سوانح عمری فردوسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
15rm8hs.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فردوسی

حسن بن اسحاق بن شرف نام اور فردوسی (*) تخلص تھا، دوست شاہ کا بیان ہے کہ کہیں کہیں وہ اپنا تخلص ابن شرف شاہ بھی لاتا ہے۔ مجالس المومنین میں بعض مورخون کے حوالہ سے اس کے باپ کا نام منصور بن فخر الدین احمد بن مولانا فرخ بیان کیا ہے۔ وطن میں بھی اختلاف ہے۔ چار مقالہ میں ہے کہ طبرستان کی نواحی میں بار نام ایک گاؤں تھا۔ فردوسی یہیں کا رہنے والا تھا۔ دیباچہ شاہنامہ میں گاؤن کا نام شاداب لکھا ہے بہر حال اسقدر عموماً مسلم ہے کہ فردوسی کا وطن طوس کے اضلاع میں تھا اور یہ وہی مردم خیز صوبہ ہے جسکی خاک نے امام غزالی اور محقق طوسی پیدا کئے۔ سنہ ولادت معلوم نہیں، البتہ سال وفات ۴۱۱ھ؁ ہے اور چونکہ عمر کم از کم ۸۰ برس کی تھی جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے۔

کنون عمر نزدیک ہشتادث
امیدم بہ یکبارہ برہا دشد​

اسلئے سال ولادت تقریباً ۲۳۹ھ؁ سمجھنا چاہیے۔ فردوسی جب پیدا ہوا تو اس کے باپ نے خواب میں دیکھا کہ نوزائیدہ بچے نے کوٹھے پر چڑھ کر نعرہ مارا، اور ہر طرف سے لبیک کی صدائین آئیں، صبح کو جا کر نجیب الدین سے جو اُس زمانہ کے مشہور معتبر تھے تعبیر پوچھی، اُنہوں نے کہا، یہ لڑکا شاعر ہو گا اور اسکی شاعری کا غلغلہ تمام عالم میں پھیلے گا۔ سن رشد کو پہنچکر تحصیل علوم میں مشغول ہوا اور تمام درسی علوم حاصل کئے۔

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(*) فردوسی کا حال تمام تذکروں میں بہ تفصیل مذکور ہے لیکن سب میں باہم سخت اختلاف ہے۔ انمیں سب سے زیادہ قابل اعتبار چار مقالہ ہے جس کا مصنف خود نامور شاعر اور فردوسی سے قریب العہد ہے تاہم اس میں بھی سخت غلطیاں ہیں۔ تیمور کے پوتے یای سنقر نے فضلا سے شاہ نامہ پر جو دیباچہ لکھوایا تھا اسمیں فردوسی کی مفصل سوانعمری ہے لیکن بعض واقعات ایسے لغو لکھے ہیں کہ اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ دولت شاہ سمرقندی نے بھی کسی قدر تفصیل سے حالات لکھے ہیں اور وہ بھی غلطیوں سے خالی نہیں۔ عربی مصنفین میں سے صرف قزوینی نے آثار البلاد میں اس کا حال لکھا ہے۔ میں نے ان سب میں سے واقعات لئے ہیں لیکن جابجا اُن کی غلطیوں کی بھی تصریح کر دی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
(2)
چونکہ آبائی پیشہ زمینداری تھا ، اور جس گاؤں میں سکونت تھی ، خود اس کی ملک میں تھا ۔ اس لیئے معاش کی طرف سے فارغ البال تھا (1) ۔ وہ اطمینان کے ساتھ علمی مشغلوں میں بسر کرتا تھا اور کتب بینی کیا کرتا تھا ۔
شاہنامہ کی ابتداء اور دربار میں رسائی
یہ واقعہ جس قدر قطعی ہے اسی قدر اس کی تفصیل میں اختلاف ہے عام روایت یہ ہے کہ فردوسی داد رسی کے لیئے محمود کے دربار میں گیا ۔ یہاں اس کی شاعری کا جوہر کھلا ۔ اور شاہنامہ کی تصنیف پر مامور ہوا ۔ لیکن یہ قطعا غلط ہے ۔ فردوسی نے خود بیان کیا ہے کہ شاہنامہ کی تصنیف میں 35 برس صرف ہوئے ۔
سی و پنج سال از سرائے سپنج
بے رنج بردم بہ امید گنج
چو برباد دا دند گنج مرا
نبد حاصلے سی و پنج مرا
اور سلطان محمود کی کل مدت سلطنت 31 برس ہے ۔ شاہنامہ کے دیباچہ میں فردوسی نے خود سبب تصنیف بیان کیا ہے ۔ اس سے بھی اس روایت کی تکذیب ہوتی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمود کے دربار میں پہنچنے سے بہت پہلے وہ شاہنامہ شروع کر چکا تھا ۔ تفصیل ان واقعات کی شاہنامہ کے سبب تصنیف میں آگے آئے گی ۔
بہر حال اس قدر یقینی ہے کہ فردوسی نے وطن ہی میں شاہنامہ کی ابتدا کی اور ابو منصور نے جو طوس کا صوبہ دار تھا اس کی سرپرستی کی ۔ ابو منصور کے مرنے کے بعد طوس کا عامل سلان خان مقرر ہوا ۔ چونکہ شاہنامہ کا اب ہر جگہ چرچا پھیلتا جا رہا تھا ۔ سلطان محمود کو بھی خبر ہوئی ۔ سلان خان کے نام حکم پہنچا کہ فردوسی کو دربار میں بھیج دو ۔ فردوسی نے پہلے تو انکار کیا ۔ لیکن پھر شیخ معشوق کی پیشین گوئی یاد آئی ۔ اس لیئے راضی ہوگیا ۔ اور طوس سے چل کر ہرات آیا ۔ لیکن ادھر دراندازیاں شروع ہو گئیں ۔ دربار کا میر منشی بدیع الدین دبیر تھا ۔ اس نے عنصری سے کہا کہ بادشاہ کو مدت سے شاہنامہ کی تصنیف کا خیال تھا ۔ لیکن دربار کے شعراء میں سے کسی نے اس کی ہامی نہیں بھری ۔ اب اگر فردوسی سے یہ کام بن آیا تو تمام شعرائے دربار کی آبرو خاک میں مل جائے گی ۔ عنصری نے کہا بادشاہ سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ فردوسی کو الٹا پھیر دیجئے ۔ لیکن اس کی
(1) چہار مقابلہ صفحہ 60
 

نایاب

لائبریرین
(4)
رہا تھا ۔ فردوسی نے برجستہ کہا ، ع مانند سنان گیو در جنگ پشن
سب نے گیو اور پشن کی تلمیح پوچھی ۔ فردوسی نے تفصیل بیان کی ۔ اس وقت تو سب نے اس کو شریک صحبت کر لیا ، لیکن رشک اور حسد ایشیائی قوموں کا خاصہ ہے ۔ سب نے سازش کی کہ فردوسی دربار تک نہ پہونچنے پائے ۔۔ (1)
بعض روایتوں میں ہے کہ یہ مشاعرہ خود سلطان محمود کے دربار میں ہوا تھا ، سلطان محمود کے ندیموں میں ماہک نام ایک شخص صاحب مذاق تھا ۔ اس سے یہیں باغ میں ملاقات ہوگئی تھی ۔ فردوسی کی شیریں زبانی اور قابلیت دیکھ کر گرویدہ ہوا اور اپنے گھر میں لا کر رکھا ۔ کھانے کے بعد فردوسی سے اس کا حال دریافت کیا ۔ اس نے اپنی ساری داستان بیان کی ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان نے شاہنامہ کی تصنیف کا حکم دیا تھا ۔ اور سات شاعر یعنی " عنصری " فرخی " زینی " عسجدی " منجیک چنگ زن خرمی " ابوبکر " اسکاف " ترمذی " اس کام کے لیئے انتخاب ہوئے تھے ۔
ماہک نے فردوسی سے شاہنامہ کی تصنیف اور شعراء کے انتخاب کا ذکر کیا ۔ فردوسی نے کہا ۔ میں بھی شعر کہتا ہوں موقع ہو تو دربار میں میرا بھی ذکر کر دینا ۔ ماہک نے اسی دن دربار میں جا کر فردوسی کی تقریب کرنی چاہی لیکن موقع نہ ملا ۔ اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا ۔ ایک دن ماہک نے دربار سے آ کر بیان کیا کہ آج تمام شعرا دربار میں حاضر تھے اور شاہنامہ کی مختلف داستانیں سنائی جا رہی تھیں ۔ عنصری ( رستم و سہراب کی داستان نظم کی تھی ) جب یہ دو شعر پڑھے ۔۔
ہر آنگہ کہ تشنہ شدی تو بخون
بیا لودی این خنجر آب گون
زمانہ نجون تو تشنہ شود
بہ اندام تو موے دشنہ شود
تو سلطان محمود نے نہایت پسند کیا اور حکم دیا کہ عنصری ہی اس خدمت کے لیئے مقرر کیا جائے ۔ فردوسی اس وقت چپکا ہو رہا ۔ اور خود یہ داستان نظم کرنی شروع کی ۔ رات کو جب معمول کے موافق کھانے پر بیٹھے تو فردوسی نے کہا عنصری سے پہلے شعرا نے رستم و

(1) یہ دیباچہ شاہنامہ کی روایت ہے ۔ دولت شاہ کا بیان ہے کہ اس امتحان کے بعد عنصری نے فردوسی کی تحسین کی اور خود دربار شاہی میں لیجا کر پیش کیا ،
 

عائشہ عزیز

لائبریرین

حکم ہوا کہ جب ہزار شعر تک نوبت پہنچ جائے تو ہزار اشرفیاں دیدی جایا کرین، لیکن فردوسی نے متفرق رقم سے انکار کیا۔ اور کہا کہ جب کتاب پوری ہو جائے گی تو ایک ساتھ لون گا، فردوسی جب وطن میں تھا تو اکثر ایک چشمہ کے کنارے بیٹھا کرتا، اور آب رواں کی سیر سے لطف اٹھاتا، چشمہ کے اوپر بند تھا جو برسات کے زمانہ میں ٹوٹ جاتا تھا۔ اور اس وجہ سے پانی گدلا ہو جاتا تھا، فردوسی کی طبیعت اس سے مکدر ہوتی تھی، قصد کیا کہ بند کو پختہ کرا دے، لیکن اتنا مقدور نہ تھا، شاہنامہ لکہنا شروع کیا تو نیت کی کہ جو کچھ صلہ ملے گا بند کی تیاری ، میں صرف کر دون گا، یہ وجی تھی کہ اس نے شاہنامہ کا صلہ متفرق طور پر لینا پسند نہ کیا،
فردوسی نے متصل 4 سال تک عزینن میں قیام کیا، اور شاہنامہ کی تصنیف میں مصروف رہا، پھر دکن گیا، اور کئی برس رہ کر واپس آیا، اس اثنامیں جو حصہ تیار ہو چکا تھا، محمود کے حضور میں پیش کیا اور تحسین و آفرین کے صلے حاصل کیے،
شاہنامہ کی تصنیف کے بیسویں سال جبکہ اسکی عمر 65 برس کی تہی ، اس کے جوان بیٹے کا انتقال ہوگیا، فردوسی کو سخت رنج ہوا، چنانچہ اس واقعہ کا ذکر شاہنامہ میں کیاہے
مگر بہرہ گیرم از بند خویش
براندیشم از مرگ فرزندِ خویش
زبدہا تو بودی مرا دستگیر
چرارہ جستی زہمراہ پیر،
مگر ہمرہانِ جوان یافتی ،
کہ از پیش من تیز بشتافتی
جوان راچوشد سال برسی و ہفت
نہ بر آرزو یافت گیتی و رفت،
ہمی بود ہموارہ بامن درشت
بر آشفت و یکبار نمبود پشت،
مرا شصت و پنج دوراسی و ہفت
پنر سیدازین پیر و تنہا بروفت،
عملی تاریخ کا یہ نہایت ناگوار واقعہ ہے کہ فردوسی کو اس کی اعجاز بیانی کی داد نہیں ملی یعنی جب شاہنامہ تیار ہوا تو اس کو اشرفیون کے بجائے روپے دلوائے گئے
یہ واقعہ عموما مسلم ہے، لیکن اسباب مختلف بیان کئے گئے ہیں اور سب باہم متناقض ہیں،
-------------------
دولت شاہ



نوٹ: اتنا مشکل ہے بہت سی غلطیاں ہوئیں میرے سے۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دولت شاہ نے لکھا ہے کہ چونکہ فردوسی نے ایاز کی طرف کبھی رخ نہیں کیا اس لئے اس نے دراندازی کی اور محمود کو یقین دلایا کہ فردوسی رافضی ہے، نظامی عروض کا بیان ہے کہ دربار کا بڑا گروہ وزیر اعظم حسن میمندی کا مخالف تھا، اور چونکہ فردوسی کا مربی اور سرپسرت وہی تھا اس لئے اس کی ضد پر اس گروہ نے محمود کے کان بھرے اور فردوسی کو متعزلی اور رافضی ثابت کیا، دیباچہ میں ہے کہ فردوسی کو خود حسن میمندی نے تباہ کیا جس کی وجہ یہ تھی غزنین اور اطراف و جوانب کے امراء فردوسی کو طرح طرح کے تحفے بھیجتے تھے، فردوسی بھی اشعار کے ذریعہ سے ان کا شکریہ ادا کرتا تھا، حسن کو یہ ناگوار معلوم ہوتا تھا لیکمن فردوسی کچھ پروا نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا،
من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام مائل نہ مال ہرگز نو طامع بجاہ نیز
سوئے در و زیر چرا ملتفت شوم، چون فار غم زبار گہ بادشاہ نیز
حسن میمندی مذہباً خارجی تھا، اور فردوسی شیعہ۔ اس لئے بھی اس نے فردوسی کی مخالفت کی۔ ان متناقض روایتوں میں سے کس پر اعتبار کیا جائے۔1
دیباچہ نویسوں نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے، اور اس پر ان کو ناز ہے، وہ یہ کہ فردوسی نے شاہنامہ میں جابجا شرافتِ نسب کو بڑی آب و تاب سے لکھا ہے، اور یہ سلطان کو اس وجہ سے ناگوار ہوتا تھا کہ وہ غلام زادہ تھا اس لئے شرافت کی خوبی پر زور دینا گویا درپردہ اس پر چوٹ تھی،
تذکرہ نویسوں کا یہ فیصلہ ہے کہ محمود نے فردوسی کے شعیہ پن کی وجہ سے اس کی قدردانی میں کمی کی، لیکن اولاً تو محمود کے دربار میں بہت سے شیعی علما و فضلا تھے جو نہایت قدر و عزت سے بسر کرتے تھے، ابوریحان بیرونی جو علانیہ شیعہ تھا محمود نے خود فرمان بھیجکر اس کو بلایا تھا اور نہایت قدر دانی کرتا تھا، دربار میں ہندو عیسائی، یہودی ہر مذہب و ملت کے اہل کمال تھے، فردوسی نے کیا قصور کیا تھا۔
دیباچہ میں ایک اور وجہ بیان کی ہے اور وہ قرین قیاس ہے،
1۔ سلطان محمود کی مدت حکومت میں تین شخصوں کو وزارت کا رتبہ ملا (بقیہ حاشیہ صفحہ 82 پر ملاحظہ ہو)
 

نایاب

لائبریرین
(11)
کا پتہ نہ لگا سکے ۔ اب اس نے ہرات سے طوس (1) کا رخ کیا ۔ طوس سے قہستان گیا ۔ ناصر لک یہاں کا حاکم تھا ۔ اس کو خبر ہوئی تو ندیمان خاص کو استقبال کے لیئے بھیجا اور نہایت اخلاص کے ساتھ پیش آیا ۔ فردوسی نے ایک مثنوی لکھنی شروع کی تھی ۔ جس میں حاسدوں کی در اندازی اپنی مظلومی اور سلطان محمود کی بد عہدی و نا قدر دانی کا ذکر تھا ۔
بہ غزنین مرا گرچہ خون شد جگر
زبیدا و آن شاہ بیدا دگر
کزان ہیچ شد رنج سی سالہ ام
شنید از زمین آسمان نالہ ام
ہمی خواستم تا افغانہا کنم
بہ گیتی از ود استانہا کنم
بگویم زماؤ رش وہم از پد رش
نہ ترسم بغیر از خداوند عرش
چو دشمن نمی داند از دوست باز
بہ تیغ زبانش کنم پوست باز
و لیکن زفرمودہ محتشم
ندا نم کزین پیش چون سر کشم
فرستادم ار گفتہء داشتم
بہ نزدیک خود ہیچ نگذاشتم
اگر باشد این گفتہا نا صواب
بسوزان در آتش بشو آن دراب
گزشتم ایا سرور نیک راے
ازین داوری تا بد یگر سرائے
رسد لطف یزدان بفریاد من
ستاند بمحشر از و دا دمن
فردوسی نے مثنوی کے اشعار ناصر لک کو سنائے تو اس نے سمجھایا کہ بد گوئی اہل کمال کی شان نہیں ۔ میں لاکھ روپے ان اشعار کے معاوضہ میں دیتا ہوں ۔ اشعار کہیں ظاہر نہ ہونے پائیں ۔ فردوسی نے منظور کیا ، ناصر لک نے سلطان محمود کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ فردوسی کے حق میں بڑا ظلم ہوا ۔(2)
فردوسی جب غزنین سے روانہ ہوا تھا تو جامع مسجد کی دیوار پر یہ اشعار لکھ آیا تھا ۔
)1( چہار مقالہ 12
)2( یہ دیباچہ کی روایت ہے ۔ چہار مقالہ میں قہستان کے بجائے طبرستان اور ناصر لک کے بجائے سپہ دار شیرزاد کا نام ہے ۔ دولت شاہ نے طبرستان کے بجائے رستمدار لکھا ہے ۔ طبرستان ، و رستمدار دراصل ایک ہی ہیں ۔ لیکن سپہدار اور ناصر لک دو شخص ہیں ۔ دولت شاہ نے ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔
 

وجی

لائبریرین
8
سلطان محمود کو دیلمی خاندان سے سخت عداوت تہی ٬جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ متعصب شیعہ تھے (دیباچہ میں رافضی کا لفظ تھا جس کو ہم نے بدل دیا)اس خاندان کا تاجدار فخرالدولہ تھا٬ وہ فردوسی کا نہایت قدردان تھام جب فردوسی نے رستم واسفندیار کی دستان نظم کی تو اس نے صلہ کے طور پر ہزار اشرفیان بھیجیں اور لکھا کہ اگر آپ یہاں تشریف لائیں تو نہایت اعزاز و احترام کیا جائیگا ، یہ خبر تمام غزنین میں پیل گئی ٬ محمود نے سنا اس کو ناگوار گزرا٬

اس اجمال کی توضیح یہ ہے کہ سلاطین دیلم عموما سخت متعصب شیعہ تھے 351ء میں معزالدولہ دیلمی کے حکم سے بغداد کی تمام مسجدوں کی دیواروں پر یہ عبارت لکھی گئی "امیر معاویہ اور غاصب فدک پر لعنت ہے" رات کو لوگوں نے یہ عبارت مٹادی معزالدولہ نے دوبارہ لکھنے کا حکم دیا لیکن وزیر مہلبی نے رائے دی کہ صرف اسقدر لکھوادیا جائے "ظالمیں آل محمد پرلعنت ہے"البتہ معاویہ کا نام بہ تصریح لکھا جائے ٬چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی؀1 ۔ یہ تعصب روز بروز بڑھتا گیا ٬ سیوحی؀ 364 کے وقعات میں لکھتے ہیں

وفی ھن ہ السنتہ و بعد ھ اضلاالر فض و فاربمصر و الشام و المشرق و المغرب اس سنہ میں اور اس کے بعد ٬ مصر٬ شام ٬ اور مشرق و مغرب میں رفض ابن پڑا ۔

فرقہ باطنیہ جو مسلمانوں کو چھپ چھپ کر قتل کرتا رہتا تھا٬ ان کی بڑی جمیعت دیلمیون ہی کے زیر حمایت تھی٬ چنانچہ جب؀ 420 میں سلطان محمود نے مجدالدولہ دیلمی کو گرفتار کیا

(بقیہ حاشیہ 8 )سب سے پہلے فضل ابن احمد اس منصب پر ممتاز ہوا وہ ابتدا میں سامانی خاندان کا نائب میرمنشی تھا پھر سبکتگین کے دربار میں وزارت کے رتبہ پر پہونچا ٬ سبکتگین کے بعد ٬ سلطان محمود نے اسکا عہدہ بحال رکھا علم و فن سے عاری تھا لیکن مہمات سلطنت کے انتظام میں خداداد اور ملکہ رکھتا تھا٬ دس برس وزارت کرنیکے بعد سلطان محمود نے رقابت کی بنا پر معزول کردیا٬ اس کے بعد حسن سمیذی وزیر مقرر ہوا٬ ااٹھارہ سال کے بعد وہ بھی معزول ہوا اور فضل بن محمد کو وزارت کی سند ملی ٬فردوسی نے فضل بن احمد کی مدح شاہنامہ میں لکھی ہوئی اس سے قیاس ہوتا ہے کہ محمد کے دربار میں اسی نے فردوسی کی تقریب کی ہوگی اور بالاخر جس نے محمود کو فردوسی کی ناکامی پر متوجہ کیا٬ وہ حسب بن محمد ہوگا

؀1 حبیب السیر میں ان وزرا کے حالات کسی قدر تفصیل سے مذکور ہیں ٬ ؀1 ابن الاثیر واقعات؀ 354 ھ
 
Top