سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

م حمزہ

محفلین
حضورِ فیض گنجور کی ذرہ نوازی و فیضانِ نظر ہے کہ اس حقیر و فقیر و پر تقصیر کے تحیر و استعجاب پر، ایک ادائے مشفقانہ و مخلصانہ سے التفاتِ کرم گستری و تلطفِ عنایت فرماتے ہوئے، صوتی روداد و بانگِ سرگزشت کے سرِ نہاں و پنہاں اور رموزِ عمیق و دقیق کو اپنی عالی زبان دانی سے مرصع الفاظِ زریں اور فصیح و بلیغ اسلوبِ نگارش کے پیکرِ جمیل میں اپنے پیغامِ دلنواز و جانفزا کے ذریعے آشکار و عیاں کرتے ہوئے اس وجودِ عاجزی و انکساری پر خطیر و بیش قیمت و گراں بہا سخاوت و فیاضی نچھاور فرما رہے ہیں۔مابدولت کی اس پیرایۂ دلنواز میں، اردو محفل میں میری کوتاہ قامتی و کم مائیگی کے باوصف، ہدیۂ شعور و آگاہی کو اپنے لیے گراں بہا اور وقیع تحفہ جانتے ہوئے، بندہ قلبِ صمیم کے نہاں ، پنہاں و عیاں خانوں سے مشکوروممنون ہے۔
محترم! ایک بات بتانا پسند کریں گے؟
حروفِ تہجی شاید اردو کے ہی ہوں، لیکن یہ زبان کون سی ہے؟ گوگل میں تلاش کرنے باوجود کچھ پلے نہیں پڑا۔:atwitsend:
 

الف عین

لائبریرین
مجھے اس پر تعجب ہوا کہ دیوبند تو اچھا خاصا شہر ہے پھر وہاں کے باشندے استری اور اندر دھنش جیسے الفاظ بول چال میں استعمال کرتے ہیں! ہمارے ایک دور کے رشتے دار الہ آباد کے دیہات سے آئے تو ان کے منہ سے ان لینڈ لیٹر کے لیے 'انتر دیشی' لفظ سن کر تعجب ہوا تھا جسے یہاں کوئی سمجھ نہیں سکا تھا۔ لیکن جب خود اس دیہاتی علاقے میں جانا ہوا تو مسلمانوں کو بھی بہت ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پایا تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ اردو میڈیم سکول اب صرف شہروں میں رہ گئے ہیں۔
ایک اور تعجب اس پر ہوا کہ 1993 تک بھی کیا پاکستان کا ہر علاقہ اتنا ترقی یافتہ تھا کہ جگنو نظر نہیں آتے تھے؟ علی گڑھ جب 1968 میں پہنچا تھا تو شہر میں اتنے مکانات نہیں تھے اور اکثر جگہ کھلے میدان تھے اور ان کے درمیان سڑکوں پر بھی راتوں کو اندھیرا ہوتا تھا اور سٹریٹ لائٹ بھی دور دور اور کم پاور کی تھیں۔ ایسے میں چمکتے جگنوؤں کو دیکھ کر مجھ کو بھی عجیب محسوس ہوتا تھا کہ اس زمانے تک اندور جیسے بڑے شہر میں ہی رہا تھا۔ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں تم گئے نہیں یا وہاں اس زمانے میں بھی اتنی ترقی ہو چکی تھی ؟
 
ایک اور تعجب اس پر ہوا کہ 1993 تک بھی کیا پاکستان کا ہر علاقہ اتنا ترقی یافتہ تھا کہ جگنو نظر نہیں آتے تھے؟
اسلام آباد میں تو کافی نظر آتے تھے۔
کراچی کافی گنجان آباد شہر ہے، سبزہ کم ہے، اس لیے وہاں نہیں ہوتے غالباً۔
 

ہادیہ

محفلین
حضورِ فیض گنجور کی ذرہ نوازی و فیضانِ نظر ہے کہ اس حقیر و فقیر و پر تقصیر کے تحیر و استعجاب پر، ایک ادائے مشفقانہ و مخلصانہ سے التفاتِ کرم گستری و تلطفِ عنایت فرماتے ہوئے، صوتی روداد و بانگِ سرگزشت کے سرِ نہاں و پنہاں اور رموزِ عمیق و دقیق کو اپنی عالی زبان دانی سے مرصع الفاظِ زریں اور فصیح و بلیغ اسلوبِ نگارش کے پیکرِ جمیل میں اپنے پیغامِ دلنواز و جانفزا کے ذریعے آشکار و عیاں کرتے ہوئے اس وجودِ عاجزی و انکساری پر خطیر و بیش قیمت و گراں بہا سخاوت و فیاضی نچھاور فرما رہے ہیں۔مابدولت کی اس پیرایۂ دلنواز میں، اردو محفل میں میری کوتاہ قامتی و کم مائیگی کے باوصف، ہدیۂ شعور و آگاہی کو اپنے لیے گراں بہا اور وقیع تحفہ جانتے ہوئے، بندہ قلبِ صمیم کے نہاں ، پنہاں و عیاں خانوں سے مشکوروممنون ہے۔
محمد امین صدیق بھیا اب آپ کی باری۔۔۔:rollingonthefloor:
 
جیسا خدشہ ظاہر کیا تھا خواب میں ایک عجیب سی مخلوق سے واسطہ پڑا جس کی ہئیت کے بارے میں کچھ کہنا میرے لیے ممکن نہیں، ہاں اس کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے جن کو بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اردو کے حروف تہجی تھے جو ایک خاص ترتیب سے مختلف رنگوں میں نکل ۔۔۔ بلکہ میری جانب لپک رہے تھے۔ اور میں ان شعلوں سے بچنے کے لیے مخالف سمت میں بھاگ رہا تھا تبھی اچانک مخالف سمت سے قدرے مختلف ایک اور عجیب الخلقت مخلوق نمودار ہوئی۔ بظاہر مانوس لگ رہی تھی اس لیے میں لمحے بھر کے لیے رکا لیکن پھر جو کچھ دیکھا اور سنا وہ ناقابل یقین تھا۔

اس قدرے مانوس مخلوق نے زور سے آواز لگائی ۔۔۔ مابدولت! رک جاؤ۔ اسے میں دیکھتا ہوں۔

تبھی کیا دیکھتا ہوں کہ اس نئی مخلوق کے منہ سے بھی شعلے ۔۔۔ یعنی مختلف رنگ کے حروف تہجی نکلنا ۔۔۔ میری جانب لپکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں بے بسی کے عالم میں ان شعلوں کو بغور دیکھنے لگتا ہوں جو پہلے والے شعلوں سے نہ صرف رنگ اور ترتیب میں مختلف تھے بلکہ کچھ عجیب سی اچھل کود بھی کر رہے تھے جیسے مجھے منہ چڑا رہے ہوں۔ اتنی دیر میں میرے موبائل کا الارم بجتا ہے اور میں ہڑبڑا کر اٹھ جاتا ہوں۔ پسینے میں شرابور ہاتھوں سے محفل کا لنک کھولنے پر معلوم ہوا کے 6 عدد اطلاعات موجود ہیں پھر محترم عرفان سعید صاحب کا مراسلہ دیکھا تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ موبائیل ہاتھوں سے چھوٹ گیا ۔۔۔ ایسا لگا وہ شعلے ۔۔۔ رنگ برنگے، اچھلتے کودتے حروف تہجی میرے موبائل سے نکل کر میری طرف لپک رہے ہیں ۔۔۔


کوئی نہیں امین بھائی اور عرفان بھائی ۔۔۔ منتظمین کو چاہے نظر آئے نہ آئے الله تو دیکھ رہا ہے نا!
" پرمزاح " کی درجہ بندی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ، برادرم فلسفی کی جانب سے وضع کردہ اس قرار واقعی تشبیہہ سے مابدولت بدرجہ غایت متاثر و محظوظ ہوئے ۔ چنانچہ علامتی درجہ بندیوں کی قیدوبند سے لاچار ، مابدولت مذکورہ مراسلے اور اس کےاختراع کنندہ کے لیے " زبردست " کی درجہ بندی تفویض کرنے کو بھی اپنے لیے باعث فخرومنزلت گردانتے ہیں ۔:):)
 

فلسفی

محفلین
" پرمزاح " کی درجہ بندی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ، برادرم فلسفی کی جانب سے وضع کردہ اس قرار واقعی تشبیہہ سے مابدولت بدرجہ غایت متاثر و محظوظ ہوئے ۔ چنانچہ علامتی درجہ بندیوں کی قیدوبند سے لاچار ، مابدولت مذکورہ مراسلے اور اس کےاختراع کنندہ کے لیے " زبردست " کی درجہ بندی تفویض کرنے کو بھی اپنے لیے باعث فخرومنزلت گردانتے ہیں ۔:):)
آخر میں مسکراہٹ دیکھ کر لگا کہ کچھ اچھا ہی کہا ہے آپ نے۔ لہذا آپ کے محبت کا بہت شکریہ۔ الله تعالی آپ کو بہت خوش رکھے۔ آمین
 

سید عمران

محفلین
ایک اور تعجب اس پر ہوا کہ 1993 تک بھی کیا پاکستان کا ہر علاقہ اتنا ترقی یافتہ تھا کہ جگنو نظر نہیں آتے تھے؟ علی گڑھ جب 1968 میں پہنچا تھا تو شہر میں اتنے مکانات نہیں تھے اور اکثر جگہ کھلے میدان تھے اور ان کے درمیان سڑکوں پر بھی راتوں کو اندھیرا ہوتا تھا اور سٹریٹ لائٹ بھی دور دور اور کم پاور کی تھیں۔ ایسے میں چمکتے جگنوؤں کو دیکھ کر مجھ کو بھی عجیب محسوس ہوتا تھا کہ اس زمانے تک اندور جیسے بڑے شہر میں ہی رہا تھا۔ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں تم گئے نہیں یا وہاں اس زمانے میں بھی اتنی ترقی ہو چکی تھی ؟
پاکستان میں اب تک جن دیہات میں گیا جگنو نہیں دیکھے!!!
 
doll-museum-flickr.jpg
زبردست ،
بہت اچھا منظر ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں اس پر حیران ہوں کہ ١٩٩٤ کا سفرنامہ اب لکھا جا رہا ہے اور اس طرح جیسے کل کی بات ہو۔ لگتا ہے کہ لکھا جا چکا تھا اب نوک پلک درست کر کے پوسٹ کیا جا رہا ہے
 

شکیب

محفلین
میں اس پر حیران ہوں کہ ١٩٩٤ کا سفرنامہ اب لکھا جا رہا ہے اور اس طرح جیسے کل کی بات ہو۔ لگتا ہے کہ لکھا جا چکا تھا اب نوک پلک درست کر کے پوسٹ کیا جا رہا ہے
امید ہے مراسلۂ ھذا سے نقیبی صاحب کے "شک" میں اضافہ ہوا ہوگا۔
 
Top