سلسلہ اویسیہ

نایاب

لائبریرین
اگر آپ کا اشارہ دندان مبارک شہید ہونے والے واقعے کی جانب ہے تو اس واقعے کا کوئی حوالہ، کوئی سند کوئی روایت؟ خطبا نے یہ واقعہ بکثرت بیان تو کیا لیکن فقیر نے اپنے ایک محقق دوست سے جو علم حدیث میں تحقیق کرتے ہیں سے حوالہ تو جواب یہ تھا کہ انہیں اس کا حوالہ موضوعات میں بھی نہیں ملا۔ اس کے علاوہ بھی فقیر کے اس واقعے پر کچھ مزید اعتراضات ہیں۔ لیکن فی الحال یہی کافی ہے۔
انتہائی ادب سے اسے سوال برائے معلومات ہی سمجھا جائے نا کہ سوال برائے تنقید و اعتراض۔
آپ پر سلامتی ہو سدا میرے محترم
جی بلا شک دندان مبارک والا واقعہ ہی مراد ہے ۔
کیا یہ واقعہ احادیث مبارکہ میں شامل ہونا چاہیئے تھا ؟
احادیث مبارکہ میں نفس مضمون کس ہستی مبارک کے قول اور فعل کو بیان کرتا ہے ۔؟
حدیث کہتے کسے ہیں ۔ ؟
میرے محترم بھائی یہ حدیث نہیں ہے ۔ یہ اک واقعہ ہے جو کے بطور " ترغیب " سنتا پڑھتا آیا ہوں ۔
کسی اک سے نہیں سنا نہ ہی کسی اک کتاب میں پڑھا ۔
آج کل سے نہیں بلکہ قریب 50 سال ہو چکے ہیں ۔
اس واقعہ میں ہے کیا ؟
کیا پیغام ہے اس میں ؟
کیا آپ واضح کر سکیں گے کہ
کس " باعث " آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب اویس قرنی کا ذکر بہت پیار سے کرتے ان سے امت کے لیئے دعا کروانے کے مشتاق ہوئے ۔۔؟
مان لیتے ہیں یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔ یہ بھی مان لیتے ہیں جس نے گھڑا اس نے کچھ مفاد حاصل کیا ۔
سوال تو یہ ہے کہ جب ہم یہ واقعہ پڑھتے ہیں تو کس رخ سے یہ واقعہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ۔
یا کس صورت ہمیں " حب رسول " کے دعوی کو عمل میں بدلنے کی نصیحت کرتا ہے ۔
آپ کے جو محترم دوست احادیث کی تحقیق کرتے ہیں ۔
ان سے مودبانہ گزارش کرتے یہ پوچھیئے گا کہ ان کی تحقیق میں شامل ذخیرہ احادیث عربی متن یا ترجمہ شدہ کا سن طباعت کیا ہے ۔؟
موضوع سے دور جاتے اک سوال کہ " کیا یہ ممکن ہے کہ قائد اعظم " کی مشہور و متنازعہ"سیکولر پاکستان " والی تقریر بارے تحقیق کرتے یہ حقیقت سامنے لائی جائے کہ یہ تقریر سچ ہے کہ جھوٹ ۔۔۔؟ ملحوظ رہے یہ صرف قریب 68 سال پرانا واقعہ ہے ۔۔
آپ اپنے اعتراضات بلا جھجھک لکھیں کہ آپ میرے نزدیک اہل علم ہیں اور احترام کے قابل ۔
آپ سے گفتگو کرتے ان شاء اللہ مجھے علم ملے گا ۔۔۔
بہت دعائیں
 

سید عمران

محفلین
قلندر سلسلہ نہیں اولیاء اللہ کا ایک طبقہ ہے جو دنیا و مافیہا سے بے خبر تجلیات الہیہ میں ہمہ وقت مستغرق رہتا ہے...
 
آپ پر سلامتی ہو سدا میرے محترم
جی بلا شک دندان مبارک والا واقعہ ہی مراد ہے ۔
کیا یہ واقعہ احادیث مبارکہ میں شامل ہونا چاہیئے تھا ؟
احادیث مبارکہ میں نفس مضمون کس ہستی مبارک کے قول اور فعل کو بیان کرتا ہے ۔؟
حدیث کہتے کسے ہیں ۔ ؟
میرے محترم بھائی یہ حدیث نہیں ہے ۔ یہ اک واقعہ ہے جو کے بطور " ترغیب " سنتا پڑھتا آیا ہوں ۔
کسی اک سے نہیں سنا نہ ہی کسی اک کتاب میں پڑھا ۔
آج کل سے نہیں بلکہ قریب 50 سال ہو چکے ہیں ۔
جی ہم مسلمانوں بالعموم اور اہل سنت نے بالخصوص غلط روش پکڑی ہے کہ کبھی کسی بات کا حوالہ یا اس کی اصل تک جانے کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ سن تو میں بھی بچپن سے رہا ہوں۔ کبھی ماں جی سے، کبھی احباب و خطبا سے۔
حدیث کے لفظی معنی تو بات کہ ہیں۔ اصطلاحی معنی کم علمی کے باعث مختصرا عرض کر رہا ہوں۔ کتب حدیث اور اصول میں جامع درج ہیں۔
آپ علیہ الصلوۃ والتسلیم کا قول، فعل، آپ کے سامنے ہوا فعل جس پر کچھ ارشاد فرمایا یا خاموش رہے، صحابی کا قول فعل۔
اس واقعہ میں ہے کیا ؟
کیا پیغام ہے اس میں ؟
کیا آپ واضح کر سکیں گے کہ
کس " باعث " آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب اویس قرنی کا ذکر بہت پیار سے کرتے ان سے امت کے لیئے دعا کروانے کے مشتاق ہوئے ۔۔؟
مان لیتے ہیں یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔ یہ بھی مان لیتے ہیں جس نے گھڑا اس نے کچھ مفاد حاصل کیا ۔
سوال تو یہ ہے کہ جب ہم یہ واقعہ پڑھتے ہیں تو کس رخ سے یہ واقعہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ۔
یا کس صورت ہمیں " حب رسول " کے دعوی کو عمل میں بدلنے کی نصیحت کرتا ہے ۔
آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے اقوال کا مفہوم عرض ہے۔ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر|میری طرف جھوٹ باندھا|منسوب کیا۔ اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم بنایا۔
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے پہنچائے۔
یہ واقعہ غزوۂ احد میں سرکار علیہ الصلوۃ والتسلیم کے دندان مبارک شہید ہونے کی طرف منسوب ہے۔ اس لحاظ سے یہ واقعہ 3ہجری کا ہے۔ جبکہ جو روایت دعا والی موجود ہے وہ آقا کریم کے آخری ایام کی ہے لگ بھگ 10، 11 ہجری کا۔ اس کے علاوہ حضرت اویس قرنی کا ذکر روایات میں نہیں ملتا۔ لہذا 3 ہجری کی وہ روایت موجود ہونی چاہیے جس میں خواجہ صاحب کے دندان گرانے کا ذکر موجود ہو۔ دوم اسلام میں خود پر کسی بھی طرح سے ظلم، خودکشی حرام ہے۔ لہذا یہ شریعت کے بھی منافی ہے۔ علاوہ آپ کتب احادیث نہ سہی کتب تاریخ یا احوال اولیاء میں سے کہیں سے بھی اس روایت کی صحیح و حسن نہ سہی غریب یا ضعیف روایت ہی لا دیں۔ میں نے پہلے عرض کی میں نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے اور صرف اس فورم پہ نہیں اپنے دیگر احباب سے جو اس کی تلاش میں ہیں اگر واقعی کچھ ملا تو بتائیں گے ورنہ ہم اس روایت کو شدید موضوع ہی سمجھیں گے۔
رہا سوال کہ آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کیوں مشتاق ہوئے تو فقیر نے اتنی جرات نہیں کی کہ قول رسول پر کیوں کا سوال اٹھائے۔ یمن سے میرے آقا کو محبت تھی۔ آپ نے اس کے لیے دعائیں بھی فرمائی ہیں اور وہاں سے قافلوں کے آنے جانے کی روایات بھی موجود ہیں تو آپ کی بارگاہ میں اویس قرنی کا ذکر ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
کسی نے کیا مفاد حاصل کیا؟ نہیں معلوم۔ آپ نے محبت اور عشق کی مثالیں دینی اور نصیحتیں کرنی ہیں تو اولا صحیح روایات موجود ہیں نہیں تو خواجہ سعدی اور مولانا روم نے کس بھی ہستی سے منسوب کيے بغیر حکایات و روایات بیان کی ہیں۔ وہ طریقہ بھی موجود ہے۔ معاملہ بہر حال تحقیق طلب ہے۔
آپ کے جو محترم دوست احادیث کی تحقیق کرتے ہیں ۔
ان سے مودبانہ گزارش کرتے یہ پوچھیئے گا کہ ان کی تحقیق میں شامل ذخیرہ احادیث عربی متن یا ترجمہ شدہ کا سن طباعت کیا ہے ۔؟
ترجمہ شدہ وہ نہیں دیکھتے اور نہ ہی ترجمہ شدہ کی حوالہ دینے میں کوئی خاص حیثیت ہے۔ باقی جملہ کتب ہر جگہ میسر ہیں۔ ہاں ہمیں بترجمہ میسر نہیں ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ موجود ہی نہیں ہیں۔
موضوع سے دور جاتے اک سوال کہ " کیا یہ ممکن ہے کہ قائد اعظم " کی مشہور و متنازعہ"سیکولر پاکستان " والی تقریر بارے تحقیق کرتے یہ حقیقت سامنے لائی جائے کہ یہ تقریر سچ ہے کہ جھوٹ ۔۔۔؟ ملحوظ رہے یہ صرف قریب 68 سال پرانا واقعہ ہے ۔۔
غیر متعلقہ سوال کا جواب مناسب تو نہیں ہے کہ دیا جائے۔ لیکن عرض اتنی ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے کون ہیں؟ کب سے ہیں؟ ان کے بظاہر اور درپردہ کیا مقاصد ہیں؟ دوم یہ کہ دلائل بہت موجود ہیں دنیا دے رہی ہے دیتی رہے گی۔ اپنی گزارش یہ ہے کہ فقیر کے مرشد حضور امیر ملت بانی پاکستان پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری، کا نام اور کام تحریک پاکستان کے حوالے سے تعارف کا محتاج نہیں۔ سو سال سے زائد عمر کے باوجود آپ نے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شمولیت اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قیام پاکستان کے لیے بے پناہ خدمات (جانی، مالی، تقریری) سر انجام دیں۔ آپ نے فرمایا تھا، جناح ہمارا مجاہد ہے۔ پاکستان بنانا ہمارا مشن ہے اور جناح اس مشن میں ہمارا کام کر رہا ہے۔ وہ اس سے دستبردار ہو بھی تو پاکستان کا قیام اٹل حقیقت ہے۔ پھر آپ کا مشہور قول کہ لوگ اس کی ظاہری حالت کیوجہ سے اسے فرنگی سمجھتے ہیں جبکہ اللہ کا ولی ہے۔ الغرض سو باتیں ہیں لیکن ہمارے لیے ہمارے مرشد کا قول معتبر ہے۔ اس سے غرض نہیں لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔
اللہ و ورسولہ اعلم۔
 
آپ اپنے اعتراضات بلا جھجھک لکھیں کہ آپ میرے نزدیک اہل علم ہیں اور احترام کے قابل ۔
آپ سے گفتگو کرتے ان شاء اللہ مجھے علم ملے گا ۔۔۔
بہت دعائیں
آپ کے اس شدید حسن ظن پر آپ کا شکریہ۔ مجھے قطعی طور پر اہل علم میں شامل نہ کریں یہ ان کی توہین ہے۔ میرا مطالعہ کتب بالکل بھی نہیں ہے اور میں نہ ہی کوئی طالب علم ہوں کہ کسی طرح کتب سے وابسطہ ہوں۔ ایک کھلنڈرا ہوں۔ یہ ہی سمجھیں۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آپ کے علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔
 
حضور فیض ملت علیہ الرحمہ کی بعض تصانیف جو سلسلہ اُویسیہ / بزرگانِ اُویسیہ کے متعلق لکھی گئیں
وہ رسائل و کتب جو سلسلہ اُویسیہ کے متعلق ہیں

سلسلہ اُویسیہ ایک مستقل سلسلہ ہے
۳ جمادی الآخر ۱۴۲۷ھ کو بہاولپور میں تصنیف فرمایا جس کو بزمِ فیضانِ اُویسیہ کراچی نے شائع کیا

رسالہ اُویسیہ کے سبع اُصول
۳ جمادی الآخر ۱۴۲۷ھ کو بہاولپور میں ’’سلسلہ اُویسیہ کے سبع اُصول‘‘ کی تصنیف کا آغاز فرمایا جو ۲۷ جمادی الآخر ۱۴۲۷ھ بدھ کو بہاولپور میں مکمل فرمایا جسے بزمِ فیضانِ اُویسیہ کراچی نے شائع کیا۔

سلسلہ اُویسیہ کے اوراد ووظائف
۲۴ ربیع الآخر۱۴۰۵ھ بروز بدھ بہاولپور میں ’’سلسلہ اُویسیہ کے اوراد و وظائف‘‘ مکمل فرمایا جے حضرت علامہ پیر سید محمد عارف شاہ اُویسی صاحب نے کراچی سے شائع کرایا۔

سلسلہ اُویسیہ کے ثبوت کی علمی تحقیق
۱۸ رجب المرجب ۱۴۲۳ھ بروز جمعرات قبل صلوۃ العصر بہاولپور ’’سلسلہ اُویسیہ کے ثبوت کی علمی تحقیق‘‘ مکمل فرمایا جسے کئی اشاعتی ادارہ نے شائع کیا۔

وہ رسائل و کُتب جو بزرگانِ اُویسیہ کے متعلق لکھے گئے جس میں سلسلہ اُویسیہ کے حوالے سے کئی مواد موجود ہے

۲۴ ذیقعدہ ۱۴۰۵ھ ، ۲۵فروری ۱۹۸۶ء کو سلسلہ اُویسیہ کے بانی محبوب سیّد المرسلینﷺ، خیر التابعین حضرت خواجہ سیّدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ کے حالات پر جامع کتاب بنام ’’ذکر اُویس‘‘ مکمل فرمائی جسے مولانا بلال احمد غوری اُویسی نے مکتبہ اُویسیہ رضویہ بہاولپور سے شائع کرایا۔ بعدازاں کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

۲۲ ذیقعدہ ۱۴۰۵ھ ، ۲۳ فروری ۱۹۸۶ء بروز ہفتہ بہاولپورمیں سلسلہ اُویسیہ کے دو عظیم بزرگوں کے مختصر حالات ’’حالات سیّدنا خواجہ اُویس قرنی وحضرت خواجہ عبدالخالق رحمہما اللہ‘‘ مکمل فرمایا جسے شیخ دلشاد احمد قریشی صاحب کے تعاون سے مکتبہ اُویسیہ رضویہ بہاولپورنے شائع کیا۔

۱۶ محرم الحرام ۱۴۰۶ھ بروز بدھ بہاولپور مین سلسلہ اُویسیہ کے شیخ کامل حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات پر تفصیلی کتاب ’’ذکر سیرانی‘‘ مکمل فرمائی جسے شیخ المیراث مفتی محمد صالح اُویسی رحمۃ اللہ علیہ نے بزم اُویسیہ رضویہ بہاولپور کے زیر اہتمام شائع کیا۔ بعدازاں مکتبہ اُویسیہ رضویہ بہاولپورنے کئی ایڈیشن شائع کئے۔

۲۴ ذیقعدہ ۱۴۲۲ھ کو بہاولپور میں سیّد محمد منصور شاہ اُویسی صاحب کی خواہش پر ’’مختصر سوانح حضرت خواجہ اُویس قرنی رضی اللہ عنہ‘‘ تحریر فرمائی جسے عطاری پبلشرکراچی نے جمادی الآخر۱۴۲۴ھ، اگست ۲۰۰۳ء میں شائع کیا۔

۲۳ صفر المظفر ۱۴۲۹ھ کو بہاولپور میں سلسلہ اُویسیہ کے بانی خیر التابعین حضرت خواجہ اُویس قرنی رضی اللہ عنہ کے اقوالِ زریں کی شرح میں ’’شرح ملفوظات اُویس‘‘ تصنیف فرمائی جسے محمد سہیل اُویسی کے زیر اہتمام ادارہ تالیفات اُویسیہ بہاولپور نے اپریل ۲۰۰۹ء میں شائع کیا۔

یہ مسودہ جس کی ایک عرصہ سے فقیر کو تلاش ہے

سلسلہ اویسیہ کے تین قطب
یکم ذوالحجہ ۱۳۸۵ھ ، ۲۴ مارچ ۱۹۶۶ء بروز منگل بہاولپور میں ’’سلسلہ اُویسیہ کے تین قطب‘‘ کا آغاز فرمایا۔
 
جیسے خواتین نماز میں مردوں کی امامت نہیں کرسکتیں،
برادر محترم

سارا انٹر نیٹ ، اس قسم کے بیانات سے بھرا پڑا ہے کہ عورت کسی طور مردوں کی امامت نہیں کرسکتی۔

آیئے اس سوال کے لئے قرآن حکیم سے رجوع کرتے ہیں اور سب سے پہلے ہم سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 74 کے مطابق درج ذیل دعا مانگتے ہیں تاکہ ہمارا شمار نیک لوگوں میں ہو

25:74
http://www.openburhan.net/ob.php?sid=25&vid=74
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے

- اس کے بعد کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورت کسی طور مردوں کی امامت نہیں کرسکتی۔؟ کیا متقین میں مرد حضرات بھی شامل ہوں گے یا صرف عورتیں ہی متقین میں شامل ہوں گی؟

شائید ہم کو قرآن حکیم ، غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟
 

سید عمران

محفلین
اول تو اس آیت کی نہایت نا مناسب تفسیر کی گئی ہے...
دوم اس آیت میں نماز کا ذکر ہے نہ نماز والے امام کا بلکہ یہ تفسیر ہے کہ اے خدا ہمیں نیکو کاروں کا پیشوا بنا یعنی لوگ ہمیں دیکھ کر ہم سے دین سیکھیں اور دین دار بنیں...
ثالث یہاں دعا کرنے والے کا صیغہ مذکر ہے. امام بننے کے لیے وہی دعا کررہے ہیں...
چناں چہ کسی طور آپ کی خود ساختہ تفسیر آپ کے دعوے پر پوری نہیں اتر تی!!!
 
یہ تفسیر نہیں صاحب، عربی عبارت کا ترجمہ حاضر ہے، آپ درستگی فرما دیجئے۔ صرف ترجمہ درکار ہے برادران محترم۔
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ
ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما،
وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
، اور ہمیں پمتقین کا امام بنا

وضاحت
صیغہ مذکر کا نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا ( صیغہ جمع )
دعا مرد کی طرف سے نہیں بلکہ سب لوگوں کی طرف سے ہے
کہ ہمارے ازواج، (مرد کا زوج، عورت اور عقرت کا زوج مرد) اور اولاد ( مرد و عورت دونوں)
اور ہمیں(ہم سب کو) متقین کا امام بنا۔

کچھ سوالات
آپ کے نکات سر آنکھوں پر، ہم سب کی تعلیم کے لئے

1۔ وہ آیت عطا فرمائیے جس میں امام نماز یا امامت کی اقسام کا تذکرہ ہو اور اس میں صرف مرد کو یہ شرف بخشا گیا ہو کہ صرف وہی امامت کرسکتا ہے۔
2۔ اور یہ بھی بتائیے کہ متقین میں صرف مرد شامل ہوں گے یا عورتیں بھی متقین میں شامل ہیں۔
3۔ کیا یہ درست ہے کہ دار السلام، تنزانیہ، یا دار السلام ، مصر، یا دار السلام ، ایران، یا قرآن سے دار السلام (جنت) ، کسی شہر ، علاقہ یا گاؤں کے لئے استعمال ہوتا ہے ؟؟

ہم جیسے علم کے طلب گاروں کے لئے کارآمد ہوگا
والسلام
 
آخری تدوین:
دیکھئے ، سورۃ الانعام آیت 127
لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
انہی کے لئے ان کے رب کے حضور سلامتی کا شہر ہے اور وہی ان کا مولٰی ہے ان اعمالِ (صالحہ) کے باعث جو وہ انجام دیا کرتے تھے

نیک کاموں کے لئے سلامتی کا شہر ، ان کے اعمال صالحہ کی وجہ سے؟
کیا یہ صرف ایک خاندان کے گھر کی بات ہورہی ہے یا پھر بہت سارے لوگوں ے گھروں کی بات ہو رہی ہے؟

کیا قرآن حکیم ایک گھر کی بات کررہا ہے یا پھر، بہت سارے لوگوں کے رہنے کی جگہ کی بات کررہا ہے؟

تنزانیہ میں ایک شہر ہے دار السلام
ایران میں ایک شہر ہے دار السلام
مصر میں ایک شہر ہے دارالسلام
دار کی جمع دیار ہے ، یعنی ایک سے زیادہ علاقے یا شہر
یہ دار ، صرف ایک بیت (گھر ) نہیں ہے۔

قران حکیم کی اس آیت سے دار کے معانی اخذ کرنے کے بعد، ہم اس احسن روایت کو دیکھتے ہیں۔

عورت امام؟
ن ام ورقة بنت عبداللہ بن الحارث بن نوفل الانصاریة وکان رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم یزورہا فی بیتہا، وجعل لہا موذنا یوٴذن لہا، وامرہا ان توٴم اہل دارہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۷، ج:۱)

”حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن نوفل الانصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، اور ان کے لیے موٴذن مقرر کیا، جو ان کے لیے اذان دیتا تھا، اور آپ نے ان کو حکم دیا (اجازت دی) کہ وہ اپنے اہلِ دار کی امامت کریں۔“

اس روایت سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کا ایک موٴذن تھا، جو اذان دیتا تھا، اور امِ ورقہ کا ایک غلام اور ایک باندی تھی، جیسا کہ سنن ابی داؤد کی اس سے ماقبل کی روایت میں مذکور ہے، تو ظاہریہ ہے کہ موٴذن ان کے پیچھے ہی پڑھتے ہوں گے، اس اعتبار سے ام ورقہ اپنے موٴذن، غلام اور باندی کی امامت کرتی تھیں، گویا روایت میں ”اہل دار“ سے مراد ”گھروالے“ اور ”گھروالوں“ سے مراد غلام و باندی ہیں، نیز موٴذن کو بھی گھروالوں میں داخل مانا ہے۔

مندرجہ بالا آیتے کے مطابق دار، ایک سے زائید گھرانوں کا نام ہے۔
پھر سورہ الفرقان ، آیت کے بطابق ، ہماری ازواج اور اوالاد کے لئے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو متقین کا امام بنا۔

قرآن کریم اور ، سنت رسول اکرم سے یہ ثابت ہے کہ ، عورت امامت کرسکتی ہے۔ یہ بات بہت ہی واضح ہو گئی ہے کہ امامت میں نماز والی لیڈر شپ بھی شامل ہے۔

والسلام
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس کے بعد کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورت کسی طور مردوں کی امامت نہیں کرسکتی۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شائید ہم کو قرآن حکیم ، غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟

یہ تفسیر نہیں صاحب، عربی عبارت کا ترجمہ حاضر ہے، آپ درستگی فرما دیجئے۔ صرف ترجمہ درکار ہے برادران محترم۔
بہت خوب! کیا بات ہے محترم آپ کی!
تفیسر تو اس آیت کی آپ نے کردی ہے اور ہم سے کہہ رہے ہیں کہ صرف آیت کا ترجمہ درکار ہے۔ اس آیت میں امام کے لفظ کو نماز میں عورت کی امامت پر منطبق تو آپ کررہے ہیں ۔ یہ اس آیت کی تفسیر نہیں تو کیا ہے؟! حالانکہ نہ تو اس آیت میں ، نہ اس آیت سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد سورت الفرقان میں کسی جگہ نماز کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔

آئیے میں آپ کو اس آیت کا ترجمہ بتاتا ہوں ۔ نہ صرف اس آیت کا ترجمہ بلکہ کئی اور قرآنی آیا ت کا ترجمہ بھی بتاتا ہوں کہ جن میں امام کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے بعد آپ خود بتائیے گا کہ امام کے کیا معنی ہوتے ہیں۔
(عربی میں لفظ امام کے معانی ہیں ؛ پیشوا ، سردار ، قائد ، رہنما ، نمونہ ، پیمانہ ۔ حوالے کے لیے کوئی بھی عربی لغت اٹھا کر دیکھ لیجیے۔لفظ امام کے یہ تمام معانی قرآن کریم میں مختلف مقامات پر استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں آپ دیکھیں گے ۔ آیت کے سیق و سباق کو دیکھ لیجیے امام کا مطلب خود بخود سمجھ میں آجائے گا۔

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے ازواج اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقین کا امام بنا ۔ ( سورۃ الفرقان آیت نمر 74)۔ یہاں امام کے معنی مثال یا رہنما کے ہیں۔

وَجَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ وَیَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ۔ اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا تھا جو آگ کی طرف بُلاتے تھے اور قیامت کے دن وہ مدد نہیں دیئے جائیں گے۔ (سورۃ القصص آیت ۴۲ ) ۔ یہاں موسیٰ علیہ السلام کی سرکش قوم کا تذکرہ ہورہا ہے اور ان کے سرکش سرداروں کے لیے امام کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ائمہ امام کی جمع ہے)۔

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمٰمِہِمۡ ۖ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ وَلَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ۔ وہ دن ((یاد کرو)جب ہم ہر قوم کو اُس کے امام کے حوالے سے بلائیں گے۔ پس جس کو اُس کا اعمال نامہ اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہی وہ لوگ ہوں گے جو اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور وہ ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے۔ (سورۃ الاسرا آیت ۷۱ ) ۔ اس آیت میں امام کے معنی نبی یا اس شخص کے ہیں کہ جس کی پیروی وہ دنیا میں کرتے تھے۔

وَاِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ۖ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۖ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ۔ اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کاامام بنادوں گا کہا: اور میری اولاد میں سے بھی ۔ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔(البقرۃ آیت۱۲۵) ۔ اس آیت میں امام کے معنی پیشوا اور رہنما کے ہیں ۔

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَیَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَمِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّرَحۡمَۃً ۚ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ۚ وَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ۚ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔ بھلا وہ شخص جو اپنے رب کے صاف راستہ پر ہو اور اس کے ساتھ الله کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی یہی لوگ قرآن کو مانتے ہیں اور جو کوئی سب فرقوں میں سے اس کا منکر ہوتو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سو تو قرآ ن کی طرف سے شبہ میں نہ رہ بے شک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔(سورۃ الہود آیت ۱۷) ۔ اس ایت میں تورات کو امام کہا گیا ہے ۔اس آیت میں امام کے معنی ہوئے نمونہ ، مثال یا پیمانہ ۔

وَمِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّرَحۡمَۃً ۚ وَہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَبُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہے جو رہنما اور رحمت تھی او ریہ کتاب ہے جو اسے سچا کرتی ہے عربی زبان میں ظالموں کو ڈرانے کے لیے اور نیکوں کو خوشخبری دینے کے لیے ۔ (سورۃ الکہف آیت ۱۲) ۔ اس آیت میں بھی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب یعنی تورات کو امام کہا گیا ہے ۔ معنی ہوئے نمونہ پیمانہ ، رہنما ۔

وَاِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمٰنَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَطَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقٰتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمٰنَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ ۔ اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں تو ڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو کفر کے اماموں سے لڑو ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ باز آ آئیں ۔ (سورۃ الیوسف آیت نمبر 12) ۔ اس آیت میں امام کے معنی ہیں سردار۔ ان کے اماموں یعنی سرداروں سے جنگ کرو۔

وَنُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّنَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۔ اور ہم نے ارادہ کیا کہ جو لوگ ملک میں کمزور سمجھے گئے ان پر احسان کریں اور انہیں امام بنادیں اور اُنہیں وارث کر دیں۔ (سورۃ القصص آیت ۵) ۔اس آیت میں امام سے مراد رہنما ہے۔

اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَنَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثٰرَہُمۡ ۚ وَکُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ ۔ بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور جو انھوں نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اس کو لکھتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو کتاب واضح (لوح محفوظ) میں محفوظ کر رکھا ہے ۔ (سورۃ یٰس آیت ۱۲) ۔ اس ایت میں امام کے معنی کتاب یا لوحِ محفوظ ہے ۔

مندرجہ بالا تمام آیات قرآن کے سیاق و سباق کو دیکھ لیجئے کسی جگہ بھی امام کا لفظ نماز کے پیش امام کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ امام الصلوٰۃ یا پیش امام تو ایک مذہبی اصطلاح ہے جو نماز فرض ہونے کے بعد وجود میں آئی اور جس کا ذکر احادیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں آیا ہے ۔ قرآن میں پیش امام کا کہیں ذکر نہیں ۔

بیشک مجھے اور آپ کو قرآن حکیم غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
1۔ وہ آیت عطا فرمائیے جس میں امام نماز یا امامت کی اقسام کا تذکرہ ہو اور اس میں صرف مرد کو یہ شرف بخشا گیا ہو کہ صرف وہی امامت کرسکتا ہے۔
اس کا جواب میرے پچھلے مراسلے میں تفصیل سے دے دیا گیا ہے ۔ آیاتِ قرآن میں کسی جگہ بھی امام کا لفظ نماز کے پیش امام کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ امام الصلوٰۃ یا پیش امام تو ایک مذہبی اصطلاح ہے جو نماز فرض ہونے کے بعد وجود میں آئی اور جس کا ذکر احادیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں آیا ہے ۔ قرآن میں پیش امام کا کہیں ذکر نہیں ۔ اس لیے نماز کی امامت کے مسئلے کو دیکھنے کے لیے آپ کو حدیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھنا پڑے گا۔ س کے علاوہ بھی ایسے سینکڑوں مسائل ہیں کہ جن کی تفصیل قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں لیکن اس تفصیل کو اللّٰہ تعالیٰ نے رسول اللّٰہ کی زندگی یعنی عملی تفسیر کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اور ان مسائل کی تفصیل صرف سنتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں ملتی ہے۔ اگر ہر شخص قرآ ن کی آیات سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج اخذ کرنے لگے تو پھر کس کی بات کو درست مانا جائے گا؟!
میرے نزدیک کوئی بھی آدمی اس شخص سے زیادہ گمراہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اللّٰہ کے کلام کا مطلب خود اپنی مرضی سے اخذ کرتا پھرے یا اس کے بارے میں ہر ایرے غیرے کی رائے کو مانتا پھرے جبکہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ساتھ اس کی عملی تفسیر بھی لوگوں کے لیے زمین پر بھیجی ہے ۔ اس نے اپنی کتاب کو جس پیغام بر کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا اسی پیغام بر کو اپنے قرآن کی چلتی پھرتی تفسیر بناکر لوگوں کے سامنے پیش بھی کیا۔انسانوں میں سے رسول منتخب کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ رسول اپنے لائے ہوئے پیغام پر اللّٰہ کی وحی کے مطابق عمل کرکے دکھائے اور قرآن کی ایک عملی تفسیر قیامت تک کے لیے چھوڑ کر جائے تاکہ یہ کتابِ ہدایت متنازع نہ بن جائے اور آنے والے زمانوں میں لوگ اپنی اپنی مرضی سے اس کا مطلب نہ نکالنے لگیں ۔
یہ سوچ کیسی بے عقلی پر مبنی ہے کہ دنیا سے رسول اللّٰہ کے جانے کے بعد ان کی تعلیمات بھی ان کے ساتھ رخصت ہوگئیں ، پیچھے صرف قرآن رہ گیا کہ جس کو جو چاہے جس طریقے سے سمجھے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرے۔ کیا محمد رسول اللّٰہ کو صرف مکے اور مدینے کے لوگوں کے لیے بھیجا گیا تھا اور وہ بھی صرف ۲۳ سال تک کے لیے ؟ اللّٰہ کریم نے اپنے قرآن کی جو چلتی پھرتی تفسیر رسول کی صورت میں اتاری تھی کیا وہ صرف مکے اور مدینے کے لوگوں کے لیے تھی؟ کیا قرآن کے پیغام کو تاقیامت برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ اس کی جو تشریح و تفسیر اللّٰہ نے اتاری وہ بھی تاقیامت قائم و برقرار رہے؟ یقیناً اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے اسوہ کی صورت میں اس کتاب کی عملی تشریح دونوں کو تاقیامت محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر آخرت میں مواخذے اور حساب کتاب کا کیا جواز ہے؟ تو پھر قرآن بار بار کیوں کہتا ہے کہ اطاعت کرو اللّٰہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی ؟
سیدھی سی بات یہ ہے کہ جو لوگ دل سے اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے وہ تاویلیں ڈھونڈتے ہیں ۔ چونکہ کتاب اللّٰہ کی آیات کو تو بدل نہیں سکتے اس لیے رسول اللّٰہ کی تفسیر اورعملی تشریح کو درمیان سے ہٹاتے ہوئے اپنی مرضی سے ان آیات کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔ کیسے بدبخت ہیں وہ لوگ جو اپنی عقل اور سمجھ کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بات اور عمل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اللّٰہ کریم انہیں ہدایت نصیب فرمائے ۔ ان کی آنکھوں کے آگے سے حرص و ہوا کی پٹیاں ہٹادے تاکہ یہ دیکھنے لگیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قران حکیم کی اس آیت سے دار کے معانی اخذ کرنے کے بعد، ہم اس احسن روایت کو دیکھتے ہیں۔

عورت امام؟
ن ام ورقة بنت عبداللہ بن الحارث بن نوفل الانصاریة وکان رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم یزورہا فی بیتہا، وجعل لہا موذنا یوٴذن لہا، وامرہا ان توٴم اہل دارہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۷، ج:۱)

”حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن نوفل الانصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، اور ان کے لیے موٴذن مقرر کیا، جو ان کے لیے اذان دیتا تھا، اور آپ نے ان کو حکم دیا (اجازت دی) کہ وہ اپنے اہلِ دار کی امامت کریں۔“
یہ حدیث بیان کرکے آپ نے بہت اچھی بات کی ہے ۔ اب بات درست لائن پر آگئی ہے اور اب بات کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگا۔

بیشک کسی بھی شرعی مسئلے کو سمجھنے کے لیے سنتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی اولین مآخذ ہونا چاہیے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اور دیگر منکرینِ حدیث ویسے تو صرف اپنی مرضی سے آیاتِ قرآن کی تشریح و تفسیر کرتے ہیں لیکن انہیں جب کوئی حدیث اپنے موقف کی حمایت کرتی نظر آتی ہے تو اس کا حوالہ دینے میں ذرا دیر نہیں کرتے ۔ :) اس جملۂ معترضہ کے بعد میں ابو داؤد کی جس حدیث کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ ذیل میں پوری کی پوری نقل کرتا ہوں ۔ سنن ابو داؤد میں مؤلف نے کتاب الصلوٰۃ میں "عورتوں کی امامت کا مسئلہ" کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے اور اس میں (حدیث نمبر 592) یوں منقول ہے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ, بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بِهَذَا الْحَدِيثِ... وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فِي بَيْتِهَا، وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا. قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا رَأَيْتُ مُؤَذِّنَهَا شَيْخًا كَبِيرًا.
ترجمہ: جناب عبدالرحمٰن بن خلاد سے روایت ہے انہوں نے سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے یہی حدیث بیان کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے ۔ اس میں ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا جو اس کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ نے اسے ( ام ورقہ کو ) حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے ۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا تھا جو بہت بوڑھا تھا۔

چونکہ اب آپ نے اپنے مؤقف کی حمایت میں حدیث استعمال کی ہے تو لازمی بات ہے کہ اب گفتگو علم الحدیث کے حوالے سے ہوگی ۔ علم الحدیث کا بنیادی اصول ہے کہ ذخیرۂ احادیث میں کسی بھی ایک حدیث کو چن کر اس سے فقہی مسائل اخذ نہیں کیے جاسکتے بلکہ مسئلے کی مکمل تفہیم کے لیے اس موضوع پر موجود تمام متعلقہ احادیث کو دیکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حدیث کی مکمل تفصیل یا مزید وضاحت کسی دوسری حدیث یا احادیث میں ہو سکتی ہے۔ حدیث کے سلسے میں یہ بہت ہی عام بات ہے۔
جو حدیث آپ نے بیان کی وہی حدیث سنن دار قطنی میں ذرا تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ سنن دار قطنی کی کتاب الصلوٰۃ میں باب فی ذکر الجماعۃ و اھلھا و صفۃ الامام میں یہی حدیث ( نمبر 1069) مختلف اسناد کے ساتھ یوں منقول ہے: حدثنا الولید بن جمیع عن امہ عن ام ورقۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذن لھا ان یوذن لھا و یقام و تؤم نساء ھا ۔ ترجمہ: ام ورقہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں یہ اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور ان کے لیے اقامت کہی جائے اور وہ عورتوں کی امامت کریں ۔

اس حدیث کو دیکھنے کے بعد آپ کی پیش کردہ سنن ابو داؤد کی حدیث کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ عورت صرف خواتین کی امامت کرسکتی ہے اور وہ بھی گھر کے اندر۔ علم الحدیث کے اصول کے تحت دیگر متعلقہ احادیث کو دیکھا جائے تو مندرجہ بالا بات کی مکمل تائید ہوتی ہے۔ مثلاً:
1۔ حدیث کی تقریباً ہر کتاب میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں خواتین اور مردوں کو مسجد میں الگ الگ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ۔
2۔ خواتین کو مردوں کی صفوں سے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تاکہ دورانِ نماز ان کی بے پردگی نہ ہو۔
3۔ حد تو یہ ہے کہ مرد صحابہ کو مسجد نبوی کے اس دروازے سے داخل ہونے سے بھی منع کیا گیا کہ جس سے خواتین اندر آیا کرتی تھیں ۔
4۔ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور اس کے بعد تیرہ سو سال تک ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی عالم نے عورتوں کی امامت کا فتویٰ دیا ہو یا کہیں کسی خاتون نے جماعت کی امامت کی ہو۔ عوتوں کی امامت کو جائز دینے کا یہ نیا مسئلہ پچھلے چند برسوں میں امریکا میں اٹھایا گیا ہے اور کیوں اٹھایا گیا ہے اس کے پسِ پردہ وجوہات بالکل واضح ہیں۔

تو ظاہریہ ہے کہ موٴذن ان کے پیچھے ہی پڑھتے ہوں گے، اس اعتبار سے ام ورقہ اپنے موٴذن، غلام اور باندی کی امامت کرتی تھیں
ابو داؤد کی حدیث سے یہ نتیجہ تو آپ نے اپنے اپنی مرضی سے نکال لیا۔ ابو داؤدکی حدیث میں تو سرے سے ایسی کوئی بات مذکور ہی نہیں کہ وہ غلام ام ورقہ کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہ تو آپ کا اپنا قیاس ہے ۔ اگر کسی صحابی کے بارے میں قیاس کرنا ہی ہے تو قیاس ایسا کیا جائے گا جو دیگر احادیث اور دیگر صحابہ کے عام عمل سے مطابقت رکھتا ہو ۔ کسی صحابی کے بارے میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ انہوں نے کسی عورت کی اقتدا میں نماز ادا کی ہو ۔
بخاری ، سنن بیہقی ، مصنف ابی شیبہ اور کتاب المصاحف میں یہ حدیث درج ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللّٰہ عنہا اپنے غلام ذکوان کی امامت میں ان کے پیچھے اپنے گھر میں نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ اگر خاتون کو مردوں کی امامت کی اجازت ہوتی تو ام المومنین عائشہ رضی اللّٰہ عنہا امامت کی سب سے زیادہ حقدار تھیں اور اپنے غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے وہ اپنے گھر میں امامت کیا کرتیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں جناب فاروق سرور خان صاحب اور دیگر منکرینِ حدیث کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میری مندرجہ ذیل مختصر سی تحریر کو بنظرِ تنقید غور سےپڑھیں اور مجھ عاجز کو مطلع فرمائیں کہ کلامِ سعدی کے بارے میں جو دعویٰ میں نے کیا ہے وہ کیوں غلط ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
اس مختصر مراسلے کا مقصد آپ تمام قارئین تک یہ اطلاع پہنچانا ہے کہ میں نے بارہ سال تک فارسی زبان پڑھی ہے ۔ اگرچہ فارسی میری مادری زبان نہیں لیکن فارسی گرامر کی درجنوں کتابیں چاٹنے ، لغات کھنگالنے اور برسوں کے گہرے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیخ سعدی کا کلام اتنا مشہور ہونے کے باوجود آج تک صحیح طرح سے کسی کی سمجھ میں آہی نہیں سکا۔ شروع ہی سے لوگ کلامِ سعدی کو غلط طریقے سے سمجھتے آرہے ہیں ۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیخ سعدی کے کلام کی جتنی بھی شرحیں آج تک لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بالکل بھی درست نہیں ہیں ۔ دراصل یہ لوگ شیخ سعدی کے کلام کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ۔ نہ تو انہیں سعدی کے کسی شعر کے پس منظر کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے الفاظ کی اصل روح تک پہنچ سکے ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام شارحین غور و فکر اور تجزیے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ مزید دکھ تو اس بات کا ہے کہ غیر فارسی دان تو ایک طرف خود فارسی اہل ِزبان میں سے بھی کوئی آج تک سعدی کے کلام کو سمجھ نہ سکا ۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ سعدی کے معاصرین، ان کے شاگرد اور حلقہ بردار اصحاب بھی ان کے کلام کومطلق نہ سمجھ سکے ۔ بلکہ کلام کی تشریح میں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور غلط سلط باتیں کتابوں میں لکھ ڈالیں۔ خیر ، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔ الحمدللہ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ یہ خاکسار کلامِ سعدی کے اصل مطالب تک پہنچ چکا ہے ۔ صدیوں بعد بالآخر کلامِ سعدی کی روح کو دریافت کرنے کا سہرا اس عاجز ہی کے سر بندھا ہے ۔ (این سعادت بزورِ بازو نیست ۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ) ۔ اللہ عز و جل نے اپنے کرم سے مجھے اپنی فارسی دانی اورعمیق غور و خوض کی بدولت کلام سعدی کی درست اور بالکل صحیح تشریح کرنے کا شرف بخشا ہے ۔ اور یہ امر آپ تمام قارئین لئے بھی باعثِ شرف ہونا چاہئے کہ روزِ اول سے کلام ِسعدی پرغلط فہمیوں اور غلط آرائیوں کی جو دھول جمی ہوئی تھی اسے صاف کرنے کا کام میں اپنی نوکِ قلم سے انجام دے رہا ہوں ۔ الحمدللہ ، میں فارسی شعر فہمی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہوں کہ اب میں آپ کو سعدی کے شعر کا وہ اصل روپ اور چہرہ دکھا سکوں گا جو آج تک سارے زمانے سے پوشیدہ رہا ۔ اپنے تدبر اور تفکر کی بدولت میں نے سعدی کے اشعار سے ایسے ایسے نکتے برآمد کئے ہیں کہ جن تک شاید خود شیخ سعدی کی نظر بھی نہ پہنچ سکی ہو۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ صرف مجھ حقیر ناچیز ہی پر اس نے عقل و دانائی کے یہ روشن دروازے وا کئے اور شیخ سعدی کے باطن میں جھانکنے اور ان کے کلام کی اصل روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائی ۔ مجھے امید ہے کہ یہ کار خیر میرے لئے رہتی دنیا تک ایک صدقۂ جاریہ اور آخرت میں باعثِ بخشش ثابت ہوگا ۔

کلامِ سعدی کے بارے میں یہ تحریر جو میں نے اوپر لکھی ہے اس کی مضحکہ خیزی اوربیہودہ پن روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ اول تو مجھے فارسی آتی ہی نہیں ہے لیکن اگر آتی بھی ہو تو زبان دانی اور شعر فہمی کے یہ دعوے کرنا کہ کلامِ سعدی کو آج تک کوئی بھی کماحقہ نہیں سمجھ سکا اور اس کا صحیح مفہوم صرف مجھ پر ہی کھلا ہے کتنی کھوکھلی اور بیکارسی بات ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کلامِ سعدی کے بارے میں اس طرح کی بات کرنا تو بیہودہ اور بیوقوفانہ ہے لیکن کلامِ الہی کے بارے میں ایسے دعوے کرنا اب علمی گفتگو کہلاتی ہے ۔ا نا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

ذرا دیر کے لئے میری مندرجہ بالا تحریر میں کلامِ سعدی کی جگہ کلامِ الہی کو رکھ کر دیکھیے ۔ تمام استعارے کھل جائیں گے اور میرے دعووں کی احمقانہ نوعیت واضح تر ہوجائے گی ۔ قرآن فہمی کے لئے حدیث اور روایت کے سلسلوں کو نظرانداز کردینا اور محض لغات اور گرامر کی رو سے کلامِ الہی کی تفہیم و تفسیر کرنا دراصل خودقرآن کے انکار کی طرف پہلا قدم ہے ۔ جب کسی عمارت کو علی الاعلان ڈھانا ممکن نہ ہو تو چپکے چپکے اس کی بنیاد کو تباہ کردینا چاہئے ۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت کا خود بخود ڈھے جانا لازم ہے ۔ منکرینِ حدیث قرآن کو راستے سے ہٹانے کے لیے کچھ ایسا ہی کام کررہے ہیں ۔ جب حدیث کو ماننے سے انکار کردیا جائے گا تو قرآن خوبخود ناقابلِ عمل ہوجائے گا ۔ ایک بےفائدہ کتاب بن کر رہ جائے گا۔ حدیث کا انکار اسلام کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے۔
حق یہ ہے کہ کلامِ الہی کی تفسیر و تشہیر کا انتظام خود صاحبِ کلام نے کیا ۔ اس نے اپنے کلام کو تختیوں کی صورت میں نازل کرنے کے بجائے ایک چلتی پھرتی زندہ تفہیم و تفسیر کی صورت میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے ۔ اس پیغام رساں کے کردار کو درمیان سے نکال کر کلام الہی کو کس طرح سمجھا اور اپنایا جاسکتا ہے؟! اتنی سی بات تو مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں بھی آتی ہے ۔ لیکن نہیں آتی تو ان علاموں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو عربی زبان کی چار کتابوں اور لغات کی مدد سے قرآن فہمی کا منفرد دعوی کررہے ہیں اور یہ راگ بھی الاپتے جاتے ہیں کہ آج تک کلامِ الہی کو جس طرح سمجھا گیا وہ سب غلط تھا ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
ع
حق یہ ہے کہ کلامِ الہی کی تفسیر و تشہیر کا انتظام خود صاحبِ کلام نے کیا ۔ اس نے اپنے کلام کو تختیوں کی صورت میں نازل کرنے کے بجائے ایک چلتی پھرتی زندہ تفہیم و تفسیر کی صورت میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے ۔ اس پیغام رساں کے کردار کو درمیان سے نکال کر کلام الہی کو کس طرح سمجھا اور اپنایا جاسکتا ہے؟! اتنی سی بات تو مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں بھی آتی ہے ۔ لیکن نہیں آتی تو ان علاموں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو عربی زبان کی چار کتابوں اور لغات کی مدد سے قرآن فہمی کا منفرد دعوی کررہے ہیں اور یہ راگ بھی الاپتے جاتے ہیں کہ آج تک کلامِ الہی کو جس طرح سمجھا گیا وہ سب غلط تھا ۔
عمدہ و حق بات
 

سید عمران

محفلین
Top