سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
مریم ٹویٹنی کے پاس ہر چیز کا ثبوت موجود ہے۔ اگر ثبوت موجود نہیں ہے توصرف اس بات کا کہ میاں صاحب نے اپنے اثاثے کیسے بنائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چند روز قبل روز وائٹ ہاؤس میں ظل الٰہی ٹرمپ نے مختلف ممالک کے مظلوم اور دکھی لوگوں کو جمع کیا اور ان کی فریاد سنی۔ دنیا بھر سے ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو چنا گیا جو مختلف ممالک میں مذہبی خاص طور پر "اسلامی "دہشتگردی کا شکار ہیں۔ اکثر مسلم ممالک کے لوگ تھے جو اپنے اوپر ہونے والے '' مظالم "کی روداد سنا کر بادشاہِ وقت کے سامنے فریادی بنے ہوئے تھے۔ پاکستان سے فرار ہونے والا شکور قادیانی، سلمان تاثیر کا بیٹا شان تاثیر، کردوں کی نمائندہ نادیہ مراد سمیت کئی مسلمان ممالک کے "مظلوم مسلمانوں" نے اپنی اپنی دکھ بھری داستان ظل الہی جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کی۔

مذہب کے نام پر دوہرے معیار
24/07/2019 طاہرہ مسعود


اس سے قبل کہ اصل معاملے کا ذکر ہو قارئین سے ایک سوال ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے ٹی وی کے اینکرز ہمارے کالم نگار ہمارے سیاستدان دن رات قوم کی کمزوریاں اور برائیاں اچھالتے اور قوم کو بدنام کرتے رہتے ہیں؟

یہ تو ایک قومی فریضہ اور شعار بن چکا ہے۔ بلکہ لوگوں کی روٹی روزی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

کیا ایک بڑے نامور عالمِ دین ٹی وہی پر بیٹھ کر دنیا کو خود نہیں بتاتے کہ ا سوقت ہمارا عالمی تشخص یہ ہے کہ دنیا کی ائیرپورٹس پر ہرے پاسپورٹ والوں کی لائن الگ کروا دی جاتی ہے کہ یہ مشکوک لوگ ہیں لہذا ان کی چھان بین اور بھی سخت ہو گی۔

اب اصل مدعا کی طرف۔ یہ اپنی طرز کی ایک ایسی مجلس تھی کہ جو اس سے ایک سال قبل پہلی بار منعقد ہوئی تھی۔ ا ور امسال یہ دوسری بار تھی۔ اس میں دنیا بھر سے مذہبی اور لسانی تعصب اور بربریت کا شکار لوگ مدعو تھے۔ وہاں چین، کوریا، عراق، ایران، ایریٹیریا، نائیجیریا، روہنگیا، اور بے شمار ممالک کی نمائندگی تھی۔ لوگوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفاصیل سن کر مانو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ کوئی موت کے منہ سے بچا تھا اور کسی کا پیارا ابھی بھی موت کے چنگل میں تھا۔

حضرتِ انسان کے ستائے ہوئے انسان اپنی روحوں پر زخم لیے اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے نکلے تھے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ان کی فریاد سننے والا اور کوئی نہیں بلکہ وہی تھا جوزیادہ تردنیا بھر میں اس طرح کی صورتِ حال کا کئی پہلوؤں سے ذمہ داربھی تھا۔ لیکن اس فرمانروا کا عہدہ اور رتبہ اتنا بڑا تھا کہ اگر وہ چاہتا تو خواہ دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی مگر وہ ان کی کسی حد تک داد رسی کر بھی سکتا تھا۔ آخر اس کو بھی تو دنیا میں ا پنی گرتی ہوئی ساکھ سنبھالنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ۔ آہ۔ عجب دنیا ہے۔

ہاں تو وہاں ہر کوئی اپنی دل خراش آپ بیتی سنا رہا تھا۔ سب سے افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں وطنِ عزیزمیں مذہبی انتہا پسندی کے ہاتھوں ستائی ہوئی اقلیتیں بھی درد بھری حقیقتوں کے ساتھ موجود تھیں۔ ہر محبِ وطن انسان کو افسوس تو ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن کا نام اس میں آ یا۔ لیکن کیوں آیا، کیا یہ نہیں دیکھنا چاہیے؟ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ رُخ بھی دیکھا جائے۔

وہاں مسیحی بھائیوں نے بھی اپنی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی تعصبانہ کارروائیوں کا ذکر کیا اور ان سے مدد مانگی۔ لیکن پاپڑ والا تو پاکستان میں ایک ہی مظلوم طبقہ ہے جس کو وطن کے علماء انسان بھی نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی دوسرا بھی ان کو انسان نہ سمجھے۔ احمدی فرقے کے ایک بزرگ نے جب خود بیتی کہی تو اس کو خوب اچھالا جا رہا ہے۔ غلط کہا جا رہا ہے۔ جبکہ کوئی مظلوم جس کو اپنے انصاف نہ دیں خواہ وہ مختار مائی ہو یا ملالہ، معتوب ہو جاتے ہیں۔

مسلمان کیوں ہجرتِ حبشہ کو بھول جاتے ہیں؟ جب ایک عیسائی فرمانروا سے اسی طرح صحابہ ء کرام نے اپنے وطن میں اپنوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کے خلاف مدد چاہی تھی۔ کیا آپ اپنی تاریخ نہیں جانتے؟ لیکن ظلم اور نا انصافی جب عادت بن جائے تو پتہ نہیں چلتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان بزگوارکو معتوب کرنا بھی اسی زیادتی کی ایک کڑی ہے۔ ارو پھر یہ تووہی بات ہو گئی کہ جس کی گردن دباؤوہی آنکھیں نکالتا ہے۔

جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے اور جو ہماری عوام کی ذہن سازی ہو چکی ہے ان کی دردناک روداد سن کر بھی کسی کا دل نہیں پسیجا بلکہ نہایت بے رحمی سے ان پرالزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ہے۔ یہ بات اٹل ہے کہ جو رحم نہیں کرتا ا س پر رحم نہیں کیا جائے گا۔

کتنی زیادتی ہے کہ ایک خاص مسلک کے ایک ہی شخص کے بیان پر فوکس کر لیا گیا ہے۔ کوئی اس کو سوچی سمجھی سازش کہہ رہا ہے۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے صرف یہی ایک شخص وہاں موجود تھا۔ اورا سی کی ملاقات اس صدر سے کروائی گئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سے قبل وہاں بیسیوں لوگوں نے اپنا موقف اور تجربہ بیان کیا۔ ان کا نمبر تو آخری تین چار افراد میں سے تھا۔ ان معصوم بزرگوار کو تو انگریزی بھی نہیں آ تی تھی۔ انہوں نے تو اپنا ما فی الضمیربھی ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بیان کیا۔ کیونکہ ان کا مزاج انسانوں کے سامنے اپنے دکھ بیان کرنے کا نہیں تھا۔ ایسا انہوں نے پہلی بار کیا تھا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور آگہی لانا بعض اوقات فرض ہو جاتاہے۔

وطنں عزیز میں یہ ایک اسّی سالہ بزرگ ابھی تک اپنا رزق خود کما رہے تھے کیونکہ ہماری حکومتیں بزرگوں کے طرف اپنے فرائض ادا نہیں کرتیں اور کوئی اولڈ ایج بینیفٹ ان کو نہیں ملتا۔ حکومت نے بڑھاپے میں ان سے یہ تعاون کیا کہ ان کا اپنے ہی لوگوں کے اپنے ہی علاقے میں اپنے عقائد کی کتب بیچنا جرم بنا دیا گیا۔

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے؟

اس سے قبل یہ محترم بزرگ کسی اور شہر میں رہتے تھے۔ لیکن ان کو جینے نہیں دیا گیا۔ ان کے عقیدے کی بنا پر ان کا گھراور کاروبارجلا کر راکھ کر دیا گیا۔ وہ شکوہ زبان پر لائے بغیر ایسے علاقے میں منتقل ہو گئے جو ان کے خیال میں نسبتاً محفوظ تھا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ یہاں ا س نمازی پرہیز گار تہجد گزار بزرگ کو ہتھکڑیاں لگا کرجیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ ان کے پیچھے ان کی ضعیف بیوی تنہا کیسے گزارہ کرے گی۔

ان کے بچے باہر کے ممالک میں پہلے ہی پناہ گزین تھے۔ کیونکہ وطن کی مٹی اور فضا ان کے لیے مسموم کردی گئی تھی۔ ان بوڑھی خاتون نے کیسے دن رات سسک سک کراکیلے گھر میں تین سال گزارے، ا س کا حساب وہ کس سے لے؟ گھر ہی ان کے لیے جیل اور قیدِ تنہائی بن گئی۔ اور وہ بزرگ بنا کسی جرم کے جیل کی کوٹھڑی میں بے آرامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے۔ ایک دو دن نہیں مسلسل تین سال۔ اور لاکھوں روپیہ جرمانہ الگ ان کو کیا گیا۔

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

کہتے ہیں ایک اچھا انسان دوسرے کی غلطی معاف کرسکتا ہے مگر اپنی نہیں۔ کیا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھ لینا چاہیے؟ تاکہ معلوم ہو

الزام ہم ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

جب ہر محبِّ وطن مسلمان پاکستانی کو علی الاعلان یہ حق حاصل ہے کہ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر قومی غلطیاں ساری دنیا کو بتا سکے۔ اور اس کے خلاف قوم کا وقار مجروح کرنے کا الزام بھی نہیں لگتا تو ایک ایسا گروہ جس کو کسی شمار میں بھی نہیں لایا جاتا اس کی حقیقت بیانی جرم کیسے بن سکتی ہے؟ کیا پاکستان کا وقاربلند کرنا صرف احمدیوں کی ذمہ داری ہے؟

اگر کسی اکثریت کے علاقے میں اقلیت کا اپنے عقائد کی ترویج کرنا جرم ہے تو پھرعام مسلمان یہ حق دنیا کے ہر ملک سے کیوں مانگتے ہیں؟ اور یہی بنیادی انسانی حقوق خود اپنے ممالک میں خود کسی کو دوسرے کو کیوں نہیں دیتے؟ افسوس یہ دوہرے معیار۔ افسوس کہ یہ اس دین کے نام پر ہو رہا ہے جو مذہبی رواداری کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن کا یوم سیاہ
ویب ڈیسک جمعرات 25 جولائ 2019
1756192-protest-1564043533-324-640x480.jpg

احتجاجی ریلیوں میں اپوزیشن کے سیکڑوں کارکنان نے شرکت کی۔ فوٹو:ٹوئٹر

کراچی: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر یوم سیاہ منارہی ہیں۔

انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف اپوزیشن ملک گیر یوم سیاہ منارہی ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ میرپور ماتھیلو، نواب شاہ، حیدرآباد اور کندھ کوٹ میں جمعیت علماء اسلام نے احتجاجی ریلیاں نکالی جس میں سیکڑوں کارکنان نے شرکت کی۔

ملتان میں کچہری چوک پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ٹائر جلاکر احتجاج کیا اور گوعمران گو کے نعرے لگائے۔ رحیم یارخان میں ڈسٹرکٹ پریس کلب کے سامنے اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ڈیرہ غازیخان میں اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ٹریفک چوک سے پریس کلب تک ریلی نکالی۔

یوم سیاہ پر کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں اپوزیشن کے بڑے مشترکہ جلسے ہوں گے جن میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

ان مظاہروں سے شہباز شریف ، راجہ ظفر الحق ، بلاول بھٹو زرداری، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضاگیلانی ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے ، بڑے شہروں میں سیاہ جھنڈے لہرائے جائیں گے۔

لاہور

ن لیگ کی میزبانی میں مال روڈ پر اپوزیشن اتحاد کا جلسہ ہوگا۔ پولیس نے چیئرنگ کراس کے اطراف میں رکاوٹیں لگادی ہیں۔ ن لیگ کے رانا مشہور، میاں مجتبی، شجاع الرحمن، سید توصیف حیدر اور دیگر رہنما مال روڈ پر موجود ہیں۔


کوئٹہ

کوئٹہ میں بھی اپوزیشن کا مظاہرہ ہوگا جس میں مریم نواز شرکت کریں گی۔ جلسے سے مولانا عبدالواسع ، محمود خان اچکزئی، میاں افتخار اور ڈاکٹر مالک علی مدد جتک سمیت دیگر سیاسی رہنما خطاب کریں گے۔

کوئٹہ جلسے میں آنے والے کارکنوں کو روک دیا گیا

اپوزیشن نے کوئٹہ جلسے میں آنے والے کارکنوں کو روکنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کوئٹہ میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پشتونخواہ میپ کے رہنما رحیم زیارتوال نے کہا کہ کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ کو مسلح افراد کے ذریعے بند کردیا گیا ہے، حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے اور جلسے میں آنے والے تمام کارکنوں کو روک لیا ہے، اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں، حکومت فوری طور پر تمام بند کیے گیے راستے کھولے اور کسی بھی نہ خوشگوار واقعہ کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔


کراچی

پیپلزپارٹی کی میزبانی میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا کراچی میں مزارِ قائد سے متصل باغ جناح میں جلسہ ہوگا جس سے بلاول بھٹو زرداری، ن لیگ کے ایاز صادق اور دیگر رہنما خطاب کرینگے۔

پشاور

جے یو آئی کی میزبانی میں اپوزیشن کا جلسہ ہوگا جس سے اسفند یار ولی، آفتاب احمد شیرپاؤ، مولانا فضل الرحمن، میرحاصل بزنجو اور دیگر قائدین خطاب کرینگے۔

آئی جی اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار خان نے اسلام آباد کی سکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا ہے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

اپوزیشن کے یوم سیاہ کے تناظر میں فیصل آباد میں پولیس نے لیگی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 2 سو سے زائد کارکنان کو حراست میں لے لیا ہے۔ احمد پور سیال جھنگ میں پولیس نے چھاپے مارتے ہوئے مسلم لیگ ن کے تحصیل جنرل سیکرٹری افتخار خان کو گرفتار کرلیا۔
 

Fawad -

محفلین
چند روز قبل روز وائٹ ہاؤس میں ظل الٰہی ٹرمپ نے مختلف ممالک کے مظلوم اور دکھی لوگوں کو جمع کیا اور ان کی فریاد سنی۔ دنیا بھر سے ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو چنا گیا جو مختلف ممالک میں مذہبی خاص طور پر "اسلامی "دہشتگردی کا شکار ہیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی صدر ٹرمپ، جنھوں نے مذہبی آزادی کو اپنی خارجہ پاليسی کا اہم ستون بنايا ہے حال ہی ميں چين، ترکی، شمالی کوريا، ايران اور برما سے تعلق رکھنے والے ايسے شہريوں کے ايک وفد سے ملے جنھيں مذہب کی بنياد پر تکاليف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ان متاثرين کے مذہبی عقائد اور ان کی قوميت ملاقات کا مرکزی نقطہ نہيں تھا۔ ان کے مذہبی نظريات کی بنياد پر انھيں جس تشدد اور بنيادی انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کا سامنا کرنا پڑا ہے انھيں اجاگر کرنا مقصود تھا تا کہ سرحدی بندشوں سے قطع نظر اس عالمی مسلئے کو اجاگر کيا جا سکے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح رہے کہ جن متاثرين نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ان ميں برما، ويت نام، شمالی کوريا، ايران، ترکی، کيوبا، نائجيريا، سوڈان اورايريٹريا کے عيسائ شہری بھی تھے، افغانستان، سوڈان اور نيوزی لينڈ سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی تھے۔ يمن اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے يہودی بھی تھے۔ کاؤ دائ عقیدے پر يقين رکھنے والے ويت نام کے شہری بھی تھے اور عراق کے يزيدی شہری بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔

امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے حال ہی ميں اعلان کيا ہے کہ امريکہ مذہبی آزادی کی تحريک چلانے کے ليے ايک نئے عالمی ادارے کا قيام عمل ميں لائے گا۔

"اس کے ذريعے يہ ممکن ہو سکے گا کہ جو کاوشيں ہم يہاں کرتے ہيں وہ سارا سال جاری رہيں اور اہم بات يہ ہے کہ اس توسط سے تمام انسانوں کے ان مستقل حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے گا جس کے تحت وہ کسی بھی عقيدے کو اپنا سکتے ہيں يا اپنی سوچ پر عمل پيرا ہو سکتے ہيں"۔

يہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ امريکی وزارت خارجہ ميں اس حوالے سے تين روزہ تقريب کا اہتمام کيا گيا ہے جس ميں درجنوں ممالک سے سينکڑوں کی تعداد ميں متحرک افراد مذہبی آزادی کے فروغ کے ليے شامل ہوئے ہيں۔

گزشتہ برس اس تقريب کے انعقاد کے بعد برطانيہ، تائيوان اور متحدہ عرب امارات ميں اسی حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد بھی کيا گيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

جاسم محمد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی صدر ٹرمپ، جنھوں نے مذہبی آزادی کو اپنی خارجہ پاليسی کا اہم ستون بنايا ہے حال ہی ميں چين، ترکی، شمالی کوريا، ايران اور برما سے تعلق رکھنے والے ايسے شہريوں کے ايک وفد سے ملے جنھيں مذہب کی بنياد پر تکاليف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ان متاثرين کے مذہبی عقائد اور ان کی قوميت ملاقات کا مرکزی نقطہ نہيں تھا۔ ان کے مذہبی نظريات کی بنياد پر انھيں جس تشدد اور بنيادی انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کا سامنا کرنا پڑا ہے انھيں اجاگر کرنا مقصود تھا تا کہ سرحدی بندشوں سے قطع نظر اس عالمی مسلئے کو اجاگر کيا جا سکے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح رہے کہ جن متاثرين نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ان ميں برما، ويت نام، شمالی کوريا، ايران، ترکی، کيوبا، نائجيريا، سوڈان اورايريٹريا کے عيسائ شہری بھی تھے، افغانستان، سوڈان اور نيوزی لينڈ سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی تھے۔ يمن اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے يہودی بھی تھے۔ کاؤ دائ عقیدے پر يقين رکھنے والے ويت نام کے شہری بھی تھے اور عراق کے يزيدی شہری بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔

امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے حال ہی ميں اعلان کيا ہے کہ امريکہ مذہبی آزادی کی تحريک چلانے کے ليے ايک نئے عالمی ادارے کا قيام عمل ميں لائے گا۔

"اس کے ذريعے يہ ممکن ہو سکے گا کہ جو کاوشيں ہم يہاں کرتے ہيں وہ سارا سال جاری رہيں اور اہم بات يہ ہے کہ اس توسط سے تمام انسانوں کے ان مستقل حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے گا جس کے تحت وہ کسی بھی عقيدے کو اپنا سکتے ہيں يا اپنی سوچ پر عمل پيرا ہو سکتے ہيں"۔

يہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ امريکی وزارت خارجہ ميں اس حوالے سے تين روزہ تقريب کا اہتمام کيا گيا ہے جس ميں درجنوں ممالک سے سينکڑوں کی تعداد ميں متحرک افراد مذہبی آزادی کے فروغ کے ليے شامل ہوئے ہيں۔

گزشتہ برس اس تقريب کے انعقاد کے بعد برطانيہ، تائيوان اور متحدہ عرب امارات ميں اسی حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد بھی کيا گيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ کسی بھی ملک و قوم کا باسی ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
25 جولائی۔ تبدیلی کا دن؟ ترمیم و اضافہ شدہ
25/07/2019 خورشید ندیم




آج پاکستان کے عوام نے زبانِ حال سے بتانا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ تبدیلی یا ’تبدیلی‘ کی تبدیلی؟
اگرآج لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں، عوام اپوزیشن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے گھروں سے نکلتے اور جلسہ گاہوں کا رخ کرتے ہیں تو یہ اس بات کا اظہار ہوگا کہ انہوں نے اس سیاسی بندوبست کو مسترد کر دیا ہے جسے 25۔ جولائی 2018 ء کو ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اگر وہ اپوزیشن کے احتجاج سے بے نیاز رہتے ہیں تو یہ عوام کی طرف سے اعلان ہو گا کہ ابھی ان کا پیمانہ ء صبر لبریز نہیں ہوا۔ ابھی امید کا چراغ روشن ہے۔

احتجاج اِس وقت اپوزیشن کے لیے بقا کا سوال توہے ہی، اس کی قومی ذمہ داری بھی ہے۔ جب جمہوری اقدار پامال ہو رہی ہوں۔ جب آزادی رائے کی قدر کو مجروح کیا جا رہا ہو۔ جب ریاستی ادارے متنازع بنا دیے جائیں۔ جب عوام پر معاشی ظلم پر مبنی ایک بے رحم نظام مسلط کر دیا جائے تو یہ اپوزیشن کافرض ہو تا ہے کہ وہ عوام کی آواز بنے اور اُن اقدار کی حفاظت کا علم اٹھائے، جن کو تحفظ دیے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔

وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد، عمران خان صاحب نے ایک دن بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ اختلاف رکھنے والوں کو قوم کا حصہ سمجھتے اور ان کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کروڑوں انسان جو پاکستان کے شہری ہیں اور جو نواز شریف، بھٹو خاندان، مولانا فضل الرحمٰن یا محمود اچکزئی جیسے سیاست دانوں کواپناراہنما مانتے ہیں، خان صاحب کی نظر میں ناقابل ِالتفات ہیں۔ ان کے جذبات کی کوئی اہمیت ہے نہ ان کے خیالات کی کوئی قدر۔

اِس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریکِ انصاف کے مخالف اراکین کی تعداد، تحریکِ انصاف کے اراکین سے کم نہیں۔ تحریکِ انصاف کی انتخابی کامیابی پر تو شکوک کے سائے منڈلا رہے ہیں لیکن 2018 ء کے انتخابات میں جو نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرکامیاب ہوا، اس سے بڑھ کر عوام کا حقیقی نمائندہ کون ہو سکتا ہے؟ اتنی شفاف کامیابی کہ شک کا بھی گمان نہ ہو۔ حکومت ان کے وجود کو تسلیم کر نے پر آمادہ نہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بجٹ میں اپوزیشن کی کوئی ایک ترمیم قبول نہیں کی گئی۔

اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ مریم نواز نے منڈی بہاؤ الدین کا قصد کیا توجلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا گیا۔ فیصل آباد جلسے کا ارادہ کیا تو ایم پی او 16 نافذ کر دی گئی۔ نون لیگ کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جلسے کر نے پر مریم نواز کے خلاف مقدمات قائم کر دیے گئے۔ سیاسی قیدی کا تصور پھر سے زندہ کر دیا گیا۔ یہ ایسی سیاسی جماعت کے دور میں ہو رہا ہے جو برسرِاقتدار آنے تک، سول نافرمانی کو اپنا جمہوری حق سمجھتی تھی۔ جو 126 دن کے دھرنے کو جمہورت کا تقاضا قرار دیتی تھی۔ جو کھلے عام پاکستانیوں کو کہتی رہی کہ و ہ بجلی کے بل ادا نہ کریں۔ جو تھانوں پر حملہ آور ہوتی اور اپنے کارکنوں کو پولیس کے قبضے سے چھڑا لیتی تھی۔

یہی نہیں، حکومت اخبارات اور ٹی وی چینلز کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے جلسوں کی خبر نشر نہ کریں۔ پیمرا کو ایسی ہدایات جاری ہوتی ہیں جو جمہوری روایات اور اقدار سے متصادم ہیں۔ خان صاحب جلسوں میں اپوزیشن کو للکارتے اور اپنے کنٹینر کی پیش کش کرتے ہیں۔ امریکہ میں تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپوزیشن کے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے اپنی کارکن بھیجنے کو تیار ہیں۔ یہ بظاہر بے خوبی کا اظہار ہے لیکن عملاً خوف اتنا ہے کہ مریم نواز کا جلسہ دکھانے کی اجازت نہیں۔ نون لیگ کے ایک ایک رکن اسمبلی کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو چکا۔

معیشت کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ چند دن پہلے، ’دنیا ٹی وی‘ پر کامران خان شو میں، کراچی سٹاک ایکسچینج کے بارے میں چشم کشا رپورٹ دکھائی گئی۔ اس کے مطابق، جب سے نون لیگ کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا، کراچی کا بازارِحصص، زوال کے راستے پر سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ 24۔ مئی 2017 ء میں کے ایس ای 52478 پوائنٹس پر بند ہوا۔ آج اس میں تیس ہزار پوائنٹس کی کمی آ چکی۔ 2017 ء میں ایک سو ارب ڈالے کا کاروبار ہو ررہا تھا۔ آج چالیس ارب ڈالر پر ہے۔ ہر شے کا بھاؤ گر چکا۔ ایشیا کی بہترین سٹاک ایکسچینج، کامران خاں کے الفاظ میں دنیا کی بدترین مارکیٹ بن چکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جس ملک میں جمہوری روایات، سیاسی و سماجی ارتقا، میڈیا کی آزادی اور معیشت کا یہ حال ہو، اگر وہاں کی اپوزیشن خاموش بیٹھے گی تو کیا یہ قومی جرم نہیں ہو گا؟ یہ دلیل اب دم توڑ چکی کہ حکومت کو وقت دیا جائے۔ جوحکومت خودحزب ِاختلاف کو جینے کا حق دینے پر آمادہ نہیں، وہ کس منہ سے یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ اُس کو وقت دیا جائے؟ اس لیے اس حکومت کے خلاف اٹھنا اپوزیشن کا آئینی حق تو ہے ہی، اب اس کا قومی فریضہ بھی بن چکاہے۔

آج مسئلہ یہ نہیں کہ ملک کے مسائل شتابی سے کیوں حل نہیں ہو رہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔ حکومت سے میرے نزدیک ابتدا میں دو تو قعات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ سیاست و معیشت میں اگر زوال ہے تو رک جائے۔ کم از کم ترقی ء معکوس نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ معاشرہ فکری و سیاسی ارتقا کے راستے پر آگے بڑھے۔ امکانات کے دروازے کھلے رہیں۔ امید کے چراغ روشن رہیں۔

موجودہ حکومت ان دونوں توقعات پر پورا نہیں اتری۔ معیشت کے باب میں کوئی ایک نشانی ایسی نہیں جو بہتری کی خبر دیتی ہو۔ جو کچھ ہے، وعدہ فردا ہے۔ دوسری طرف ترقی معکوس کا عمل جاری ہے، جن کے بعض شواہد کامران خان نے ہمارے سامنے رکھے۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں۔ نہ بازارِ حصص سے نہ کھلی منڈی سے۔ روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں۔ براہ راست سرمایہ کاری میں باون فی صد کی کمی آ چکی۔ یہ خان صاحب کے اس دعوے کی تردید ہے کہ لوگ ماضی میں کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کرتے تھے۔ رہا سیاسی و فکری ارتقا، تو جہاں بات کہنے کی اجازت نہ ہو، وہاں کیسا ارتقا اور کون سے ارتقا؟

سماجی سطح پر انتہاپسند گروہوں نے پہلے ہی آزادی رائے کو سلب کر رکھا ہے۔ اس کیفیت میں لوگ ریاست کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے گروہوں سے نجات دلائے گی۔ بجائے اس کے کہ ریاست ایسے گروہوں سے نجات دلاتی، وہ رہی سہی آزادی کوبھی ختم کر رہی ہے۔ ملک کو جمہوری و فکری ارتقاکے بجائے فسطائیت کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ یوں اس حکومت کے حقِ اقتدارپر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔

اگر آج ملک میں سیاسی آزادی ہوتی۔ بات کہنے کی اجازت ہوتی تو میں اس نقطہ نظر کا وکیل ہوتا کہ اس حکومت کو، مشکوک انتخابی کامیابی کے باجود، اپنا دورانیہ پوراکر نے دیا جائے۔ جب حکومت ابتدائی مطالبات پورا نہیں کر سکی تو پھر اس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ جبر کا یہ سلسلہ جاری رہا تو مجھے اندیشہ ہے کہ گلی گلی تصادم کا راستہ کھل جا ئے گا۔ حبس کی فضا میں تو لُو بھی غنیمت ہوتی ہے۔

کیا اس ملک کے عوام اس مقدمے کو درست مانتے ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی گاڑی کا کانٹا بدل دیا گیاہے؟ کیا ان کی نظر میں آزادی رائے کی کوئی قیمت ہے؟ کیا وہ فکری وسیاسی آزادی کی قدر جانتے ہیں؟ کیا وہ باخبر ہیں کہ فاشزم سے معاشرے کس عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ آج اپویشن کی کال پر عوام کے جواب سے ہمیں ان سوالات کے جواب مل جائیں گے۔
25 جولائی 2018 ء کوایک تبدیلی کی بنیاد رکھی گئی۔ 25 جولائی 2019 ء کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ تبدیلی کتنی حقیقی تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ہفتہ قبل میں اداروں کے راز فاش کردوں گی کا "محترم ادارے" تک کا سفر اتنی جلدی کیسے طے ہوا؟ اندر کی خبر دیں جلدی سے :)
EAVpPznX4AE5qHr
 

جاسم محمد

محفلین
یہ سزا یافتہ مجرمہ چاہتی ہے کہ اسے ٹی وی پر آکر جھوٹ بولنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ نہیں تو یہ آزادی صحافت پر حملہ ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کا اپوزیشن کے جلسے اور ریلیاں نہ روکنے کا فیصلہ
جمع۔ء 26 جولائ 2019
1757812-hakomatoroppositionxx-1564148970-149-640x480.jpg

اپوزیشن کے ناکام شو عوام خود دیکھ لے گی، فردوس عاشق فوٹو:ٖفائل


معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اپوزیشن کی کسی ریلی یا جلسے کو نہیں روکنا، عوام خود دیکھ لیں گے کہ ان کے شو کس طرح فلاپ ہوتے ہیں۔

کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکا انتہائی اہم اور کامیاب رہا جس پر کابینہ نے وزیراعظم کو مبارکباد دی، اپوزیشن کو وزیراعظم کی عالمی سطح پر پذیرائی ہضم نہیں ہورہی، گزشتہ روز 25 جولائی 2018 کو مسترد ہونے والوں نے یوم سیاہ منایا، ہم 25 جولائی کو اپنے ووٹ کی سیاہی ان کے منہ پر ملی تھی یہ اس کا سوگ مناتے رہے، ایک ٹولہ احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلانے میں مصروف تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کا نہ روکنے کا حکم دیا ہے، قوم خود دیکھے کہ اپوزیشن کے شو کتنے فلاپ ہیں، ہم چاہتے ہیں یہ انتشار کی سیاست سے باہر آئیں، اپوزیشن کا کل کا شو ناکام ہو گیا، اگلی بار اپوزیشن اپنی ناکامی پر یوم سیاہ منائے گی۔

معاون خصوصی اطلاعات کا کہنا تھا کہ اجلاس میں چیئرمین پی آئی اے نے ماضی کی داستانیں بیان کیں، 2008 سے 2018 تک سابقہ حکمرانوں نے پی آئی اے کو چنگچی کے طور پر استعمال کیا، چنگچی رکشا بھی اس طرح استعمال نہیں ہوتا جس طرح پی آئی اے کو استعمال کیا گیا، قومی ایئرلائن کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا جو کرائے کی سائیکل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، سیاست کی بھینٹ چڑھنے والی قومی ایئرلائن خسارے کا شکار ہوئی، پی آئی اے کے پائلٹس ان کے ذاتی ڈرائیور کی طرح ڈیوٹیاں انجام دیتے رہے۔

فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر بلاجواز سالانہ 503 افراد کی غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں، پی آئی اے کے 33 دفاتر یونین کے قبضے میں تھے، 2012 سے 2017 تک 50 وی آئی پی فلائٹس چلائی گئیں، ان فلائٹس پر ایک ارب 6 کروڑ کا نقصان ہوا، کروڑوں روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا، 31 ڈومیسٹک فلائٹس کو نیشنل روٹس سے ہٹا کر سکھر ایئرپورٹ پراتارا گیا، 21 پی آئی اے جہازوں کا 21 مرتبہ رخ تبدیل کروایا گیا، جہازوں کا رخ سکھر کی طرف موڑنے پر 55 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 45 وی آئی پی فلائٹس نواز فیملی کے لئے استعمال ہوئیں جس پر 950 کروڑ کا نقصان ہوا، نوازشریف کا علاج حکومتی خرچے پر ہوا، وہ جب لندن میں تھے تو دوران علاج پی آئی اے کا جہاز لندن میں کھڑا رہا جس پر 28 کروڑ روپے خرچ آیا، قوم کے بچے اس خاندان کی بیماریوں کا بل ادا کرتے رہے، اور ان کے اپنے بچےکروڑوں روپےکے گھروں میں رہتےہیں، سابق صدر کے دہی بھلوں کی قیمت قوم نے 27 کروڑ روپے کی شکل میں ادا کی۔ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا ہے سابق حکمرانوں سے 2008 سے 2018 تک دہی بھلوں اور سیر سپاٹوں پر آنے والے کے اخراجات وصول کئے جائیں گے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں پی آئی اے میں بہتری آئی ہے، پی آئی اے کی آمدنی میں 22 فیصد اضافہ ہوا اور اخراجات میں 20فیصد کمی ہوئی، اس سال قومی ایئرلائن اپنے پاوٴں پر کھڑی ہوجائے گی، قیادت درست ہو تو بدترین حالات میں اچھے نتائج دیئے جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
Former president Asif Zardari’s interview was pulled a few minutes into transmission​
آصف زرداری نیب کی حراست میں ہیں۔ پروڈکشن آرڈر کے تحت پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے لئے لائے گئے تھے۔ لیکن ہاؤس میں بیٹھنے کی بجائے بلاول زرداری کے کمرے میں چھپ کر حکومت اور نیب کے خلاف انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ جو کہ پروڈکشن آرڈر قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اسی لئے اس انٹرویو کو چلنے سے روکا گیا۔

;TV channels were sent show-cause notices for airing Maryam Nawaz’s live press conference​
مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سزا یافتہ مجرم ہیں۔آئین و قانون کے تحت وہ کوئی پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتی۔ کجا یہ کہ سیاسی جلسے اور پریس کانفرسز کر کے اسے ٹی وی پر نہ دکھائے جانے کا رونا روئیں۔

;Three channels were taken off air without assigning any reason; another channel, a few hours before the prime minister arrived in the US, was either forced off the air or had its channel number changed in many parts of the country​
ان تینوں چینلز نے سزا یافتہ مجرم مریم نواز کی سیاسی تقریر براہ راست دکھا کر قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس لئے کچھ عرصہ کیلئے پیمرا نے ان کو بند کر دیا تھا۔ یہ آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ کسی سزا یافتہ مجرم کی اس طرح ٹی وی پر تشہیر کی جائے۔ ن لیگ کے دیگر لیڈران کے تمام جلسے اور تقاریر چل رہے ہیں۔ ان کے نمائندگان روزانہ مختلف ٹاک شوز میں آکر اپنی پارٹی کا موقف پیش کرتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ صرف مریم نواز پر ہے کیونکہ وہ سزا یافتہ مجرم ہیں۔ اور اس وقت ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔
جیو نیوز کا چینل نمبر وقتی طور پر اس لئے بدلا گیا کیونکہ انہوں نے کیبل آپریٹرز کو بروقت ادائیگی نہیں کی تھی۔ اب شاید واپس آگیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
Javed-11.jpg

ٹرسٹ کی کمی
عیدی امین یوگنڈا کا متنازع ترین صدر تھا‘ وہ 18 سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوا‘دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فوج میں برما میں خدمات سرانجام دیں‘1961ء میں یوگنڈن فوج میں کمیشن حاصل کیا‘1966ء میں آرمی چیف بنا اور1971ء میں اقتدار پرقابض ہو کر صد ربن گیا‘ وہ انتہائی دل چسپ کردار تھا‘ اس نے خود کو سکاٹ لینڈ کا آخری کنگ ڈکلیئر کر دیا‘ وہ فل یونیفارم پہن کر سوئمنگ شروع کر دیتا تھا اور اس نے ایک دن قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی‘وہ اس قدر دل چسپ انسان تھا کہ اس نے ایک دن کھڑے کھڑے 60 ہزارایشیائی باشندوں کو ملک سے نکال دیا‘ ان میں سو سال پرانے ”انڈین سیٹلرز“ بھی شامل تھے‘ وہ کس قدر عجیب وغریب انسان تھا میں آپ کو یہ کہانی کسی اور دن سناؤں گا‘ سردست ہم اس کی زندگی کے ایک حیران کن واقعے کی طرف آتے ہیں۔

عیدی امین ایک دن سوئٹزر لینڈ کے شہر برن پہنچا اور پورے سٹاف کے ساتھ ایک بڑے بینک کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا‘ وہ سیدھا بینک کے صدر کے دفتر میں داخل ہو گیا‘ صدر یوگنڈا کے صدر کو دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ عیدی امین نے کمرے کو اندر سے لاک کیا‘ اپنے بریف کیس سے ایک فہرست نکالی‘ بینک کے صدر کے سامنے رکھی اور فوجی لہجے میں کہا‘ ہماری خفیہ ایجنسی نے طویل تفتیش کے بعد مجھے اطلاع دی آپ کے بینک میں ہمارے ملک کے سوا چار سو لوگوں کے خفیہ اکاؤنٹ ہیں‘ ہمیں ہر صورت ان اکاؤنٹس کی تفصیل چاہیے‘ بینک کے صدر نے احترام سے جواب دیا‘ سر ہم اپنے کسی کلائنٹ کی کوئی تفصیل کسی کو نہیں دیتے‘ عیدی امین نے پیار سے کہا‘ہم نے فیصلہ کیا ہے ہمیں جو شخص یہ تفصیلات فراہم کرے گا ہم اسے 20 فیصد رقم دے دیں گے‘ آپ بتا دو آپ کھڑے کھڑے ارب پتی ہو جاؤ گے‘ صدر نے فوراً ناں میں گردن ہلائی اور کہا‘ سر یہ ہماری پالیسی نہیں‘ میرا بینک کسی اکاؤنٹ ہولڈر کی انفارمیشن مجھے بھی نہیں دیتا‘ عیدی امین نے غصے سے کہا‘ آپ نے اگر میری مدد نہ کی تو میں سوئٹزر لینڈ کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ختم کر دوں گا‘ آپ کے بینک اور بینک کی سسٹر آرگنائزیشن کے یوگنڈا کے اثاثے بھی ضبط کر لوں گا اور ہم فیوچر میں کسی سوئس کمپنی کے ساتھ کوئی کاروبار بھی نہیں کریں گے حتیٰ کہ ہم آپ کی فلائیٹس بھی اپنی فضاؤں سے نہیں گزرنے دیں گے‘ بینک کا صدر تھوک نگل کر بولا‘ سر آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن میں اور میرا کوئی کولیگ آپ کو کوئی انفارمیشن نہیں دے گا۔

عیدی امین پوری دنیا میں غصیلا مشہور تھا‘ وہ غصے سے کانپ اٹھا‘ اس نے بریف کیس سے اپنا پستول نکالا‘ پستول ”ان لاک“ کیا‘ صدر کی کنپٹی پر رکھا اور کہا میں تین تک گنوں گا اگر تم نے ہاں نہ کی تو میں تمہیں گولی مار دوں گا‘ صدر کے سر‘ گردن اور کمر سے پسینے کی آبشاریں بہنے لگیں‘ وہ جانتا تھا عیدی امین جو کہتا ہے وہ کرتا ہے‘ یہ اگر تین گنے گا تو یہ تین پرواقعی گولی چلا دے گا‘ عیدی امین نے ایک کہا‘ پستول کا چیمبر ذرا سا گھوما‘ بینک کے صدر نے آنکھیں بند کر لیں‘ عیدی امین کے منہ سے دو نکلا‘ چیمبر معمولی سا مزید آگے کھسکا اور پھر عیدی امین نے تین کہہ کر گولی چلا دی۔

ٹھاہ کی آواز آئی اور بینک کا صدر فرش پر گر گیا‘ گولی کی گونج ختم ہوئی تو کمرے میں عیدی امین کا قہقہہ گونج رہا تھا‘ صدر فرش پر گر کر ایڑیاں رگڑ رہا تھا‘ یہ سلسلہ چند سیکنڈ جاری رہا پھر اچانک بینک کے صدر کو محسوس ہوا وہ زندہ بھی ہے اور سلامت بھی‘ گولی اس کے کان کے قریب سے گزر گئی تھی‘ وہ اٹھ کر سیدھا کھڑا ہوا اور خوف سے عیدی امین کو دیکھنے لگا‘ عیدی امین نے ہنستے ہنستے پستول بریف کیس میں رکھا اور مسکرا کر بینک کے صدر سے بولا”میں صرف یہ دیکھ رہا تھا‘ تم اور تمہارا بینک دونوں کتنے ٹرسٹ وردی ہیں‘ پلیز فارم منگواؤ میں تمہارے بینک میں خفیہ اکاؤنٹ بھی کھلوانا چاہتا ہوں اور اس میں دو بلین ڈالر بھی جمع کرانا چاہتا ہوں“۔

میں دعوے سے یہ نہیں کہہ سکتا یہ واقعہ سچا تھا یا پھر یہ بھی عیدی امین کے خلاف برطانوی پروپیگنڈے کا حصہ تھا تاہم یہ سچ ہے سوئس بینکس اصول کے پکے ہوتے ہیں‘ یہ کسی قیمت پر اپنے کسی کھاتے دار کی انفارمیشن کسی شخص کو نہیں دیتے خواہ وہ شخص ان کا صدر ہی کیوں نہ ہو اور یہ وہ اصول ہے جس نے ان بینکوں کو ٹرسٹ وردی بنا دیا اور دنیا جہاں کی بلیک منی سیدھی سوئس بینکوں میں جاتی ہے اور یہ وہاں پارک ہو جاتی ہے‘ آپ سوئس بینکوں کا ٹرسٹ دیکھیے دنیا بھر کے کرپٹ لیڈر اپنے بچوں‘ اپنے دوستوں اور اپنے وفادار ساتھیوں پر اتنا اعتبار نہیں کرتے تھے جتنا اعتبار یہ سوئس بینکوں پر کرتے تھے اور یہ اس اعتبار کا نتیجہ ہے سوئس بینک پوری دنیا میں باقاعدہ محاورہ بن گئے ہیں۔

میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو دو مزید مثالیں دوں گا‘ دنیا میں سب سے بڑا جاسوسی اور عسکری نیٹ ورک امریکا میں ہے‘ امریکی جاسوس اور امریکی فوجی ملک کے نام پر آگ میں بھی کود جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ امریکا کی روایت ہے یہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر اپنے کسی فوجی کی لاش نہیں چھوڑتا‘ یہ پوری بٹالین مروا دیں گے لیکن اپنے زخمی اور اپنے شہید اٹھا کر لائیں گے اور یہ انہیں امریکی سرزمین پر دفن کریں گے۔

امریکا کے دوسری جنگ عظیم میں 9387جوان یورپ میں مارے گئے تھے‘ امریکا اتنی لاشیں واپس نہیں لا سکتا تھا چناں چہ اس نے فرانس سے زمین خریدلی‘ اس زمین کو امریکا کا حصہ ڈکلیئر کیا اور اپنے فوجی وہاں دفن کیے‘ دوسرا امریکی اپنا کوئی جاسوس کسی دوسرے ملک کی حراست میں نہیں چھوڑتے‘ امریکا نے 2011ء میں پاکستان کے ساتھ اپنے 60سالہ تعلقات داؤ پر لگا دیے تھے لیکن یہ ریمنڈ ڈیوس کو واپس لے کر گیا‘ آپ دیکھ لیجیے گا یہ شکیل آفریدی کو بھی بہت جلد امریکا لے جائے گااور یہ وہ ٹرسٹ ہے جو امریکا کے ہر جاسوس اور ہر فوجی کو دنیا کے کسی بھی خطے میں کودنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یہ لوگ جانتے ہیں ہمارے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے اور یہ ہمارے لیے ایٹم بم تک چلا دے گی‘ آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ پوری دنیا میں امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور ناروے کے لوگ دوسرے ملکوں میں پراپرٹی نہیں خریدتے‘ یہ پوری دنیا سے پیسہ کمائیں گے لیکن یہ رقم سیدھی اپنے ملکوں میں لے کر جائیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں ہمارا سرمایہ جتنا ہمارے اپنے ملکوں میں محفوظ ہے یہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہو سکتا اور یہ وہ ٹرسٹ ہے جس نے امریکا کو امریکا‘ کینیڈا کو کینیڈا‘ آسٹریلیا کو آسٹریلیا اور ناروے کو ناروے بنایا۔

آج بھی پوری دنیا کے خوش لوگ اپنے سارے سرمائے کے ساتھ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور امریکا جاتے ہیں؟ کیوں؟ کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں ہمارا سرمایہ ہمارے اپنے ملکوں ملک کی بجائے کینیڈا اور آسٹریلیا میں زیادہ محفوظ رہے گا اور یہ عدم تحفظ کا وہ احساس ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیڈروں سے لے کر پرچون فروش اور پراپرٹی ڈیلرز تک اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں شفٹ کرتے ہیں‘ہم نے کبھی سوچا بھٹو فیملی کا سرمایہ ملک سے باہر کیوں گیا؟اس کے پیچھے بھی عدم تحفظ کا احساس تھا۔

ہم ذوالفقار علی بھٹو پر سینکڑوں الزامات لگا سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے وہ کرپٹ نہیں تھے چناں چہ وہ جب پھانسی چڑھے اور ان کا خاندان ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوا تو یہ لوگ دربدر ہو گئے‘ یہ لوگ کرنل قذافی اور حافظ الاسد سے امداد لینے پر مجبور ہو گئے تھے‘ یہ خواری کے وہ 9سال تھے جنہوں نے بھٹو فیملی کو ملک سے باہر سرمایہ کاری پر مجبور کر دیا تھا‘ شریف فیملی نے بھی اپنی پہلی حکومت کے خاتمے اور کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد 1993ء میں لندن میں پہلی بار فلیٹس خریدے تھے اور کمپنیاں بنائی تھیں اور پھر لائین لگ گئی۔

آج ملک کے ٹاپ بیورو کریٹس ہوں‘ جنرل پرویز مشرف جیسے جرنیل ہوں‘ بزنس مین‘ کھلاڑی یا پھر پراپرٹی ڈیلرز ہوں یہ اپنے سرمائے کا 80 فیصد ملک سے باہر منتقل کر دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ نہیں جانتے کل کون سی حکومت اور کون سا صدارتی آرڈر آ جائے اور یہ اپنی ساری جمع پونجی سے محروم ہو جائیں چناں چہ یہ لوگ ایک خاص حد کے بعد اپنا کاروبار بھی ملک سے باہر شفٹ کر دیتے ہیں اور یہ اپنی گروتھ بھی روک دیتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم‘ ہماری حکومت اگر سرمائے کی پرواز روکنا چاہتی ہے‘ یہ اگر چاہتی ہے لوگ اپنا سرمایہ ملک کے اندر لے آئیں تو یہ پھر لوگوں کو صرف ٹرسٹ دے دے‘ یہ انہیں صرف اتنا اعتماد دے دے آپ کوئی بھی ہیں اور ملک میں اگر آپ کا ایک پیسہ بھی موجود ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ سے وہ پیسہ نہیں چھین سکے گی‘ آپ اگر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کریں‘ آپ بے شک وارن بفٹ بن جائیں دنیا کی کوئی طاقت آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی اور آپ خواہ جنرل مشرف ہیں‘ نواز شریف ہیں یا پھر آصف علی زرداری ہیں‘ملک میں آپ کے خلاف کوئی جھوٹا کیس نہیں بنے گا۔

آپ نے جو جرم کیا ہے آپ کو صرف اس کی سزا ملے گی اور بس اور آپ اس کے بعد کمال دیکھیے گا‘ ٹرمپ بھی اپنا سرمایہ پاکستان شفٹ کر دے گا اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر مجھے خطرہ ہے گورنر سٹیٹ بینک بھی اپنی تنخواہ پاکستان میں نہیں رکھے گا‘ یہ بھی ہنڈی کے ذریعے اپنے پیسے دوبئی شفٹ کر لے گا چناں چہ اعتماد کا فقدان یہ ہمارا سب سے بڑا ایشو ہے‘ ہم نے جس دن یہ حل کر لیا ہم اس دن پٹڑی پر آ جائیں گے ورنہ پھر اللہ ہی اللہ۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگست میں حکومت مستعفی نہ ہوئی تو پورا ملک اسلام آباد میں ہوگا، فضل الرحمان
ویب ڈیسک اتوار 28 جولائ 2019
1759645-fazalurrehman-1564322057-664-640x480.jpg

دستاویزی معیشت مغربی ایجنڈہ ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اس دستاویزی معیشت کے ذریعے گلی محلے کے ہر دکاندار تک پہنچنا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمان، فوٹو: فائل

کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کو مہلت دے رہے ہیں اگست کے مہینے میں مستعفی ہو جائیں اگر استعفیٰ نہ دیا تو اکتوبر میں پورا ملک اسلام آباد میں ہو گا۔

کوئٹہ میں جے یو آئی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ25 جولائی کو عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم کیا کہ الیکشن جعلی ہیں، علی الاعلان کہتا ہوں آپ کو عوام پر مسلط کیا گیا ہے یہ جمہوری حکومت نے ہے اسے جعلی مینڈیٹ کے ذریعے عوام پر مسلط کیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ریاست کی بقا کا مدار ملکی معیشت پر ہوتا ہے لیکن اس ناکام حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، ملکی معیشت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، بجٹ کے بعد پورے پاکستان کے تاجروں نے حکومت کی معاشی پالیسوں کے خلاف احتجاج کیا اور ملکی تاریخ کی کامیاب ہڑتال کی، دستاویزی معیشت مغربی ایجنڈہ ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اس دستاویزی معیشت کے ذریعے گلی محلے کے ہر دکاندار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کوئی بیوروکریٹ میں جمہوریت کے معنی نہ سکھائے ہم جمہوریت اور سیاسی ماحول کیساتھ کھڑے ہوئے، مسترد لوگوں کو جبر کی بنیاد پرعوام پر مسلط کیا گیا ہم حکومت کا خاتمہ کرکے گھر واپس بھیجیں گے، اگر ملک پر مسلط رہوگے تو آؤ دو،دو ہاتھ کر لیں۔

مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ کوئٹہ میں آج ہمارا آخری ملین مارچ ہے اب اگلی بار اسلام آباد جائیں گے ان کو مہلت دے رہے ہیں اگست کے مہینے میں مستعفی ہو جائیں اگر استعفیٰ نہ دیا تو اکتوبر میں پورا ملک اسلام آباد میں ہو گا، جس طرح انگریزوں سے آزادی حاصل کی ان سے بھی کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئین کھانستا ہوا بابا ہے
28/07/2019 وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


میرا دکھ اور بڑھ جاتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کہاں جا رہی ہے، معیشت منہ کے بل کیوں گر رہی ہے، اپوزیشن کیوں اتاولی ہو رہی ہے اور میڈیا آخر میسر آزادی پر قناعت کے بجائے مزید آزادی کیوں چاہتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ حکومت جو بھی اقدامات کر رہی ہے یا اس سے کروائے جا رہے ہیں وہ سب نیند میں چلتے ہوئے نہیں بلکہ کھلی آنکھوں ہو رہے ہیں۔

اور یہ سب ملک و قوم کی بہتری کے لئے ہی ہے۔

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ماضی میں کچھ بھی ملک و قوم کی بہتری کے لیے نہیں ہوا۔ جو کچھ ہو رہا ہے آج ہی ہو رہا ہے۔

چنانچہ ہم سب کو موجودہ حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اس کی پنڈلیاں مضبوط کرنی چاہئیں۔ اگر یہ حکومت نہ رہی اور کوئی اس سے بھی خراب آ گئی تب اچھے رہو گے؟

کیا تمھیں یاد نہیں کہ ایوب خان کی اچھی بھلی ترقی نواز حکومت کو گرا کر کیا ملا؟ یحییٰ خان؟ اور پھر کون آیا؟ بھٹو؟ اور بھٹو کو گرا کے کون اس ملک کے نصیب میں آیا؟ ضیا الحق؟ اور ضیا الحق کی موت کے بعد بے نظیر، نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری اور پھر نواز شریف اور اب عمران خان۔

آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ کوئی ایسا حکمران جو عمران خان کو بھی برطرف کرے اور نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دے؟ اور پھر پوری سلیٹ تھوک سے مٹا کر دوبارہ سے اے بی سی ڈی پڑھانا شروع کر دے؟

عمران خان یا کوئی اور سیاسی خان۔ پاکستان میں کسی بھی وزیرِ اعظم پر برسنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بس کے کرائے میں اضافے کا ذمہ دار کلینر کو قرار دے کر گالیاں دیں جبکہ وہ بیچارا تو خود کسی سیٹھ کا دہاڑی دار ہے۔

یا کسی فلاپ فلم کی ذمہ داری ہیرو پر ڈال دی جائے جبکہ اصل ذمہ دار تو ڈائریکٹر ہے جس نے کسی تھکیلے سے اسکرپٹ کو فلما کر ناظرین کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ یا پلاٹ پر قبضہ کرنے والے زور آور تک رسائی نہ ہو تو پلاٹ پر بیٹھے چوکیدار کو پیٹ دیا جائے۔

کیا فائدہ ایسی بچگانہ حرکتوں کا اور کمزوروں پر غصہ نکالنے کا؟ چاند کو گل کریں تو ہم جانیں۔

107020287_gettyimages-1132141192.jpg

پاکستان میں کسی بھی وزیرِ اعظم پر برسنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی فلاپ فلم کی ذمہ داری ہیرو پر ڈال دی جائے جبکہ اصل ذمہ دار تو ڈائریکٹر ہے
اب میڈیا کو ہی دیکھ لیں۔ بیشتر صحافیوں کو یقین ہے کہ ان پر جو بھی پابندیاں ہیں، عمران خان نے لگائی ہیں۔

چینلز کی نشریات وہی معطل کروا رہے ہیں، وٹس ایپ پر میڈیا کو روزمرہ ہدایات انھی کی طرف سے دی جاتی ہیں، چینل پر کس کی پٹیاں چلیں گی، کس کا جلسہ کور ہو گا، کسے اشتہارات ملیں گے، کس کا انٹرویو نشر ہو کہ چلتا انٹرویو اتروا دیا جائے؟ یہ سب عمران خان بتوسط فردوس عاشق اعوان یا پیمرا کر رہے ہیں۔

آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ اگر یہ سب عمران خان کروا رہا ہوتا تو کیا وہ واشنگٹن میں امریکی صحافیوں اور اسٹیببلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ رہا ہوتا کہ پاکستان میں میڈیا نہ صرف امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ آزاد بلکہ آپے سے باہر ہے۔

جس حکومت کا زور زیادہ سے زیادہ عرفان صدیقی پر چل سکتا ہو اس پر بلاوجہ مسلسل تنقید نری زیادتی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت جتنی بھی جمہوریت یا آزادیاں میسر ہیں وہ سب آمریت کی دین ہیں۔ رہی بات آئین کی تو ہم سب اس کا بھی بہت احترام کرتے ہیں، چومتے ہیں اور پھر اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں تاکہ گھر میں برکت رہے۔

بالکل اس کھانستے ہوئے بابے کی طرح جس کی گھر میں عزت تو بہت ہے پر سنتا کوئی نہیں۔
 
Top