سزائے رجم، پتھر مار کر ہلاک کرنے کی حقیقت

اگر یہ قرآن حکیم کی معلومات کا تبادلہ اور پر خلوص تعلیم مقصود ہے تو بندہ حاضر ہے۔ اور اگر یہ نامعقولیت، انا پرستی کا مظاہرہ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے تو میں بہت معذور ہوں۔ صرف سلام کرکے دور ہوجانا پسند کروں گا۔

اپنے خلوص کے اظہار کے لئے برادران صاف اور بہتر طور پر وہ اصول سامنے لائیں جو قرآن کے خلاف نظریات کو قبول کرنے کی تلقین کرتا ہو، معقول وجوہات کے ساتھ۔


والسلام
 
صاحبو و احبابو سلام علیکم

چونکہ میری قرآن فہمی پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ میں دیگر احباب و اصحاب کی قرآن فہمی سے مدد لوں۔ آپ حضرات خود درج ذیل تحریر دیکھئے۔ میں نے یہاں کتب روایت سے روایت شدہ سزا کا متن اور قرآن حکیم کی آیت سے سزا کا متن لکھا ہے۔ اور اس پر اپنا کوئی بیان نہیں‌دیا ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ ان میں سے کونسی سزا درست ہے؟
اگر ہم اس روایت میں فراہم کی ہوئی سزا کو مان لیں تو فرمان الہی ، قرآن حکیم جو رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا، اس قرآن حکیم کی کچھ آیات کے پڑھنے سے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

روایت میں دی ہوئی سزا کو ماننے سے جو سوالات قرآن حکیم کی آیات کی وجہ سے اٹھتے ہیں ، میں نے صرف ان آیات اور ان آیات کی وجہ سے جو سوالات سامنے آتے ہیں ان کو درج کردیا ہے بناء‌کسی تبصرے کے۔ ہمارے احباب و اصحاب سے استدعا ہے کہ ان سوالات کے جوابات خلوص سے عنایت فرمادیجئے۔ تاکہ سب کے کام آئیں۔


روایات کے مطابق زنا کی سزا: رجم یعنی پتھر مار مار کر قتل کردینا۔
"چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ (صلعم) کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔
"


جبکہ قرآن کے مطابق زنا کی سزا دیکھئے سو درے لیکن موت نہیں
قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
[ayah]24:2[/ayah] [arabic]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِين[/arabic]
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر اس میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا پر مسلمانوں کی (ایک) جماعت موجود ہو

ہم فرضی طور پر روایت میں دئے ہوئے بیان کو مان لیتے ہیں‌ اور سوالات کرتے ہیں :

یہ آٰیت کیسے کھو گئی جب کہ اللہ تعالی اس کتاب کی حفاظت فرمارہے ہیں -- نعوذ باللہ ؟؟؟
[ayah]15:9[/ayah] [arabic]إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [/arabic]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے


کیا اللہ تعالی رسول اللہ کو پتھر مار مار کر قتل کرنے کی ہدایت دے کر بھول گئے -- نعوذ باللہ ؟؟؟
[ayah]20:52[/ayah] [arabic]قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى [/arabic]
فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں (محفوظ) ہے، نہ میرا رب بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے

اللہ تعالی کس کس گناہ کی صورت میں انسان کے قتل کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اللہ تعالی کا فرمان درست ہے یا بنی اسرائیل کا؟

[ayah]5:32[/ayah] [arabic]مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ[/arabic]
اسی وجہ سے فرض کردیا ہم نے نبی اسرائیل پر کہ جس نے قتل کیا کسی انسان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا فساد مچایا ہو زمین میں تو گویا اس نے قتل کر ڈالا سب انسانوں کو اور جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو تو گویا اس نے زندہ کیا سب انسانوں کو۔ اور بے شک آچُکے ہیں اُن کے پاس ہمارے رسول واضح احکام لے کر پھر بھی یقیناً بہت سے لوگ ان میں سے اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرتے رہے۔

سوالات:
کیا اللہ تعالی بھول گئے کہ انہوں نے صرف قتل اور زمین میں فساد کی سزا کی صورت میں قتل کی اجازت دی تھی؟ نعوذ باللہ
کیا یہ قانون نیا ہے؟ یا پھر یہی قانون تورات میں‌ بھی تھا؟
کیا بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا قانون دیا تھا اور پھر ہمارا رب بھول گیا؟؟؟؟‌ نعوذ باللہ۔
اگر اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو بھی قتل کی اجازت صرف انسان کے قتل اور زمین کے فساد کی شکل میں دی تھی تو پھر اسرائیلیوں میں زنا کی سزا قتل کہاں سے آئی؟

اگر ایسی سزا کے حکم کا اللہ تعالی کی طرف سے بنی اسرائیل کی کتب میں بھی وجود نہیں تھا تو پھر اسرائییوں نے یہ سزا کیا خود سے ایجاد کی؟


اگر ایک شخص اللہ کے حکم کا انکار کردے تو کیا نافرمانی نہیں‌ ہے؟ کیا سو درے کی سزا کو انسان کے قتل سے بدلنا اللہ کی آیات کا انکار یعنی نافرمانی نہیں ہے؟
[ayah]2:99 [/ayah][arabic]وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ[/arabic]
اور بیشک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (آیات) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا


اگر کسی نے نہ قتل کیا اور نہ ہی زمین میں فساد کیا تو کیا اس کا قتل کردینا سنگ دلی نہیں ہے؟ کیا سنگدلی کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے؟
[ayah]2:74[/ayah] [arabic]ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ[/arabic]
پھر سخت ہوگئے تمہارے دل، ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی، گویا کہ وہ پتّھر ہیں یا زیادہ سخت (پتّھر سے بھی) اور بیشک پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں کہ پھوٹ بہتی ہیں جن میں سے نہریں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور نکلتا ہے ان میں سے پانی۔ اور ان میں تو ایسے بھی ہیں جو گرپڑتے ہیں اللہ کے خوف سے۔ اور نہیں ہے اللہ بے خبر اس سے جو تم کرتے ہو۔


امید ہے کہ اس روایت کی سزا کو مان لینے کے بعد قرآن حکیم کی آیات سے جو سوالات سامنے آتے ہیں ان کے جوابات ہمارے احباب و اصحاب بہتر طور پر فراہم کرکے ہم سب کی ہدایت کا باعث‌بنیں‌ گے۔۔۔۔۔۔

بغور دیکھئے ۔۔۔۔ میں نے صرف سوالات پوچھے ہیں۔ وہ بھی متاثرہ آیات کی وجہ سے۔۔۔۔ کوئی بیان نہیں‌دیا ۔۔۔ کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کوئی قرآن فہمی نہیں سامنے لایا ہوں۔۔

اب آخری سوال:
کیا ہم اس ایک روایت کو مان کر قرآن حکیم کی ان تمام آیات کو منسوخ کردیں ، ان سے انکار کردیں جو یہاں‌متاثر نظر آرہی ہیں؟

والسلام
 

دوست

محفلین
جناب من میرے جیسا جاہل مطلق بھی جانتا ہے کہ زنا کی سزا کے مختلف درجے مقرر کیے گئے ہیں اور قتل کردینا ان میں سے آخری ہے۔ اگر میں غلط ہوں‌ تو احباب تصحیح فرما دیں۔
 

arifkarim

معطل
جناب من میرے جیسا جاہل مطلق بھی جانتا ہے کہ زنا کی سزا کے مختلف درجے مقرر کیے گئے ہیں اور قتل کردینا ان میں سے آخری ہے۔ اگر میں غلط ہوں‌ تو احباب تصحیح فرما دیں۔

بے شک ، مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب سزا کا اسٹارٹ ہی دی اینڈ سے کیاجائے! :)
 

طالوت

محفلین
میرا خیال ہے کہ موضوع "سزائے رجم" نہیں فاروق سرور خان ہو چکا ہے ۔
مجھے حٰیرت ہے کہ جو احباب فاروق سرور خان کے لئے یہ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فہم قران کو لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فہم قران بھی دراصل ان کے مسلک کے مطابق ہی سامنے آتا ہے ۔ سوال اپنے فہم قران کا نہیں سوال فہم قران کا ہے ۔ اگر تو مسئلہ قرانی عربی سے غلط ترجمے کا ہو تو اسے اپنا فہم قران کہا جا سکتا ہے کہ جناب غلط ترجمہ پیش کر کے اپنا فہم قران پیش کیا جا رہا وگرنہ یہ سراسر الزام ہے کہ کوئی ایک فرد "اپنا" فہم قران دوسروں پر مسلط کرتا ہے ۔ یہ تو سب پر لازم آئے گا ۔
وسلام
 
دوست سلام،

بہت شکریہ اس طرف توجہ دلانے کا۔ سب سے پہلی بات کہ آپ جاہل مطلق نہیں‌ہیں بھائی۔ ماشاء اللہ آپ کے علم کا ثبوت میں دیکھ چکا ہوں۔ آپ کی علمیت کو سلام کرتا ہوں۔

والسلام۔

احبابو اور صاحبو، سلام
اب تک کے سوالات کا مقصد تھا کہ کوئی صاحب مدد فرمادیں کہ
کہ کیا اللہ تعالی کی کتاب سے ہم کو یہ ثبوت ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے کبھی بھی کسی سابقہ کتاب، توریت میں یا جدید ترین کتاب قرآن میں زنا کی سزا موت بذریعہ سنگساری کا فرمان جاری کیا تھا؟

اب ہم دو قسم کے سوالات قرآن کی آیات کی روشنی میں مزید کریں گے۔ طریقہ وہی ہے ، بیان کوئی نہیں ، صرف سوالات:
1۔ کیا قرآن کی روشنی میں کوئی وجہ ایسی ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، نے زنا کی سزا موت بذریعہ سنگساری جاری کی ہو؟؟؟؟
2۔ کیا قرآن کی روشنی میں کوئی وجہ ایسی ملتی ہے کہ اسلام کے علماء دین ( ر) ، نے زنا کی سزا موت بذریعہ سنگساری جاری کی ہو؟؟؟؟

اس مراسلے میں نکتہ نمبر ایک سے متعلق قرآن کی آیات اور ان آیات کی وجہ سے سامنے آنے والے سوالات: امید ہے احباب و اصحاب ان سوالات کے جوابات دے کر تمام مسلمانوں کو مستفید فرمائیں گے۔

اگر خدا تعالی کی طرف سے تورات میں یا قرآن میں زنا کی سزا موت بذریعہ سنگساری نہیں ملتی تو کیا رسول اکرم نے یہ سزا بناء‌وحی کے اپنی طرف سے ایجاد کی؟ نعوذ باللہ
[ayah]53:2[/ayah] [arabic]مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى[/arabic] [ayah]53:3[/ayah] [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic] [ayah]53:4[/ayah] [arabic] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[/arabic]
تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے --- اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے --- اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے

نعوذ باللہ، کیا رسول اکرم نے وہ وحی چھپا لی جو زنا کی سزا موت بذریعہ سنگساری تھی؟ اور اس چھپی ہوئی وحی کو استعمال کرتے ہوئے یہ سزا دی؟؟؟‌
[ayah]3:161 [/ayah][arabic]وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ [/arabic]
اور کسی نبی کی نسبت یہ گمان ہی ممکن نہیں کہ وہ کچھ چھپائے گا، اور جو کوئی (کسی کا حق) چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے وہ لانا پڑے گا جو اس نے چھپایا تھا، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے

نعوذ‌ باللہ، کیا رسول اللہ نے اللہ کے حکم کے بغیر بناء‌وحی یہ سزا جاری کردی؟
[ayah]6:15 [/ayah][arabic]قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [/arabic]
فرما دیجئے کہ بیشک میں (تو) بڑے عذاب کے دن سے ڈرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں

نعوذ باللہ ، کیا رسول اکرم پر جو نازل کیا گیا تھا، اس کے علاوہ بھی کسی اور پیغام کی پیروی کرتے تھے؟
[ayah]7:3[/ayah] [arabic]اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ[/arabic]
چلو اسی پر جو اترا تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ چلو اسکے سوا اور رفیقوں کے پیچھے، (‌کیا) تم کم دھیان کرتے ہو(؟)


نعوذ باللہ ، کیا نبی اکرم فقط جو ان پر نازل کیا گیا اس کی پیروی کرتے تھے؟؟؟؟ یا پھر اللہ تعالی کے احکامات کو بدل دیتے تھے؟؟؟‌
[ayah]10:15 [/ayah][arabic]وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَ۔ذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [/arabic]
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے، (اے نبیِ مکرّم!) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں

نعوذ باللہ ، کیا رسول اکرم سنگ دل تھے کہ جہاں جان سے مارنے کی سزا کا اللہ تعالی کی طرف سے کوئی ثبوت نہ ہو ، وہاں جان سے ماردینے کا حکم دیتے تھے؟؟
[ayah]9:128[/ayah] لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں


صاحبو و احبابو۔
رسول اللہ صلعم کی طرف سے ایسی سزا جاری کئے جانے پر قرآن کی آیات سے نئے سوالات سامنے آتے ہیں۔ امید ہے آپ ان سوالات کا جواب عطا فرمائیں گے۔ تاکہ سب مسلمانوں کی قرآن فہمی میں اضافہ ہو ۔



آئندہ مراسلہ میں کہ آیا کہ یہ سزا علماء اسلام نے جاری کی تھی؟ قرآن حکیم کی آیات سے سامنے آنے والے سوالات۔

اور اس سے آئندہ مراسلہ میں کہ --- یہ سزا کس نے جاری کی تھی ---- ڈاکومینٹری ثبوت کے ساتھ ۔۔۔۔ اور اللہ تعالی نے اس قسم کے احکامات کے بارے میں فقط قرآن حکیم میں کیا فرمایا ہے۔

والسلام
 
عادل سہیل صاحب ،

یہ دھاگہ سزائے رجم کے بارے میں ہے۔ اس سزا کو ثابت کرنے یا نہ ثابت کرنے کے لئے لوگ اپنے اصول و شرائط رکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک اصول اہم ہیں اور آپ کے نزدیک اصول کی طرف توجہ دلانے والے۔

اس وقت یہاں یہ اصول زیر بحث ہے کہ کسی روایت کا درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ چھ میں سے ایک کتاب میں پائی جائے، یعنی بزرگوں کی پیروی کی جائے یا پھر یہ دیکھا جائے کہ ایک روایت قرآن کی آیات کے خلاف ہے۔

میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی روایت قرآن کے موافق ہے تو وہ قابل قبول ہے۔

جبکہ آپ کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ یہ روایت -- ان چھ کتب میں سے ایک میں پائی جاتی ہے -- جن پر آپ کا قرآن کے علاوہ ایمان ہے --- لہذا یہ روایت درست ہے۔

اگر آپ کا یہ مؤقف نہیں تو پھر یا تو آپ ان کتب سے جن پر مسلمان کا ایمان ہے ثبوت پیش کیجئے کہ پتھر مار مار کر ہلاک کردینے کی سزا درست ہے۔ یا پھر جن کتب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کی درستگی کا ثبوت فراہم کیجئے۔

اب تک آپ نے صرف اور صرف یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ یہ کتب بزرگوں (‌باپ دادوں‌)‌ نے پیش کیں ہیں۔ اور بس۔

جبکہ اللہ تعالی صاف صاف یہ فرماتے ہیں کہ

5:104 وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلاَ يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (قرآن) کی طرف جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے اور رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں: ہمیں وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ (دین کا) علم رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں
السلام علی من یتبع الھدیٰ
فاروق سرور صاحب ،
آپ کے مزعوم اصول کو جاننے کے لیے ہی میں بیسیوں دفعہ گذارشا پوچھ چکا ہوں کہ :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق صاحب کے تمام تر اعتراضات کی بنیاد """ خلاف قران روایات """ نامی ایک فلسفہ ہے ، اس کے بارے میں میں فاروق صاحب سے بہت دفعہ گذارش کر چکا ہوں کہ """"" اپنے اس """ خلاف قران """ فلسفے کی ایک ایسی تعریف بیان فرما دیجیے جس کی مخالفت آپ نہ خود نہ کی ہو اور نہ کریں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """""""
جس کی بنا پر اس قدر لمبی بحثیں ہوتی ہیں اور جس کی بنا پر ماشاء اللہ آپ اس قدر مضبوطی سے سنت مبارکہ کو رد کر دیتے ہیں ،
براہ مہربانی جواب اور واضح جواب عنایت فرمایے ،
اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ """" چونکہ آپ ہر دوسرے کے ایمان پر حکم لگاتے ہیں تو یہ تو بتایے کہ قران پاک میں آخر ایمان کس چیز کو کہا گیا ہے ؟؟؟؟؟؟ """""
جناب ، میرے اہمان پر حکم مت لگایے ، اپنے ایمان کی خبر گیری فرمایے ،
میں ایک سے زائد دفعہ آپ کو بتا چکا ہوں کہ :::
"""""" من حیث الکتاب میرا ایمان صرف اللہ کی کتاب پر ہے ، کسی بھی اور کتاب پر نہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ ہر ایک قولی فعلی اور تقریری سنت مبارکہ پر ہے """""""""""""
اور شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو گا جو اسی طرح سنت مبارکہ پر ایمان نہ رکھتا ہو ،
لہذا جب ہم میں سے کوئی بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں سے دلیل پیش کرتا تو ہم سب """ مسلمانوں """ کے ایمان کے مطابق ہوتا ہے ،
فاروق صاحب """ مسلمانوں """" کے ایمان کی فکر مت کیجیے ، آپ کو پہلے بھی اللہ کا فرمان سنا چکا ہوں کہ اللہ نے تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کسی کے ایمان کا ذمہ دار اور ممتحن نہیں بنایا تو آپ کون ہیں !!!!!!!!!!!!!!!!!!
لہذا گذارش ہے کہ آئیندہ میرے ایمان پر حکم مت لگایے گا ، اور نہ ہی """ مسلمانوں """ کے ایمان پر ،
اور انتظامیہ سے بھی گذارش ہے کہ اس قسم کی گفتگو کی طرف توجہ کی جائے جس کسی کو بھی بات کرنا ہے اپنے دلائل سامنے لائے اللہ کو جس کے لیے جیسا منظور ہو گا اس کو ویسا سمجھا دے گا ، کسی کے ایمان کے فیصلے صادر نہ کیے جائیں ،
اور اگر کوئی ایک شخص ایسا کرنے سے باز نہیں ٓآتا تو کسی دوسرے کو بھی اس کی بات کا ویسا ہی جواب دینے سے روکا نہ جائے ،

فاروق صاحب ، ہم اہل سنت والجماعت تمام کے تمام مسلک اور مذھب اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ میں سے اپنا عقیدہ اور عبادات اور احکام اخذ کرتے ہیں ، جی ہمارا اختلاف نصوص کے فہم کا اختلاف ہے ، کہیں کہیں روایات حدیث کی صحت کے حکم کی بنا پر اختلاف ہے لیکن معاذ اللہ کہیں کسی """ خلاف قران فلسفے """" کی بنا صحیح ثاب شدہ احادیث کے انکار کی بنا پر نہیں ، و للہ الحمد و المنۃ ،
ان شاء اللہ جلد ہی اس دھاگے کے موضوع کے بارے میں ، اپنے اور مسلمانوں کے ایمان کے مطابق ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں سے دلائل پیش کروں گا ،
پاک نیٹ پر ان کے بارے میں آپ کے جو اعتراضات کر چکے ہیں اگر وہ یہاں بھی کرنا چاہیں تو خوش آمدید ۔
اپنے منقولہ بالا مراسلے کے آخر میں آپ نے جو آیت مبارکہ نقل کی اس کو بصر سے نہیں بصیرت سے پڑہیے ، الحمد للہ یہ ہمارے لیے حجت ہے اور ٓپ کے اوپر حجت ہے ،
فاروق سرور صاحب ، آپ نے اب ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے باپ دادا پر بھی فتوے صادر فرمانا شروع کر دیے ، لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
جناب ہمارے باپ داد تو اللہ کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت مبارکہ کی طرف تھے و للہ الحمد و المنۃ ، الذی ارسل الینا رسولہ و شھد لہ """" و ما ینطق عن الھویٰ ، ان ہو الا وحی یوحیٰ """" ، و یعلم من یتبعہ و من ضل عن سبیل الھُدیٰ ،،،،،، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ الذی جاء بہ رسول الھُدیٰ ۔
 
معاملہ کی طرف نگاہ فرمائیے۔ کئی سوال انتظار کررہے ہیں۔ معاملہ کے بارے میں سوالات پوچھنے والے کی طرف توجہ ، چہ معانی دارد ؟؟؟؟؟
 

dxbgraphics

محفلین
فاروق سرور صاحب آپ نے ہر پوسٹ میں یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی ہے کہ جو شامل بحث اراکین ہیں وہ قرآن فہمی سے انکار کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں بلکہ آپ احادیث کو قرآن کے مقابلے خلاف قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب آپ حدیث فہمی پر یقین ہی نہیں رکھتے تو آپ کے ساتھ ایسی موضوع پر بات کرنا ہی فضول ہوگی۔ جس میں اپنا سکہ جمانے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہ ہو۔

آپ صلعم کی زندگی میں رجم ہوا ہے آپ کے لئے یہ کافی نہیں جو اس سزا کا انکار کرتے ہیں۔
یا تو جیسا کہ آپ لکھتے ہیں کہ"فاسق و فاجر" تو اسی طرح میں بھی آپ پر الزام لگا سکتا ہوں کہ رجم سے انکار کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ ازدواجی زندگی کے باوجود بھی اس فعل میں ملوث ہیں
میں آپ پر یہ بھی الزام لگا سکتا ہوں کہ فری میسنری کے آلہ کار ہوکر مسلمانوں میں رجم کی سزا کے خلاف مہم شروع کر کے ان کو زنا پر آمادہ کرنا ہے۔

نیز آپ صلعم کی زندگی میں جب رجم ہوتا تھا تو کیا اگر یہ قرآن اور اللہ کے حکم کے خلاف سزا تھی تو آپ کو اس سے منع کرنے کا روکنے کا حکم کیوں نہیں ہوا۔ کیوں کہ نبی کا ہر فعل اللہ کے حکم سے ہوتاہے۔
اس میں میں نبیل بھائی سے یہ گذارش ہی کر سکتا ہوں کہ مذہبی گفتگو کی جائے لیکن ان موضوعات پر جن پر اجماع امت ہو۔
 
بھائی آپ کے سوالات کے جوابات کوئی کیا دے، جب آپ بنیادی اصولوں سے ہی اتفاق نہیں رکھتے۔ جو خود ساختہ اصول آپ نے مقرر فرمالئیے ہیں انکی بنیاد پر تو سوالات کا ایک لاانتہاء اور لایعنی سلسلہ جاری رہنے کا قوی امکان نظر آتا ہے جس کا منطقی نتیجہ صرف اور صرف یہ نکلے گا کہ :
گلیاں ہوجان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے:)
بھائی پہلے آپ بنیادی اصولوں میں تو متفق ہو جائیں، سوالات اسکے بعد اٹھائیے گا۔ چند بنیادی اصول جن میں ہمارا آپ کا اختلاف ہے ان میں سے:
1-اھلسنت والجماعت سے آپ ناسخ و منسوخ کے معاملے پر علیحدہ ہوگئے۔
2- ہمارے نزدیک قرآن فہمی کا اولین معیار اپنی ذاتی عقل نارسا ھرگز نہیں۔اسلامی احکامات قرآن سے سمجھنے کیلئے یعنی قرآن فہمی اور تفسیر کے لئے بالترتیب معیار رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عمل انکی سنت، انکے صحابہ کرام کا عمل اور اسکے مطابق بحیثیت مجموعی امت کے سواد اعظم کا متفق ہوجانا ہے۔اپنی ذاتی عقل کے گھوڑے دوڑانے کا عمل سب سے آخر میں آتا ہے۔ جبکہ آپ اس بنیادی اصول سے متفق ہی نہیں۔ ہر معاملے میں اگر ناقص عقل کے گھوڑے ہنہناتے ہوئے آئیں اور سنت رسول اور صحابہ کے عمل، 1400 سال کے غوروفکر، علماء و فقہاء کی سب علمی تحقیقات کو بیک وقت دولتّی رسید کرکے منصب اجتہاد و تفسیر پر براجمان ہو جائیں۔ تو پھر دین کا تو اللہ ہی حافظ۔ ہر ایک کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ 72 فرقں کی بجائے کئی بلین فرقے ہوجائیں کیونکہ ہر فرد اپنی ذاتی فہم کو ہی حرف آخر سمجھنے لگے گا۔
بھائی قرآن فہمی اور خصوصی طور پراس سے اسلامی احکامات و فقہ کا استنباط، آپ ایک ویکم میں بیٹھ کر نہیں حاصل کرسکتے۔ صحابہ کرام بھی ایسا نہیں کرتے تھے جب وہ اپنی ذاتی قرآن فہمی کو رسول کے کسی عمل یا ارشاد سے متصادم دیکھتے تھے تو اس ذاتی فہم کو خیر آباد کہہ کر رسول کی سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھتے تھے۔
اب آپ خود ہی بتائیے کہ اگر کسی صحابی بذات خود دیکھ لے کہ رسول کریم نے کچھ مقدمات میں رجم کا فیصلہ صادر کیا تو پھر اس صحابی کا کیا طرز عمل ہوگا؟۔ ۔ یقیناً وہی کہ قرآن کی آیت کیjurisdiction میں رسول نے وضاحت کردی کہ اس آیت کا اطلاق زنا کے ہر معاملے میں نہیں ہے، وہ آیت غیر شادی شدہ افراد کے حق میں نازل ہوئی۔ کیونکہ شادی شدہ افراد کے لئے رسول نے رجم کا حکم نافذ فرمایا۔ اب یہ بات ایک صحابی نے نہیں بلکہ کئی اور صحابہ نے رپورٹ کی ۔ صحابہ کا فہم قرآن تو رسول کے عمل کے تابع ہے۔ وہ تو آیت کے عموم یا خصوص کا فیصلہ رسول کی سنت کی روشنی میں ہی کریں گے۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ یہ سب روایات کہیں جھوٹی تو نہیں ، تو اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ ہم اہلسنت والجماعت کا یہ اعتقاد ہے کہ 'ید اللہ علی الجماعہ' یعنی جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اور یہ کہ یہ امت کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی۔ اب حالت یہ ہے کہ اس مسئلے پر 1400 سال سے اگر سب فقہاء و محدثین متفق ہیں تو ضرور یہ بات صحابہ اور رسول سے منقول ہے کیونکہ عقل اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتی کہ وہ سب لوگ معاذاللہ اجتماعی طور پر ہی گمراہی کا شکار ہوگئے۔
لیکن عقل کو اولین رہنما ماننے والے اس اصول سے متفق نہیں۔ اسی لئے وہ اہلسنت والجماعت سے خارج ہوکر کبھی خارجی بن گئے تو کبھی معتزلی۔ خارجی لوگ بھی تو قرآن کی ایک آیت کے ذاتی فہم کو لیکر تمام جید صحابہ کو بھی گمراہ کہنے لگے تھے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ انکی اپروچ اور آپکی اپروچ میں کیا فرق ہے۔:)
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی ٹو کول،

صرف اہم نکات کے جوابات حاضر ہیں۔ آپ کے ذاتی نوعیت کے تبصرات - ردی کی نذر۔ اس لئے کہ میری کردار کشی سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ قرآن پر مسلمانوں کا ایمان برقرار رہے گا اور کتب روایات پر قرآن کی توثیق کی ضرورت برقرار رہے گی۔ صرف وہ روایات ، سنت نبوی ہیں جو موافق و مطابق قرآن ہیں۔
وعلیکم السلام جناب خان صاحب ! مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اتنی بڑی ردی کی ٹوکری ایجاد ہی نہیں ہوئی کہ آپ کے جمیع امت پر بہتانات کو جسکی نزر کیا جاسکے ۔۔ آپ کو اپنا کردار کشی فورا نظر آجاتی ہے مگر اپنے جوشیلے خطابات میں بڑے دھڑلے سے جو ساری امت مسلمہ کے اکابرین کے لیے کہہ جاتے ہیں وہ آپ کو دکھائی نہیں دیتا میرے بھائی کرادر کشی کے لیے بھی ایک کردار کی تو کم از کم ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔خیر چھوریئے ۔ ۔ ۔آپ سمجھدار ہیں ۔ ۔ ۔


اس دھاگے کو میں کیا کروں مجھے تو وہ اصل نسخہ اور اسکے ثبوت چاہیں خود قرآن سے کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اور یاد رہے کسی غیر قرآنی کتاب سے نہیں کہ وہ سب کتابیں بقول آپکے یہودی ،ایرانی اور مولویوں کی سازشوں کا نتیجہ ہیں ۔۔ سو پہلے آپ موجودہ قرآن ہی کا اصل قرآن ہونا فقط قرآن سے ثابت کریں تو پھر بات آگے بڑھتی ہے ۔ ۔ ۔
جب تک آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے لیتے آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا خصوصا ان سوالات کا کہ جن کا تعلق احادیث یا انکی حجیت سے ہے سو اصول کے مطابق میرے سوال کا جواب اول پھر آگے بات ہوگی ۔ ۔
میں اپنا سوالات پھر دہرا دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
موجودہ قرآن کے قرآن ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور وہ دلیل آپ تک کن زرائع سے پہنچی آیا وہ زرائع قرآنی ہیں یا غیر قرآنی اگر قرآنی ہیں تو انکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہیں تو ان پر آپ کے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟

کیا موجود مصحف وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اس پر قرآن سے ہی دلیل ؟؟؟؟

موجودہ مصحف کا وہ اصل نسخہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اسی کے قرآں ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور اگر اس کے ثبوت کا زریعہ غیر قرآن ہے تو اس پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟

جن دو گواہوں کا آپ نے شور مچا رکھا ہے ان دونوں کی گواہی آپ تک کس زریعے سے پہنچی آیا قرآنی یا پھر غیر قرآنی ؟ اگر قرآنی ہے تو اسکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہے تو اس زریعے پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟

؟؟؟؟


اگر آپ نے مجھ پر ذاتی حملہ کرنے ہیں تو اس کے لئے ایک دھاگہ الگ سے کھول لیجئے۔ لیکن میں وہاں آپ سے لڑنے نہیں‌آؤں گا۔ آپ کو اپنے خلاف قرآن نظریات کا حق ہے، بس یہ کہ یہ نظریات قرآن حکیم سے ثابت نہیں ہیں۔ یہ ان بزرگوں (‌جن کو قرآن باپ دادا کہتا ہے) کی پیروی ہے جنہوں نے کتب روایات تصنیف کیں، قرآن حکیم کی پیروی نہیں۔
مجھے جناب کی زات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جناب اگر پوری امت مسلمہ کے بارے میں اپنے کردار کو بہتر بنائیں گے تو پھر کوئی بھی جناب کے کردار تو کیا کی جنابکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا یہ میری گارنٹی ہے ہے جناب کو ۔۔
 
بھائی عابد عنایت ، السلام علیکم،

میرے تمام کے تمام دلائیل قرآن حکیم سے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے موافق القرآن کسی بھی سنت سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ لیکن جو روایات خلاف قرآن ہیں ان کا ثبوت قرآن سے فراہم کرتا ہوں ہے۔

[ayah]2:177 [/ayah][arabic]لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ [/arabic]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو دو میں سے ایک وجوہات چاہئیے ہوتی ہیں کہ وہ کیا مانتا ہے۔

1۔ یا تو کسی بھی امر پر ایمان۔ جس کے لئے کسی دلیل یا کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس اللہ تعالی کا حکم درکار ہوتا ہے۔
2۔ یا پھر کوئی ثبوت یا دلیل۔



بحیثیت مسلمان ، میرا ایمان سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 177 --- [ayah]2:177[/ayah] --- کے مطابق ہے۔ اس کی وجہ اللہ تعالی کا حکم ہے جس کو میں نے تسلیم کیا ہے۔ اس کے لئے مجھے کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں۔ اس آیت کے مطابق میرا ایمان ہے کہ

اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،
میرا ایمان :‌ اللہ تعالی پر ہے۔ 2۔ قیامت کے دن پر ، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر۔
اس کے لئے نہ مجھے کسی دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی ثبوت کی۔
چونکہ اللہ کے پیغمبر پر میرا ایمان و یقین ہے ، اس لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری موافق القرآن احادیث پر میرا ایمان ہے کہ یہ موافق القرآن اعمال و اقوال رسول اکرم کے ہی ہیں۔


چونکہ میرا ایمان ان امور و نکات پر ہے ، اس کے لئے نہ مجھے کوئی دلیل چاہئیے اور نہ ہی اس کے لئے ‌کوئی دلیل یا کوئی ثبوت فراہم کرسکتا ہوں۔ کسی مسلمان کو بھی نہیں اور کسی غیر مسلم کو بھی نہیں۔

کیا آپ کا ایمان ان امور پر ہے؟ اگر آپ مسلماں ہیں اور آپ کا ایمان بھی انہی امور پر ہے تو ہمارا آپ کا کوئی اختلاف نہیں۔



اس دھاگے کو میں کیا کروں مجھے تو وہ اصل نسخہ اور اسکے ثبوت چاہیں خود قرآن سے کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اور یاد رہے کسی غیر قرآنی کتاب سے نہیں کہ وہ سب کتابیں بقول آپکے یہودی ،ایرانی اور مولویوں کی سازشوں کا نتیجہ ہیں ۔۔ سو پہلے آپ موجودہ قرآن ہی کا اصل قرآن ہونا فقط قرآن سے ثابت کریں تو پھر بات آگے بڑھتی ہے ۔ ۔ ۔
جب تک آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے لیتے آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا خصوصا ان سوالات کا کہ جن کا تعلق احادیث یا انکی حجیت سے ہے سو اصول کے مطابق میرے سوال کا جواب اول پھر آگے بات ہوگی ۔ ۔

جیسا کہ میں نے لکھا کہ یا تو میرا ایمان ہو ہا پھر میرے پاس کوئی ثبوت یا دلیل ہو۔ چونکہ میرا ایمان قرآن حکیم پر ہے اس لئے نہ مجھے کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں کوئی دلیل یا ثبوت فراہم کرسکتا ہوں۔ اللہ تعالی کے حکم پر میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایمان لایا۔ کس کس امر پر ایمان لایا وہ اوپر لکھا ہے۔

میں اپنا سوالات پھر دہرا دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
موجودہ قرآن کے قرآن ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور وہ دلیل آپ تک کن زرائع سے پہنچی آیا وہ زرائع قرآنی ہیں یا غیر قرآنی اگر قرآنی ہیں تو انکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہیں تو ان پر آپ کے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟


موجودہ قرآن کے قرآن ہونے کی واحد وجہ میرا ایمان بالغیب ہے۔ جس کے لئے کسی ثبوت یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ اس کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے۔

کیا موجود مصحف وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اس پر قرآن سے ہی دلیل ؟؟؟؟
میرے ایمان کے مطابق -- بناء کسی دلیل یا ثبوت کے ---- یہ وہی قرآن حکیم ہے جو نبی اکرم صلعم نے لکھوایا تھا۔
موجودہ مصحف کا وہ اصل نسخہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اسی کے قرآں ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور اگر اس کے ثبوت کا زریعہ غیر قرآن ہے تو اس پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟
مجھے قرآن حکیم پر ایمان رکھنے کے لئے صرف حکم الہی چاہئی جو [ayah]2:177 [/ayah]میں موجود ہے۔ اس کے لئے فاروق سرور خان کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں کبھی ایس کوئی دلیل فراہم کر سکتا ہوں اور نہ ہی کوشش کروں گا۔

جن دو گواہوں کا آپ نے شور مچا رکھا ہے ان دونوں کی گواہی آپ تک کس زریعے سے پہنچی آیا قرآنی یا پھر غیر قرآنی ؟ اگر قرآنی ہے تو اسکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہے تو اس زریعے پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟

دو گواہوں کا معاملہ صرف اور صرف معلومات ہے ۔ اگر کوئی یہ معلومات مکمل طور پر بھی غلط ثابت کردے تو بھی میرا ایمان نہیں‌ بدلے گا کہ قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے ۔ میرا ایمان بناء کسی دلیل کے ہے۔


آپ بہت یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم پر فاروق سرور خان کا ایمان ہے اور وہ اس کی کوئی دلیل فراہم نہیں کرسکتا۔۔


میری طرف سے ان سوالات کے جوابات کے بعد آب آپ سے یہ سوال:

آپ اپنا سارا کا سارا ارتکاز (فوکس) صرف اور صرف خلاف القرآن روایات پر رکھ لیجئے۔

کیا آپ کا خلاف قرآن روایات پر بھی ایمان ہے جن پر عموماً ہمارا اختلاف ہوتا ہے؟؟؟؟؟ اس ایمان کی وجہ۔

یا پھر

آپ کے پاس ان خلاف قرآن روایات کے درست ہونے کے لئے کوئی دلیل یا ثبوت موجود ہے۔ ؟؟؟؟



والسلام
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق صاحب کے تمام تر اعتراضات کی بنیاد """ خلاف قران روایات """ نامی ایک فلسفہ ہے ، اس کے بارے میں میں فاروق صاحب سے بہت دفعہ گذارش کر چکا ہوں کہ """"" اپنے اس """ خلاف قران """ فلسفے کی ایک ایسی تعریف بیان فرما دیجیے جس کی مخالفت آپ نہ خود نہ کی ہو اور نہ کریں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """""""
جس کی بنا پر اس قدر لمبی بحثیں ہوتی ہیں اور جس کی بنا پر ماشاء اللہ آپ اس قدر مضبوطی سے سنت مبارکہ کو رد کر دیتے ہیں ،
براہ مہربانی جواب اور واضح جواب عنایت فرمایے ،
اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ """" چونکہ آپ ہر دوسرے کے ایمان پر حکم لگاتے ہیں تو یہ تو بتایے کہ قران پاک میں آخر ایمان کس چیز کو کہا گیا ہے ؟؟؟؟؟؟ """""
فاروق صاحب اپنے دستور کے مطابق بات پھر انہی دو نکات پر لیے چلے آ رہے ہیں ، کیا ہی بھلا ہو کہ فاروق صاحب میرے ان دو منقولہ بالا سوالات کے جوابات عطا فرما دیں ،،،،،
میں بھی بھائی عابد عنایت کی آواز میں آواز میں ملاتا ہوں کہ :::
آپ کو اپنا کردار کشی فورا نظر آجاتی ہے مگر اپنے جوشیلے خطابات میں بڑے دھڑلے سے جو ساری امت مسلمہ کے اکابرین کے لیے کہہ جاتے ہیں وہ آپ کو دکھائی نہیں دیتا میرے بھائی کرادر کشی کے لیے بھی ایک کردار کی تو کم از کم ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔خیر چھوریئے ۔ ۔ ۔آپ سمجھدار ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب تک آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے لیتے آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے جناب کی زات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جناب اگر پوری امت مسلمہ کے بارے میں اپنے کردار کو بہتر بنائیں گے تو پھر کوئی بھی جناب کے کردار تو کیا کی جنابکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا یہ میری گارنٹی ہے ہے جناب کو ۔۔
و السلام علیکم ۔
 
میرا خیال ہے کہ میرے ایمان کی ترجمانی کافی ہوگئی ہے۔ اب ذرا حوصلہ کیجئے اور میرے سوالات کے جواب دیجئے تاکہ بات آگے بڑھے۔ اس وقت تک کسی بھی نئے سوال کا جواب نہیں۔

والسلام
 
السلام علیکم،

خلاف قرآن کے بارے میں جواب میں اسی مراسلہ میں پہلے دے چکا ہوں۔

یہاں دیکھئے


اس کا ماحصل یہاں دہرا رہا ہوں۔۔ پڑھنے کی زحمت کیجئے اور بار بار ایک ہی سوال نہ دہرائیے۔

درج ذیل آیت کے مطابق۔ نبی اکرم نے صرف اس کی پیروی کی جو ان پر وحی کیا گیا ۔ لہذا اگر ایک روایت ، قرآن کے احکامات اور اصولوں کے مخالف ہو تو وہ روایت قابل قبول نہیں۔
قرآن سے ثبوت:

سورۃ يون۔س:10 , آیت:15 [ARABIC]وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَ۔ذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ[/ARABIC]
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے، (اے نبیِ مکرّم!) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں


رسول اللہ نے کوئی وحی چھپائی نہیں ، ساری کی ساری جلی ہے جو کہ قرآن حکیم میں‌مرقوم ہے۔ ایسا نہیں کہ کچھ وحی جو قرآن کے احکامات کی تنسیخ کرتی ہو وہ چھپا لی ہو۔ لہذا جو کچھ قرآن حکیم کے اصولوں اور احکامات کے مطابق ہے صرف وہ قابل قبول ہے۔
قرآن سے ثبوت:

سورۃ آل عمران:3 , آیت:161 [ARABIC]وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ[/ARABIC]
اور کسی نبی کی نسبت یہ گمان ہی ممکن نہیں کہ وہ کچھ چھپائے گا، اور جو کوئی (کسی کا حق) چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے وہ لانا پڑے گا جو اس نے چھپایا تھا، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے


کیا خلاف قرآن کو رد کردینے کی تعلیم رسول اللہ کی ہے؟
(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص 175 ، میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)




ایمان کا بہت ہی سادہ مفہوم ہے مان لینا اور یقین رکھنا۔ ایمان و ایقان اسی لئے ساتھ ساتھ بھی لکھا جاتا ہے۔۔ جیسے اللہ تعالی کا مان لینا، رسول اللہ صلعم کو اللہ کا رسول مان لینا، آخرت میں دوبارہ اٹھائے جانے کو مان لینا۔ مجھے ایسے بنیادی سوال کی توقع ایسے انسان سے نہیں تھی جو قرآن حکیم اور سنت رسول کے بارے میں صفحہ کے صفحہ سیاہ کرتا ہے ۔



آب آپ سے میرا سوال پھر ایک بار۔۔ جس کا جواب مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس نہیں۔ نہ آپ کا ایمان ہے خلاف قرآن روایات پر اور نہ ہی آپ کے پاس ان کے درست ہونے کی کوئی دلیل ہے۔

آپ اپنا سارا کا سارا ارتکاز (فوکس) صرف اور صرف خلاف القرآن روایات پر رکھ لیجئے۔

کیا آپ کا خلاف قرآن روایات پر بھی ایمان ہے جن پر عموماً ہمارا اختلاف ہوتا ہے؟؟؟؟؟ اس ایمان کی وجہ۔

یا پھر

آپ کے پاس ان خلاف قرآن روایات کے درست ہونے کے لئے کوئی دلیل یا ثبوت موجود ہے۔ ؟؟؟؟



اس دھاگہ کو اور دھاگوں کی طرح ذاتیات کا دھاگہ آپ لوگوں نے بنایا ہے۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 28 کا کوئی جواب نہیں ۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 62 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 63 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں


آپ سے ایک بار پھر وہی سوالات ہیں:

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟

آپ صرف آخری دو سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔ تاکہ ہم جیسوں‌کی ہدایت کا سبب بنیں۔ آپ تو یہ ثابت کر ہی چکے ہیں کہ میں قرآن کی پیروی کرکے حق و صداقت سے دور ہوں۔ تو پھر آپ اپنا اصول کیوں‌نہیں‌پیش کرتے ۔۔۔ تاکہ سب کی بھلائی ہو۔


والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
بھائی عابد عنایت ، السلام علیکم،

میرے تمام کے تمام دلائیل قرآن حکیم سے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے موافق القرآن کسی بھی سنت سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ لیکن جو روایات خلاف قرآن ہیں ان کا ثبوت قرآن سے فراہم کرتا ہوں ہے۔
السلام علیکم خان صاحب بچے تو آپ ہے نہیں پھر مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ فریق مخالف کی بات سمجھنے سے آپ قاصر کیوں رہتے ہیں یا تو آپ جان بوجھ کرتے ہیں یا پھر مجھے کہنے دیجئے کہ واقعی میں قلت فہم کا عارضہ جناب کو لاحق ہے میرے محترم یہاں پر آپکے ایمان پر گفتگو ہرگز نہیں ہورہی اور نہ ہی ہمیں آپ کے ایمان پر کوئی شک ہے قرآں پاک کی بابت آپ نے اپنے جس ایمان کا اظہار کیا ہے ایک ان پڑھ جاہل سے لیکر ایک پڑھے لکھے پی ایچ ڈی ڈاکٹر سب کا وہی ایمان ہے لہزا یہ تو محل نزاع ہی نہیں میرے پیارے ہمارے تمام گفتگو آپکے ساتھ آپ ہی کے خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر ہورہی ہے اور اس ضمن میں ہمارے جتنے بھی آپ پر سوالات ہیں انکی حیثیت الزامی ہے ۔جب آپ یہ کہہ کر ایک صحیح حدیث کا رد کرتے ہیں کہ اس کی اصل کتاب دکھاؤ تو ہم آپ سے کہتے ہیں اصل قرآن دکھاؤ جب آپ یہ کہتے ہیں حدیث تو بہت بعد میں لکھی اور جمع کی گئی تو ہم کہتے ہیں قرآن کریم بھی ایک مصحف میں بہت بعد میں لکھا اور جمع کیا گیا جب آپ یہ کہتے ہیں کہ فلاں حدیث (آپ کے مزعومہ فہم قرآں کے مطابق ) خلاف قرآن ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ایسے تو بہت سی آیات کو بھی بہت سے لوگ اپنے خود ساختہ فہم کی بنیاد پر خلاف عقل اور پتا نہیں کیا کیا کہا قرار دے سکتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ خلاف قرآن کا یہ مطلب آپ نے کہاں سے لے لیا کہ جو شئے قرآن میں مزکور نہیں وہ خلاف قرآن ہے ؟؟؟؟ قرآن اجمال ہے سنت اسکی تفصیل ہے قرآن کی بہت سی آیات مجمل ہیں متشابہات میں سے ہیں قرآن پاک میں تو بہت سی چیزوں کے فقط عمومی اصول بیان کیئے گئے جبکہ سنت ان اصولوں کی تطبیق کرنے والی ہے یعنی قرآن مجمل ہے سنت مفصل ہے مثلا قرآن میں کہا گیا ۔ ۔
لتبین للناس ما نزل علیھم
جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کیجیئے ۔ ۔ ۔اب یہاں بیان سے کیا مراد ہے اگر فقط قرآن ہی مراد تھا چاہیے تھا کہ لفظ بیان کی بجائے قرآن کا ابلاغ ذکر کردیا جاتا کہ اللہ کا کلام ہے آپ سے لوگوں تک پہنچا دیجیئے مگر آپ دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے جب خود قرآن اپنی تفھیم کے لیے بیان کا محتاج ہے تو لازما اس بیان کو دیکھنا پڑے گا وہ بیان آخر شئے کیا ہے کیا قرآن ہے یا غیر قرآن ؟؟؟
مثلا قرآن کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اقیمو الصلوٰۃ ۔ ۔ ۔ وللہ علی الناس حج البیت ۔ ۔ ۔ خذ من اموالھم صدقۃ ۔ ۔ ۔ اب یہاں صلوٰۃ ،حج اور صدقہ سے کیا مراد ہے قرآن نے اسکی کہاں وضاحت کی ؟؟؟؟؟
لازما ان سب باتوں کے بیان کی اصل تفہیم کے لیے سنت رسول سے رجوع کرنا پڑے گا وگرنہ اگر قرآن کو انسانی ذہن اور عقل کی بنیاد پر سمجھنے کے لیے ہر ایک کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تو اس کے جو نتائج ہوسکتے ہیں ان سے معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ ۔ ۔
امید کرتا ہوں تھوڑے لکھے کو بہت جانیں گے ۔ ۔ ۔ اور بات کو سمجھیں گے ۔ ۔

[
color="red"]کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو دو میں سے ایک وجوہات چاہئیے ہوتی ہیں کہ وہ کیا مانتا ہے۔


جیسا کہ میں نے لکھا کہ یا تو میرا ایمان ہو ہا پھر میرے پاس کوئی ثبوت یا دلیل ہو۔ چونکہ میرا ایمان قرآن حکیم پر ہے اس لئے نہ مجھے کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں کوئی دلیل یا ثبوت فراہم کرسکتا ہوں۔ اللہ تعالی کے حکم پر میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایمان لایا۔ کس کس امر پر ایمان لایا وہ اوپر لکھا ہے۔


موجودہ قرآن کے قرآن ہونے کی واحد وجہ میرا ایمان بالغیب ہے۔ جس کے لئے کسی ثبوت یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ اس کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے۔
حضور آپکا ایمان ہمارے سر آنکھوں پر معاف کیجئے گا یہاں پر بات آپکے ایمان سے متعلق نہیں بلکہ ان اصولوں کی بابت ہورہی ہے کہ جنکی بنیاد پر آپ احادیث کو تو جھٹلا دیتے ہیں مگر جب قرآن کی باری آتی تو آپکو وہ اصول یاد نہیں رہتے دیکھیئے قرآن کی حفاظت کا ذمہ بلا شبہ اللہ پاک نے لیا مگر نعوذ باللہ من ذالک اس قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ پاک خود تو زمیں پر نہیں ناں اتر آیا ؟؟؟؟؟؟' اس نے اپنی مخلوق ہی کے زریعے اس قرآن کی حفاظت کروائی اس کو حفظ کرنے کے لیے آسان ترین کردیا اب ایک شئے کو محفوظ رکھنے کے دنیا میں جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں عقل اور نقل کے اعتبار سے ان دونوں پر آپ قرآن و سنت کو رکھ کر دیکھیئے آپ کو قرآن اور سنت دونوں میں حفاظت کے اعتبار سے کوئی فرق معلوم نہیں ہوگا یعنی قرآن زبانی یاد کیا گیا حدیث بھی زبانی یاد کی گئی قرآن لکھوایا گیا حدیث بھی لکھوائی گئی اور قرآن اور حدیث کے لکھوانے میں تقدم اور تاخر زمانی کی عقلی اعتبار سے رتی برابر بھی حیثیت نہیں فرق فقط اتنا ہے کہ قرآن کی قرآت متواتر ہے جبکہ احادیث میں سے اکثریت خبر واحد ہے مگر اس کے مقابلے میں سنت ہے جو قرآن ہی کی طرح امت میں عملی طور پر تواتر سے چلی آرہی ہے ۔ ۔ ۔

میرے ایمان کے مطابق -- بناء کسی دلیل یا ثبوت کے ---- یہ وہی قرآن حکیم ہے جو نبی اکرم صلعم نے لکھوایا تھا۔
حضور آپکا ایمان ایک بار سر آنکھوں پر مگر یہاں بات اصولوں پر ہوگی اور وہ بھی آپ ہی کے قائم کردہ اصولوں پر تو لہزا بتلائیے کہ آپکو کیسے پتا چلا کہ یہ وہی قرآن ہے وہ زریعہ اور اسکی حجیت بیان کیجئے ؟؟؟؟؟؟ کیونکہ یہ تو ہر بچہ بھی جانتا ہے کہ قرآن آپ پر تو ہرگز نازل نہیں ہوا تو پھر قرآن کی جس آیت کی بنیاد پر آپ نے اپنا ایمان ظاہر کیا ہے اس آیت کے قرآن ہی کی آیت ہونے کا ثبوت خود قرآن سے دیجیئے مگر آپ ہرگز نہ دے سکیں گے کیونکہ قرآن کے قرآن ہونے کی گواہی کے بطور آپکو زبان رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر انکے بعد جتنے بھی لوگوں نے یہ بات ہم تک پہنچائی اسی زریعے پر اعتماد کرنا پڑے گا بالکل اسی طرح سے کہ جیسے سنت کے سنت ہونے کی گواہی خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپکے بعد جمیع امت کے عمل سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔ ۔

مجھے قرآن حکیم پر ایمان رکھنے کے لئے صرف حکم الہی چاہئی جو [ayah]2:177 [/ayah]میں موجود ہے۔ اس کے لئے فاروق سرور خان کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں کبھی ایس کوئی دلیل فراہم کر سکتا ہوں اور نہ ہی کوشش کروں گا۔

اجی نہیں ہوگئی فاروق سرور خان کو کسی بھی دلیل کی ضرورت مگر اب اس کا کیا کیجئے کہ یہی فاروق سرور صاحب جب احادیث پر بھی بالکل ویسے ہی اعتراضات کرتے ہیں جو کہ خود قرآن پر بھی کیئے جاسکتے ہیں تو اس وقت خان صاحب ہمیں بتلائیں کہ ہم آخر کہاں جائیں ؟؟؟؟؟؟ حجور ذرا یہ بھی تو بتلا دیجئے ناں کہ یہ حکم الٰہی کیا آپ پر براہ راست نازل ہوا تھا ؟؟؟؟؟ اگر (معاذ اللہ) ہوا تھا تو تب بھی لوگ تو آپ سے دلیل مانگے ہی گے کہ لوگ تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دلیل مانگا کرتے تھے ۔ ۔ ۔سو ہمیں وہ زریعہ بتلادیجئے کہ جس زریعہ سے یہ آیت آپ تک پہنچی اور اس زریعہ پر آپ کے اعتماد کی اصولی وجہ ؟؟؟؟؟
اور میں آپ کو قسم اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کو اس پوری کائنات میں ایک بھی ایسا زریعہ دستیاب نہیں ہوگا کہ جس پر اعتماد کہہ کر آپ یہ کہہ سکیں کہ یہی قرآن ہے اور زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آج ہم تک جن جن طریقوں زریعوں اور واسطوں سے پہنچا وہ سب حفاظت قرآن کے خارجی زرائع ہی تھے بالکل اسی طرح سے جیسا کہ سنت کو خارجی زریعوں سے محفوظ رکھا گیا ۔ ۔ ۔ شاید کے ترے دل میں اتر جائے مری بات ۔ ۔ ۔ والسلام
 
آبی ٹو کول،


آپ نے وہی لگی بندھی تقریر کر ڈالی کہ یہ سب رسول اکرم نے کہا ہے۔ وہی بے کار کی باتیں جو آپ کے پرکھوں نے آپ کو سکھائی ہیں۔ وہی پرانی تکنیک جس کے بارے میں ، میں مراسلے پر مراسلہ لکھ چکا ہوں۔


مجھے علم ہے کہ آپ کا ایمان ہے کہ رسول اکرم سے منسوب خلاف قرآن روایات بھی درست ہیں۔۔۔۔۔ آپ کا ایمان ہے کہ وہ روایات جو قرآن کی تکفیر کرتی ہیں وہ بھی درست ہیں۔


آپ اور آپ کے پرکھ، ان ہی خلاف قران روایات کو موافق القرآن روایات کے ساتھ لپیٹ لپیٹ کر پیش کرتے رہے ہیں۔

آپ میں اور آپ کے بھائیوں میں اگر ذرا سا خلوص ہوتا تو آپ میرے سوالات کا جواب ضرور دیتے۔

اس دھاگہ کو اور دھاگوں کی طرح ذاتیات کا دھاگہ آپ لوگوں نے بنایا ہے۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 28 کا کوئی جواب نہیں ۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 62 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 63 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں


آپ سے ایک بار پھر وہی سوالات ہیں:

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟


آپ صرف آخری دو سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔ تاکہ ہم جیسوں‌کی ہدایت کا سبب بنیں۔ آپ تو یہ ثابت کر ہی چکے ہیں کہ میں قرآن کی پیروی کرکے حق و صداقت سے دور ہوں۔ تو پھر آپ اپنا اصول کیوں‌نہیں‌پیش کرتے ۔۔۔ تاکہ سب کی بھلائی ہو۔

اور مجھے علم کے کے میرے ایک بھی سوال کا آپ کے پاس جواب نہیں ہے۔ آپ چلتے رہئیے اپنے پرکھوں کی روش پر اور میں کرتا رہوں گا رسول اکرم کے فرمان کے مطابق ، قرآن کی پیروی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی ٹو کول،


آپ نے وہی لگی بندھی تقریر کر ڈالی کہ یہ سب رسول اکرم نے کہا ہے۔ وہی بے کار کی باتیں جو آپ کے پرکھوں نے آپ کو سکھائی ہیں۔ وہی پرانی تکنیک جس کے بارے میں ، میں مراسلے پر مراسلہ لکھ چکا ہوں۔


مجھے علم ہے کہ آپ کا ایمان ہے کہ رسول اکرم سے منسوب خلاف قرآن روایات بھی درست ہیں۔۔۔۔۔ آپ کا ایمان ہے کہ وہ روایات جو قرآن کی تکفیر کرتی ہیں وہ بھی درست ہیں۔


آپ اور آپ کے پرکھ، ان ہی خلاف قران روایات کو موافق القرآن روایات کے ساتھ لپیٹ لپیٹ کر پیش کرتے رہے ہیں۔

آپ میں اور آپ کے بھائیوں میں اگر ذرا سا خلوص ہوتا تو آپ میرے سوالات کا جواب ضرور دیتے۔
السلام علیکم حجور آپ تو نراج ہی ہوگئے ۔ ۔ ۔ ارے رے بھائی ذرا دھیرج رکھیئے میرے بھائی ابھی تو آپ نے قرآں کی بہت خدمت کرنی ہے آپ ابھی سے گھبرا رہے ہیں ابھی تو ہم نے فقط ثبوت قرآن کی بابت چند سوال خود آپ سے آپ ہی کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق موجودہ مصحف کے اصل قرآن ہونے پر آپکے اعتماد کی وجہ جاننے کی بابت کیئے ہیں تو آپ کی یہ حالت ہوگئ ہے ذرا یاد کیجئے گا اس وقت کو جب ہم براہ راست آپ پر آپ کے فہم قرآن کی بابت اپنی معروضات بصورت استفسار عرض کریں گے ۔۔ ۔

آپ سے ایک بار پھر وہی سوالات ہیں:

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟


آپ صرف آخری دو سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔ تاکہ ہم جیسوں‌کی ہدایت کا سبب بنیں۔ آپ تو یہ ثابت کر ہی چکے ہیں کہ میں قرآن کی پیروی کرکے حق و صداقت سے دور ہوں۔ تو پھر آپ اپنا اصول کیوں‌نہیں‌پیش کرتے ۔۔۔ تاکہ سب کی بھلائی ہو۔

مجھے لگتا ہے ہمارے سوالات نے آپ کے فہم کے ساتھ ساتھ آپکی یاداشت پر بھی اثر ڈالا ہے حضور میں نے تو پہلے ہی عرض کردی تھی کہ میں یہاں پر آپکے ساتھ فقط قرآن اسکے ثبوت کے زرائع اور آپکے فہم قرآن پر ہی گفتگو کروں گا رہ گئی حجیت حدیث کی بات تو اس پر تو میں نے دوستوں کو بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ کے ساتھ حجیت حدیث پر بات کرنا بے وقوفی ہوگی اور ویسے بھی فاروق بھائی اگر دلائل کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو قرآن اول ہے حدیث بعد میں ہے لہزا پہلے قرآن کی بابت تو مسائل حل ہوجائیں پھر احادیث پر بھی آجائیں گے کہیئے کیا خیال ہے ؟؟؟؟؟؟؟
۔ ۔ ۔ ۔مجھے علم ہے کہ آپ کا ایمان ہے کہ رسول اکرم سے منسوب خلاف قرآن روایات بھی درست ہیں۔۔۔۔۔ آپ کا ایمان ہے کہ وہ روایات جو قرآن کی تکفیر کرتی ہیں وہ بھی درست ہیں۔
۔ ۔ ۔
اور مجھے علم کے کے میرے ایک بھی سوال کا آپ کے پاس جواب نہیں ہے۔ آپ چلتے رہئیے اپنے پرکھوں کی روش پر اور میں کرتا رہوں گا رسول اکرم کے فرمان کے مطابق ، قرآن کی پیروی۔
ہیں جی اب آپکو دعوٰی علم غیب بھی ہونے لگا اور آپ لوگوں کے ایمان کی بھی خبر بھی رکھنے لگے خیر چھوڑیئے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ بتائیے کہ آپ سے کس پاگل نے کہہ دیا کہ آپ قرآن کی پیروی کر رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟:grin: قرآن کی جس پیروی کا آپ کو زعم ہے اس پر تو ابھی ہماری گفتگو ہونی ہے آپکے فہم قرآن کے باب میں لہزا اس وقت تک دھیرج رکھیئے اور پہلے ثبوت قرآن پر تو لوگوں کو مطمئن کر لیجیئے ۔ ۔ ۔۔ والسلام :grin:
 
السلام علیکم۔۔۔۔۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ نامعقولیت کا کوئی جواب نہیں۔ آپ کے جوابات سے اندازہ ہے کہ آپ کسی طور مخلص قسم کے جوابات کے لئے تیار نہیں‌بھائی۔

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟

اتنی بری طرح آپ اللہ تعالی کے آگے فیل ہوئے تو کیا کریں گے حجور :)
 
Top