سو رہو موت کے پہلو میں فرازؔ

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آپ مجھے پڑھ رہے ہیں ، بہت نوازش ۔ میں آپ کی ہمت کی داددیتا ہوں اور احسان مند بھی ہوں
شاید آپ بھی ان چند گنے چنے مخلصانِ عزیز میں سے ایک ہیں جو فدوی کو خاکہ نگار سمجھتے ہیں ، مگر میں آپ کو یہ راز کی بات پہلے ہی بتا دوں ، کہ مجھے خود بھی اس بات پر یقین نہیں ۔ آج کل تو ماشاءاللہ ٹیکنالوجی عروج کی حدودکو چھو رہی ہے ، کوئی بھی بے سرا دو چار الٹے سیدھے مصرعے پڑھ کے "گلوکار" ہو جاتا ہے ۔ اور اپنے تئیں مہدی حسن، نصرت فتح علی خان سمجھنے لگتا ہے ،ایک زمانہ تھا جب یہ سب لوح محفوظ کی زینت تھا، اور لائیو گلوکاری ہی لوگوں کی حسِ سماعت اور برداشت کیلئے رحمت یا زحمت بنا کرتی تھی۔جن کمزوریوں پر آج کل ٹیکنالوجی کی مدد سے پردہ ڈالا جاتا ہے ، انہی پر پرانے ٹیکنالوجی لیس زمانے میں طبلہ نواز اور سارنگی نوازوں کی مدد سے پردہ ڈالا جاتا تھا ۔ جہاں گلوکار کا فن کانپا تو طبلہ نواز ذرا جوش سے طبلے کو تمانچے رسید کرنے لگا ۔ یہی حال اس خاکسار کے ساتھ بھی ہے ، میں اتنا اچھا لکھاری ہوں نہیں، جتنا سمجھ لیا گیا ہوں ، یہ تو اللہ جزا دے ان میری خاکہ نگاری کا طبلہ بجانے والوں کو ، جو میری تحریر کی خامیوں اور کمزوریوں کو اپنی دادو تحسین کی تھاپ سے اوجھل رکھتے ہیں۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کا ایک مشہور جملہ ہے "تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے " ۔ اب تک میں اس کو مفروضہ ہی سمجھتا تھا شاید ، لیکن آج کے بعد میں اس بات پر ایمان لایا۔ شانِ نزول اس ایمان آوری کی یوں ہے کہ
مرزا غالبؔ سے یار لوگوں نے فرمائش کر دی کہ ایک مرثیہ لکھیں،آپ ماشاءاللہ استادوں کے استاد ہیں ، آپ کیلئے بھلا یہ کب مشکل ہے۔استاد بہت سٹپٹائے بہتیری معذرت کی، جان چھڑانے کو کئی بہانے بنائے ، مگر دوست داری والی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کے مجبور کر دئیے گئے ۔
استاد جی کی ایمانداری میں کوئی شک نہیں اس لیے مانا جا سکتا ہے کہ قبلہ غالبؔ نے جگر کاوی تو کی ہوگی مگر چونکہ اس میدان کے جنگجو نہ تھے اس لیے ابتدائیہ لکھ کے ہی معذرت کر لی ۔ یہ کہہ کے کہ جس فن کو دبیر اور انیس جیسے استادانِ فن کمال تک پہنچا چکے ہوں وہاں میں کیا ہاتھ پیر ماروں ۔ (آف دی ریکارڈ یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ جو چند اشعار ابتدائیہ کے طور استاد جی لکھے تھے ، جب محفل میں پڑھے گئے تو حاضرین اپنے آنسو اور اپنی دھاڑیں روک نہ پائے ، حتی ٰ کہ مفتی صدر الدین آزردہ ؔصاحب بھی اشک بار دیکھے گئے۔ دروغ بر گردن مولانا الطاف حسین حالی)

اب جو تاریخ نے خود کو دہرایا تو یار لوگوں نے چھوٹے غالبؔ سے فرمائش کر ڈالی احمد فراز پر خاکہ لکھنے کی۔ اگر میرے بال نہ گر رہے ہوتے تو میں یقیناً سر پیٹ لیتا مگر وائے ری قسمت یہ بہار کا موسم بھی نہیں بھادوں کا مہینہ ہے کہ گریباں ہی چاک کر کے دل ِ ناداں کو بہلاتا ۔ جان چھڑانے کی کوشش تو بہت کی مگر تاب لائے ہی بنی غالبؔ کیونکہ واقعہ سخت تھا اور جان عزیز۔اس لیے اب آپ کی خوش ذوقی کی آزمائش کا روپ دھارے حاضر ہوں ، کیا خوب کہا ہے کسی دانا نے :۔ پاس کر ، یا برداشت کر۔
میرے لکھنے کیلئے ضروری ہے کہ (1) موڈ ہو ، (2) عارف لوہار کی جگنی بیک گراونڈ میوزک ہو۔ مگر مصیبتوں پر مصیبت یہ کہ بلال نے مجھے مغرب کے وقت کہا کہ خاکہ لکھنا ہے ، میں نے سوچا کہ چلو رات کو بیٹھ کر ادھر ادھر سے دو ، دو چار چار سطریں چوری کر کے ہم بھی بھان متی کی سنت میں کنبہ جوڑ دیں گے ، مگر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ لائٹ گئی اور میں لائٹ کے آنے کا انتظار کرتے کرتے انٹاغفیل ہو گیا ۔ آنکھ کھلی تو صبح کے تین بج کر کچھ منٹ اوپر تھے ، میں نے ادھ کھلی آنکھوں سے کمپیوٹر آن کر کے باہر جھانکا تو طوطے اڑ گئے جناب ابا جی کو صحن میں تہجد پڑھتے دیکھ کر۔ افففففف اب کیا کیا جائے ، ایک تو موڈ نہیں اوپر سے سپیکر بھی آن نہیں کر سکتا۔چوری کرنے کا بھی ٹائم نہیں ، کہ بلال کو لکھ کر ابھی خاکہ بھی دینا ہے ۔ لکھوں تو کیا لکھوں ۔

کہتے ہیں کہ سنبھال کے رکھی ہوئی چیز اور غور سے سنی ہوئی بات کبھی نہ کبھی کام آ ہی جاتی ہے ۔ بالکل سچ کہتے ہیں جناب ،
کوئی زمانہ تھا جب پی ٹی وی پر ویوز ڈیپ فریزر کا کمرشل آتا تھا۔ جس میں ماڈل خاتون بڑی ادا سے للکارنے والے انداز میں فرماتی تھیں :۔ "ویوز۔۔۔ نام ہی کافی ہے"
میرے پاس کوئی چارہ نہیں کہ میں کاپی رائٹ کو پس پشت ڈال کر ویوز کی گدی پر فراز کو بٹھا دوں ۔ آپ بھی ملاحظہ کریں ، کہ کیسا لگتا ہے
"فراز۔۔۔۔۔۔۔۔ نام ہی کافی ہے"
اللہ بھلا کرے انکل سرگم کا جنہوں نے مجھے ایک اور سطر عنایت کی:۔ "کسی گانے کی پیروڈی یا کسی بڑے آدمی کا کارٹون اس کی مقبولیت اور زبانِ زد عام ہونے کی دلیل ہے"

اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں ، اور ماشاءاللہ جیسا بھی کوئی ایک ادھ موبائل بھی جیب میں رکھتے ہیں ۔ تو آپ کو فراز کے مشہور ہونے یا مقبول ہونے یا بدنامی میں نمبر ون ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں رہ گیا ہوگا۔یہ عوامی مقبولیت یا بدنامی میرے خیال میں کسی کی کوشش کاحاصل نہیں ، یہ تو عوام کی مرضی ہے جسے سر پہ بٹھا لے ، یا جسے نظر سے گرا دے ۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
ادبی مقبولیت کی مثال:۔ مرزا غالبؔ کو ہم دیوانوں نے چاہے جتنا بھی ادب کے سنگھاسن پہ بٹھا رکھا ہو، مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ اپنے وقت میں وہ محض ایک مہمل گو کے طور پر رسوا تھے۔اور عوام کے سر پر استاد ذوق ؔ کا جادو چڑھ کر بولتا تھا ۔
سیاسی مقبولیت کی مثال:۔ مہاتما گاندھی نے جتنے بھی بہروپ دھارے ، اور نہرو بھی اپنی تمام تر سیاسی چالبازیوں سمیت قائد اعظم نہ کہلا سکے ۔ اس کے علاوہ دنیا میں کئی نامور شخصیات کو قائد اعظم مشہور کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ، مثلا سعودی عرب کے بانی ، اور کمال اتاترک کے نام کے ساتھ بھی قائد اعظم کا سابقہ لگانے کی بہت کوششیں ہوئیں، مگر اللہ جسے چاہے عزت دے ۔ محمد علی جناحؒ پر یہ لفظ ایسا فٹ آیا اور اتنی خوبصورتی سے جچا کہ اب یہ قیامت تک ان کے نام کا حصہ ہو کے رہ گیا ہے۔اب دنیا میں لیڈر آتے رہیں یا جاتے رہیں ، قائد اعظم کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

اکثر شاعر اول تو اپنی زندگی میں مشہور ہی نہیں ہوتے ، اکثر جو مشہور ہوتے ہیں تو اخیر عمر میں ۔ لیکن ذوق، داغ دہلوی ، وصی شاہ کی طرح سنا ہے احمد فراز بھی اپنی جوانی سے ہی مشہور و مقبول ہیں ۔ لیکن داغ اور وصی شاہ والی لسٹ میں لکھنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی شاعری بھی اسی قبیل کی ہے۔شاعری میں مومن کے پیروکار ہیں ، اسی لیے ان کی غزل میں صرف غزل ہی ملتی ہے، اور کچھ نہیں ۔
مقبولیت کے حوالے سے جیسا کہ ان کا اپنا ایک شعر بھی ہے ،
’’اور تمہیں کتنی محبتیں چاہییں فراز
ماؤں نے بچوں پر تیرا نام رکھ دیا‘‘
کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی شاعر کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھیں ۔ حالانکہ صدام حسین ، اسامہ وغیرہ لوگ بہت شوق سے رکھتے ہیں ، مگر شاعر کے نام پر بچوں کے نام رکھنے کی مثال میرے سامنے صرف شیخ سعدیؒ اور مولانا رومؒ کی ہے۔ اس کے بعد احمد فراز ہی وہ شاعر ہیں جن کے نام پر لوگوں نے اپنے بچوں کے نام رکھے۔ دور کیوں جائیے ، میرا اپنا ایک کزن ہے سید فراز بخاری۔ ان کی والدہ محترمہ خود روایت فرماتی ہیں :۔ احمد فراز میرے فیوریٹ شاعر تھے، اس لیے میں نے اپنے پہلے بیٹے کا نام ان کے نام پر فراز رکھا ۔ یہ تو تھی ایک سامنے کی مثال ، اسی طرح اور بھی کئی مثالیں ہونگی۔
لیکن جیسا کہ نظام قدرت ہے ، ہر عروج کو زوال ہے ۔ احمد فراز نے اپنی زندگی میں ہی مقبولیت کے عروج کو چھوا ، اور پھر اپنی زندگی میں اپنی ساری زندگی کی کمائی عزت کا بھاجی فالودہ ہوتے دیکھا۔ چند افواہ پرستوں کے بقول اس کا سبب شانِ رسالتﷺ میں کہے گئے کچھ گستاخانہ الفاظ ہیں ۔ مجھے اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ یہ بات سچ بھی ہے یا ہمیشہ کی طرح افواہ ۔ میرے اندر بھی ایک غلام ِ رسولﷺ رہتا ہے ، مگر میرے سامنے سیرتِ رسول اللہ ﷺ کا وہ روشن واقعہ ہے ، جو میں نے اپنی دینیات کی کتاب میں تب پڑھا تھا جب میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔
"ایک بار رات گئے مدینہ منورہ میں کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ کفارِ مکہ نے حملہ کر دیا ہے ۔ اس سے شہر میں افراتفری اور بھگدڑ مچ گئی ۔ رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ اسی وقت گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر شہر سے باہر کی طرف تشریف لے گئے ، اور کافی دور تک جا کر دیکھا ، اور پھر واپس آ کر سب کو اطلاع دی کہ یہ افواہ جھوٹی ہے ، مدینہ منورہ کی حدود میں تو کیا دور دور تک کوئی لشکر نہیں ہے"
اس واقعے سے جہاں مجھے حضرت رسول اللہ ﷺ کی شجاعت اور بہادری کے بارے میں معلوم ہوا کہ کس طرح آپ ﷺ نے اکیلے ہی جا کر اس خبر کی تحقیق کیلئے شہر سے باہر چکر لگایا ۔ وہیں مجھے اس واقعے سے ایک پیارا سا سبق حاصل ہوا ۔ کہ کوئی بھی اطلاع یا افواہ سن کر اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے پہلے اس کی تحقیق کر لی جائے ۔ اور مجھے اپنے پیارے رسول ﷺ کی سنتوں سے بے حد پیار ہے۔ کیا آپ کو بھی ہے؟ اگر ہاں تو پھرآپ بھی بلا تحقیق کسی خبر پر یقین نہیں کرتے ہونگے ۔ جزاک اللہ ۔اگر احمد فراز نے ایسی کوئی گستاخانہ بات کی تھی تو میں ان سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ۔ لیکن اگر یہ صرف ایک گپ اور افواہ ہے تو میں کیوں کسی افواہ کو آگے پھیلانے اور بہتان کا گناہ اپنے سر لوں۔
موقع بھی ہے دستور بھی ہے، احمد فراز کی کہی نعت شریف پیشِ خدمت ہے
مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مدح ہے ممکن مرے خیالوں سے

تُو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے

یہ افتخار ہے تیرا کہ میرے عرش مقام
تو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے

میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ باشرف ہوں قبا و کلاہ والوں سے
میں ان کی شاعری پر بھی کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ نہ تو میں اردو ادب کا طالب علم ہو ں ،نہ ہی خود ساختہ نقاد، نہ ہی میں نے ان کی "تنہا تنہا " کے علاوہ کوئی کتاب پڑھی ہے ۔ اس لیے اس معاملے میں مجھے معاف رکھیں گے۔ البتہ ڈاکٹر انیس ناگی کا فراز کے بارے میں کہا ایک قول نقل کرتا ہوں :۔
اگر ایم اے اردو کا طالب کہے کہ میرا پسندیدہ شاعر احمد فراز ہے تو اسے کلاس سے باہر نکال دینا چاہیے"
ایوارڈز کی ایک لمبی لسٹ ہے جو فراز کو ان کے فن کے اعتراف میں دئیے گئے۔اور اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ فراز کی شاعری کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی۔ یوگوسلاوی، سویڈش، روسی، جرمن اور پنجابی میں ہو چکے ہیں

ہاں البتہ جو درگت ان کی عوام نے ایس ایم ایس میڈیا پر بنائی ، اس پر کچھ سطریں نہ لکھنا زیادتی ہو گی۔
ایس ایم ایس پر کافی لوگوں کی دستی شاعری رائج کرنے کی کوشش کی گئی ، جن میں نہ تو مرزا غالبؔ کو بخشا گیا اور نہ ہی علامہ اقبالؒ کا لحاظ کیا گیا۔ محسن نقوی ، اور وصی شاہ کو بھی حصہ بقدرِ جثہ نصیب ہوا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "اور وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے" یہ عزت کہیں یا ذلت سمجھیں احمد فراز کا مقدر ٹھہری۔ لوگوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایسے ایسے نادر اور نایاب شاعری کے نمونے وجود میں آئے جن میں اکثر تو ناقابلِ اشاعت اور ناقابلِ تحریر ہیں ۔
کچھ قابلِ تحریر نمونے حاضر ہیں
’’اس گلی اس وجہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں‘‘

فراز وزیرستان میں
’’دغا رپیٹر زماں فائر د بارہ بور فراز
لقا دشمن دغا ’’ڈز ڈز‘‘ ولہ وئی وئی‘‘

فراز کے عربی ، پشتو ، اور انگریزی ترجموں کے بعد اب پیش ہے فراز کی شاعری کا چائینیز ترجمہ

چوں زاں شین ، چیں چنگ فراز
زینگ چوں چاں، شنگ چی شو

کسی صاحب حال نے تو کشف قبور کے ذریعے بھی فراز سے ملاقات کی اور بتایا
’’ہم کو تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتے ہیں فرشتے " کوئی نیا شعر ہوجائے‘‘

اور یہ سب دیکھ کر ذرا سنیے وصی شاہ صاحب نے کیا دل میں سوچا ہوگا
سوچتا ہوں شاعری چھوڑ ہی دوں وصی
کلیجہ منہ کو آتا ہے انجامِ فراز دیکھ کر (خاکسار )​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
سب سے پہلے ان لوگوں کو ٹیگ کرتا ہوں جو داد دینے میں کنجوسی کے قائل نہیں
الف عین ، الف نظامی ، محمد وارث ، عاطف بٹ ، نایاب ، زحال مرزا ، حسیب نذیر گِل ، رانا ، مزمل شیخ بسمل ، محمد احمد ، محمود احمد غزنوی ، ساجد ، محمد بلال اعظم ، محمد امین، نیرنگ خیال ، عبدالرزاق قادری

مہ جبین ، سارہ خان ، مدیحہ گیلانی ، نیلم ، تبسم ، عائشہ عزیز ، فرحت کیانی ، مقدس

اب رہ گئے وہ جو داد دینے کی زحمت نہیں کرتے، اس لیے ہم بھی انہیں ٹیگ کرنے کی زحمت نہیں کرتے
نتیجہ:۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے:laugh:
 

عاطف بٹ

محفلین
میں صبح سہولت سے پڑھ کر داد دوں گا۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ جلدی میں داد دینے اور چائے بنانے سے گریز کرنا چاہئے، کچی رہ جاتی ہیں! ;)
 

رانا

محفلین
بہت خوب لکھا ہے۔
یہ جملہ بہت پسند آیا اور اسی جملے نے پوسٹ لکھنے پر مجبور کردیا:
مگر اللہ جسے چاہے عزت دے ۔ محمد علی جناحؒ پر یہ لفظ ایسا فٹ آیا اور اتنی خوبصورتی سے جچا کہ اب یہ قیامت تک ان کے نام کا حصہ ہو کے رہ گیا ہے۔اب دنیا میں لیڈر آتے رہیں یا جاتے رہیں ، قائد اعظم کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
دو سو فیصد متفق۔
سارے فسانے میں جو پسند آئی سطر عنوان سے اس کا تعلق نہ تھا۔:)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح زبردست :thumbsup::applause: لیکن ایک بات تو بتاؤ یہ جگنی سادہ سنتے ہو یا کوک سٹوڈیو والی؟
دونوں ہی لاجواب ہیں
سادہ میں کچھ بند زیادہ ہیں ، اور جو بند مجھے ہیں وہ کوک سٹوڈیو میں اس نے گائے ہی نہیں
اس لیے دونوں کو ہی سنتا ہوں
اس کا ایک اور گانا "خیر کریں اوئے ڈاہڈیا ربا" بھی مجھے بہت پسند ہے
اور "بول مٹی دے باوے آ"
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یار اتنا لمبا جواب لکھا تھا۔ پر اس احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیا کہ ہر گھنٹے کے آخری اور پہلے پانچ منٹ اپنا کام محفوظ کر لیں۔ :mad:
بہت عمدہ لکھا ہمیشہ کیطرح۔:khoobsurat:
اب یاد نہیں اور کیا کیا لکھا تھا کیوں کے یادداشت بھی RAM کیطرح ہو گئی ہے:cautious: بجلی بند ہوتے ہی سب غائب:cool:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یار ویسے یہ بار بار وصی شاہ کا نام داغ اور فراز کے درمیان:nailbiting:ہاتھ نہیں کانپا میاں تمہارا:sigh: پتھر دل ہو یا وصی شاہ سے رشتے داری ہے کوئی؟:thinking: یا پھر رات کے 3بجے تمام شعراء کے نام ذہن سے محو ہو گئے تھے۔ ارے بھائی برادری سے باہر نکل کر دیکھو کب تک ذات پات میں الجھے رہو گے۔ :music:
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یار ویسے یہ بار بار وصی شاہ کا نام داغ اور فراز کے درمیان:nailbiting:ہاتھ نہیں کانپا میاں تمہارا:sigh: پتھر دل ہو یا وصی شاہ سے رشتے داری ہے کوئی؟:thinking: یا پھر رات کے 3بجے تمام شعراء کے نام ذہن سے محو ہو گئے تھے۔ ارے بھائی برادری سے باہر نکل کر دیکھو کب تک ذات پات میں الجھے رہو گے۔ :music:
:laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh:


اپنی سی ایک کوشش کی تھی
شاید ایسے اس غریب کو کوئی رنگ چڑھ جائے یا صحبت کا اثر ہو جائے
مگر نہ جی
کچھ شکلیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سہرا باندھ کے بھی روپ نہیں چڑھتا

اب میں اس وقت سے جگنی کو بھول کر مسلسل نصرت فتح علی خان صاحب سن رہا ہوں
میری توبہ، توبہ ، توبہ ، میری توبہ توبہ، توبہ ، توبہ:disappointed:
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
پہلے پہل جب میں نے مجید امجد صاحب کی "کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا" پر اسکی تک بندی پڑھی تو طبیعت بڑی اوازار ہوئی۔ اور بعد میں "ساری رات کی جاگی آنکھیں کالج میں کیا پڑھتی ہونگی" سے باقاعدہ اوازارہوئی۔ ان کو پڑھو اور پھر سنو میری توبہ میری توبہ :p

مجھے تو شروع سے ہی چڑ ہے اس سے:notlistening:
قسم لے لو جو کبھی اس کی کوئی کتاب کھول کر دیکھنے کا گناہ کبیرہ کیا ہو:notworthy:

بلکہ جن کا پسندیدہ شاعر یہ ہو ، میں نے ان سے کبھی دوسرا جملہ بولنا بھی گوارہ نہیں کیا:laugh:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh:


اپنی سی ایک کوشش کی تھی
شاید ایسے اس غریب کو کوئی رنگ چڑھ جائے یا صحبت کا اثر ہو جائے
مگر نہ جی
کچھ شکلیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سہرا باندھ کے بھی روپ نہیں چڑھتا

اب میں اس وقت سے جگنی کو بھول کر مسلسل نصرت فتح علی خان صاحب سن رہا ہوں
میری توبہ، توبہ ، توبہ ، میری توبہ توبہ، توبہ ، توبہ:disappointed:

پہلے پہل جب میں نے مجید امجد صاحب کی "کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا" پر اسکی تک بندی پڑھی تو طبیعت بڑی اوازار ہوئی۔ اور بعد میں "ساری رات کی جاگی آنکھیں کالج میں کیا پڑھتی ہونگی" سے باقاعدہ اوازارہوئی۔ ان کو پڑھو اور پھر سنو میری توبہ میری توبہ :p
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھا لکھا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
اللہ تعالیٰ احمد فراز کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین

یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا
- احمد فراز
 

احمد علی

محفلین
قابلِ تحسین۔۔۔۔۔۔
بقول فراز

کُچھ تو فراز اپنے قصے بھی ایسے ہی تھے
اور کُچھ کہنے والوں نے بھی رنگ بھرا ہے۔

جیتے رہو اویس میاں
 

مہ جبین

محفلین
واہ بھئی واہ ہمیشہ کی طرح لاجواب اور زبردست تحریر۔۔۔۔!

جس موضوع پر بھی چھوٹاغالبؔ کا قلم چلتا ہے تو اس پر ہر جہت سے گفتگو ہوتی ہے

اور اس میں بھی فراز کی نیک نامی اور بد نامی دونوں پر ہی سیر حاصل گفتگو ہوئی

ایک بات تو طے ہے کہ فراز نے اپنی زندگی ہی میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے ہیں اور ایسی عوامی مقبولیت کم ہی شعرا کے حصے میں آتی ہے

اویس ماشاءاللہ ہر جہت سے تم نے ایک بہترین اور منفرد تحریر لکھی

اللہ پاک تمہارے قلم میں مزید روانی عطا فرمائے آمین
 
Top