الف عین
شاہد شاہنواز
محمد عبدالرؤوف
عظیم
سید عاطف علی
-----------
سو سال زندگی کے ہم نے ہیں یوں گزارے
سوتے رہے ہیں یونہی ٹانگوں کو ہم پسارے
---------
کرنے جو کام آئے ہم نے کئے نہیں ہیں
جھوٹی تسلّیاں ہی بس پاس تھیں ہمارے
-----------
دولت ملی تھی ہم کو جو وقت کی خدا سے
ضائع کیا ہے اس کو ، گنتے ہیں اب خسارے
----------
لمحے جو کھو گئے ہیں ،حاصل نہ ہو سکیں گے
بیٹھا ہوں اب تو اپنی میں قبر کے کنارے
---------
نفرت سی ہو گئی ہے سارے ہی دوستوں سے
لگتے تھے مجھ کو اپنی جو جان سے بھی پیارے
----------
دل میں اٹھی ندامت لاکھوں گناہ کر کے
ہر سمت دیکھتا ہوں جب موت کے اشارے
------------
لازم حساب ہو گا محشر میں جا کے ان کا
جذبات نفرتوں کے تم نے ہیں جو ابھارے
-------------
توبہ کا در کھلا ہے ، تھوڑا ہے وقت باقی
موقع نہ مل سکے گا ، آگے کو جب سدھارے
---------
مایوس تم نہ ہونا سنتا ہے وہ دعائیں
دل میں خلوص لے کر اللّہ کو جو پکارے
-----------
کرتے ہو جو یہاں پر ، نیکی ہو یا بُرائی
لکھتے ہیں سب فرشتے وہ نام پر تمہارے
------------
دنیا یہیں رہے گی جانا ہے تم کو ارشد
آئیں گے کام تیرے ہرگز نہ یہ سہارے
-----------
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل بھی محض قافیہ پیمائی لگ رہی ہے۔ غیر مردف زمین میں غزل کہنے سے اسی طرح کے اشعار آسانی سے ہو جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس کی اصلاح ہی نہیں کی جائے
 
Top