سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا۔۔۔۔کلامِ عالمتاب تشنہ

NAZRANA

محفلین
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا۔

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا
یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا
تمھارا قُرب بھی دُوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اُتر آنا
مرے یقین کو بڑا بدگمان کرکے گیا
دعائے نیم شب تیرا بے اثر جانا
عجب ہیں رزم گاہِ زندگی کے یہ انداز
اُسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا
ہمارے دم سے ہی آوارگیِ شب تھی
ہمیں عجیب لگے شام ہی سے گھر جانا
کلامِ عالمتاب تشنہ
 
Top