سفری وارداتیں

عبد الرحمن

لائبریرین
علی نامی ایک شخص لاہور کا سفر کررہا تھا۔ بس میں کھڑکی کی جانب سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس کا بیگ بھی اس کے ساتھ کھڑکی کی طرف تھا۔ اس کے برابر جو اجنبی آدمی بیٹھا تھا، اس نے علی سے بے تکلفانہ گفتگو شروع کردی۔ خوب ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ باتوں ہی باتوں میں اس آدمی نے جیب سے سونف نکالی اور علی کو پیش کردی۔ جواب یقینا انکار میں تھا۔ نفی کی صورت میں آدمی نے پھر گپ شپ شروع کردی۔ اس طرح کوئی چھہ سات مرتبہ سونف کی آفر کی لیکن علی نے نہ لیا۔ آخرکار اس آدمی کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ اس مرتبہ سونف دیتے ہوئے علی کی نظریں اس آدمی سے مل گئیں۔
نظر کا تیر چلنا تھا کہ خود کار انداز میں علی کا ہاتھ سونف کی طرف بڑھ گیا اور اگلے ہی لمحے وہ بے سدھ ہوگیا۔ اجنبی نے بلا کے اطمینان سے علی کی جیب سے پچیس ہزار کے قریب نقدی نکالی اور بس سے اتر کر یہ جا وہ جا۔ البتہ بیگ بچ گیا۔ شاید اس لیے کہ وہ کھڑکی کی طرف تھا، نتیجتا اس کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اب علی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جارہا ہے؟ وہ اپنے گرد و پیش سے بالکل بے خبر ہوچکا تھا۔ مد ہوشی کی حالت میں جیسے تیسے لاہور اتر کر اس نے ٹیکسی پکڑی اور ہوٹل پہنچا جس کا وہ ہمیشہ سے خریدار تھا۔ اپنے کمرے میں آکر وہ دو دن تک سوتا رہا۔ جب دو دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی ہل جل نہ ہوئی تو عملے کو تشویش نے آ گھیرا۔ چناچہ ڈاکٹر کو بلا کر ہوش میں لانے کی ادویات کھلائی گئیں۔ چوتھے یا پانچویں روز اسے ہوش آیا اور جب اسے یاد آیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمایے! ریل میں دو شخص سوار تھے۔ ایک برتھ پر تھا دوسرا سیٹ پر۔ اوپر والا سر درد کی وجہ سے مستقل کراہ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس نے نیچے والے سے ٹیبلٹ کا تقاضا کیا تو اس نے ازراہ ہمدردی فورا گولی دے دی۔ گولی کھاتے ہی اس نے واویلا شروع کردیا کہ اس آدمی نے مجھے کوئی زہریلی چیز کھلادی ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ پولیس نے اس ہمدرد کو جرائم پیشہ سمجھ کر گرفتار کرلیا۔ اس مظلوم نے بہت منت سماجت کی لیکن وہ بہروپیا مان کر نہ دیا۔ بڑی مشکل سے کچھ "دے دلا کر" جان چھوٹی۔
یہ ہمارے معاشرے میں دورانِ سفر وقوع پذیر ہونے والے دو عبرت آموز واقعات ہیں۔ ان حادثات سے جو تجربات سامنے آتے ہیں، ان میں سب سے پہلا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حالتِ سفر میں کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر کھانی نہیں چاہیے۔ زمانہ جس تیزی سے برائی کی طرف جارہا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر کس و نا کس پر پہلی ملاقات میں ہی بھروسا کرلینا حماقت کی بات ہے۔ جہاں اس غلطی سے مال غیر محفوظ ہوجاتا ہے وہاں کبھی عزت و آبرو اور جان بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
دوسری بات یہ عرض کی جاتی ہے کہ جس طرح سفر میں کسی کا کچھ کھانے سے احتیاط کرنی چاہیے، اسی طرح کھلانے میں بھی حد درجہ محتاط رہنا ضروری ہے۔ کسی کا سر درد ہمارے لیے وبالِ جان اسی وقت بنتا ہے جب ہم اپنی خدا داد بصیرت کو استعمال کیے بغیر اس پر اندھا اعتماد کرلیتے ہیں۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ سفر و حضر، خلوت و جلوت، روز و شب، خوشی و غمی، بیماری و صحت، الغرض زندگی کے ہر موڑ پر اپنے پالنے والے کو کثرت سے یاد کرتے رہیں۔ وہی ایک ذات ہے جس سے ہم ہر لمحے خیر کی عطا اور شر کی پناہ مانگ سکتے ہیں۔ لہذا سفر اور دوسرے مواقع کی دعائیں ہم سب کو یاد کرکے انہیں اپنے خاص وقت پر پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ تاکہ ان روحانی طاقتوں کی برکت سے ہپناٹزم جیسے ان شیطانی اور دجالی ہتھ کنڈوں کے آگے بندھ باندھا جاسکے، جن کی لپیٹ میں آکر علی جیسے سمجھ دار اور تجربہ کار لوگ بھی چوٹ کھا جاتے ہیں۔
 

ساقی۔

محفلین
بالکل ایسے واقعات شیئر کرنے ضروری ہیں جن سے دوسروں کو آگاہی حاصل ہو اور وہ نقصان سے بچ سکیں ۔ وقت ملنے پر میں بھی چند ایک شیئر کرتا ہوں ۔
اصلاح معاشرہ کا زمرہ بھی پہرے داری کے دائرے میں ہے ۔ مدیر حضرات کی اجازت کے بعد ہی پوسٹ نظر آیا کرے گی۔آپ کو کسی اور زمرے کا انتحاب کرنا چاہیے تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب تحریر ہے۔ اور میرا بھی یہی مشورہ ہے کہ دوران سفر کسی اجنبی سے نہ کوئی چیز لیکر کھانی چاہیے اور نہ ہی کھلانی چاہیے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بالکل ایسے واقعات شیئر کرنے ضروری ہیں جن سے دوسروں کو آگاہی حاصل ہو اور وہ نقصان سے بچ سکیں ۔ وقت ملنے پر میں بھی چند ایک شیئر کرتا ہوں ۔
اصلاح معاشرہ کا زمرہ بھی پہرے داری کے دائرے میں ہے ۔ مدیر حضرات کی اجازت کے بعد ہی پوسٹ نظر آیا کرے گی۔آپ کو کسی اور زمرے کا انتحاب کرنا چاہیے تھا۔
آپ کے تجربات کا انتظار رہے گا۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے! مراسلے ارسال کرنے میں بہت دشواری ہورہی ہے۔ پہلے معلوم ہوتا تو کوئی اور زمرہ منتخب کرتا۔
 

ساقی۔

محفلین
بھائی بتا رہا تھا کہ حمام(باربر شاپ) پر ایک آدمی بال کٹوانے آیا ۔ ساتھ بیٹھے شخص سے بات چیت کرتے ہوئےآہستہ آہستہ گپ شپ ہونے لگی۔تھوڑی دیر بعد اس شخص سے کہنے لگا ۔یار ذرا اپنی سائیکل دینا میں گھر میں بٹوا بھول آیا ہوں ابھی لے کر آتا ہوں یہ میری چادر وغیرہ یہی پڑی ہے اس کا خیال رکھنا ۔ اس نے سائیکل دے دیا ۔ وہ تھوڑی دیر بعد خالی ہاتھ واپس آیا اور سائیکل والے سے کہا ۔ یار تمہاری سائیکل چوری ہو گئی ہے ۔ معذرت خواہ ہوں آو میرے ساتھ تمہیں نئی لے کر دے دیتا ہوں ۔

سائیکل والا کہنے لگا ۔نئی کیوں لینی ہے چھوڑو یار جتنے کی میری سائیکل تھی اتنی قیمت دے دو ۔ دوسرا بولا نہیں یار میری غلطی ہے جو تمہاری سائیکل چوری ہو گی ۔ چلو نئی لے کر آتے ہیں ۔ بہرحال سائیکلوں کی دوکان پر جا پہنچے ۔
اور وہاں سے سائیکل پسند کی ۔ جسکو سائیکل لے کر دے رہا تھا اسے کہنے لگا میں یہاں بیٹھتا ہوں تم پہلے سائیکل پر ایک چکر لگا کر چیک کر آو کہ ٹھیک چلتی ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ۔ وہ گیا اور آ کر کہا بالکل ٹھیک ہے ۔
پہلے ولا کہنے لگا ۔اچھا تم رکو میں چیک کر کے آتا ہوں ۔ وہ چیک کرنے گیا اور مڑ کر واپس ہی نہیں آیا ۔ یعنی بچارے کو دکان پر بٹھا کر دوسرا سائیکل بھی لے اُڑا۔

اب دوکان والے اور جس کا سائیکل چوری ہوا تھا دونوں میں لڑائی ہو گی ۔دوکان والا کہتا تھا کہ تم دونوں اکٹھے آئے تھے مجھے کیا پتا وہ پہلے بھی تمہارا سائیکل لے گیا یا نہیں ۔ ابھی جو میرا نیا سائیکل لے گیا ہے اس کی قیمت بھی تمہیں ہی دینی ہو گی۔بچارے کا پہلا سائیکل بھی گیا ۔ نئے کی قیمت بھی دینی پڑی۔

(اب چور بھی انسانی نفسیات سے کھیلنے لگے ہیں )
 

شمشاد

لائبریرین
کھلانے میں تو ثواب ہے شمشاد بھائی ۔:)
کھلانے میں ثواب تو ہے لیکن کھانے کے بعد جو حالت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی تو بتائیں۔

بس میں 30، 32 مسافر رہے ہوں گے کہ ایک مسافر لڑکی پر اس کی ماں نے بگڑنا شروع کر دیا۔ شور شرابہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ لڑکی سوتیلی ہے اور سوتیلی ماں اس پر ظلم و ستم کرتی رہتی ہے۔ باپ بے بس ہے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اپنی بیوی اور لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا لڑکا ہے۔ میں اپنے بیٹے کو اس لڑکی سے بیاہنے کو تیار ہوں۔ قصہ مختصر چلتی بس میں رشتہ طے ہو گیا۔ باقی مسافروں نے مبارک دی۔ پھر اس آدمی نے مٹھائی کا ڈبہ نکالا اور اس خوشی میں سبکو مٹھائی کھلائی۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد سب مسافر بیہوش پڑے تھے سوائے ان فراڈیوں کے جو بیہوش مسافروں کو لُوٹ کر چمپت ہو گئے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
آپ کی سائیکل والی بات پر یاد آیا۔ تقریباً ہر شہر میں صبح کے وقت کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں لوگ محنت مزدوری کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور ضرورتمند وہاں سے اپنے مطلب کے لوگوں کے مزدوری کے لیے لے جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک جگہ پر ایک بندہ آیا اور ایک عمر رسیدہ بندے کو مزدوری کے لیے لے گیا۔ راستے میں ایک سائیکلوں کی دکان تھی۔ وہاں انہیں بٹھا کر کہ ابھی آتا ہوں، دکان سے ایک سائیکل لیکر چلتا بنا۔ بہت بہت دیر گزر گئی تو دکان والے نے بابا جی کو کہا "بابا آپ کا بیٹا ابھی تک واپس نہیں آیا۔" تب جا کر عقدہ کھلا کہ وہ دکان والے کو اور بابا جی کو چکمہ دے کر سائیکل لے گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فیصل آباد میں ایک دس بارہ سالہ بچے سے دو آدمیوں نے سائیکل چھینی۔ بچے نے شور مچایا، چند ایک لوگ بھی اکٹھے ہوئے تو وہ کہنے لگا یہ میرا بھتیجا ہے اور سائیکل چلانے سے منع کرنے پر بگڑ رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ دونوں سائیکل لیکر چلتے بنے۔
 

ساقی۔

محفلین
آپ کی سائیکل والی بات پر یاد آیا۔ تقریباً ہر شہر میں صبح کے وقت کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں لوگ محنت مزدوری کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور ضرورتمند وہاں سے اپنے مطلب کے لوگوں کے مزدوری کے لیے لے جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک جگہ پر ایک بندہ آیا اور ایک عمر رسیدہ بندے کو مزدوری کے لیے لے گیا۔ راستے میں ایک سائیکلوں کی دکان تھی۔ وہاں انہیں بٹھا کر کہ ابھی آتا ہوں، دکان سے ایک سائیکل لیکر چلتا بنا۔ بہت بہت دیر گزر گئی تو دکان والے نے بابا جی کو کہا "بابا آپ کا بیٹا ابھی تک واپس نہیں آیا۔" تب جا کر عقدہ کھلا کہ وہ دکان والے کو اور بابا جی کو چکمہ دے کر سائیکل لے گیا ہے۔

بالکل اسی طرح ایک عورت چنے بیچنے والے کو چار پانچ دن باتوں میں رجھاتی رہی اور ایک دن جیولری کی دکان پر لے گئی، اسے اُدھر بٹھایا۔ دکاندار سمجھا میاں بیوی ہیں۔ وہ گھر دکھانے کے بہانے زیور لے گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بھائی بتا رہا تھا کہ حمام(باربر شاپ) پر ایک آدمی بال کٹوانے آیا ۔ ساتھ بیٹھے شخص سے بات چیت کرتے ہوئےآہستہ آہستہ گپ شپ ہونے لگی۔تھوڑی دیر بعد اس شخص سے کہنے لگا ۔یار ذرا اپنی سائیکل دینا میں گھر میں بٹوا بھول آیا ہوں ابھی لے کر آتا ہوں یہ میری چادر وغیرہ یہی پڑی ہے اس کا خیال رکھنا ۔ اس نے سائیکل دے دیا ۔ وہ تھوڑی دیر بعد خالی ہاتھ واپس آیا اور سائیکل والے سے کہا ۔ یار تمہاری سائیکل چوری ہو گئی ہے ۔ معذرت خواہ ہوں آو میرے ساتھ تمہیں نئی لے کر دے دیتا ہوں ۔

سائیکل والا کہنے لگا ۔نئی کیوں لینی ہے چھوڑو یار جتنے کی میری سائیکل تھی اتنی قیمت دے دو ۔ دوسرا بولا نہیں یار میری غلطی ہے جو تمہاری سائیکل چوری ہو گی ۔ چلو نئی لے کر آتے ہیں ۔ بہرحال سائیکلوں کی دوکان پر جا پہنچے ۔
اور وہاں سے سائیکل پسند کی ۔ جسکو سائیکل لے کر دے رہا تھا اسے کہنے لگا میں یہاں بیٹھتا ہوں تم پہلے سائیکل پر ایک چکر لگا کر چیک کر آو کہ ٹھیک چلتی ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ۔ وہ گیا اور آ کر کہا بالکل ٹھیک ہے ۔
پہلے ولا کہنے لگا ۔اچھا تم رکو میں چیک کر کے آتا ہوں ۔ وہ چیک کرنے گیا اور مڑ کر واپس ہی نہیں آیا ۔ یعنی بچارے کو دکان پر بٹھا کر دوسرا سائیکل بھی لے اُڑا۔

اب دوکان والے اور جس کا سائیکل چوری ہوا تھا دونوں میں لڑائی ہو گی ۔دوکان والا کہتا تھا کہ تم دونوں اکٹھے آئے تھے مجھے کیا پتا وہ پہلے بھی تمہارا سائیکل لے گیا یا نہیں ۔ ابھی جو میرا نیا سائیکل لے گیا ہے اس کی قیمت بھی تمہیں ہی دینی ہو گی۔بچارے کا پہلا سائیکل بھی گیا ۔ نئے کی قیمت بھی دینی پڑی۔

(اب چور بھی انسانی نفسیات سے کھیلنے لگے ہیں )
اف!!! کوئی اس حد تک بھی گِر سکتا ہے؟
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بالکل اسی طرح ایک عورت چنے بیچنے والے کو چار پانچ دن باتوں میں رجھاتی رہی اور ایک دن جیولری کی دکان پر لے گئی، اسے اُدھر بٹھایا۔ دکاندار سمجھا میاں بیوی ہیں۔ وہ گھر دکھانے کے بہانے زیور لے گئی اور پھر۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !!!
مکمل کریں ناں!
 

عبد الرحمن

لائبریرین
کھلانے میں ثواب تو ہے لیکن کھانے کے بعد جو حالت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی تو بتائیں۔

بس میں 30، 32 مسافر رہے ہوں گے کہ ایک مسافر لڑکی پر اس کی ماں نے بگڑنا شروع کر دیا۔ شور شرابہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ لڑکی سوتیلی ہے اور سوتیلی ماں اس پر ظلم و ستم کرتی رہتی ہے۔ باب بے بس ہے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اپنی بیوی اور لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا لڑکا ہے۔ میں اپنے بیٹے کو اس لڑکی سے بیاہنے کو تیار ہوں۔ قصہ مختصر چلتی بس میں رشتہ طے ہو گیا۔ باقی مسافروں نے مبارک دی۔ پھر اس آدمی نے مٹھائی کا ڈبہ نکالا اور اس خوشی میں سبکو مٹھائی کھلائی۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد سب مسافر بیہوش پڑے تھے سوائے ان فراڈیوں کے جو بیہوش مسافروں کو لُوٹ کر چمپت ہو گئے۔
میرے خیال میں بس کے مسافروں کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوگا۔ وہ بہت سادہ لوح ہوتے ہیں۔
 
Top