے کہ جسے کہیں لکھا ہوا بھی پائیں تو ایک مرتبہ تو وہ دیکھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف مبذول کرا دیتا ہے
دوسری بات یہ کہ مجھے ہمیشہ لگتا سانحہ اللہ پاک کی طرف سے دعوت ہوتی ہے کوئی اسے ٹھکرا دیتا ہے اور کوئی قبول کر لیتا ہے
یہ سانحہ نہ ہوتا تو شاید ہم بدمستیوں کی اس دنیا میں مزید ڈوب چکے ہوتے جیسا کہ دوسروں کو دیکھتے ہیں۔۔۔
آپ تک لائی جو موجِ رنج و غم
اس پہ قرباں سینکڑوں ساحل ہوئے!!!
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے معیاری دینی مدارس بھی موجود ہیں کہ جو عصری تعلیم بھی بہت عمدہ انداز سے دے رہے ہیں۔ یہاں اسلام آباد میں موجود ایک مدرسہ کے بچوں کی بورڈ کے امتحانات میں پوزیشنز آتی ہیں۔ اور تلہ گنگ کے مدرسہ کے طلبہ روبوٹکس کے مقابلہ جات میں انعام یافتہ ہیں۔
معلوماتی، زبردست وغیرہ
ایسے مدارس مزید بننے چاہئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ننھیال بڑے گاؤں کی مالک تھی۔ تجوریاں سونے کے زیورات سے بھری رہتیں۔ پلنگ کے پائے تک سونے کے تھے۔
سچ جب سے ہم نے یہ پڑھا مفتی صاحب آپ کے رعب میں تو ہم ویسے ہی رہتے ہیں اب تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ جناب کی ذرہ نوازی ہے کہ آپ ہم سے بات کرتے اب تو ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے جناب؀
کرشمہ ہے زر نوازی کا!!!!!!
ان کا تم سے جناب ہو جانا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سچ جب سے ہم نے یہ پڑھا مفتی صاحب آپ کے رعب میں تو ہم ویسے ہی رہتے ہیں اب تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ جناب کی ذرہ نوازی ہے کہ آپ ہم سے بات کرتے اب تو ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے جناب؀
کرشمہ ہے زر نوازی کا!!!!!!
ان کا تم سے جناب ہو جانا
آپ کی زبان سے بے اختیار ایک جملہ نکلا ہو گا "ظلِ الہٰی، آپ کا اقبال بلند ہو"
 

سیما علی

لائبریرین
پہلی بیٹی ہونے کے باعث ہماری والدہ کے ساتھ محبت زیادہ تھی سو اسفار میں وہی زیادہ ساتھ رہتیں۔ کبھی بطور تفریح ترازو کے ایک پلڑے میں والدہ کو بٹھا کر دوسرے پلڑے میں سرکاری سونا رکھ کر تولا جاتا۔ نانا گھر آکر ہنستے کہ آج میری بیٹی کو سونے میں تولا گیا ہے۔
ڈرائے ڈرائے جا رہے ہیں ہم سادہ لوح لوگوں کو سچ انڈیا میں مسلمان کسقدر ریئس تھے۔۔۔۔۔۔پہلے اپنے اماّں اباّجان سے سنتے تھے تو ہنستے اور اکثر کہتے تو کیوں آئے پاکستان پر آپ سے تو صرف یہ کہتے ہیں ہم تو؀
سیم و زر چاہے نہ الماس و گہر مانگے ہے
دل تو درویش ہے الفت کی نظر مانگے ہے
 

علی وقار

محفلین
ننھیال ددھیال دونوں دیوبند کے بڑے زمیں دار تھے۔ ددھیال کی بہ نسبت ننھیال بڑے گاؤں کی مالک تھی۔ تجوریاں سونے کے زیورات سے بھری رہتیں۔ پلنگ کے پائے تک سونے کے تھے۔ اس زمانے میں جب عصری تعلیم کو انگریز کافروں کی طرف نسبت کرکے اجتناب کیا جاتا نانا نے میٹرک کرلیا۔سارے قصبہ میں ہاہاکار مچ گئی۔یوں خاندان میں عصری تعلیم کے ٹرینڈ سیٹر بن گئے۔اثر رسوخ ہونے کے باعث نانا انگریز سرکار کے یہاں ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوئے۔
اکثر و بیشتر سرکاری دوروں میں انگریزوں کے ساتھ ہوتے۔ شکل و صورت قد کاٹھ بالکل قائد اعظم جیسا پایا تھا۔ پینٹ شرٹ پہن کر ہیٹ لگاتے تو مشابہت کی وجہ سے ایک نظر میں قائد اعظم محمد علی جناح کا گماں گزرتا۔ انگریزوں کے ساتھ دوروں میں بسا اوقات بچوں کو بھی لے جاتے۔ پہلی بیٹی ہونے کے باعث ہماری والدہ کے ساتھ محبت زیادہ تھی سو اسفار میں وہی زیادہ ساتھ رہتیں۔ کبھی بطور تفریح ترازو کے ایک پلڑے میں والدہ کو بٹھا کر دوسرے پلڑے میں سرکاری سونا رکھ کر تولا جاتا۔ نانا گھر آکر ہنستے کہ آج میری بیٹی کو سونے میں تولا گیا ہے۔
صحبت کا اثر تھا کہ نانا اور ان کی اولاد کی بود باش انگریزوں جیسی ہوگئی۔ڈائننگ ٹیبل پر چھری کانٹے سے کھانا۔ چائے کو تما م تر لوازمات کے ساتھ پیش کرنا۔ ٹی کیٹل میں چائے دم کرکے چائے دانی پر ٹی کوزی ڈھکنا، دودھ کو الگ سے گرم کے ملک پاٹ میں رکھنا، ساتھ شوگر پاٹ ہونا، کھانے کے لیے کراکری مخصوص ترتیب سے رکھنا۔ ہم نے والدہ کو شروع سے ایسا ہی کرتے دیکھا، چھری کانٹے کا استعمال، چائے پینے اور سرو کرنے کا طریقہ ان ہی سے سیکھا۔ گرچہ خود ڈھنگ سے یہ کام کبھی نہیں کیا۔
آسائشوں کے عروج کے سبب رعونت اور نخوت ننھیال کے مزاج کا حصہ تھی جو نسل در نسل بطور ورثہ منتقل ہوتی گئی۔ جب وہ وقت آیا کہ تقسیم ہند کا غوغہ مچا اور قیام پاکستان پر منتج ہوا تو اہم سرکاری رازوں کے راز داں ہونے کے باعث نانا پر پابندی عائد کردی گئی کہ ہجرت کرکے پاکستان نہ جائیں۔ ادھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا، مشرقی پنجاب میں جو آگ بھڑکی تو اس کی تپش یوپی کی حدود تک محسوس کی جانے لگی۔ مسلمانوں کا مستقبل کیا حال کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس وقت مسلمانوں کو پاکستاں جائے اماں محسوس ہونے لگا۔
تب ننھیال نے بڑا فیصلہ کیا۔ ہندوستان چھوڑنے کا۔ اصل مشکل نانا پر عائد پابندی تھی۔اس وقت ایک دوست پر اعتماد کیا، اسے ہم راز بنایا اور تمام سرکاری فائلیں سونپ کر بڑے بھائی کے ساتھ بمبئی آگئے۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ وہاں سے بذریعہ بحری جہاز کراچی پہنچے۔ اس وقت یہ شہر لٹے پٹے مہاجرین کی خیمہ بستی تھا۔ یہاں مارٹن کوارٹرز کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں دو خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے لگے۔ کیسا عروج کیسا زوال!!!
قدرت کی طرف سے ملے اس سبق نے خاندانی نخوت اور رعونت منہ کے بل گرادی۔گرچہ رسی جل جانے کے باوجود بل نہیں گئے تاہم جو جل گیا وہ بھی غنیمت تھا۔ سمجھو قسمت میں دولت لکھی ہو تو کہیں نہیں جاتی۔بر وقت تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کام آنے لگا۔اہم سرکاری پوسٹس کے لیے قابل اور پڑھے لکھے افراد کا کال تھا۔ انگریزوں کی پڑھائی اور ان کے ساتھ رہنے کا تجربہ کام آیا۔ ایک ایک کرکے سب بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعینات ہوگئے۔بڑے ماموں اسکالر شپ پر جرمنی گئے، سول انجینئر بن کر وطن لوٹے اور اپنی فرم کھول لی۔ چھوٹے ماموں نے پی آئی اے میں جاب کی۔ بعد میں انگلینڈ سے اچھی آفر آئی تو بیوی بچوں کو لے کر لندن گئے اور وہیں کے ہورہے۔
اب کچھ حال ددھیال کا۔ ہمارے والد صاحب کمسنی میں اکیلے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ وہاں سے والدین اور بھائی بہنوں کے کاغذات بنوا کر بھجوادئیے۔ ہندوستان میں دادی کے بیری کے بڑے بڑے باغات تھے، جائیدادیں الگ تھیں۔ دل نے گوارہ نہ کیا کہ سب چھوڑ چھاڑ بھوکے ننگے منہ اٹھائے نئی جگہ چلے جائیں۔ دادا کاغذات لے کر آئے تو دادی نے اپنے اور چھوٹے بیٹے کے کاغذات پھاڑ دئیے کہ ہم یہاں زمینوں کی دیکھ بھال کریں گے اور نئے دیس میں آپ کو خرچہ پانی بھیجیں گے۔ دادا مجبوراً بیٹیوں کے ہمراہ کراچی آگئے۔ چند برسوں بعد دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۶۵ کی جنگ چھڑ گئی جس کے بعد ہجرت کا باب دائماً بند ہوگیا۔ ادھر ہند سرکار نے بڑے بڑے زمیں داروں کی زمینیں ضبط کرلیں۔ دادی کے تمام باغات بھی اسی لپیٹ میں آگئے۔لے دے کے وہ بڑے بڑے مکانات رہ گئے جو دادی کی ملکیت میں تھے۔ انہیں کرائے پر اٹھا کر گزر بسر کا سامان کیا۔ یوں دادی کے پاس چند مکانات کا کرایہ اور پچھتانے کے سوا کچھ نہ بچا!!!
یہ سروائیول فار دا فٹیسٹ کا زمانہ تھا، ابھی عسرت کا دور چل رہا تھا، جب ننھیال اور ددھیال کے درمیان رشتے طے ہوئے۔ والدین کے خاندان ایک دوسرے کے دیکھے بھالے تھے چناں چہ رشتہ طے ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوئی۔ خالہ کی شادی باہر کہیں دور پرے کے لوگوں میں ہوئی۔ والد نے اپنے بل بوتے پر پڑھائی جاری رکھی، جاب بھی کرتے تھے اور پڑھائی بھی۔ یہاں تک کہ گریجویشن مکمل کی۔ کچھ عرصہ بعد دبئی چلو والا فیز آیا۔ والد دبئی تو نہ گئے جدہ چلے گئے۔ یوں والدہ بھی عسرت کے دور سے نکل آئیں!!!
جب ہم نے آنکھ کھولی تو خاندان کا دورِ عسرت گزر چکا تھا۔ ہر طرف عیش و عشرت اور مال و دولت کے جلوے تھے۔ انگریز کی باقیات زندگی میں دوبارہ در آئی تھیں۔ وہی بود و باش پھر اختیار کرلی گئی۔ اگرچہ مال و دولت اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ واپس آگئے تھے تاہم درمیانی عرصہ میں قدرت سے ملے سبق نے دل نرم کردئیے۔ اسی دوران دار العلوم دیو بند کے مہتمم قاری طیب صاحب نے کراچی کا سفر کیا۔ گزشتہ ہم وطن سے محبت کا تعلق فطری ہوتا ہے۔ نانا ان سے ملنے گئے تو الگ ڈھنگ سے واپس آئے۔ پھر ان سے مستقل رابطہ میں رہنے لگے۔ قاری طیب صاحب جب کراچی آتے تو پاکولا کمپنی کے مالک کے یہاں قیام کرتے مگر بڑے ماموں کے یہاں بھی بیان اور درس کے لیے مدعو کیے جاتے۔ ان کے اثرات خاندان بھر پر مرتب ہوئے اور دین داری کا رجحان نظر آنے لگا۔ کم از کم نماز روزہ حج زکوٰۃ کی ادائیگی کے سب پابند ہوگئے۔گو باقی معاملات میں ابھی بھی بہت آزادی تھی تاہم نری آزادی سے یہ مَری قید بہتر!!!
جب ہم پیدا ہوئے تو ننھیال ددھیال دونوں کے لاڈلے بن گئے۔نجانے کیوں؟ وجہ آج تک نہیں جان پائے۔ نہ تو ایسا تھا کہ ہم ہجرت کے بعد تیسری نسل میں اپنے خاندان کی پہلی اولاد تھے کیوں کہ ہم سے پہلے ننھیال ددھیال میں بہت سے کزنز ’’معرض وجود‘‘ میں آچکے تھے۔ نہ ہی ایسا تھا کہ بہت ساری لڑکیوں کے بعد پہلا لڑکا تھے۔بہرحال ہر دو طرف ہماری مانگ تھی اور بہت محبتیں ملتی تھیں۔ سالگرہ کسی کی ہوتی کیک پر چھری سے پہلا وار ہم سے چلوایا جاتا، اصل کارروائی بعد میں شروع ہوتی۔ نانا میں بالکل قائد اعظم جیسا رکھ رکھاؤ اور سنجیدگی تھی، کسی اولاد یا پوتے نواسے کو گود میں نہیں لیا لیکن ہمیں گود میں اٹھائے چہل قدمی کے لیے باہر نکل جاتے۔ اس پر کوئی حسد بھی نہیں کرتا کیوں کہ ہم سب کے پیارے تھے!!!
خاندان میں شادیاں ہوتیں تو کئی دنوں تک سلسلہ دراز ہوتا، ایک نمٹتی تو دوسری تیار ہوتی، درمیانی عرصہ میں مختلف فنکشنز، پارٹیز، دعوتیں آنا جانا، گھومنا پھرنا ہوتا۔ بظاہر سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ہر روز عید اور رات شب براءت تھی۔ اس دوران ہم نے انٹر کرلیا۔ انڈیا گھوم آئے۔ تب اچانک والد صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ جدہ سے کراچی آئے۔ ایک ہفتہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہے اور انتقال کرگئے!!!
یہ سب اتنا جھٹ پٹ اور اچانک ہوا کہ پورا خاندان ہل گیا۔ یہ قدرت کا دوسرا جھٹکا تھا جو ہمارے خاندان کو لگا۔ جس دل کو خبر نہ ہو کہ معمولی سا دکھ بھی کیا ہے اسے براہ راست اتنا بڑا صدمہ ملے، زندگی موت کا۔ کوئی اس کیفیت کو محسوس کرسکتا ہے؟ ہم نے والد کو قبر میں اترتے دیکھا۔ دیکھا سارے ٹھاٹھ باٹ قبر کے باہر رہ گئے۔ اندر کچھ نہ گیا۔ سڑکوں کی روشنیاں بھی قائم رہیں اور جم خانہ اور فائیو اسٹارز ہوٹلز کی رونقیں بھی۔ لیکن ہمارے دل میں جو اندھیرا اتر گیا تھا وہاں ان روشنیوں کی رمق نہیں پہنچ رہی تھی۔
کتنے دن بے قراری اور بے بسی کے گزرے کوئی حساب نہیں۔ تب رمضان آیا اور ہم مستقل مسجد کے ہورہے۔ عرصہ بعد پہلی بار مسجد میں داخل ہوئے تو واپسی کا دل نہیں ہوا۔ بے بسی اور بے قراری کی جو کیفیت تھی اسے کچھ قرار آگیا۔ عصر کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھے تھے تو ایک صاحب آئے، علیک سلیک کی، نہ جانے کیا کیا کہا، کہیں ساتھ چلنے کی دعوت دی، ہم کچھ نہ جاننے کے باوجود سب باتوں پر سر ہلا کر ہاں کہتے رہے۔
اگلے دن ہمارا بوریا بستر باندھ مکی مسجد لے گئے، وہاں سے ایک تبلیغی جماعت حیدرآباد جارہی تھی۔ کچھ نہیں معلوم یہ کیا جماعت ہے، حیدرآباد کیوں جارہی ہے وہاں کیا کرے گی؟ دس دن ان کے ساتھ گزارے، ماحول سے دور ہوئے تو عظیم سانحہ کے ڈپریشن سے باہر آنے کا موقع ملا۔ باہر آئے تو دنیا یکسر بدلی ہوئی دیکھی۔ یہ وہ دنیا نہیں تھی جس میں زندگی گزری تھی، جسے ہم جانتے تھے پہچانتے تھے۔ اجنبی دنیا، اجنبی لوگ، اجنبی ماحول۔ ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگا تاہم پوری طرح ایڈجسٹ نہیں ہوسکے۔
ہم نے اس دنیا میں شعور کی کچھ منازل طے کیں تو محسوس ہوا کہ یہ ہماری منزل مقصود نہیں۔ یہ لوگ خود تو اچھے تھے مگر علمی لحاظ سے نہیں۔ ہم میٹرک اور انٹر کی مہینوں دراز تعطیلات کے دوران دنیا بھر کے کئی موضوعات پر کتابیں کھنگال چکے تھے، سارے مذاہب، تمام مسالک پڑھ چکے تھے۔ اپنے ہم عمروں کی صحبت سے بے زار تھے۔ ان کی باتیں عامیانہ اور سوچ سطحی لگتی۔ عمر رسیدہ بزرگوں کے پاس بیٹھنا اچھا لگتا جو ہم سے آگے کی سوچ، علم اور تجربہ بیان کرتے تھے۔اس دوران ایسے ایسے اہل علم حضرات سے واسطہ پڑا جن کی علمی مباحث سے آگاہی بڑھی اور علوم کے نئے در وا ہوئے۔ تب ہم نے جانا کہ یہ ہماری منزل ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد محسوس ہوا ابھی بھی کمی ہے۔
گھر میں ہر قسم کے ڈائجسٹ آتے تھے۔ ان میں ایک سسپنس ڈائجسٹ تھا۔ اس میں مختلف صوفیا کے حالات پر ذکیہ بلگرامی کا مضمون ہوتا۔ ہم وہ صفحات کاٹ کر الگ رکھ لیتے۔ صوفیا نے ایک بات سکھائی جو کہیں سے نہیں ملی کہ اللہ سے محبت بھی کی جاتی ہے۔ ہمیں آج تک اللہ سے ڈرنے کا سبق ملا تھا۔ محبت کا باب کسی نے نہیں پڑھایا۔ یہ تذکرہ تو چھڑتا کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے لیکن کیا ہمارا منہ تھا کہ ان سے محبت کریں؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ ہم ابھی یہی سمجھ رہے تھے کہ جو خدا سے محبت کرتے تھے وہ چلے گئے ؎
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
چوں کہ ہم سمجھتے تھے کہ اب وہ لوگ نہیں رہے سو اطمینان سے تھے۔ لیکن زندگی کا ایک موڑ ایسا بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے حرم و عجم میں ایسے بندوں سے ملاقات کرائی جس کا بیاں لغت کرنے سے قاصر ہے۔ تب سمجھ میں آیا کہ کتابی علوم کا اصل لطف اہل خدا کی صحبتوں سے حاصل ہوتاہے۔ جب گولہ میں رس بھرا جاتا ہے تب اسے رس گلہ کہا جاتا ہے۔ جب کباب آگ پر بھونا جاتا ہے تب اس کی خوشبو فضاؤں میں اڑتی ہے۔ پھیکا گلّہ اور کچا قیمہ جو کھائے اصل لطف نہ پائے۔
بس یہ تھی مختصر سی داستاں ہزار داستانوں میں!!!
حقیقی زندگی کے واقعات کو کہانی کی صورت لکھنے کا ہنر ہر ایک کے نصیب میں کہاں!
 
Top