سورج رستہ بھول گیا تھا

سورج رستہ بھول گیا تھا
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر ، اور سستا کر بولا مجھ سے آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا
پیلا پیلا دبلا پتلا ، بیماری میں لپٹا چاند
جانے کتنی راتوں سے وہ جاگ رہا تھا
آنکھوں سے سرخی کی چادر جھانک رہی تھی
نیند اداسی پھانک رہی تھی
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے
رستے میں کچھ ریت کے ذرے آگ جلا کر سینک رہے تھے
ہم نے ان کو گیت سنائے
ہم تھوڑا سا آگے آئے
چلتے چلتے اک ٹیلے پہ آ نکلے ہم
پیاس کی شدت کا احساس ہوا تو سورج بولا "پانی"
دشت کے پار اک جنگل ہے اور اس جنگل کی دوسری جانب
اک دریا بھی بہتا ہے
پیاس کے مارے ہم دونوں دریا پہ پہنچے
اپنی اپنی پیاس بجھائی
دریا سے کچھ باتیں بھی کیں
کافی ساری باتیں تھیں میں بھول گیا ہوں
خیر کہاں تھے ؟ ہاں ! دریا پر
ہم دونوں نے پیاس بجھائی
وقت کی باگیں جلدی جلدی کھینچی ہم نے
بھاگے بھاگے واپس آئے
گھر پہنچے تو صبح کا تارا دروازے پہ پہرے دار بنا بیٹھا تھا
ہاتھوں میں تلوار اٹھائے
سورج لینے آیا تھا

حالانکہ یہ ساری باتیں لا یعنی ہیں
لیکن کیا ہے۔ اک مدت سے میں تنہائی کے زنداں میں قید پڑا ہوں
اک کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی
جانے کتنے سال سمے سے اپنی سانسوں کی مدھم آوازیں سنتا
رفتہ رفتہ اپنا جیون کھینچ رہا ہوں
مدت گزری ان آنکھوں نے کوئی بھی انسان نہ دیکھا
آئینہ بھی کب دیکھا تھا یاد نہیں ہے
مجھ کو میرے چہرے کے سب خال و خد بھی بھول گئے ہیں
جانے کتنے ہی سالوں سے میں نے خود سے بات نہیں کی
هونٹ تکلم بھول گئے تھے
کبھی کبھی میں سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
کان مرے انسانوں کی آواز کجا ، حیواںوں کو تَرَس چکے تھے
دوستو آج تمہیں دیکھا تو میرے دل میں خواہش جاگی
جی بھر کے میں باتیں کر لوں
میں نے نظم بہانہ کر کے
تم سے کتنی باتیں کر لیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناز
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب جناب نذر حسین ناز صاحب!
متقارب میں فعل فعول کے اوزان میں اچھی نظم ہے ۔ بعض سطریں اس وزن کی پابندی نہین کرتی نظر آتیں۔ انہیں ایک نظر دیکھ لیجئے ۔ مثلََا :
کبھی کبھی میں سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
دوستو آج تمہیں دیکھا تو میرے دل میں خواہش جاگی
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔۔۔!

کیا ہی اچھی نظم ہے۔

پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔

ڈھیر ساری داد محترم۔ ساتھ ساتھ محفل میں خوش آمدید کے ہم نے پہلی بار آپ کی کوئی پوسٹ دیکھی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب جناب نذر حسین ناز صاحب!
متقارب میں فعل فعول کے اوزان میں اچھی نظم ہے ۔ بعض سطریں اس وزن کی پابندی نہین کرتی نظر آتیں۔ انہیں ایک نظر دیکھ لیجئے ۔ مثلََا :
کبھی کبھی میں سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
دوستو آج تمہیں دیکھا تو میرے دل میں خواہش جاگی

ظہیر بھائی میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ نظم فعلن فعلن کے وزن پر ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں؟
 
آپ احباب کی محبت کا بہت شکریہ :)
دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ پہلی یہ کہ مجھے محفل میں کافی وقت ہو گیا ۔ لیکن بہت کم پوسٹ کرتا ہوں ۔ آپ نے خیر مقدم کیا۔ دلی خوشی ہوئی
دوسری بات : میں اوزان عروض وغیرہ نہیں جانتا۔ اس لیے میرے کلام میں سقم ہونے پہ مجھے کوئی حیرت نہیں۔ آپ احباب سے درخواست ہے کہ آپ اصلاحی تجاویز عنایت کر دیجیے۔ امید ہے آپ شفقت فرمائیں گے۔
سلامت رہیں ۔ آمین
 
ظہیر بھائی میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ نظم فعلن فعلن کے وزن پر ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں؟

آئینہ بھی کب دیکھا تھا یاد نہیں ہے
مجھ کو میرے چہرے کے سب خال و خد بھی بھول گئے ہیں

پچھلے مصرع سے زیادہ نزدیک یہ صورت نظر آرہی ہے۔
اپنے چہرے کے میں سارے خدوخال بھی بھول گیا ہوں۔

مگر شاید آپ نے دوسری کیفیت کا بیان کیا ہو۔
الغرض میری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجئے
 
پچھلے مصرع سے زیادہ نزدیک یہ صورت نظر آرہی ہے۔
اپنے چہرے کے میں سارے خدوخال بھی بھول گیا ہوں۔

مگر شاید آپ نے دوسری کیفیت کا بیان کیا ہو۔
الغرض میری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجئے
جی بہت نوازش۔ آپ کی تجویز میرے مصرع سے زیادہ جاندار ہے :) ممنون ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ نظم فعلن فعلن کے وزن پر ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں؟
محمداحمد بھائی ۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔نظم میں بیشتر فعلن فعلن کا وزن ہی استعمال ہوا ہے ۔ لیکن احمد بھائی فعلن فعلن کا وزن تو متقارب اور متدارک دونوں بحروں ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ فعلُ فعولُ (میر کی ہندی بحر یا متقارب اثرم مقبوض) میں تسکینِ اوسط کرنے سے بھی فعلن فعلن حاصل ہوتا ہے اور فعِلن فعِلن ( عین متحرک ۔ متدارک مخبون) میں تسکینِ اوسط کرنے سے بھی یہی فعلن فعلن حاصل ہوتا ہے ۔ سو اب بحر کا پتہ یہ دیکھ کر لگایا جاتا ہے کہ اس میں فعل ُ فعول کے زحاف استعمال ہوئے ہیں یا فعِلن (عین متحرک) استعمال ہوا ہے۔ اس کے لئے مدد اکثر مصرع یا سطر کے شروع سے مل جاتی ہے ۔ مثلًا یہ سطور دیکھئے :
نیند اداسی پھانک رہی تھی ( فعل فعولن فعل فعولن)
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے ( فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن)
ان سطروں کے شروع میں فعل فعولن استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے پتہ چل گیا کہاس نظم کا وزن فعلُ فعول ہے یعنی یہ متقارب ہے ، متدارک نہیں ۔ جن دو سطروں کا حوالہ میں نے اوپر اپنے پہلے مراسلے میں دیا ہے اس میں کبھی کبھی اور دوستو آج تمہیں دیکھا والی سطریں متقارب کے اس وزن میں نہیں ہیں۔

:):):)
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔ اچھی نظم ہے۔ ظہیر احمد ظہیر عروض سے خوب واقف ہیں، بلکہ میں یہ کہنے ہی والا تھا کہ اب اصلاح سخن ان کو سپرد کر دوں۔ زبردستی میں نے ہی اس پر قبضہ کر رکھا ہے!!
اب متدارک ہو یا متقارب، فعل فعولُ ہو یا فعلن فعلن، ان دونوں کا اختلاط بھی میں جائز سمجھتا ہوں۔ خود میر کے یہاں بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی!!

مجھے بس ایک خامی لگی۔ ’سال سمے‘ محاورہ نہیں ہے اور نہ روز مرہ ہے۔ محض سال یا محض سمے سے بھی مصرع وزن میں رہتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی ۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔نظم میں بیشتر فعلن فعلن کا وزن ہی استعمال ہوا ہے ۔ لیکن احمد بھائی فعلن فعلن کا وزن تو متقارب اور متدارک دونوں بحروں ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ فعلُ فعولُ (میر کی ہندی بحر یا متقارب اثرم مقبوض) میں تسکینِ اوسط کرنے سے بھی فعلن فعلن حاصل ہوتا ہے اور فعِلن فعِلن ( عین متحرک ۔ متدارک مخبون) میں تسکینِ اوسط کرنے سے بھی یہی فعلن فعلن حاصل ہوتا ہے ۔ سو اب بحر کا پتہ یہ دیکھ کر لگایا جاتا ہے کہ اس میں فعل ُ فعول کے زحاف استعمال ہوئے ہیں یا فعِلن (عین متحرک) استعمال ہوا ہے۔ اس کے لئے مدد اکثر مصرع یا سطر کے شروع سے مل جاتی ہے ۔ مثلًا یہ سطور دیکھئے :
نیند اداسی پھانک رہی تھی ( فعل فعولن فعل فعولن)
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے ( فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن)
ان سطروں کے شروع میں فعل فعولن استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے پتہ چل گیا کہاس نظم کا وزن فعلُ فعول ہے یعنی یہ متقارب ہے ، متدارک نہیں ۔ جن دو سطروں کا حوالہ میں نے اوپر اپنے پہلے مراسلے میں دیا ہے اس میں کبھی کبھی اور دوستو آج تمہیں دیکھا والی سطریں متقارب کے اس وزن میں نہیں ہیں۔

:):):)

بہت شکریہ ظہیر بھائی اس تفصیلی جواب کا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ عروض کے متعلق میرا علم واجبی سا بھی نہیں ہے۔ سو اتنی موٹی موٹی باتیں ذرا مشکل ہی سمجھ آئیں گی۔ :) :) :)

یہ ہے کہ شاعری پڑھ پڑھ کر طبیعت کچھ موزوں ہو گئی ہے سو لفظوں سے چھیڑ چھاڑ کی گستاخی کر لیتا ہوں۔ :)

تسکینِ اوسط کی بابت کچھ اور بتائیے۔ یہ کیا ہوتا ہے اور کس طرح اخذ کیا جاتا ہے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب۔ اچھی نظم ہے۔ ظہیر احمد ظہیر عروض سے خوب واقف ہیں، بلکہ میں یہ کہنے ہی والا تھا کہ اب اصلاح سخن ان کو سپرد کر دوں۔ زبردستی میں نے ہی اس پر قبضہ کر رکھا ہے!!
اب متدارک ہو یا متقارب، فعل فعولُ ہو یا فعلن فعلن، ان دونوں کا اختلاط بھی میں جائز سمجھتا ہوں۔ خود میر کے یہاں بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی!!

مجھے بس ایک خامی لگی۔ ’سال سمے‘ محاورہ نہیں ہے اور نہ روز مرہ ہے۔ محض سال یا محض سمے سے بھی مصرع وزن میں رہتا ہے۔

اعجاز بھائی ! محبت اور خلوص ہے یہ آپ کا! میں تو خود آپ کے خوشہ چینوں میں سے ہوں ۔ آپ کا تجزیہ اور تجربہ میرے لئے رہنما ہیں ۔ آپ اساتذہ کی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہی کچھ شدبد پیدا ہورہی ہے ۔ اس ہمت افزائی پر بہت ممنون ہوں لیکن حقیقتاً اصلاح کے منصب کے ’’سزا‘‘ وار تو آپ ہی ہیں ۔ :D
میں کوشش تو کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑا بہت ہاتھ بٹا سکوں ۔ جب جب وقت ملتا ہے اورجہاں کہیں جو کچھ مجھے سمجھ آتا ہے میں اپنی سی کوشش کرکے لکھ تو دیتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اصلاح کا زمرہ آپ ہی کا مرہونِ منت ہے۔ براہِ کرم اردو کی یہ خدمت جاری و ساری رکھئے ۔ اللہ تعالی آپ کو صحت و تندرستی کی نعمت سے مالامال رکھے اور آپ کی توانائی اور وقت میں برکت عطا فرمائے ۔ آمین۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی اس تفصیلی جواب کا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ عروض کے متعلق میرا علم واجبی سا بھی نہیں ہے۔ سو اتنی موٹی موٹی باتیں ذرا مشکل ہی سمجھ آئیں گی۔ :) :) :)
یہ ہے کہ شاعری پڑھ پڑھ کر طبیعت کچھ موزوں ہو گئی ہے سو لفظوں سے چھیڑ چھاڑ کی گستاخی کر لیتا ہوں۔ :)
تسکینِ اوسط کی بابت کچھ اور بتائیے۔ یہ کیا ہوتا ہے اور کس طرح اخذ کیا جاتا ہے؟

احمد بھائی اگر لفظوں سے چھیڑچھاڑ کرنے پر آپ کی شاعری اتنی زبردست ہے تو پھر باقاعدہ معاشقہ کرنے پر کیا حال ہوگا!! :):):)
احمد بھائی بات آپ کی بالکل درست ہے۔ شاعری کے لئے باقاعدہ عروض کا آنا ضروری ہے ہی نہیں۔ وزن اور ’’موسیقیت‘‘ تو شاعر کی طبیعت میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔( نذر حسین ناز صاحب بھی اپنی بات سے یہی ثابت کررہے ہیں ۔) خاص طور پر عروضی اصطلاحات اور باریک نکات کا جاننا تو کسی کے لئے بھی بالکل ضروری نہیں ہے۔ بس کام چلاؤ معلومات ہونی چاہئیں۔ ہاں کسی کو عروض کا شوق ہونا اور بات ہے اور اس مین کوئی ہرج بھی نہیں۔ احمد بھائی آپ کے سوال کے بارے میں مختصرًا عرض کرتا ہوں۔ اگر ذرا سا ادھر ادھر نکل جاؤں تو پیشگی معذرت ۔ چاہتا ہوں کہ اسی بہانے کچھ اور لوگوں کا بھی بھلا ہوجائے۔

آٹھ بنیادی افاعیل (ارکان) کے علاوہ تمام دیگر ارکان جو مختلف بحروں میں نظر آتے ہیں وہ انہی بنیادی افاعیل میں (زحافات اور علتوں کے ذریعے) ردوبدل کرکے اخذ کئے جاتے ہیں ۔ مثلاً فعلن۔ اب یہ فعلن ان آٹھ بنیادی افاعیل میں سے ایک نہیں ہے لیکن اکثر بحور میں نظرآتا ہے۔ چنانچہ فعلن ایک زحاف یا مزاحف رکن ہے۔

تسکینِ اوسط کا قاعدہ یہ ہے کہ جب بحر میں کسی جگہ تین متواتر متحرک حروف آجائیں تو وسطی حرف کی حرکت ختم کرکے اسے ساکن بنادیا جاتا ہے ۔ یہ تین متواتر متحرک حروف ایک واحد رکن کے اندر بھی موجود ہوسکتے ہیں جیسے فعِلاتن میں ف، ع اور ل ۔ اور یہ تین حروف دو متصل ارکان کے درمیان بھی موجود ہوسکتے ہیں جیسے فعلُ فعولُ میں ل ، ف اور ع۔
تسکینِ اوسط کے استعمال کے بعد ارکان کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ یعنی فعِلاتن سے ’’فع۔لا۔تن‘‘ بن جائے گا۔ چونکہ فع۔لا۔تن عروضی طور پر معروف وزن نہیں ہے اس لئے آسانی کی خاطر اسے ایک ہموزن معروف رکن مفعولن سے بدل دیا جاتا ہے۔ نتیجتًا تسکین اوسط کے استعمال کے بعد فعِلاتن ایک مختلف وزن مفعولن میں تبدیل ہوگیا۔
اسی طرح فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ ۔۔۔ ۔۔ میں تسکین اوسط کے بعد وزن فع۔لف ۔عو۔لف ۔عو۔لف۔عو۔لف حاصل ہوگا۔ چونکہ یہ عولف عولف غیر معروف ہیں اس لئے انہیں معروف ہموزن رکن فعلن سے بدل کر فعلن فعلن فعلن فعلن ۔۔۔۔۔ حاصل ہوگا۔
تسکین اوسط کے استعمال کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ تفصیلات مین جائے بغیر:
۱۔تسکین اوسط کا قاعدہ تقریبًا ہر بحر میں استعمال ہوسکتا ہے۔
۲۔ تسکین اوسط ہر مصرع میں ایک یا ایک سے زیادہ ارکان پر حسبِ مرضی استعمال کیاسکتا ہےبشرطیکہ اس کے استعمال سے بنیادی بحر تبدیل نہ ہو۔
۳۔ میر کی ہندی بحر فعلُ فعول میں اس کا استعمال بہت ہی عام ہے اور اکثر پورے پورے مصرع فعلن فعلن کے وزن پر ہوتے ہین جیسا کہ ناز صاحب کی اس نظم میں ۔

احمد بھائی اگر مزید تفصیلات کی خواہش ہو توعروض کی کسی باقاعدہ کتاب سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے یا پھر حکم کیجئے تو میں کچھ اور وضاحت کی کوشش کرتا ہوں۔ :)
 
Top