نیرنگ خیال

لائبریرین
میں سگریٹ تو نہیں پیتا
مگر ہر آنے والے سے پوچھ لیتا ہوں کہ ماچس ہے؟؟؟
بہت کچھ ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں

--------------​
یہ بھی مجھے بہت پسند ہے۔ اب اس کے لیے الگ سے کیا دھاگہ بنانا۔ اسے بھی یہی شامل کر دیتا ہوں​
بعد مدّت کے پھر ملی ہو تم
یہ جو پہلے سے بھر گئی ہو تم
یہ وزن تم پہ اچھا لگتا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمم --
گلزار صاحب ہوتے تو میں پوچھتی "مثلاً" :)

بہت کچھ۔۔۔ :)
گونگے جذبوں کو بیان کرنے میں گلزار صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ احساسات کے بیاں پر کمال دسترس ہے ان کی۔۔۔۔ :) سچ تو یہ ہے کہ انسان کبھی کبھی اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ پھونک دے۔۔۔ مگر پھونک دینا بھی بس میں نہیں۔ :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت کچھ۔۔۔ :)
گونگے جذبوں کو بیان کرنے میں گلزار صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ احساسات کے بیاں پر کمال دسترس ہے ان کی۔۔۔ ۔ :) سچ تو یہ ہے کہ انسان کبھی کبھی اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ پھونک دے۔۔۔ مگر پھونک دینا بھی بس میں نہیں۔ :)
ہزار ہا بار متفق :)
 

بھلکڑ

لائبریرین
ہا ئے او ربا!!!!!!!!:notlistening:
سوہنیو اک گل تاں دسو۔۔۔۔۔ایہہ ایڈیاں سوہنیاں تے ڈاہڈیاں گلاں کتھے لکو کے رکھدے او!!!!

لاجواب انتخاب!!!!
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
ریشم کے شاعر کا ملائم سا لہجہ کسی پل سفاک نشتر اور کسی پل خوشبو کی طرح روح تک میں اتر جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔


دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن
جاڑوں کی نرم دُھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کِھینچ کر تیرے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لئے ہوئے
یا گرمیوں کی رات کو پُروائی جب چلے
بستر پہ لیٹے دیر تلک جاگتے رہیں
تاروں کو دیکھتے رہیں چَھت پر پڑے ہوئے
برفِیلے موسموں کی کسی سرد رات میں
جا کر اُسی پہاڑ کے پہلُو میں بیٹھ کر
وادی میں گُونجتی ہوئی خاموشیاں سُنیں
دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
دن کچھ ايسے گزارتا ہے کوئی
جيسے احساں اتارتا ہے کوئی

آئينہ ديکھ کے تسلي کوئی
ہم کو اس گھر ميں جانتا ہے کوئی

پک گيا ہے شجر پہ پھل شايد
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی

پھر نظر ميں لہو کے چھينٹے ہيں
تم کو شايد مغالطہ ہے کوئی

دير سے گونجتے ہيں سناٹے
جيسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
 

زبیر مرزا

محفلین
بات گلزارصاحب کی ہو تو چمپا کے پھولوں کی مہک سی فضاء میں محسوس ہونے لگتی ہے
گلزارصاحب کے مداحوں کی نذر ان کی ایک نظم

آج پھرچاند کی پیشانی سے اُٹھتا ہے دھواں
آج پھرمہکی ہوئی رات میں جلنا ہوگا
آج پھرسینے میں اُلجھی ہوئی وزنی سانسیں
پھٹ کے بس ٹوٹ ہی جائیں گی
بکھرجائیں گی
آج پھر جاگتے گزرے گی ترے خواب میں رات
 

زبیر مرزا

محفلین
ماؤں اور اُداس بیٹوں کی نذر گلزار صاحب کی یہ نظم
فراق
وہ شب جس کو تم نے گلے سے لگاکر
مقدس لبوں کی حسیں لوریوں میں
سُلایاتھا لمبی کہانیاں سناکر
وہ شب جس کی عادت بگاڑی تھی تم نے
وہ شب آج بسترپہ اوندھی پڑی رورہی ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہا ئے او ربا!!!!!!!!:notlistening:
سوہنیو اک گل تاں دسو۔۔۔ ۔۔ایہہ ایڈیاں سوہنیاں تے ڈاہڈیاں گلاں کتھے لکو کے رکھدے او!!!!
تے سرکار اوہ کیہہ جنوں تسیں پھونکنا چاؤہنے او۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ مینوں لگدا اے ساڈیاں تے نمک لا رہے او!!!!!!

لاجواب انتخاب!!!!

یہ سب شاپر ہے دوست :)

واہہہہہہہہہہہہہ
ریشم کے شاعر کا ملائم سا لہجہ کسی پل سفاک نشتر اور کسی پل خوشبو کی طرح روح تک میں اتر جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔


دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن
جاڑوں کی نرم دُھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کِھینچ کر تیرے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لئے ہوئے
یا گرمیوں کی رات کو پُروائی جب چلے
بستر پہ لیٹے دیر تلک جاگتے رہیں
تاروں کو دیکھتے رہیں چَھت پر پڑے ہوئے
برفِیلے موسموں کی کسی سرد رات میں
جا کر اُسی پہاڑ کے پہلُو میں بیٹھ کر
وادی میں گُونجتی ہوئی خاموشیاں سُنیں
دِل ڈُھونڈتا ہے پِھر وہی فُرصت کے رات دن
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

واہ سرکار :)

گلزارصاحب کے گیت ہوں ان کے مکالمے ، افسانے ، فلمیں یا نظمیں غزلیں ایک دلکشی اور انفرادیت ان میں نظرآتی ہے
بہت شکریہ نیرنگ خیال
راشد اشرف صاحب توجہ فرمائیں

شکریہ زبیر بھائی :)

عمر سیف بھائی بہت شکریہ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
زبردست، گلزار صاحب بہت منفرد لکھتے ہیں چاہے جو بھی لکھیں۔

اور یہ تو آل ٹائم فیورٹ غزل گلزار صاحب کی

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
 

عمر سیف

محفلین
زبردست، گلزار صاحب بہت منفرد لکھتے ہیں چاہے جو بھی لکھیں۔

اور یہ تو آل ٹائم فیورٹ غزل گلزار صاحب کی

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے​
آج پھر آپ کی کمی سی ہے​
دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے​
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے​
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں​
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے​
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر​
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے​
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی​
ایک تسلیم لازمی سی ہے​
آئیے راستے الگ کر لیں​
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے​

جگجیت سنگھ نے اسے گایا بھی خوب ہے۔
 
Top