سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں ! ۔۔ غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********

چمن کی شاخوں سے، میں پُھول جھاڑ آیا ہوں !
سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں !

نہ حال پوچھتا اُس کا، نہ اپنا بتلاتا
مگر میں آج انا کو، پچھاڑ آیا ہوں !

میں اپنی عمر کے بچوں میں، سب سے آگے تھا !
سو کم سنی میں ہی، نفرت کو گاڑ آیا ہوں !

جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان
کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!

تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں!

میں چاہتا تھا لکھوں، لفظِ عشق کی تشریح
سو اپنا نامہءِ الفت، میں پھاڑ آیا ہوں!

زمین خشک جہاں کی تھی، پیڑ سوکھے تھے
جنوں کا تیشہ وہیں پر، میں گاڑ آیا ہوں!

میں سُونے گھر میں، لگا کر کے قہقہے دل سے
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!

وہی اندھیری سیاست، وہی جرائم ہیں
میں گھر میں، آج کا اخبار پھاڑ آیا ہوں!

اک عرصہ دامنِ دل میں، جنھیں چھپائے پھرا
ندی میں صبر کی ، وہ دشنام جھاڑ آیا ہوں!

نظر لگی تھی یا ، رشتے ہی اتنے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں!

یہ شہر ِگورِ غَریباں ہے ، اِس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ، اُکھاڑ آیا ہوں!

سیّد کاشف

*******............********............********
 
واہ کاشف بھائی کیا کہنے بہت اعلیٰ
بہت سے شعر بہت اچھے لگے اگلے مراسلے میں اظہار کرتا ہوں۔اول تو تمام غزل پر داد قبول کیجئے۔ بس ایک شعر میں کچھ تفہیم کا معاملہ ہے راہنمائی فرما دیں

جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!

"ان کے" سمجھ نہیں سکا. باقی شعر خوب ہے مفہوم بھی پورا ہے
 
اصل مصرع کچھ یوں تھا:
جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، میری!
مطلب شعر کا تھا کے جو غزلیں بر ملا، بے ساختہ اشعار سے مزئین نہیں ہیں میں ان کے صفحات پھاڑ چکا ہوں۔
شاید ابلاغ کا مسلئہ ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل کہی ہے کاشف۔ مگر استاد ناسخ بہت یاد آئے، اس قسم کے قوافی کے لئے مشہور ہیں۔ حالانکہ مجھے صوتی طور پر ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ خیر
عروضی اعتبار سے
اک عرصہ دامنِ دل میں، جنھیں چھپائے پھرا
ندی میں صبر کی ، وہ دشنام جھاڑ آیا ہوں!
پہلے مصرع میں ’عرصہ‘ کی ’ع‘ کا وصال بلکہ انتقال ہی ہو گیا ہے۔ الف کی طرح اسے گرایا نہیں جا سکتا۔ دوسرا مصرع تو بحر سے خارج ہیہو گیا ہے۔ تقطیع کر کے دیکھ لو۔ میرے خیال میں یہ شعر کوئی اچھا بھی ہیں جس کی خار کچھ پریشانی مول لی جائے۔ آسان ترکیب یہ ہے کہ اسے قلمزد ہی کر ڈالو۔
کچھ اور

میں اپنی عمر کے بچوں میں، سب سے آگے تھا !
سو کم سنی میں ہی، نفرت کو گاڑ آیا ہوں !
۔۔درست تو ہے لیکن یہ خیال ہوتا ہے کہ کہاں گاڑ آئے، کچھ اس کا بھی حوالہ ہو جاتا تو۔۔۔

جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!
۔۔شعر کی صرف یہی خصوصیت نہیں کہ وہ برملا یا بے ساختہ ہوں۔ بہر حال یہ اتنی خاص بات نہیں۔ گرامر کے حساب سے ’نہ تھیں، ان کے‘ ہونا چاہئے۔

میں سُونے گھر میں، لگا کر کے قہقہے دل سے
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!
۔۔لگا کر کے‘ محاورہ ہیں، محض ’لگا کر‘ ہوتا ہے یا ’لگا کے‘ ۔ اس مصرع کو بدلو۔

نظر لگی تھی یا ، رشتے ہی اتنے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں!
۔۔ کس کی نظر ؟ الفاظ بدل کر واضح بات کی جائے تو بہتر ہے۔

یہ شہر ِگورِ غَریباں ہے ، اِس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ، اُکھاڑ آیا ہوں!
۔۔شہر غریباں تو قبرستان کو کہتے ہیں۔ لیکن شہر کو گورِ غریباں کہنا؟؟؟
 
بہت عمدہ استاد محترم۔
میں آپ کے ہر ایک مشورے کو ذہن میں رکھ کر اصلاح کرتا ہوں۔
ان شا اللہ جلد ہی دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
جزاک اللہ۔
 
السلام علیکم
اصلاح کے بعد غزل پیش ہے۔ کم سنی والا شعر ابھی درست کرنا باقی ہے سو اسے ایسے ہی رہنے دیا ہے۔ دشنام والا شعر استاد محترم کے مشورے کے مطابق غزل سے خارج کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے توجہ اور مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********

چمن کی شاخوں سے، میں پُھول جھاڑ آیا ہوں !
سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں !

نہ حال پوچھتا اُس کا، نہ اپنا بتلاتا
مگر میں آج انا کو، پچھاڑ آیا ہوں !

میں اپنی عمر کے بچوں میں، سب سے آگے تھا !
سو کم سنی میں ہی، نفرت کو گاڑ آیا ہوں !

جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہ تھیں، ان
کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!

تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں!

میں چاہتا تھا لکھوں، لفظِ عشق کی تشریح
سو اپنا نامہءِ الفت، میں پھاڑ آیا ہوں!

زمین خشک جہاں کی تھی، پیڑ سوکھے تھے
جنوں کا تیشہ وہیں پر، میں گاڑ آیا ہوں!

لگا کے قہقہے دل سے، میں سُونے گھر میں پھر
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!

وہی اندھیری سیاست، وہی جرائم ہیں
میں گھر میں، آج کا اخبار پھاڑ آیا ہوں!

نظر لگی تھی کسی کی ، یا رشتے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں!

یہ شہر ِِگور ہے ، گھبرا کے اِس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ، اُکھاڑ آیا ہوں!
سیّد کاشف

*******............********............********
شکریہ۔
 
واہ کاشف بھائی کیا کہنے بہت اعلیٰ
بہت سے شعر بہت اچھے لگے اگلے مراسلے میں اظہار کرتا ہوں۔اول تو تمام غزل پر داد قبول کیجئے۔ بس ایک شعر میں کچھ تفہیم کا معاملہ ہے راہنمائی فرما دیں

جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!

"ان کے" سمجھ نہیں سکا. باقی شعر خوب ہے مفہوم بھی پورا ہے
آپ کے مزید تبصرے کا منتظر ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ان کے سے مراد ہے ان غزلوں کے صفحات۔ مجھے تو درست ہی لگتا ہے۔
قہقہے کے لئے دل سے کہنا ضروری ہے کیا؟ مجھے اچھانہیں لگا۔ شہر گور والا مصرع اب بھی عجیب سا ہے۔ اگر محض یوں کہو تو
یہ شہر مردوں کی بستی ہے، س لئے کاشف
 
بہت بہتر عبید سر
میں کوشش کرتا ہوں کہ بہتر کر سکوں۔
اگر یہ شعر اس طرح کروں:
لگا کے قہقہے خود ہی، میں سُونے گھر میں پھر
اداس شام کا جنگل اجاڑ آیا ہوں

تو کیسا رہے سر ؟
 
کاشف بھائی، ابھی توجہ ہوئی اس غزل کی طرف۔ حیرت ہے کہ ٹیگ موصول نہیں ہوا یا میں غائب دماغی میں احساس نہیں کر پایا۔
قبلہ اعجاز صاحب کی رہنمائی کے لیے ممنون ہونا چاہیے کہ اصلاح میں اس قدر دقتِ نظر سے کام لے رہے ہیں۔
میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ مجھے رائے کے لیے یاد فرمائیں۔ یہ انکسار نہیں، حق ہے واللہ۔
اب آ گیا ہوں تو ایک بات کہہ ہی دوں۔ شاعر پر بعض اوقات ایسا وقت آتا ہے جب طبیعت میں روانی مفقود ہو جاتی ہے۔ اس وقت کلام کے معانی دقیق ہو جاتے ہیں اور لغت تعقید کا شکار ہونے لگتی ہے۔ مشاق شاعروں کے لیے ان دنوں شعر کہنا دشوار شاید نہیں ہوتا مگر سخن فہموں کے لیے سمجھنا ضرور مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس نوع کے کلام کو محض مشق کی ذیل میں رکھنا چاہیے۔ بعد کو جب فکر رواں ہوتی ہے تو یہ محنت ٹھکانے لگتی ہے۔ میں آپ کی اس غزل کو اسی قبیل سے سمجھتا ہوں۔
 
کاشف بھائی، ابھی توجہ ہوئی اس غزل کی طرف۔ حیرت ہے کہ ٹیگ موصول نہیں ہوا یا میں غائب دماغی میں احساس نہیں کر پایا۔
قبلہ اعجاز صاحب کی رہنمائی کے لیے ممنون ہونا چاہیے کہ اصلاح میں اس قدر دقتِ نظر سے کام لے رہے ہیں۔
میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ مجھے رائے کے لیے یاد فرمائیں۔ یہ انکسار نہیں، حق ہے واللہ۔
اب آ گیا ہوں تو ایک بات کہہ ہی دوں۔ شاعر پر بعض اوقات ایسا وقت آتا ہے جب طبیعت میں روانی مفقود ہو جاتی ہے۔ اس وقت کلام کے معانی دقیق ہو جاتے ہیں اور لغت تعقید کا شکار ہونے لگتی ہے۔ مشاق شاعروں کے لیے ان دنوں شعر کہنا دشوار شاید نہیں ہوتا مگر سخن فہموں کے لیے سمجھنا ضرور مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس نوع کے کلام کو محض مشق کی ذیل میں رکھنا چاہیے۔ بعد کو جب فکر رواں ہوتی ہے تو یہ محنت ٹھکانے لگتی ہے۔ میں آپ کی اس غزل کو اسی قبیل سے سمجھتا ہوں۔
استاد محترم کی رہنمائی اور محبّت سے میں ایک عرصے سے فیضیاب ہو رہا ہوں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔
فاروق بھائی اگر ان اشعار کے ذیل کچھ فرما دیتے جہاں تعقید ہے یا دقیق معانی قاری کو پریشان کر سکتے ہیں تو میرے جیسے مبتدی کے لئے ذرا آسانی ہو جاتی ۔ ویسے آپ کے مشورے کے مطابق غزل پر نظر ثانی کی گنجائش ہمیشہ رکھونگا۔
جزاک اللہ۔
 
چمن کی شاخوں سے، میں پُھول جھاڑ آیا ہوں !
سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں !
شہرِ دوست گویا ایک چمن تھا اور لوگ پھول تھے۔ میں نے سب سے بگاڑ کر گویا پھول جھاڑ ڈالے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ترکِ تعلقات کا یہ بیان کجی رکھتا ہے۔ سو کا لفظ قطعی حشو ہے۔ آیا ہوں کی ردیف معانی کے خلاف جاتی ہے۔ یعنی چلے آپ آئے ہیں تو پھولوں کا جھڑنا چہ معنیٰ دارد؟
تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں!
چاندنی کا ستون تھا، مہربان پری تھی اور میں تھا۔ اس خواب سے اٹھ کے میں نے جنت اجاڑ دی۔
اس خواب کی جنت کو بیداری کے سبب کھو بیٹھنا تو شاید معنیٰ رکھتا مگر اجاڑنا سمجھ سے باہر ہے۔ یہ لفظ ایک ایسی تاخت کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا تحمل شعر نہیں کرتا۔
لگا کے قہقہے دل سے، میں سُونے گھر میں پھر
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!
دل سے قہقہے لگا کر میں سونے گھر میں اداس شام کا جنگل اجاڑ آیا ہوں۔
دل سے قہقہے لگانا کیا ہے؟ اداس شام؟ اداس شام کا جنگل؟ اور پھر اس اداس شام کے جنگل کو اجاڑنا؟ اداس جگہوں کو تو عموماً پہلے ہی اجڑا ہونا چاہیے۔
اگر جو معانی میں نے سمجھے ہیں وہ مراد نہیں تو عقدہ اور بھی پیچیدہ ہے۔ یا پھر وہی بات کہ میں ہیچمدان رائے زنی کا اہل نہیں۔ یقین جانیے کہ اس امر میں تو مجھے ویسے بھی شک نہیں! :redheart:
 
شہرِ دوست گویا ایک چمن تھا اور لوگ پھول تھے۔ میں نے سب سے بگاڑ کر گویا پھول جھاڑ ڈالے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ترکِ تعلقات کا یہ بیان کجی رکھتا ہے۔ سو کا لفظ قطعی حشو ہے۔ آیا ہوں کی ردیف معانی کے خلاف جاتی ہے۔ یعنی چلے آپ آئے ہیں تو پھولوں کا جھڑنا چہ معنیٰ دارد؟

چاندنی کا ستون تھا، مہربان پری تھی اور میں تھا۔ اس خواب سے اٹھ کے میں نے جنت اجاڑ دی۔
اس خواب کی جنت کو بیداری کے سبب کھو بیٹھنا تو شاید معنیٰ رکھتا مگر اجاڑنا سمجھ سے باہر ہے۔ یہ لفظ ایک ایسی تاخت کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا تحمل شعر نہیں کرتا۔

دل سے قہقہے لگا کر میں سونے گھر میں اداس شام کا جنگل اجاڑ آیا ہوں۔
دل سے قہقہے لگانا کیا ہے؟ اداس شام؟ اداس شام کا جنگل؟ اور پھر اس اداس شام کے جنگل کو اجاڑنا؟ اداس جگہوں کو تو عموماً پہلے ہی اجڑا ہونا چاہیے۔
اگر جو معانی میں نے سمجھے ہیں وہ مراد نہیں تو عقدہ اور بھی پیچیدہ ہے۔ یا پھر وہی بات کہ میں ہیچمدان رائے زنی کا اہل نہیں۔ یقین جانیے کہ اس امر میں تو مجھے ویسے بھی شک نہیں! :redheart:
دیکھا !!
آ گئے نا آپ فارم میں !!
آپ کی اسی رگ کو ابھارنا چاہتا تھا !:p
ماشا اللہ ۔ آپ کی تقریبا تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔
اداس شام کے جنگل کے بابت عرض ہے کہ
گھر میں اداسی کوئی گلزار تو کھلائے گی نہیں ۔۔ جنگل ہی ہوگا۔ سو قہقہہ اس جنگل کی اداسی کو درہم برہم کر رہا ہے۔
اب رہا دل سے قہقہہ تو میں اسے بدل چکا ہوں۔ آپ کی نظر شاید دوسری پوسٹ پر نہیں گئی۔:) لیکن ان سب کے باوجود شعر کو بہتر کرنے کی کوشش جاری رکھونگا۔
جہاں تک مطلع اور چاندنی کے ستون والے اشعار کی بات ہے وہاں آپ کے اعتراضات درست ہیں۔ مغز مارتا ہوں دوبارہ سے۔ :)
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
میرا طریقہ ہے کہ میں مفہوم سے کچھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ کہ ممکن ہے شاعر نے کچھ اور کہا ہو جسے میں نہیں سمجھ سکا۔ اس لئے محض بیانیہ پر صلاح دیتا ہوں۔
’سو‘ کا لفظ مجھے بھی پسند نہیں۔ لیکن جب فراز صاحب نے سو بار ’دیکھتے ہیں‘ کہا تو اس لفظ کی ناگواری میں کچھ کمی آئی۔
 
میرا طریقہ ہے کہ میں مفہوم سے کچھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ کہ ممکن ہے شاعر نے کچھ اور کہا ہو جسے میں نہیں سمجھ سکا۔ اس لئے محض بیانیہ پر صلاح دیتا ہوں۔
’سو‘ کا لفظ مجھے بھی پسند نہیں۔ لیکن جب فراز صاحب نے سو بار ’دیکھتے ہیں‘ کہا تو اس لفظ کی ناگواری میں کچھ کمی آئی۔
جی استاد محترم۔ میں سمجھتا ہوں۔ جزاک اللہ
شعر ویسے تبدیل کیا ہے۔ جلد ہی پوری غزل شیر و شکر کرونگا ۔ ان شا اللہ
 
اصلاحات کے بعد پوری غزل پیش ہے ایک دو اشعار کا اضافہ بھی کیا ہے۔ استاد محترم جناب الف عین صاحب اور احباب کی توجہ چاہونگا۔

چَمن کی شاخوں سے، میں پھول جھاڑ آیا ہوں
یوں شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں

نہ حال پُوچھتا اُس کا، نہ اپنا بتلاتا
مگر میں آج اَنا کو، پچھاڑ آیا ہوں


جو غزلیں بَرملا، بے ساختہ نہ تھیں میری
بِیاض سے وہی صفحات پھاڑ آیا ہوں

میں اپنی عُمر کے بچّوں میں، سب سے آگے تھا
میں کم سِنی میں ہی،
نفرت پچھاڑ آیا ہوں

تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اُٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں

میں چاہتا تھا لِکھوں، لفظِ عشق کی تَشریِح
سَو اپنا نامہءِ اُلفت، میں پھاڑ آیا ہوں

تَمیز سیکھ کے اپنے پَرائے رشتوں میں
نِدامتوں کا اُٹھائے پہاڑ آیا ہوں

زَمین خُشک جہاں کی تھی، پیڑ سُوکھے تھے
جُنوں کا تِیشہ، وہیں پر میں گاڑ آیا ہوں

لگا کے قَہقَہے، اپنے ہی گھر میں آج، سُنو !
اُداس شام کی محفِل اُجاڑ آیا ہوں !

نظر لگی تھی کسی کی، یا رشتے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں سب سے بگاڑ آیا ہوں

وہی اندھیری سِیاست، وہی جَرائم ہیں
میں گھر میں، آج کا اَخبار پھاڑ آیا ہوں

میں اَعتبار کی تُربت پہ لکھ کے یومِ وفات
ترے خُلوص کی تاریخ گاڑ آیا ہوں !

یہ شہرِ گور ہے، گھبرا کے اس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ اُکھاڑ آیا ہوں
 
آخری تدوین:
Top