سفرِ سوات۔ 2016

یاز

محفلین
لاجواب۔

آپ نے میری بھی بیس بائیس سال پرانی یادیں تازہ کر دیں، یہی علاقے، یہی راستے، یہی شہر، وہ دریا کے بیچوں بیچ بڑی بڑی چارپائیوں پر بیٹھ کر کھانا، وہ آبشار، وہ گلیشیئر میں تصویریں بنانا، وہ جوانی کے دن کہ جھیل کے یخ بستہ پانی میں نہا بھی لیا، اب تو تصویریں دیکھ کر ہی ٹھنڈ لگ رہی ہے :)
بہت شکریہ وارث بھائی۔ پرانی یادیں اچھی طرح سے تازہ کرنے کے لئے عازمِ سوات ہونا بھی ایک اچھی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔

اور ہاں، کلام میں کچھ ماہی فروش دریا میں سے تازہ مچھلی پکڑ کر انتہائی مہنگے داموں فرائی کر کے بیچتے تھے، طالب علمی کا زمانہ تھا سو ہم بس چکھ ہی سکے، وہاں کی کوئی خاص مچھلی تھی نہ جانے کون سی، اب پتہ نہیں ہوتی ہے کہ نہیں، ہوتی ہوگی پر ہمیں کیا :)
جی وہ خاص مچھلی ٹراؤٹ کہلاتی ہے۔ یہ صرف سرد پانیوں میں پائی جاتی ہے، اس لئے صرف شمالی علاقہ جات میں ہی دستیاب ہے۔ ٹراؤٹ کھانے کا ذکر ہم بھی اسی طور ہی کر سکتے ہیں جیسے پریم چند کے افسانے کفن میں آلو گوش (یعنی آلو گوشت) کا ہوتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے لگ بھگ دو دہائیوں پر مشتمل فقیرانہ سیاحتی کیریئر میں فقط ایک بار 2015 میں کاغان میں ٹراؤٹ کھائی تھی۔ شاید 2000 یا 3000 روپلی کی ایک کلو تھی۔
 

یاز

محفلین
بہت ہی عمدہ شراکت ماشاءاللہ

بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔
بہت نوازش جناب۔

بقول شخصے مری بھی کوئی دیکھنے کی جگہ ہے ؟
مری شہر تو کافی حد تک کشش کھو بیٹھا ہے، تاہم عموماً مری سے مراد گلیات کا تمام علاقہ لیا جاتا ہے، بہت سی انتہائی خوبصورت جگہیں ابھی بھی دیکھنے لائق موجود ہیں۔
 

یاز

محفلین
تو جناب تصویری سفرنامے کا سلسلہ پھر سے بحال کرتے ہیں۔

مہوڈنڈ میں جابجا بہتے چشموں اور جھرنوں کا پانی انتہائی شفاف تھا۔ کچھ ایسا
swat098.jpg


اس کے علاوہ جنگلی پھول بھی کھلنا شروع ہو چکے تھے۔
swat101.jpg

swat102.jpg
 

یاز

محفلین
اس ڈھابے سے ہم نے لنچ نوش کیا، جو کہ چکن کڑاہی اور چپاتیوں پر مشتمل تھا۔ خلافِ توقع کھانا کافی سستا ثابت ہوا، یعنی فقط 700 میں بھگت گیا۔ ورنہ اتنی دور دراز جگہ پہ اس سے دوگنا قیمت کا خدشہ تھا۔ شاید وجہ یہ ہو کہ ابھی صحیح طرح سیاحتی سیزن کا آغاز نہ ہوا تھا۔
swat103.jpg
 

یاز

محفلین
جیپ ڈرائیور کے ساتھ جھیل سیف اللہ تک جانے کا معاہدہ قرار پایا تھا۔ سو جب ہم نے اس کو سیف اللہ جھیل جانے کو کہا تو ڈرائیور صاحب مہوڈنڈ سے کچھ آگے جا کے رک گئے اور اسی جگہ کو جھیل سیف اللہ قرار دے دیا۔ چونکہ ہم نے پہلے یہ جھیل دیکھ رکھی تھی، تو ہم نے اس کو کہا کہ بھائی یہ کہاں سے سیف اللہ جھیل ہے۔ اس پہ ڈرائیور نے مزید اصرار کیا کہ یہی ہے جناب۔ خیر ہم نے اس سے زیادہ بحث نہیں کی، اور اسی مقام کی چند تصاویر لے کر واپسی کی راہ لی۔
swat104.jpg

swat105.jpg
 

یاز

محفلین
اس کے بعد واپسی کی راہ لی گئی۔ کالام سے پہلے جنگل تک پہنچتے پہنچتے تقریباً مغرب کا وقت ہو چکا تھا اور روشنی کافی کم ہو چکی تھی۔ تاہم چند منٹ کے لئے اس جنگل میں موجود فاریسٹ ریسٹ ہاؤس کے قریب رکے اور پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے چند تصاویر لیں۔ ریسٹ ہاؤس کی عمارت بھی آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کر رہی تھی۔
چونکہ روشنی بہت ہی کم ہو چکی تھی تو شٹر سپیڈ کو کافی کم کر کے تصاویر بنائیں۔ چند تصاویر میں تو ایک سیکنڈ تک کی سپیڈ کی سیٹنگ رکھی۔
swat111.jpg

swat112.jpg
 

زیک

مسافر
جیپ ڈرائیور کے ساتھ جھیل سیف اللہ تک جانے کا معاہدہ قرار پایا تھا۔ سو جب ہم نے اس کو سیف اللہ جھیل جانے کو کہا تو ڈرائیور صاحب مہوڈنڈ سے کچھ آگے جا کے رک گئے اور اسی جگہ کو جھیل سیف اللہ قرار دے دیا۔ چونکہ ہم نے پہلے یہ جھیل دیکھ رکھی تھی، تو ہم نے اس کو کہا کہ بھائی یہ کہاں سے سیف اللہ جھیل ہے۔ اس پہ ڈرائیور نے مزید اصرار کیا کہ یہی ہے جناب
کیا بات ہے ڈرائیور کی!
 

یاز

محفلین
اور اب شروع ہوتا ہے ٹرپ کا چوتھا اور آخری دن۔
کالام سے کوچ کرنے سے پہلے چند تصاویر لینا نہیں بھولے۔
مانکیال پہاڑ کا منظر
swat116.jpg


اسی منظر کی زوم ان تصویر
swat115.jpg
 

یاز

محفلین
فلک سیر کی مشہور چوٹی بھی آج بھرپور جگمگا رہی تھی۔ چوٹی سے نیچے کالام کا مشہور جنگل بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
swat117.jpg

swat118.jpg

swat119.jpg
 

یاز

محفلین
کالام شہر (بلکہ قصبہ) کی تصویر۔ تصویر میں جو پل دکھائی دے رہا ہے، پہلے اس کی جگہ کیبل والا سسپنشن برج تھا جو سیلاب میں دریا برد ہو چکا۔
swat120.jpg

swat121.jpg
 

یاز

محفلین
کالام سے چلے تو بس چلتے ہی گئے۔ خواض خیلہ سے بائیں مڑے اور شانگلہ پاس کا راستہ پکڑا۔ سڑک اتنی شاندار حالت میں تھی کہ تقریباً 1200 میٹر کی چڑھائی چڑھ گئے اور احساس تک نہ ہوا۔ عین شانگلہ ٹاپ پہ پہنچ کے خیال آیا کہ کچھ تصاویر بھی بنا لی جائیں۔
swat124.jpg

swat125.jpg
 
Top