سزائے رجم، پتھر مار کر ہلاک کرنے کی حقیقت

سویدا

محفلین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‌:
مجھے ڈر ہے کہ لوگوں‌پر زمانہ دراز گزرجائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم اللہ کی کتاب میں‌نہیں‌پاتے
پھر کہیں‌لوگ ایسے فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائیں‌جو اللہ نے نازل کیا تھا
خوب سن لو کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے حق ہے جو محصن ہونے کی حالت میں‌زنا کرے جب کہ اس پر گواہیاں‌قائم ہوجائیں‌یا حمل ثابت ہوجائے یا ملزم خود اعتراف کرلے۔
صحیح‌بخاری جلد 2 صفحہ 1007طبع قدیم
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں‌نے ایک عورت کو رجم کرنے کے بعد فرمایا میں‌نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم کیا
صحیح‌بخاری جلد 2 صفحہ 1006 طبع قدیم
 

ظفری

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‌:
مجھے ڈر ہے کہ لوگوں‌پر زمانہ دراز گزرجائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم اللہ کی کتاب میں‌نہیں‌پاتے
پھر کہیں‌لوگ ایسے فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائیں‌جو اللہ نے نازل کیا تھا
خوب سن لو کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے حق ہے جو محصن ہونے کی حالت میں‌زنا کرے جب کہ اس پر گواہیاں‌قائم ہوجائیں‌یا حمل ثابت ہوجائے یا ملزم خود اعتراف کرلے۔
صحیح‌بخاری جلد 2 صفحہ 1007طبع قدیم
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں‌نے ایک عورت کو رجم کرنے کے بعد فرمایا میں‌نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم کیا
صحیح‌بخاری جلد 2 صفحہ 1006 طبع قدیم

محترم ۔۔۔ اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کریں ۔ اس روایت سے متعلق علمی تحقیق ایک مقالے میں تحریر کی جاچکی ہے ۔ جو اس فورم پر " رجم کی سزا " کے حوالے سے ہے ۔ وہاں کوئی اختلاف یا کوئی بحث مقصود ہو تو بہت مثبت بات ہوگی ۔
اور ویسے بھی اس دھاگے پر اب اختلافِ رائے کے بجائے صرف حق و باطل کی جنگ جاری ہے ۔
 

سویدا

محفلین
جن صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم یاعمل روایت کیا ہے ان کے اسماگرامی یہ ہیں‌:
حضرت عمر بن خطاب
حضرت علی بن ابی طالب
عبد اللہ بن اوفی
جابر بن عبد اللہ
حضرت ابوہریرہ
حضرت عائشہ
حضرت عبداللہ بن عمر
عبد اللہ بن عباس
زید بن خالد
رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
اوران سب کی روایات صحیح‌بخاری میں‌موجود ہیں‌جلد صفحہ 1006 تا صفحہ 1011 طبع قدیم باب رجم المحصن
عبادہ بن صامت
سلمہ بن الحبق
ابوبرزہ
ہزال
جابربن سمرہ
لجلاج
ابوبکر صدیق
بردیدہ
ابوذر غفاری
نصربن دہر اسلمی
عمران بن حصین
ابوبکرۃ
ابو سعید خدری
نعمان بن بشیر
برائ بن عازب
ان سب کی روایات مسند احمد میں‌موجود ہے جلد 16 صفحہ 81 تا 105 طبع مصر 1317ھ
ابی بن کعب
زید بن ثابت
عبد اللہ بن مسعود
ان کی روایات السنن الکبر للبیہقی جلد 8 صفحہ 211 تا 213 میں‌مذکور ہیں
قبیصہ بن حریث
انس بن مالک
عجما
سہل بن سعد
عبد اللہ بن الحارث
ان کی روایت مجمع الزوائد الہیثمی جلد 6 صفحہ 264 و 265 و 268 و271 میں‌موجود ہیں، طبع دارالکتاب بیروت 1967
وائل بن حجر کی روایت جمع الفوائد جلد 1 صفحہ 752 طبع مدینہ منورہ میں‌موجود ہے
عثمان بن عفان
ابو امامہ بن سہل بن حنیف
ان کی روایت مشکوۃ المصابیح‌صفحہ 103 طبع قدیم میں‌موجود ہے۔
 
صاحبو اور احبابو سلام علیکم۔

میں‌پہلے بھی یہی سوال کرتا رہا ہوں اور اب بھی میرا سوال یہی ہے۔

کہ ہمارا یقین محکم اور ایمان قران حکیم پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں قرآن حکیم کے مطابق روایات ماننے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ روایت قرآن حکیم کے احکام کے خلاف ہے۔

آئیے موت بذریعہ سنگساری کو اس سزا کے حامی افراد کے فلسفہ سے دیکھتے ہیں۔
جتنی بھی روایات سزائے رجم کی موجود ہیں ان کا ثبوت قرآن حکیم میں نہیں‌ملتا اس لئے بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ نور کی آیات نازل ہوجانے کے بعد کیا یہ سزا برقرار رہی؟ کوئی شہادت یا کوئی گواہی اس بات کی ملتی ہے کہ سورۃ‌ نور کی آیات کے بعد بھی رسول اکرم نے یہ سزا جاری رکھی؟ کود کتب روایات میں ایسی روایات موجود ہیں جن کے مطابق لوگوں‌کو یہ بھی یاد نہیں کہ آیا کہ سورۃ النور کے نزول کے بعد موت بذریعہ سنگساری جاری رہی۔

جو لوگ موت بذریعہ رجم کی سزا کے قائل ہیں وہ سورۃ النور کی آیات کے بعد اس پرانے حکم کو منسوخ‌کیوں‌نہیں‌سمجھتے ؟

کیا زنا کے مجرمان کو موت کی سزا دی جائے؟ اس کا جواب ہم کو سورۃ النور میں‌ہی ملتا ہے۔
24:3 [arabic]الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ[/arabic]
زانی مرد نہ نکاح کرے مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نہ نکاح کرے مگر زانی مرد یا مشرک۔ اور حرام کردیا گیا ہے ان سے نکاح کرنا اہلِ ایمان پر۔

اگر زنا کی سزا موت ہوتی تو پھر ایک مرجانے والا کس طور نکاح‌کرسکتا ہے؟ اس کی تاویل یہ پیش کی گئی کہ جناب کوڑے کی سزا صرف غیر شادی شدہ کے لئے ہے۔

آئیے اس کو ایک اور نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا اس جرم میں موت کی سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
میرا مختصر جواب یہ ہوگا کہ یقیناًَ ۔ یہ مجرم کے جرم پر منحصر ہوگا نہ کہ اس کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے پر۔
اگر ایک شخص پلان کرکے کسی عورت کی بے حرمتی کرتا ہے تو اس صورت میں وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے ارتداد کا مجرم ہوا۔ یہ ایک مکمل طور پر مختلف صورت حال ہوگی۔ اس صورت میں یہ مجرم موت کی سزا کا حق دار بنتا ہے۔

میں ا س بحث کو یہاں‌ختم کررہا ہوں اس لئے کہ معلومات کا تبادلہ ہرطرف سے مکمل ہوچکا ہے۔

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
صاحبو اور احبابو سلام علیکم۔

میں‌پہلے بھی یہی سوال کرتا رہا ہوں اور اب بھی میرا سوال یہی ہے۔

کہ ہمارا یقین محکم اور ایمان قران حکیم پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں قرآن حکیم کے مطابق روایات ماننے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ روایت قرآن حکیم کے احکام کے خلاف ہے۔

آئیے موت بذریعہ سنگساری کو اس سزا کے حامی افراد کے فلسفہ سے دیکھتے ہیں۔
جتنی بھی روایات سزائے رجم کی موجود ہیں ان کا ثبوت قرآن حکیم میں نہیں‌ملتا اس لئے بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ نور کی آیات نازل ہوجانے کے بعد کیا یہ سزا برقرار رہی؟ کوئی شہادت یا کوئی گواہی اس بات کی ملتی ہے کہ سورۃ‌ نور کی آیات کے بعد بھی رسول اکرم نے یہ سزا جاری رکھی؟ کود کتب روایات میں ایسی روایات موجود ہیں جن کے مطابق لوگوں‌کو یہ بھی یاد نہیں کہ آیا کہ سورۃ النور کے نزول کے بعد موت بذریعہ سنگساری جاری رہی۔

جو لوگ موت بذریعہ رجم کی سزا کے قائل ہیں وہ سورۃ النور کی آیات کے بعد اس پرانے حکم کو منسوخ‌کیوں‌نہیں‌سمجھتے ؟

کیا زنا کے مجرمان کو موت کی سزا دی جائے؟ اس کا جواب ہم کو سورۃ النور میں‌ہی ملتا ہے۔
24:3 [arabic]الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ[/arabic]
زانی مرد نہ نکاح کرے مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نہ نکاح کرے مگر زانی مرد یا مشرک۔ اور حرام کردیا گیا ہے ان سے نکاح کرنا اہلِ ایمان پر۔

اگر زنا کی سزا موت ہوتی تو پھر ایک مرجانے والا کس طور نکاح‌کرسکتا ہے؟ اس کی تاویل یہ پیش کی گئی کہ جناب کوڑے کی سزا صرف غیر شادی شدہ کے لئے ہے۔

آئیے اس کو ایک اور نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا اس جرم میں موت کی سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
میرا مختصر جواب یہ ہوگا کہ یقیناًَ ۔ یہ مجرم کے جرم پر منحصر ہوگا نہ کہ اس کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے پر۔
اگر ایک شخص پلان کرکے کسی عورت کی بے حرمتی کرتا ہے تو اس صورت میں وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے ارتداد کا مجرم ہوا۔ یہ ایک مکمل طور پر مختلف صورت حال ہوگی۔ اس صورت میں یہ مجرم موت کی سزا کا حق دار بنتا ہے۔

میں ا س بحث کو یہاں‌ختم کررہا ہوں اس لئے کہ معلومات کا تبادلہ ہرطرف سے مکمل ہوچکا ہے۔

والسلام

کیا آپ کسی مدرسے سے پڑھے ہوئے ہیں۔ یا کسی عالم کی صحبت میں رہے ہیں۔
نیز آپ سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا تھا ابھی تک منتظر ہوں۔
 

سویدا

محفلین
فاروق صاحب سے ایک سوال میرا بھی ہے کہ پانچ نمازوں‌کے اوقات ان کی فرض‌رکعتوں‌کی تعداد
اور نماز کے مکمل طریقے کو بھی قرآن سے ثابت کرکے بتادیں!
اسی طرح‌زکوۃ کا نصاب اور زکوۃ‌کس پر فرض ہے کس پر نہیں‌یہ بھی قرآن سے ثابت کرکے بتادیں
 
اصل پيغام ارسال کردہ از: Dxbgraphix
فاروق صاحب
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔تفصیلا بتانا پسند فرمائیں گے۔

بھائی آپ جس روایت کو بھی قرآن حکیم کی رو سے رسول اللہ کی سنت ثابت کردیں گے وہ انشاء اللہ تعالی ہم سب کو (مجھ سمیت)‌قابل قبول ہوگی۔ اور یہی سنت رسول ہماے لئے احسن طریقہ کار ہوگا۔ ؟

قرآن حکیم پر ہم سب کا ایمان ہے۔ اس کے لئے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟

لیکن کیا خلاف قرآن روایات کو بھی ہم سنت رسول مان لیں؟ کیوں؟؟؟ کسی رسول نے سارے احکامات اللہ تعالی کی طرف سے ہی جاری کئے ہیں۔

والسلام
 
فاروق صاحب سے ایک سوال میرا بھی ہے کہ پانچ نمازوں‌کے اوقات ان کی فرض‌رکعتوں‌کی تعداد
اور نماز کے مکمل طریقے کو بھی قرآن سے ثابت کرکے بتادیں!
اسی طرح‌زکوۃ کا نصاب اور زکوۃ‌کس پر فرض ہے کس پر نہیں‌یہ بھی قرآن سے ثابت کرکے بتادیں

سوایدا، شکریہ،

کیا نماز کا حکم خلاف قرآن ہے ؟ کیا زکوۃ‌کا حکم خلاف قرآن ہے؟ اگر اس کی تفصیل رسول اکرم کی سنت رسول میں‌ملتی ہے تو یہ سنت رسول عین مطابق و موافق القرآن ہے۔ درست؟

لیکن زندہ رکھنا ، مار دینے کے موافق و مطابق نہیں۔ قرآن حکیم قتل کردینے کا حکم نہیں دے رہا بلکہ زانی کو شادی تک کی اجازت دے رہا ہے زانی اور مشرک سے۔ جو کہ زندہ رکھنا ہے جبکہ پتھر مار مار کر قتل کردینا ، زندہ رکھنے کے برعکس ہے ، ایسے قتل کا حکم قرآن حکیم میں موجود نہیں۔ لیکن توراۃ‌ کی تحریف شدہ کتب میں موجود ہے۔


سورۃ النور کی آیات صاف صاف زانی اور زانیہ کو 100 ، 100 کوڑے لگانے کا حکم دیتی ہیں۔ اتفاق سے یہ آیات جن صاحب اور جن خاتون مکرم پر بہتان عظیم کے بعد نازل ہوئی تھیں ان میں‌سے ایک ام المومنین یقینی طور پر شادی شدہ تھیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ بہتان عظیم درست ہوجاتا اور چار گواہ موجود ہوتے تو کیا ان مکرم خاتون اور ان صحابی (ر) کو رجم کیا جاتا یا پھر کوڑے لگائے جائے ؟؟؟ اللہ تعالی کا حکم کیا تھا؟

پھر ان آیات کے بعد کیا رسول اللہ نے یہ سزا دی؟ کیا یہ آیات ---- تحریف شدہ تورارت --- کی آیات کی تنسیخ‌نہیں‌کرتی ہیں؟

اس ناسخ و تنسیخ کے فلسفہ کو کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟ جب کہ یہ روایت بھی پائی جاتی ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اکرم نے رضم کی سزا کسی کو دی ہو۔

درد مندی سے سوچنے کی بات ہے۔

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
بھائی آپ جس روایت کو بھی قرآن حکیم کی رو سے رسول اللہ کی سنت ثابت کردیں گے وہ انشاء اللہ تعالی ہم سب کو (مجھ سمیت)‌قابل قبول ہوگی۔ اور یہی سنت رسول ہماے لئے احسن طریقہ کار ہوگا۔ ؟

قرآن حکیم پر ہم سب کا ایمان ہے۔ اس کے لئے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟

لیکن کیا خلاف قرآن روایات کو بھی ہم سنت رسول مان لیں؟ کیوں؟؟؟ کسی رسول نے سارے احکامات اللہ تعالی کی طرف سے ہی جاری کئے ہیں۔

والسلام

آپ ہی کے اس مراسلے میں ان کتابوں یعنی حدیث کی کتابوں کے بارے میں بہت کچھ پڑہا ہے۔ لہذا آئیں بائیں شائیں نہ کریں اور قرآن کیا کہتا ہے اس بارے میں بتا دیں۔

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ کا جواب بھی ابھی تک نہیں دیا۔
نماز کس طرح پڑھی جائے اس بارے میں قرآن کیا کہتاہے یہ بھی جاننا چاہوں گا۔

کتب روایات پر تو آپ الزام لگا چکے ۔
لیکن آپ کی صورت حال بہت ہی خراب ہے۔ آپ خلاف قرآن روایات پر نہ تو ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی ثبوت یا دلیل ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت یا ڈلیل یعنی اصٌ کتاب موجود نہیں تو پھر آپ کا مقام مزید خراب ہورہا ہے کہ آپ ایسی کتب پر ایمان رکھتے ہیں جو خلاف قرآن روایات سے بھرپور ہیں۔
 
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ کا جواب بھی ابھی تک نہیں دیا۔
کیا رسول اللہ کی سنت میں آپ کو بہترین طور و طریقہ ملے گا؟؟
1۔ اگر ایک حکم قرآن حکیم سے ملتا ہے تو وہ مسلمان کے لئے قابل قبول۔
2۔ اگر سنت رسول کے بارے میں ایک حکم کسی روایت سے ملتا ہے، جو قراں کے عین مطابق و موافق ہے تو مسلمان کے لئے قابل قبول۔ (دوسری احادیث کی شرائط پوری ہونے پر)
ان دو مندرجہ بالاء صورتوں میں --- لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ --- کے بارے میں‌کوئی سوال نہیں کرتا۔
3۔ اگر ایک حکم خلاف قرآن ہے تو یہ روایت سنت رسول ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ امر بذات خود --- لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ --- ہے۔


نماز کس طرح پڑھی جائے اس بارے میں قرآن کیا کہتاہے یہ بھی جاننا چاہوں گا۔
نماز کے احکامات قرآن حکیم میں بہت ہی صراحت کے ساتھ نازل ہوئے۔ اللہ تعالی نے رسول اکرم کو نماز کی تعلیم دی،
آپ نماز کے لئے جتنی بھی اھادیث نبوی پائیں گے وہ انہی اضکامات قرآنی پر مشتمل ہیں۔ رسول اللہ کی فراہم کردہ یہ بنیادی تعلیم قرآن حکیم اور کتب روایات کی مستند احادیث میں موجود ہیں ۔۔۔ یہ روایات، قرآن کے موافق و مطابق ہیں۔ اس کے علاوہ نماز ایک سنت جاریہ بھی ہے کہ اس کو آپ کم از کم مسجد الحرام اور مسجد النبوی میں بھی سیکھ سکتے ہیں۔

نماز کے قرآنی احکامات کے لئے اس کے لئے آپ اسی محفل میں میرا یہ آرٹیکل دیکھئے

آپ اپنے ذہن سے یہ نکال دیجئے کہ میں احادیث نبوی کا منکر۔
یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ایک روایت چاہے کسی کتاب میں موجود ہو، اگر خلاف قرآن ہے تو یہ روایت رسول اکرم کے فرمان کے مطابق رد کئے جانے کے قابل ہے۔

کیا جناب کی نظر سے رسول اکرم کی وہ احادیث گذری ہیں جن میں رسول اکرم نے ان روایات کو رد کرنے کے لئے فرمایا ہے جو قران کے موافق نہ ہو۔ اگر نہیں تو فرمائیے تاکہ میں فراہم کوسکوں۔


کتب روایات پر تو آپ الزام لگا چکے ۔
توبہ کیجئے جو ایسا کیا ہو۔ کتب روایات میں‌ شامل صرف خلاف قرآن روایات کو فرمان نبوی کے مطابق رد کئے جانے کے قابل سمجھتا ہوں۔

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
کہ آپ ایسی کتب پر ایمان رکھتے ہیں جو خلاف قرآن روایات سے بھرپور ہیں۔
اگر آپ منکر نہیں ہیں تو پھر آپ کی گفتگو سے تو مجھ جیسا کند ذہن یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ کتب قابل اعتبار نہیں۔اگر کسی حدیث پر اعتراض کرتے تو کوئی بات تھی آپ نے تو پوری کتب کو ناقابل اعتبار بنا دیا۔
 

سویدا

محفلین
احادیث میں‌جورجم کا ذکر آیا ہے وہ کیسے قرآنی حکم کے خلاف ہوگیا
آپ نے کہا ہے کہ وہ قرآنی حکم کے خلاف ہے
شادی شدہ اگر زنا کرے تو اس کی کیا سزا ہے از راہ کرم قرآن ہی سے ثابت کردیں‌تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ حدیث کا حکم قرآن کے خلاف ہے
حدیث میں‌رجم کا حکم ‌قرآن کے خلاف اس وقت ثابت ہوگا جب قرآن میں‌شادی شدہ زانی کی سزا کا ذکر ہو
پھر یہ کہا جائے گا کہ ہاں حدیث میں‌جو رجم کا ذکر ہے یہ قرآن کے خلاف ہے
 

سویدا

محفلین
احادیث میں‌جورجم کا ذکر آیا ہے وہ کیسے قرآنی حکم کے خلاف ہوگیا
آپ نے کہا ہے کہ وہ قرآنی حکم کے خلاف ہے
شادی شدہ اگر زنا کرے تو اس کی کیا سزا ہے از راہ کرم قرآن ہی سے ثابت کردیں‌تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ حدیث کا حکم قرآن کے خلاف ہے
حدیث میں‌رجم کا حکم ‌قرآن کے خلاف اس وقت ثابت ہوگا جب قرآن میں‌شادی شدہ زانی کی سزا کا ذکر ہو
پھر یہ کہا جائے گا کہ ہاں حدیث میں‌جو رجم کا ذکر ہے یہ قرآن کے خلاف ہے

فاروق صاحب ! آپ کے جواب کا منتظر ہوں
شاید آپ کسی روشن خیال محقق اور مجتہد کی اردو کتابوں‌میں‌اس سوال کے جواب کو تلاش کررہے ہیں‌
کوشش جاری رکھیں جیسے ہی مل جائے آگاہ فرمادیجیے گا
 
میرا خیال تھا کہ آپ کو اس سوال کا جواب یہں موجود معلومات سے مل چکا ہوگا۔

غیر قرآنی سزا (‌غور کیجئے ابھی اس کو خلاف قرآن سزا نہیں لکھا) میں دو عدد نکتہ اہم ہیں۔ ایک زنا کی سزا موت اور دوسرا شادی شدہ کی سزا موت بذریعہ سنگساری۔

جبکہ قرآنی سزا ہے چار گواہوں کی کواہی کے بعد زانی اور زانیہ کو 100 ، 100 درے ۔ ( زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ -- جب تک صرف غیر شادی شدہ ثابت نہ ہوجائے، یہ آیت شادی شدی اور غیر شادی شدہ کی الگ الگ سزا بیان نہیں کرتی ہے)

حدیث سے ثبوت:
آپ فرماتے ہیں کہ حدیث نبوی میں یہ سزا آئی ہے۔ جبکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں کہ ان آیت ربانی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلعم نے یہ سزا جاری کی یا نہیں۔

آیات ربانی سے ثبوت: اہم حصوں کو سرخ کردیا گیا ہے ۔ استدعا ہے کہ سرخ شدہ حصوں پر غور کیجئے 24:1 یہ ایک اہم سورت ہے جسے نازل کیا ہے ہم نے اور اس (کے احکام) کو فرض کیا ہے ہم نے اور نازل کیے ہیں ہم نے اس میں واضح احکام تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

زانی اور زانیہ کی سزا ( شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی تخصیص نہیں)
[ayah]24:2[/ayah] زانی عورت اور زانی مرد، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے، سو سو کوڑے اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا۔

زانی یا زانیہ کے زندہ رہنے کا ثبوت کہ وہ شادی کرسکتے ہیں ( شادی شدہ مرد یا غیر شادی شدہ مرد و عورت کی تخصیص نہیں)
[ayah]24:3[/ayah] زانی مرد نہ نکاح کرے مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نہ نکاح کرے مگر زانی مرد یا مشرک۔ اور حرام کردیا گیا ہے ان سے نکاح کرنا اہلِ ایمان پر۔

تہمت لگانے والا چار گواہ بھی لائے
[ayah]24:4[/ayah] اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر پھر نہ لاسکیں وہ چار گواہ تو کوڑے مارو اُنہیں اسی کوڑے اور نہ قبول کرو اُن کی گواہی کبھی بھی اور یہی لوگ ہیں فاسق۔
[ayah]24:5[/ayah] مگر وہ جو توبہ کرلیں اس کے بعد اور اصلاح کرلیں تو بے شک اللہ ہے معاف فرمانے والا، رحم کرنے والا۔

شادی شدی جب الزام لگائے اپنی بیوی پر تو کب --- یہ سو کوڑوں کی سزا -- ٹل جائے گی؟؟؟
[ayah]24:6[/ayah] اور وہ لوگ جو الزام لگائیں اپنی بیویوں پر اور نہ ہو اُن کے پاس گواہ سوائے اپنی ذات کے تو گواہی ان میں سے ہر ایک کی (یہ ہے) کہ چار مرتبہ شہادت دے اللہ کی قسم کھاکر کہ بے شک وہ (اپنے الزام میں) سچّا ہے۔
[ayah]24:7[/ayah] اور پانچویں بار کہے کہ لعنت اللہ کی اس پر اگر ہو وہ جھُوٹا۔
[ayah]24:8[/ayah] اور ٹل جائے گی اس عورت سے یہ سزا اس طرح کہ گواہی دے وہ چار شہادتیں اللہ کی قسم کھاکر کہ بے شک وہ جھُوٹا ہے۔
[ayah]24:9[/ayah] اور پانچویں بار کہے کہ اللہ کا غضب ہو اس عورت پر اگر ہو وہ مرد سچّا۔

[ayah]24:10 [/ayah]اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت اور یہ کہ اللہ ہے بہت توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا (تو تم بڑی مصیبت میں پڑجاتے)۔
[ayah]24:11 [/ayah]بلاشُبہ وہ لوگ جو گھڑکر لائے ہیں بہتان، ایک جتھا ہیں تم میں سے، مت سمجھو تم اس واقعے کو شر اپنے لیے۔ بلکہ وہ خیر ہے تمہارے لیے۔ ہر ایک شخص کے لیے ہے ان میں سے اتنی (سزا) جتنا کمایا اُس نے گناہ اور وہ جس نے ذمّہ داری اُٹھائی تہمت کے بڑے حصّے کی اُن میں سے، اس کے لیے ہے عذاب عظیم۔

یہ الزام ایک شادی شدہ عورت پر لگایا گیا تھا۔
[ayah]24:12[/ayah] کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب سُنا تھا تم نے اس الزام کو تو گمان کرتے مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے آپ ہی نیک گمان اور کہتے یہ تو ہے بُہتان، کُھلا۔
[ayah]24:13 [/ayah]کیوں نہ لائے یہ اس الزام پر چار گواہ۔ پھر جبکہ نہیں لاسکے وہ گواہ تو یہ لوگ اللہ کے نزدیک خود ہی جُھوٹے ٹھہرے۔
[ayah]24:14[/ayah] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو آ لیتا تم کو اس (الزام) کی وجہ سے جو پھیلا رہے تھے تم، کوئی بڑا عذاب۔
[ayah]24:15[/ayah] جب تم اسے لے رہے تھے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں پر اور کہہ رہے تھے اپنے مونہوں سے ایسی بات کہ نہیں تھا تمیں اس کے بارے میں کوئی علم اور سمجھ رہے تھے تم اُسے ایک معمولی بات، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔
[ayah]24:16[/ayah] اور کیوں نہ جب تم نے سُنا اُسے توکہا نہیں زیب دیتا ہمیں یہ کہ کہیں ہم ایسی بات، سُبحان اللہ یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔
[ayah]24:17[/ayah] نصیحت کرتا ہے تم کو اللہ کہ (نہ) دہرانا تم ایسی کوئی حرکت کبھی بھی اگر ہو تم مومن۔
[ayah]24:18[/ayah] اور کھول کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تمہارے لیے اپنے احکام۔ اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
[ayah]24:19[/ayah] بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان والے ہیں ان کے لیے ہے درد ناک عذاب دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
[ayah]24:20[/ayah] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت اور یہ بات کہ اللہ بہت شفیق اور مہربان ہے (تو تم تباہ ہوجاتے)۔

آپ کی آسانی کے لئے آیات کے لنک فراہم کردئے ہیں۔ عربی متن آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ صرف معانی متن کی روانی کے لئے یہاں لکھے ہیں۔
سو کوڑوں کی اس سزا کے فوراً بعد آپ کو شادی شدہ جوڑے کے الزام ، اس کی گواہی اور اس سے بچنے کا طریقہ نظر آتا ہے۔ لیکن آپ کو شادی شدی جوڑے کے لئے کوئی اضافی یا مختلف سزا نہیں ملتی۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ معلومات بھی ملتی ہے کہ زانی شادی بھی زانیہ سے ہی کرے۔ تو بھائی اس کو اگر ایک شادی شدہ کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کرکے مار دیا جائے تو پھر یہ ایک نئی شادی کیسے کرے گا۔ جو کہ بیوی کے چھوڑ جانے، گذر جانے یا طلاق دئے جانے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

سزائے موت جن صورتوں‌میں دی جاسکتی ہے ، قرآن حکیم اس کی نہایت صراحت سے وضاحت کرتا ہے ۔ زنا کی صورت میں 100 درے کم نہیں ہیں۔ البتہ پلان کرکے پیچھا کرکے زنا بالجبر کی صورت، صرف زنا ہی نہیں بلکہ ایک بہیمانہ جرم ہے جو کہ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت ہے۔ یہ کام شادی شدہ کرے یا غیر شادی شدہ۔ اس صورت میں موت کی سزا اللہ تعالی کا حکم برحق ہے۔

سزا کو کسی کے شادی شدہ ہونے یا غیر شادی شدہ ہونے سے منسوب کرنا اور اس سے سزا کو گھٹانا یا بڑھانا قرآن کی کس آیت سے ثابت ہے؟ کچھ روشنی ڈالئے۔

والسلام
 
ایک لفظ ’’غیرقرآنی‘‘ یعنی جو قرآن کے مطابق نہیں؟ یا قرآن میں مذکور نہیں؟
دوسرا لفظ ’’خلافِ قرآن‘‘ یعنی جو قرآن میں مذکور ہے اس کے خلاف کرنا؟
ان دونوں کی توضیح کر دیجئے!۔
 

عثمان

محفلین
میری رائے تو اس معاملے میں یہی ہے کہ وہ قوانین جو قرآن میں دیے گئے ہیں وہ تو لافانی ہیں۔ باقی تمام معاملات میں وقت اور مقام کے مطابق قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
رجم کی سزا چونکہ قرآن میں موجود نہیں لہزا زمان و مکان کے مطابق ہر قوم قانون سازی کرسکتی ہے۔ بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بنایا گیا قانون کسی طور قرآان سے متصادم نہ ہو۔
 
Top