حکم ہوا کہ جب ہزار شعر تک نوبت پہنچ جائے تو ہزار اشرفیاں دیدی جایا کرین، لیکن فردوسی نے متفرق رقم سے انکار کیا۔ اور کہا کہ جب کتاب پوری ہو جائے گی تو ایک ساتھ لون گا، فردوسی جب وطن میں تھا تو اکثر ایک چشمہ کے کنارے بیٹھا کرتا، اور آب رواں کی سیر سے لطف اٹھاتا، چشمہ کے اوپر بند تھا جو برسات کے زمانہ میں ٹوٹ جاتا تھا۔ اور اس وجہ سے پانی گدلا ہو جاتا تھا، فردوسی کی طبیعت اس سے مکدر ہوتی تھی، قصد کیا کہ بند کو پختہ کرا دے، لیکن اتنا مقدور نہ تھا، شاہنامہ لکہنا شروع کیا تو نیت کی کہ جو کچھ صلہ ملے گا بند کی تیاری ، میں صرف کر دون گا، یہ وجی تھی کہ اس نے شاہنامہ کا صلہ متفرق طور پر لینا پسند نہ کیا،
فردوسی نے متصل 4 سال تک عزینن میں قیام کیا، اور شاہنامہ کی تصنیف میں مصروف رہا، پھر دکن گیا، اور کئی برس رہ کر واپس آیا، اس اثنامیں جو حصہ تیار ہو چکا تھا، محمود کے حضور میں پیش کیا اور تحسین و آفرین کے صلے حاصل کیے،
شاہنامہ کی تصنیف کے بیسویں سال جبکہ اسکی عمر 65 برس کی تہی ، اس کے جوان بیٹے کا انتقال ہوگیا، فردوسی کو سخت رنج ہوا، چنانچہ اس واقعہ کا ذکر شاہنامہ میں کیاہے
مگر بہرہ گیرم از بند خویش
براندیشم از مرگ فرزندِ خویش
زبدہا تو بودی مرا دستگیر
چرارہ جستی زہمراہ پیر،
مگر ہمرہانِ جوان یافتی ،
کہ از پیش من تیز بشتافتی
جوان راچوشد سال برسی و ہفت
نہ بر آرزو یافت گیتی و رفت،
ہمی بود ہموارہ بامن درشت
بر آشفت و یکبار نمبود پشت،
مرا شصت و پنج دوراسی و ہفت
پنر سیدازین پیر و تنہا بروفت،
عملی تاریخ کا یہ نہایت ناگوار واقعہ ہے کہ فردوسی کو اس کی اعجاز بیانی کی داد نہیں ملی یعنی جب شاہنامہ تیار ہوا تو اس کو اشرفیون کے بجائے روپے دلوائے گئے
یہ واقعہ عموما مسلم ہے، لیکن اسباب مختلف بیان کئے گئے ہیں اور سب باہم متناقض ہیں،
-------------------
دولت شاہ
نوٹ: اتنا مشکل ہے بہت سی غلطیاں ہوئیں میرے سے۔۔