یوں 7.6 کلومیٹر کی یہ ہائیک ختم ہوئی۔
اس وقت تک ہمیں شدید بھوک لگ چکی تھی۔ لیکن بارش کی وجہ سے ٹریل ہیڈ پر موجود فوڈ ٹرک اب بند تھا۔ ہائیکرز کا رش بھی غائب تھا۔ ہم نے سوچا کہ ڈرائیونگ لوپ مکمل کیا جائے اور اسی میں کوئی کھانے کا انتظام ڈھونڈا جائے۔ چونکہ ابھی سیزن کا آغاز تھا اس لئے اس علاقے میں جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی کوئی سٹور نہ کھلا تھا۔آخر ہم نے کھانے کا ارادہ ترک کیا۔
ایک کاسل کے کھنڈرات گئے لیکن وہاں انہوں نے راستہ بند کر رکھا تھا۔ پھر ایک چھوٹٰ سی ہائیک کے لئے ٹریل ہینڈ پر پہنچے تو شدید بارش ہو رہی تھی۔ کچھ دیر کار میں انتظار کیا لیکن تھمنے کا نام نہ لینے پر ہم واپس پورٹری کی طرف روانہ ہو گئے۔
سید عاطف علی کار کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ یہاں آبادی سے باہر 60 میل فی گھنٹہ سپیڈ لمٹ تھی اور اکثر لوگ کافی تیز چلا رہے تھے۔ لیکن کہیں کہیں کافی برے potholes بی تھے۔ اسی کسی pothole میں ہماری کار کا پہیہ لگا اور ٹائر فلیٹ ہو گیا۔ تیز سپیڈ کی وجہ سے روکتے روکتے کچھ شریڈ بھی ہو گیا۔ آبادی سے میلوں دور تھے۔ رینٹل کار کمپنی کی ہیلپ لائن کو کال کی۔ انہوں نے پوچھا کہ سڑک پر کھڑے ہو اور سپیڈ لمٹ کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ عین سڑک پر ہوں اور لمٹ 60mph ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لوکل شاپ والا آ کر ٹائر بدلے گا۔ ہماری ایک ریستوران میں ڈنر کی بکنگ تھی جو گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ انہیں کال کی کہ ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہوا ہے اور ہم نہیں پہنچ سکتے۔ ریزرویشن ڈنر سے اگلے دن لنچ پر تبدیل کر لی۔ پھر لوکل مکینک کی کال آئی۔ اس نے ٹائر کا سائز پوچھا اور کہا کہ وہ جلد آنے کی کوشش کرے گا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ موجود تھا۔ اس نے فوری ٹائر بدلا۔ کہا کہ اس کے آنے اور کام کے پیسے تو رینٹل انشورنس پے کرے گی البتہ ٹائر کے پیسے فی الحال مجھے دینے ہوں گے اور رینٹل کمپنی مجھے وہ لوٹا دے گی۔ شکر ہے میں نے رینٹل کار کی فل انشورنس لی ہوئی تھی۔
ٹائر کی تبدیلی کے بعد ہم پورٹری پہنچے جہاں تیز بارش جاری تھی۔ بیٹی کو اس کام پر لگایا کہ پارکنگ کے قرب و جوار میں ریستوران ڈھونڈے جہاں ہم فوری ڈنر کر سکیں۔ دو تین کوششوں کے بعد وہ کامیاب ہوئی اور ہم بارش میں دوڑتے ریستوران پہنچے اور آخرکار کھانا کھایا۔
اس دن ہمارے 26969 قدم ہوئے۔