سلسلہ اویسیہ

السلام علیکم

محترمہ نور سعدیہ اگر اپنی طلب یا مقصد بیان کریں تو اس پر انہیں رائے دی جا سکتی ہے، صرف سلسلہ اویسیہ پر صرف مطالعہ کے لئے جاننا ہے تو اس پر نایاب نے آخری مراسلہ میں بہت کچھ پیش کر دیا، مزید کی ضرورت ہو تو نٹ سے خود بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آپ خاتون ہیں اس لئے آپ کا کسی بھی سلسلہ سے ڈائریکٹ جڑنا ناممکن سی بات ہے، اگر کسی طرح پردہ کے پیچھے سے بیعت ہو بھی جاتی ہے تو ذکر کی محفل میں اگر تو ان کے پاس اتنی وافر جگہ میسر ہو تو خواتین کے لئے الگ سے انتظام ہونے پر آپ اس میں خواتین میں شامل ہو سکتی ہیں، آپ کے واسطے میرے اس پر لکھنا کچھ مشکل ہے پھر بھی یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بیعت اسی شیخ سے ہونی چاہئے جس سے رابطہ بھی آسانی سے ہو سکے تاکہ محفل میں شامل ہونے میں آسانی ہو اور رابطہ میں بھی ایسا نہیں کہ شیخ پشاور میں اور مرید لاہور میں۔ اس پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور بھی اسے ہی اوپر لر کر جاتا ہے جس میں طلب ہو ورنہ چند دنوں میں بڑے بڑے دعوی کرنے والے چھوڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ مرید کی جانب سے بھی لگن میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور آپ تو خواتین میں شمار ہوتی ہیں اس لئے کہاں سے وقت نکالیں گی۔

کسی بھی سلسلہ میں آئیں ابتدا ذکر "اللہ" سے ہی ہے۔ سلسلہ سیفیہ میں ذکر اللہ سے وجدی کیفیت بہت طاری ہوتی ہے۔

والسلام
معذرت کے ساتھ غیر متفق۔
 
سلسلۂ اویسیہ کے حوالے سے کتب بینی کی ہوئی ہے نا بہت زیادہ معلومات ہیں۔ لیکن چند گزارشات جو ابھی تک فقیر کے حاصل ہوئی ہیں۔ سلسلۂ اویسیہ جیسے نام سے واضح ہے، حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے طریق کا نام ہے۔ ان کے نام پہ ہونے کا ہر گز مطلب نہیں کہ سلسلہ انہی سے جا ملنا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سلاسل کے حوالے سے گزارش۔ صحابۂ کرام یا بزرگان و صلحائے امت جن سے سلاسل جڑے ہیں۔ یہ در اصل ان کے مجاہدہ و ریاضت کے طریق پر ہیں۔ جیسے کہ سلسلۂ نقشبندیہ، سیدنا صدیق اکبر کے طریق پر ہے۔ جو باتیں آجکل مشہور ہیں ان کے تحت تو سیدنا سلمان فارسی خود صحابی ہیں، تو آپ حضرت صدیق کے مرید و خلیفہ کیسے ہوئے؟ ان حضرات کے افعال و مجاہدہ اور اعمال کے طریقہ ایک جیسا تھا۔ اس کے علاوہ۔ سلسلۂ نقشبندیہ، خواجہ بہاؤالدین نقشبند کے نام پر ہے۔ اب جو بزرگ اس سلسلہ میں پہلے ہو گزرے ان کے سلسلہ کا کیا نام تھا؟ کیا وہ کسی بھی سلسلہ پر نہ تھے۔ اسی طرح جو باقی مشہور سلاسل ہیں جن میں قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ وغیرہ؟ ان سلاسل کے نام تو ان حضرات کے نام پر ہیں تو اسی سلسلہ کے پہلے بزرگ کس سلسلہ پر تھے؟ دراصل ان حضرات نے طریقہ ہائے خاص کو مجتمع کیا جس کیوجہ سے سلاسل ان کے نام سے منسوب ہیں۔ اسی طرح باقی سلاسل بھی۔ جیسے سیفیہ ہے۔ اس کے بزرگ کیونکہ ہمارے ہی دور کے ہیں۔ ان کا ایک مخصوص طریقہ ہے جسے انہوں نے جاری کیا۔
اویسیہ سلسلہ اس حوالے سے تھوڑا منفرد ہے کہ اس کی عمومی صورت میں جس وجہ سے اسے سلسلۂ اویسیہ کہا جاتا ہے، کہ خواجہ اویس قرنی کی آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے براہ راست ملاقات نہیں ہے۔ لیکن آپ نے کمال درجہ کی محبت اور خدمت کا مظاہرہ کیا۔ اور ایک ہی زمانہ میں ہوتے ہوئے، ظاہری ملاقات نہ ہونے کے باوجود مشرف بہ ایمان و اسلام تھے۔ آپ کا تذکرہ آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے حضرت عمر اور مولا علی کے سامنے فرمایا اور اپنی امت کی بخشش کی دعا کے لیے بھی ارشاد فرمایا۔ اب اس طریق پر جو احباب براہ راست کسی در سے وابسطہ نہیں ہوتے اپنی فطرت کیوجہ سے۔ وہ براہ راست آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے فیض پاتے ہیں۔ خواجہ اویس قرنی سے اس قدر مشترک کی بنا پر وہ اویسی کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کی قدرت اللہ شہاب جنہوں نے شہاب نامہ میں آخری باب نائنٹی 90 اسی ضمن میں باندھا، جس میں آپ نے اپنی وارداتوں کا تذکرہ کیا ہے، بھی اویسی ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنی دعا جس میں سیدہ کائنات کے واسطے سے رہنمائی طلب کی اور براہ راست فیض پایا۔
محترم کعنان نے باغ حسین کمال صاحب کا ذکر فرمایا۔ کمال صاحب بھی بہت عرصہ پیاسے کنواں ڈھونڈتے رہے۔ پھر اللہ یار خان صاحب کے مینارہ پہنچے اور وہاں سے شعلہ جلا کر لے آئے۔ آپ نے بھی اپنی واردات کا ذکر اپنی کتاب "حال سفر" میں فرمایا ہے۔ جس کے مطابق تاریخ انسانی میں تنہا کسی فرد اتنا درود پاک نہیں پڑھا جتنا انہوں نے پڑھا ہے۔ آپ نے بھی لکھا ہے کہ آپ نے براہ راست فیض بارگاہ نبوی سے پایاہے۔ اب ان کے بعد ان کے بیٹے تابش کمال جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں سلسلۂ اویسیہ کمالیہ میں بیعت کرتے ہیں۔
الحمد للہ فقیر تصوف بطور کورس کلاس میں بھی پڑھا ہے۔ جہاں استاد محترم سے یہ جانکاری بھی ملی کہ یہ سلاسل ہماری فطرتوں پر ہیں۔ ہماری عادتیں پسند ناپسند، مشاغل وغیرہ کے بہت دخل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عموما شوق، دیکھا دیکھی، والدین، زوج و زوجہ یا ریفرنس کیوجہ سے لوگ بیعت کرتے ہیں۔ جبکہ اس کا تعلق سب سے پہلے طلب حق اور پھر آپ کی طبیعت سے ہے۔ جہاں طبیعت میل کھائے وہاں سر گرا دیا۔
فقیر نے پیر مہر علی شاہ صاحب کا ذکر کیا تھا۔ آپ باوجود گیلانی ہونے کے تلاش مرشد میں مصروف سفر رہے۔ اور مدتوں سفر کے بعد سیال شریف بیعت ہوئے۔
طبعی میلان پر عرض ہے۔ قادری عموما علمی ذوق کے لوگ ہوتے ہیں۔ نقشبندی خاموش طبع، گوشہ نشین، تنہائی پسند اور کثرت ذکر والے۔ چشتیہ حال والے لوگ ہیں۔ جس میں سماع اور پھر سماع پر رقص و دھمال شامل ہیں۔
اویسی عموما اپنی دھن میں لگے رہنے والے ہوتے ہیں۔ ان پر روحانی واردات کثرت سے ہوتی ہیں۔ جو بصورت خواب عموما زیادہ ہوتی ہیں۔ میں نے جن دوستوں کا ذکر کیا ان میں سے ایک۔ جو سب سے پہلے چکوال بیعت ہوئے۔ کہ احوال کچھ ایسے ہی تھے۔ مطالعہ بہت تھا۔ خوابوں میں مصروف سفر رہتے جبکہ ظاہری طور پر سفر بالکل نہیں کرتے تھے۔ سال بھر میں ایک بار اٹک سے باہر جانا ہوتا تھا۔ ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون تھا جس میں ایم فل کرکے اب پڑھا بھی رہے ہیں۔
اس لحاظ سے سلاسل کے طبیعتوں کو پڑھنا، بزرگوں کا احوال پڑھنا اور پھر اپنی طبیعت پر غور بہت ضروری ہے کہ یہ کہاں میل کھاتی ہے۔ اس پر فقیر کا عقیدہ و قول ہے کہ طلب حق، صادق ہو تو مرشد یوں ملتا ہے جیسے انسان کا رزق۔ یا آپ پہنچ جائیں گے یا وہ ڈھونڈ لے گا|بلا لے گا۔
 
رہی بات کہ خواتین کے بیعت مشکل ہوتی ہے بعد از بیعت کے معاملات؟ ہم نے تو آج تک کہیں ایسا پڑھا، دیکھا نہیں ہے کہ خواتین کی نسوانیت اس سلسلے میں ان کے آڑے آ گئی ہو۔ اس پر عرض اتنی ہے۔ خدا و رسول سب کا ایک سا ہے۔ مردوں کے وہ زیادہ خدا و رسول اور خواتین کے لیے کم۔ معاذ اللہ۔ ایسا شاید نہیں ہے۔
یا مرد زیادہ مسلمان ہوتے ہیں اور خواتین کم؟ یا مرد ہونے پر ثواب زیادہ ملتا ہے اور خاتون ہونے پہ کم۔ جب ایسا نہیں تو یقینا روحانی معاملات میں بھی ایسا نہیں ہوگا۔ بار بار کی گزارش ایک ہی ہے۔ طلب کتنی ہے؟
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

متفق و غیر متفق پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں مراسلہ نمبر 23 نہ جانے آپ نے اس پر میری کونسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے غیر مطعلقہ باتیں لکھ دی، آپ کی ان باتوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میری نظر میں آپ تصوف پر کتابی معلومات رکھتے ہیں پریکٹیکلی نہیں، اگنور!
الحمد للہ فقیر تصوف بطور کورس کلاس میں بھی پڑھا ہے۔ جہاں استاد محترم سے یہ جانکاری بھی ملی کہ یہ سلاسل ہماری فطرتوں پر ہیں۔ ہماری عادتیں پسند ناپسند، مشاغل وغیرہ کے بہت دخل ہوتا ہے۔

بھائی میرے تصوف بطور کورس پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا اسی لئے اس پر کتابیں پڑھ لیں یا گوگل سے جتنی چاہے معلومات حاصل کر کے صفحے پر کرتے جائیں بےفائدہ ہے اور نہ ہی اسے فورم پر شعبدہ بازی کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے اپنے استاد محترم سے یہ بھی پوچھ لیں کہ "الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی نفی اثبات دا پانی ملیا جان پھلن تے آئی" میں جان پھلن تے آئی پر پوچھ کر بتائیں میں آپکا مشکور ہونگا، انتظار رہے گا۔

والسلام

 
آپ نے اس پر میری کونسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے غیر مطعلقہ باتیں لکھ دی
حضرت فقیر نے صرف غیر متفق ہونے کی گزارش کی ہے نا کہ ان کے صریح غلط ہونے کا دعوی۔ یا ثابت کرنے کی کوئی سعی کی۔ عرض کی فقیر ان سے غیر متفق ہے۔ ریٹنگ بھی دے سکتا تھا لیکن اس لال بتی نظر آنے لگتی ہے جو کچھ معیوب سی لگتی ہے۔ وہ آپ کی رائے ہے سر آنکھوں پر۔
جو گزارشات فقیر نے عرض کی ہیں وہ آپ پر گراں گزری یا غیر متعلقہ معلوم ہوئیں تو بھی میں معذرت خواہ ہوں۔ ایک رائے تھی جو پیش کرنے کی کوشش کی۔ جو سراسر غلط بھی ہوسکتی ہے۔
آپ کی ان باتوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میری نظر میں آپ تصوف پر کتابی معلومات رکھتے ہیں پریکٹیکلی نہیں، اگنور!
آپ ناجائز حد تک شریف آدمی ہیں۔ آپ کی اس معصومانہ رائے نے میرا دل جیت لیا۔ دلی طور پر شدید خوشی ہوئی۔
بھائی میرے تصوف بطور کورس پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا اسی لئے اس پر کتابیں پڑھ لیں یا گوگل سے جتنی چاہے معلومات حاصل کر کے صفحے پر کرتے جائیں بےفائدہ ہے اور نہ ہی اسے فورم پر شعبدہ بازی کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے اپنے استاد محترم سے یہ بھی پوچھ لیں کہ "الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی نفی اثبات دا پانی ملیا جان پھلن تے آئی" میں جان پھلن تے آئی پر پوچھ کر بتائیں میں آپکا مشکور ہونگا، انتظار رہے گا۔
حضور عرض اتنی ہے کہ مطالعہ تو اپنا صفر ہے۔ سال میں ایک آدھ کتاب بمشکل پڑھنی نصیب ہوتی ہے۔ لہذا اس حوالے سے آپ فکر مند نہ ہوں۔ ہاں آپ کی دوسری تجویز یقینا قابل عمل ہے۔
 

علی چشتی

محفلین
السلام علیکم

متفق و غیر متفق پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں مراسلہ نمبر 23 نہ جانے آپ نے اس پر میری کونسی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے غیر مطعلقہ باتیں لکھ دی، آپ کی ان باتوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میری نظر میں آپ تصوف پر کتابی معلومات رکھتے ہیں پریکٹیکلی نہیں، اگنور!

بھائی میرے تصوف بطور کورس پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا اسی لئے اس پر کتابیں پڑھ لیں یا گوگل سے جتنی چاہے معلومات حاصل کر کے صفحے پر کرتے جائیں بےفائدہ ہے اور نہ ہی اسے فورم پر شعبدہ بازی کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے اپنے استاد محترم سے یہ بھی پوچھ لیں کہ "الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی نفی اثبات دا پانی ملیا جان پھلن تے آئی" میں جان پھلن تے آئی پر پوچھ کر بتائیں میں آپکا مشکور ہونگا، انتظار رہے گا۔

والسلام

شدید حیرت ۔۔۔۔ میرے باباجی کہتے تھے کہ کبھی کسی کے مرشد یا استاد کو حقیر نا جانو چاہے کیسا بھی ہو ۔۔یہ تصوف کی تعلیمات و تربیت کے خلاف ہے ۔۔۔اور آخر میں آپ نے استاد کو ہی آزمالیا؟؟؟ ۔۔۔حضور بہت معذرت کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ شاید آپ کی تربیت میں کوئی کمی یا کجی رہ گئی ہے یا آپ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ۔۔۔ ورنہ ایسی بات کبھی نا کرتے
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

اوپر 3 مراسلوں سے معلوم ہو چکا تھا اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا جواب لاتے ہیں آپ بھی میری طرح شکریہ کے ساتھ انتظار فرمائیں اور ہو سکے تو بابا جی کی کہی ہوئی اور باتیں بھی یاد کرنے کی کوشش کریں جو دھند پڑنے سے مانند پڑ گئی ہوں شائد آپ کا دوبارہ فائدہ حاصل ہو جائے۔ یا اگر آپ جانتے ہوں تو آپ بھی بتا سکتے ہیں۔

والسلام
 

نور وجدان

لائبریرین
اس لڑی میں امتحانات سے پرے رہیں ... معانی اپنی سمجھ سے کھلتا ہے

اللہ کا ذِکر چنبے کی بوٹی ہے یا الف لفظ کی اصل روح سے میں واقف ہوگیا. الف یعنی ایک .... وہ جو ایک ہے یعنی جب بندہ سورہ الاخلاص کی عملی تشریح ہوجائے جیسے ہم مومن کے بارے کہتے ہیں کہ مومن چلتا پھرتا قران ہے تو ان میں سب سے پہلے کلموں کی عملی تفسیر سورہ الاخلاص کی عملی تفسیر ہے جس میں وحدت کو اثبات کرنا مقصود ہے .... یہ چنبے کی موٹی کا اللہ تک رسائی مجھے مرشد کے ذریعے ملی جب میں نے خود کی نفی کی ...جس کا تصور اقبال کے نظریہ خودی میں ملتا ہے اور نفی اثبات سے مراد "کلمہ طیبہ " ہے کہ اصل راز ہے جب روح کلمہ پڑھے تو تجدید بھی ہوجاتی اور بندہ تب اصل حقیقت کی جانب چل پڑتا ہے ....جب کلمہ طیبہ سے جان پھلن تے آئی یعنی رگ رگ میں اس کلمے نے اس کا ذکر جاری کردیا جس کا ذکر یوں بھی ہے

لوں لوں دے مڈ لکھ.لکھ چشماں ..ہک.کھولاں ہک.کجاں ...


روح کو پھل لگ گیا جب مرشد نے وحدانیت کے جانب جانے کا بیج لگایا اور اس کے بعد پورے جسم میں اس راز کا انعام یاا اسرار کھل.گیا اور میرا پورا جسم و روح کلمہ طیببہ کی عملی تفسیر بن گیا ..
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
قبلہ محمد وارث نے بہت خوب وضاحت کی ہے۔ اٹک میں ہم چار دوستوں کا یارانہ ہے۔ ہم اپنی بیٹھک کو چوراہا کہتے ہیں۔ باقی تین دوست جو میرے شامل ہونے سے پہلے دوست تھے۔ بیعت نہیں تھے۔ میں جب ان سے ملا تب تک صرف میں بیعت یافتہ تھا (الحمد للہ)۔ پھر یک بعد دیگرے وہ تینوں حضرت کمال تابش صاحب جو حضرت باغ حسین صاحب (جن کا ذکر محترم کعنان صاحب نے کیا) کے بیٹے ہیں کے بیعت ہوئے۔ یہ سلسلۂ اویسیہ کے ہی کہلاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مرشد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ بیعت یا خلافت مختلف جگہوں پر ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے۔ مرید سالک و صادق ہمیشہ ایک ہی مرشد کے در کا کھاتا ہے۔ لیکن دوسروں کا کبھی انکار نہیں کرتا۔ اس لیے فیض حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں (جیسا فقیر کے صاحب نے ارشاد فرمایا ہے)۔ اب اگر طلب صادق ہو اور جوہری بھی صدیق ہوتو وہ بھی اسے ہی کچھ دیتا ہے جس میں اسے کچھ نظر آئے۔ یوں بہت سے بزرگ کسی ایک طالب کو خرقۂ خلافت عطا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی جب آگے بیعت کرتے ہیں تو ایک ہی سلسلہ کی کرتے ہیں۔ حضور پیر مہر علی شاہ صاحب جو خود غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں کو اپنے والد سے بھی اجازت بیعت ہے۔ مگر باجود گیلانی ہونے کے آپ نے سیلانی ریاضت کی۔ سیال شریف بیعت ہوئے اور سلسلۂ چشتیہ کو ہی جاری فرمایا۔ مقصد یہ ہے طلب سچی ہو۔ اور حاصل پر توجہ ہو۔ رہنما مل جاتا ہے اور لازمی ملتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب صاحب کو بھی سلسلۂ اویسیسہ میں ہی گنا جاتا ہے۔
اللہ و رسولہ اعلم۔

قدرت اللہ شہاب کی کس سے بیعت تھی ؟ سلسلہ اویسیہ کیا نسل در نسل چلنے کا ضامن ہے؟ تو قدرت اللہ شہاب کے بیٹے کو ایسا موقع کیوں نہ ملا؟
 

نور وجدان

لائبریرین
اویسی سلسلے میں دیگر سلاسل کی نسبت اک عجیب منفرد خصوصیت پائی جاتی ہے ،
کہ اس میں مرید ، صدیوں پہلے سفر کر چکے کسی بزرگ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کر سکتا ہے
اس کے برعکس دوسرےباقی تمام سلاسل میں یہ ضروری ہے کہ مرید کا کسی ایسے شیخ سے تعلق ہو جو زمانہ حال میں موجود ہو ۔
سلسلہ اویسیہ حضرت اُویس قرنی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے،
اویسیت کے معنی روحی فیض کے ہیں یعنی کسی فردکو کسی بزرگ سے روحی فیض حاصل ہوجائے ۔

روحی فیض کے بارے میں روشنی ڈالیں یہ کیا ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
2۔ اویسی لوگ اب تک جو جو گزرے ان کی فہرست کو ئی بتاپائے ؟


جیسا کہ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روحی فیض حاصل ہوگیا ۔
اس سلسلے میں یہ بھی لازم نہیں کہ جس کو روحی فیض کسی بزرگ سے حاصل ہو وہ اپنی اس نسبتِ اویسیت کے لیے حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے مرید ہو،
اویسیت کی شرح میں اک بزرگ نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اللہ سوہنے کے ولیوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جنہیں ظاہر میں کسی شیخ یا مرشد کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی یہ اپنی روشن سوچ ہمراہ لیئے انسانوں اور انسانیت کے لیئے آسانیاں پھیلانے کی کوشش میں محو رہتے ہیں ۔ اور ان کے اعمال مقبول ہوتے انہیں محفل حضوری میں پہنچا دیتے ہیں ۔ آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک سے براہ راست فیض پاتے ہیں ۔ کسی دوسرے کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ اور اسے مقام اویسیت کا نام دیا جاتا ہے ۔یہ بہت اونچا اور عظیم مقام ہے ۔اللہ سوہنے کا فضل خاص ہے ۔ وہ جسے چاہے نواز دے ۔ اور ان کی دعاؤں کو اللہ سوہنا شرف قبولیت بخشتا ہے ۔ حب رسول اور ماں کی خدمت سے ایسا ہی مقام جناب اویس قرنی نے پایا

بہت دعائیں

حضرت سلمان فارسی بھی اویسی نسبت کے حامل ہے ؟ آپ کو کیوں اویسیت نہیں ملی ؟ آپ صحابی بنے
 

نور وجدان

لائبریرین
السلام علیکم

محترمہ نور سعدیہ اگر اپنی طلب یا مقصد بیان کریں تو اس پر انہیں رائے دی جا سکتی ہے، صرف سلسلہ اویسیہ پر صرف مطالعہ کے لئے جاننا ہے تو اس پر نایاب نے آخری مراسلہ میں بہت کچھ پیش کر دیا، مزید کی ضرورت ہو تو نٹ سے خود بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آپ خاتون ہیں اس لئے آپ کا کسی بھی سلسلہ سے ڈائریکٹ جڑنا ناممکن سی بات ہے، اگر کسی طرح پردہ کے پیچھے سے بیعت ہو بھی جاتی ہے تو ذکر کی محفل میں اگر تو ان کے پاس اتنی وافر جگہ میسر ہو تو خواتین کے لئے الگ سے انتظام ہونے پر آپ اس میں خواتین میں شامل ہو سکتی ہیں، آپ کے واسطے میرے اس پر لکھنا کچھ مشکل ہے پھر بھی یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بیعت اسی شیخ سے ہونی چاہئے جس سے رابطہ بھی آسانی سے ہو سکے تاکہ محفل میں شامل ہونے میں آسانی ہو اور رابطہ میں بھی ایسا نہیں کہ شیخ پشاور میں اور مرید لاہور میں۔ اس پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور بھی اسے ہی اوپر لر کر جاتا ہے جس میں طلب ہو ورنہ چند دنوں میں بڑے بڑے دعوی کرنے والے چھوڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ مرید کی جانب سے بھی لگن میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور آپ تو خواتین میں شمار ہوتی ہیں اس لئے کہاں سے وقت نکالیں گی۔

کسی بھی سلسلہ میں آئیں ابتدا ذکر "اللہ" سے ہی ہے۔ سلسلہ سیفیہ میں ذکر اللہ سے وجدی کیفیت بہت طاری ہوتی ہے۔

والسلام

مجھے بیعت کی طلب نہیں ہے ، بس میں کسی اویسی کی تلاش میں ہوں جس کو بارگاہِ رسالب مآب سرور کونین تک رسائی حاصل ہو ۔۔۔ مجھے لگتا ہے یہ طلب لکھنا یہاں پر کچھ خاص اہمیت کا حامل نہیں کہ پہلے آپ اویسی کو ڈھونڈو پھر اس میں کون اس جگہ پر رسائی رکھتا ہے ، اس کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑی شروع کرنے کا مقصد شاید یہی ہے کہ مجھے ان سے ملنے کی لگن ہے
 

سید عمران

محفلین
اب تک ساری بحث پڑھی ۔۔۔
ماشاء اللہ سب نے اپنی معلومات نہایت اچھے طریقے سے بیان کیں۔۔۔
مجھے اس کوچے کی سیاحی میں بیس سال ہوچکے ہیں۔۔۔
اب تک جو دیکھا سمجھا اور جانا وہ بتاتا ہوں۔۔۔
حضرت اویس قرنی کا کوئی باقاعدہ سلسلہ نہیں ہے۔۔۔
تصوف میں سلسلہ اویسیہ نہیں نسبت اویسیہ مشہور تھی ۔۔۔
سلسلہ اویسیہ بعد میں متعارف ہوئی۔۔۔
نسبت اویسیہ کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے نسبت ہو۔۔۔
دین میں زیادہ فیض ان ہی کو پہنچتا ہے جو کسی اللہ والے کی صحبت حاصل کرلیتے ہیں ۔۔۔
لیکن اگر بغیر کسی صاحبِ نسبت کی صحبت کے ان کی ایک نظر سے اچانک کوئی روحانی مرتبہ و مقام ِ ہدایت مل جائے تو اسے نسبتِ اویسیہ کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس اچانک نظر میں انسان کا کمال نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فیض ہوتا ہے اور وہ بزرگ یا پیر و مرشد اس کا صرف ذریعہ بنتا ہے۔
یہ بات صحیح نہیں کہ سلمان فارسی کو نسبت اویسیہ ملی ہو۔۔۔۔
سرور کائنات کی نسبت کے سامنے ہر نسبت ہیچ ہے۔۔۔
روحانی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ تک پہنچنا صرف اویسیہ ہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے سلسلوں کے مقبولین کو یہ مقام عطا ہوسکتا ہے مگر جس کو خدا چاہے۔۔۔
سالکین کا تصوف میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔۔۔
اس کے لیے یہ قید لگانا مناسب نہیں کہ فلاں سلسلہ ہو۔۔۔
بلکہ جس سلسلے کے بزرگ سے مناسبت ہو اسی کے ذریعے آپ کو منزل ملے گی۔۔۔ان شاء اللہ!
مناسبت کا مطلب یہ ہے کہ اس بزرگ کی باتیں سن کر ان کی صحبت میں بیٹھ کر اچھا محسوس ہو، لطف آئے، آخرت کی فکر پیدا ہوجائے، ان کی باتیں سن کر ان پر عمل کرنے کو جی چاہے، آہستہ آہستہ گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی رغبت پیدا ہو۔۔۔۔
اور ان بزرگ کے سچا اللہ والا ہونے کی علامت ہے کہ ان کے سلسلہ کی سند حضور اکرم صلی اللہ عالیہ وسلم تک پہنچے۔۔۔ وہ خود متبع شریعت و سنت ہو۔۔۔ گناہوں سے بچنے والا متقی ہو۔۔۔ اس کی صحبت میں علماء کی کثیر تعداد ہو۔۔۔
ہمارے دین میں سند کی بہت اہمیت ہے۔۔۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ دین صحیح حوالوں سے ہم تک پہنچا ہے۔۔۔
تصوف کے سارے سلسلے حضرت اویس قرنی تک نہیں بلکہ حضرت حسن بصری پھر حضرت علی اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے ہیں۔۔۔
تصوف شریعت کے مقابل کوئی دین نہیں ہے۔۔۔
بلکہ تصوف نام ہے احکاماتِ شریعت کو محبتِ الٰہی سے سرشار ہوکر انجام دینے کا۔۔۔
اور نفس کا تزکیہ کرانے کا۔۔۔
تزکیہ کا مطلب ہے کہ برے اخلاق سے نجات اور اچھے اخلاق کا حصول۔۔۔۔
اور یہی شریعت کا سب سے اونچا درجہ ہے۔۔۔
قرآن پاک کا جگہ جگہ اعلان ہے۔۔۔
قد افلح من زکھا و قد خاب من دسّٰھا۔۔۔
وہ ہی کامیاب ہے جو تزکیہ کروا گیا اور وہ ناکام ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کروایا۔۔۔
اور اچھے اخلاق کی بارے میں متعدد احادیث ہیں۔ ایک حدیث پاک ہے۔۔۔
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
میں بھیجا ہی اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے گیا ہوں۔۔۔
تصوف میں بیعت کی حیثیت محض سنت کی ہے۔۔۔
بغیر بیعت کیے بھی کسی اللہ والے سے نفس کا تزکیہ کروایا جاسکتا ہے۔۔۔۔
بس بندہ یہ اعمال کرے پھر قرب الٰہی کی بے شمار لذتوں کا ادراک کرے۔۔۔
ہر بندے کو اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق دنیا ہی میں عجیب و غریب انعامات سے نوازتے رہتے ہیں۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
رہی بات کہ خواتین کے بیعت مشکل ہوتی ہے بعد از بیعت کے معاملات؟ ہم نے تو آج تک کہیں ایسا پڑھا، دیکھا نہیں ہے کہ خواتین کی نسوانیت اس سلسلے میں ان کے آڑے آ گئی ہو۔ اس پر عرض اتنی ہے۔ خدا و رسول سب کا ایک سا ہے۔ مردوں کے وہ زیادہ خدا و رسول اور خواتین کے لیے کم۔ معاذ اللہ۔ ایسا شاید نہیں ہے۔
یا مرد زیادہ مسلمان ہوتے ہیں اور خواتین کم؟ یا مرد ہونے پر ثواب زیادہ ملتا ہے اور خاتون ہونے پہ کم۔ جب ایسا نہیں تو یقینا روحانی معاملات میں بھی ایسا نہیں ہوگا۔ بار بار کی گزارش ایک ہی ہے۔ طلب کتنی ہے؟
بیعت خواتین و مرد حضرات سب کرسکتے ہیں، اس سے تو اتفاق ہے۔ ہر بات میں مرد اور عورت کا رتبہ یکساں رکھا گیا ہے، بس کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جن میں فرق ہوتا ہے جیسے خواتین نماز میں مردوں کی امامت نہیں کرسکتیں، کوئی خاتون نبی نہیں بن سکی، ولیہ ضرور بنیں جیسا کہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کا معاملہ ہے۔ تاریخ میں ایک جھوٹی نبیہ ضرور گزری تھی ، تاہم اس کے ذکر کا یہاں مقام نہیں۔

ایک بات میں آپ نے غلطی کی۔۔۔ آپ نے فرمایا: مردوں کے وہ زیادہ خدا و رسول اور خواتین کے لیے کم۔ معاذ اللہ۔ ایسا شاید نہیں ہے۔

یہاں شاید کی گنجائش نہیں تھی۔ ایسا یقینا نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے۔
خواتین کی نسوانیت بے شک بیعت کے معاملے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس سے اتفاق ہے۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھے بیعت کی طلب نہیں ہے ، بس میں کسی اویسی کی تلاش میں ہوں جس کو بارگاہِ رسالب مآب سرور کونین تک رسائی حاصل ہو ۔۔۔ مجھے لگتا ہے یہ طلب لکھنا یہاں پر کچھ خاص اہمیت کا حامل نہیں کہ پہلے آپ اویسی کو ڈھونڈو پھر اس میں کون اس جگہ پر رسائی رکھتا ہے ، اس کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑی شروع کرنے کا مقصد شاید یہی ہے کہ مجھے ان سے ملنے کی لگن ہے
اگر بارگاہِ رسالت مآب ، سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم تک رسائی والے ہی مطلوب ہیں تو محض اویسی ہی کیوں؟
میں ایسے علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں زیادہ تر لوگ اویسی ہی کہلانا پسند کرتے تھے۔ میرے والد بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے اور اب تک تقریبا ہمارا پورا خاندان ہی اس سلسلے سے وابستہ ہے لیکن ان سب میں سے کسی کے منہ سے آج تک نہ سنا کہ ہمیں اس مقدس بارگاہ تک رسائی حاصل ہے۔ یہ دعویٰ بہت بڑا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے اویسی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی سلسلے سے خود کو جوڑنا ضروری نہیں۔ (ذاتی رائے)
خدا کی سچے دل سے عبادت، ذکر الٰہی کا وہ خاص طریقہ اپنانا جو ان سلسلوں کے ماننے والے کیا کرتے ہیں اور مراقبہ اس میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگر آپ اسی راستے پر چلنے کی خواہش مند ہیں تو یہ راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ منزل اگر ایک ہو تو ایک سے زائد راستے جو اسی کی طرف جاتے ہوں، سب کے سب جائز ، بلکہ پسندیدہ ہیں اور آپ کو اسی راستے کو اختیار کرنا چاہئے جو آپ کی نظر میں آسان ہو کیونکہ دین آپ کے لیے مشکل نہیں چاہتا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
حضرت سلمان فارسی اور حضرت اویس قرنی میں قدر مُشترک ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق کی. چونکہ حضرت سلمان فارسی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے نعمت اصحاب جیسی دولت پائی. اس لیے ان کی "جستجو " کو "اویسیت " سے مشروط نہیں کیا جاسکتا! جی ہر نسبت سرکارِ دو عالم کے سامنے ہیچ ہے اس لیے تو بڑے بڑے ان کے قدموں کی خاک پاتے جانے کیا کیا کارہائے نمایاں سر انجام دے گئے .. جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر "مجاز " کے پردےکو "معراج " کی شب عیاں کردیا گیا . وہ وہ ہیں کہ ان سے بڑی حقیقت نہیں ہے. ہمارے شہر میں گھنٹہ گھر ایک ہے اس کو پہنچنے کو ہزار ہا راستہ جو قربت اور آسانی کی خاطر اپنائے .. کس سلسلے کو اپنایا جایے بحث نہیں ... سچ ہے کہ ہر سلسلہ سیدنا محمد عالی مرتبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ قلندر جو کسی سلسلے سے عاری ہوتے ہیں ان کو سیدنا علی رض کی روح سے فیض ملتا ہے .... فلاح اور نوید .... یہ ضابطے .... ان اصولوں کو مروجہ کیا ہے اک سڑک بنائی گئ تاکہ ہم ان تک پہنچتے بھٹک نہ جائیں .. اس لیے کچھ باتیں واضح نہیں کی جا سکتیں ہیں
 
قدرت اللہ شہاب کی کس سے بیعت تھی ؟
قدرت اللہ شہاب جنہوں نے شہاب نامہ میں آخری باب نائنٹی 90 اسی ضمن میں باندھا، جس میں آپ نے اپنی وارداتوں کا تذکرہ کیا ہے، بھی اویسی ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنی دعا جس میں سیدہ کائنات کے واسطے سے رہنمائی طلب کی اور براہ راست فیض پایا۔
سلسلہ اویسیہ کیا نسل در نسل چلنے کا ضامن ہے؟
تو قدرت اللہ شہاب کے بیٹے کو ایسا موقع کیوں نہ ملا؟​
کوئی قید نہیں ہے۔ حضرات کو لگے کہ وہ اپنا فیض آگےکسی قابل کو دے دیتے ہیں اور نہیں بھی۔ دوم یہ آجکل کا رواج ہے کہ پیر کی اولاد پیر اور سلسلہ اولادوں میں چلنے لگے ورنہ ایسا کم ہی ہوا ہے۔
فیض سب بارگاہ نبوی سے ہی پاتے ہیں۔ مرشد کا ہاتھ پکڑنے والے تہہ در تہہ منزل کا سفر طے کرتے ہیں۔ اویسی بھی یہی کرتے ہیں۔ بس بظاہر ان کا کوئی مرشد نظر نہیں آتا ممکن ہے روحانی طور پر کسی بزرگ کی ڈیوٹی لگا دی جائے تربیت کی اور وہ انہیں بارگاہ نبوی تک لے جائے۔
 
بس کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جن میں فرق ہوتا ہے جیسے خواتین نماز میں مردوں کی امامت نہیں کرسکتیں، کوئی خاتون نبی نہیں بن سکی، ولیہ ضرور بنیں جیسا کہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کا معاملہ ہے۔
متفق
ایک بات میں آپ نے غلطی کی۔۔۔ آپ نے فرمایا: مردوں کے وہ زیادہ خدا و رسول اور خواتین کے لیے کم۔ معاذ اللہ۔ ایسا شاید نہیں ہے۔

یہاں شاید کی گنجائش نہیں تھی۔ ایسا یقینا نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے۔
حضور گنجائش چھوڑی تھی ممکن ہے کوئی دلائل لا کر رد کردے۔ ہاں اپنی دانست میں یقینا ایسا ہی ہے۔
 
Top