سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں ! ۔۔ غزل اصلاح کے لئے

واہ۔بہت خوب۔ یوں سارے چمن کو تاخت وتاراج کرنا پسند آیا۔

جانے کیوں یہ غزل پڑھ کر ہمیں محمداحمد بھائی کی غزل اور جو حشر ہم نے اس خوبصورت غزل کا کیا تھا یاد آگیے۔ کہیے تو آپ کی غزل پر بھی ہاتھ صاف کردیں؟

4۔ اب پیش خدمت ہے جناب محمد احمد کی خوبصورت غزل کی پیروڈی

جناب محمداحمد بھائی سے معذرت کے ساتھ


محمد احمد بھائی کی شرارت
محمد خلیل الرحمٰن

کچن میں گھس کے میں سارے ہی برتن توڑ آیا ہوں
مگر گندی پلیٹیں سب کی سب میں چھوڑ آیا ہوں


تمہارے اس کچن میں اس طرح کے کام سے پہلے
میں کچھ برتن ، کئی قابیں کہیں پر توڑ آیا ہوں


کہیں پر کانچ کے برتن تھے اور کچھ سنگِ خارا کے
جہاں تک توڑ سکتا تھا وہیں تک توڑ آیا ہوں


پلٹ کر آگیا لیکن ، ہوا یوں ہے کہ سب ٹکڑے
جہاں پر مجھ سے ٹوٹے تھے ، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں


مجھے آنے کی جلدی تھی سو کچھ لیکر نہیں آیا
جہاں پر چھوڑ سکتا تھا، وہاں پر چھوڑ آیا ہوں


کہاں تک میں لیے پھرتا یہ سب ٹوٹے ہوئے برتن
جہاں موقع ملا یہ ڈھیر سارا چھوڑ آیا ہوں


کہاں تک چپ رہا جائے، بتانا ہی تمہیں تھا جب
’’سو احمد دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں‘‘
 
آخری تدوین:
ملاحظہ فرمائیے

اور اب پیشِ خدمت ہے کاشف اسرار احمد بھائی کی خوب صورت غزل کی پیروڈی

( کاشف اسرار احمد بھائی سے معذرت کے ساتھ)

کچن کا کام ہی سارا مجھی کو سونپ دیا
اسی لیے تو میں جنت اجاڑ آیاہوں

نظر لگی ہے کسی کی یا خوش نصیب ہوں میں
ہنسی مذاق میں ان سے بگاڑ آیا ہوں

میں چاہتا ہی نہ تھا کام یہ کروں گھر کے
سو ان کا نامہ الفت میں پھاڑ آیا ہوں

بہت ہی چاؤ سے بیگم نے تھے جو لگوائے
دراز کے وہی ہینڈل اکھاڑ آیا ہوں

کچن کی میرے جو سب سے چمکتی ہانڈی تھی
چڑھاکے چولھے پہ اس کو میں ساڑ آیا ہوں

کچن کے کاموں میں یوں تو بہت پھسڈی تھا
مگر بڑھاپے میں خود کو پچھاڑ آیا ہوں

لگاکے قہقہے اجڑے ہوئے کچن میں خلیل
میں اپنی زیست یقیناً بگاڑ آیا ہوں
 
Top