بعض محقیقین نے سقراط کے بارے میں لکھا ہے کہ قرانِ کریم میں جس عظیم المرتبت ہستی "حضرت لقمان علیہ السلام " کا نام آیا ہے وہ سقراط ہی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے اور الگ دھاگے کی متقاضی۔ مگر اس دھاگے کا عنوان ہے "سقراط کو زہر کا جام کیوں پینا پڑا؟"یقیناً آپ میں سے اکثر حضرات نے "مکالمات افلاطون"کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا۔ ڈاکٹر سید عابد حسین کا ترجمہ خاصا رواں ہے۔ میرے پاس وہی ترجمہ ہے۔اردو بازار لاہون میں عام دستیاب ہے۔ خیر! عرض کرتا ہوںکہ مکالمات افلاطون میں، دراصل افلاطون کے مکالمات پر مشتمل نہیں ہے۔ اس کتاب کا نام مکالمات افلاطون اس لیے ہے کہ اس کتاب کو افلاطون نے مدون کیا۔ بالکل ویسے جیسے تاریخ ابن خلدون کو اس لیے تاریخ ابن خلدون کہتے ہیں کہ اسے امام ابن خلدون نے تحریر کیا۔ اسی طرح احادیث کی کتابوں کے نام ہیں۔ مکالمات افلاطون میں پہلے مکالمے کو چھوڑ کر باقی تمام تقریبا سقراط کی زندگی کے آخری ایام سے متعلق ہیں۔ سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات لگائے تھے۔ ان میں سر فہرست تھا کہ " تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو" ایتھنز میں ان دنوںداناوں کی بڑی قدرتھی۔ پروٹاغورس جیسے سوفسطائیوں سے سیکھنے کے لیے لوگ اپنے بچوں کو بھیجتے اور معاوضوں میں کھیت، گھر،سونا،گھوڑے،جانور غرضکچھ بھی دینے کو تیار ہوجاتے۔ سقراط کو انہی دنوں ایک کاہنہ نے بشارت دی تھی کہ " سقراط تم ایتھنز کے سب سے بڑے دانا ہو"سقراط کو کاہنہ کی بات پر یقین نہ آیا ، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اس بشارت کی تحقیق کرے گا۔ وہ ایتھنز کے سارے بڑے بڑے داناوں کے پاس جانے لگ گیا۔اور ان سے ایک خاص قسم کے طریقہ کار کے مطابق بحث کا آغاز کیا۔ وہ جہاں جاتا سامعین پر چھا جاتا۔ اس عمل سے ایتھنز کے نام نہاد دانا، بھڑک اٹھے۔انہوں نے سقراط کے خلاف ماحول بنانا شروع کردیا۔ کرتے کرتے وہ سقراط کے خلاف تین بڑے الزام اٹھانے میںکامیاب ہوگئے۔ 1۔ یہ ہمارے نوجوانوںکو گمراہ کر رہا ہے۔ 2۔ یہ ہمارے دیوتاوںکو نہیں مانتا 3۔یہ ایک الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ ایک بڑی عدالت لگی۔ پورا شہر جمع تھا۔ سقراط کو سب کے سامنے صفائی پیش کرنا تھی۔ سقراط صفائی کے دوران اپنی دانائ سے مجمع پر چھا گیا مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے،سقراط کے خلاف ایک نوجوان کو بطور گواہ پیش کردیا گیا۔کہ سقراط نے اس نوجوان کو گمراہ کیا ہے۔ بس پھر تو جرم ثابت ہوگیا۔ سقراط کو دو آپشن دیے گئے یا شہر چھوڑ دو یا زہر کا پیالہ پی لو اب میر اس فورم میںآپ لوگوںسے یہ سوال ہے کہ سقراط نے شہر کیوں نہ چھوڑا۔اور زہر کا پیالہ پینا کیوںپسند کیا؟ اگر آپ مکالمات افلاطون سے رجوع کریں تو جو جواب ملے گا وہ سقراط کے شاگردوںکی طرحآپ کو بھی لا جواب کر دے گا۔
بہت شکریہ جناب یہ شریک محفل کرنے کا۔ سچ تو ویسے بھی کڑوا ہی ہوتا ہے۔ وہ زہر پی کر امر ہو گیا اور جنہوں نے اس کے خلاف سازشیں کیں وہ تاریخ کے اوراق سے گُم ہو گئے۔
اپنے جسم پر ظلم کرنا گناہ کبیرا ہے اگر اس نے زہر پیا ہے تو یہ اس کی خودکشی ہوئی۔ نا کہ اسے قتل کیا گیا۔ اسے اس کی سزا اللہ کے دربار میں ملتی رہے گئی اگر وہ شہر چھوڑ جاتا تو کوئی حرج نہی تھا اس کی خودکشی نے لوگوں پر کیا ازر ڈالا؟ اگر کوئی آپ کی بات نہی مانتا تو اس کا مطلب یہ نہی کہ خود کو ہی ختم کرلیا جائے۔
اسوقت تک اسلامی شریعت نافذ نہیںہوئی تھی، اسلئے اگر وہ اس" گناہ کبیرہ "سے با خبر ہوتا تو ہر گز نہ کرتا۔ نیز اگر وہ شہر چھوڑ دیتا تو اسکے علم اور اسکے شاگردوں کی تذلیل ہوتی۔ اسلئے اسنے بہادی اور شجاعت دکھاتے ہوئے وہ زہر کا پیالا پیا۔
اس دور میں زہر خود پینا پڑتا تھا سزائے موت کے طور پر ۔۔ اور کیا ممکن کہ شہر چھوڑنے کا محض افسانہ تراشا گیا ہو مگر حقیقت میں اسے سزائے موت (زہر پینے پر مجبور ) ہی دی گئی ہو ۔۔ اس کی خود کشی (موت) نے یہ اثر ڈالا کہ آج بھی اس اقوال افراد فخر سے پیش کرتے ہیں اور ہزاروں سال بعد بھی اس کا نام ایک صاحب علم شخصیت کی حیثیت سے عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔۔ وسلام
بلکل اس وقت ایتھنز میں سزائے موت کا طریقہ ہی یہی تھا کہ زہر کا پیالہ پینا پڑتا تھا ، اور سقراط نے اسلیئے ایسا کیا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ حق پرست آدمی ذلت کی زندگی سے عزت کی موت مرنا پسند کرتا ھے ۔
جیل سے فرار والا واقعہ افسانہ نہیں ہے، سقراط کے (مالدار) شاگردوں نے داروغہ جیل کو بھاری رشوت دے کر فرار کا منصوبہ مکمل کر لیا تھا لیکن سقراط نے فرار ہونے سے انکار کر دیا اور اس پر موت کو ترجیح دی، وجہ قانون کی پابندی تھی، وہ اتنا اصول پسند تھا کہ ایک غلط فیصلے کو بھی فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا۔
جی درست کہا وارث ، اس کے شاگردوں نے ایسی ہی کچھ حرکت کی تھی ۔۔ مگر اسے حاکم وقت کا یہ اختیار دینا کہ ملک چھوڑ جاؤ یا موت کو گلے لگا لو یہ افسانہ معلوم ہوتا ہے ۔۔ وسلام