سردار نقوی ::::: رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا ::::: Sardar Naqvi

طارق شاہ

محفلین

غزلِ
سردار نقوی

رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا
میں تو ماضی کو فقط آئینہ دِکھلاتا رہا

دُھوم تھی جس کے تکّلم کی، وہی جانِ سُخن
جب حدیثِ دِل کی بات آئی تو ہکلاتا رہا

پیاس صحرا کے مُقدّر میں جو تھی، سو اب بھی ہے
ابر برسا بھی تو، بس دریا کو چھلکاتا رہا

بڑھ کے جو آغوش میں لے لے، کوئی ایسا بھی ہو
جو شجر تھا راہ میں، بس ہاتھ پھیلاتا رہا

رات پھر جلتا رہا تنہائیوں کی دُھوپ میں
رات بھر زُلفوں کی چھاؤں کا خیال آتا رہا

خلق پتّھرمارنے آئی تو وہ بھی ساتھ تھے
میں خطائیں جن کی اپنے نام لِکھواتا رہا

سردار نقوی
 
آخری تدوین:
Top